سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور شعر و شعراء
علی محمد الصلابیسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور شعر و شعراء:
شعر و شعراء کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے تعلق کے سلسلہ میں مراجع و مصادر کے اندر بہت ہی کم تذکرہ ملتا ہے،حالاں کہ آپؓ کی مدتِ خلافت بہ نسبت دیگر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طویل تھی، اور جو قلیل تذکرہ ملتا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپؓ اسلامی عقیدہ کے اسی عام منہج پر قائم تھے جس کے نقوش رسول اللہﷺ نے واضح فرمائے تھے، اور جس راستہ پر سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما چلے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا اپنا امتیازی ادبی مقام تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ علم کی گہرائی و وسعت، فنِ انساب، حسنِ مجالست اور روایتِ شعر میں شہرت رکھتے تھے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شعر کی تعلیم و تعلّم پر ابھارنے میں مشہور تھے، اور کوئی بھی واقعہ پیش آتا تو اس کی مثال میں شعر پیش کرتے، مزید برآں آپؓ خود شاعر تھے، لیکن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں شعر و شاعری میں اس طرح کا انہماک یا شعراء سے گہرا تعلق مذکور نہیں ہے، یہ بات معہود ہے کہ شعراء حضرات امراء کے دروازوں پر ان کی خوشنودی اور عطیات کے حصول کی خاطر ٹوٹ پڑتے ہیں، لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وہ حضرات شہر اور دارالخلافہ کو چھوڑ کر بادیہ نشینی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
(ادب صدر الاسلام، واضح الصمد: صفحہ، 99)
ادبی اور تاریخی کتابوں میں بعض ابیات سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہیں، اور بعض ان اشعار کا ذکر آیا ہے جن کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بطورِ مثال پیش کیا ہے۔ ان ابیات میں سے جو آپؓ نے کہے ہیں یہ ہیں:
واعلم ان الله لیس کصنعہ
صنیع ولا یخفی علی ملحد
ترجمہ: ’’اور جان لو کہ اللہ کی کاریگری کی طرح کسی کی کاریگری نہیں، اور یہ کسی ملحد پر مخفی نہیں۔‘‘
آپؓ اکثر اپنے کہے ہوئے اشعار پڑھا کرتے تھے، جس کی فہرست طویل ہے کسی اور سے یہ اشعار معروف نہیں ہیں:
تفنی اللذائذ ممن نال صفوتھا
من الحرام ویبقی الإثم والعار
ترجمہ: ’’ان سے لذتیں ختم ہو جائیں گی جنہوں نے اسے حرام سے حاصل کیا ہے اور صرف گناہ و عار باقی رہ جائے گا۔‘‘
یلقی عواقب سوء من مغَبتھا
لا خیر فی لذۃ من بعدھا نار
(شعراء الخلفاء، نبال تیسیر الخماش: صفحہ، 27)
ترجمہ: ’’وہ اس کے برے انجام کا مزہ چکھے گا، اس لذت میں کوئی خیر نہیں جس کے بعد آگ ہو۔‘‘
جس دن بلوائی آپؓ کو قتل کرنے کے لیے آپؓ کے گھر میں گھسے اس موقع پر آپؓ نے یہ شعر کہا:
أری الموت لا یبقی عزیزًا ولم یدع
لعاذ ملاذا فی البلاد و مرتعاً
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 192)
ترجمہ: ’’میں دیکھتا ہوں موت کسی عزیز کو باقی نہیں رکھتی اور نہ ملک میں کسی پناہ طلب کرنے والے کے لیے پناہ گاہ اور چرا گاہ چھوڑتی ہے۔‘‘
اور جب آپؓ کے گھر میں آپؓ کا محاصرہ کر لیا گیا تو آپؓ نے اس موقع پر یہ شعر کہا:
یُبیَّتُ اہل الحصن و الحصن مغلق
ویاتی الجبال الموت شرافھا العُلا
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 192)
ترجمہ: ’’قلعہ والے سو رہے ہوتے ہیں اور قلعہ بند ہوتا ہے، اور موت پہاڑ کی بلند و بالا چوٹیوں پر آ پہنچتی ہے۔‘‘
نیز آپؓ سے یہ شعر بھی مروی ہے:
غنیُّ النفس یغنی النفس حتی یکفھا
و إن عضھا حتی یضر بھا الفقر
ترجمہ: ’’نفس کی بے نیازی نفس کو بے نیاز کر دیتی ہے، یہاں تک کہ اس کو بچا لیتی ہے، اگرچہ حالات سخت ہو جائیں، یہاں تک کہ فقر و محتاجی اسے نقصان پہنچائے۔‘‘
وما عسرۃ فاصبر لھا إن لقیتھا
بکائنۃ إلاسیتبعھا یسر
ترجمہ: ’’جو مشکلات بھی پیش آئیں صبر کرو اس کے بعد آسانی ہے۔‘‘
ہم شعر کے آخری بیت کو دیکھتے ہیں کہ وہ قرآنی معانی پر مشتمل ہے۔
ارشادِ الہٰی ہے:
اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ يُسۡرًا
(سورۃ الشرح: آیت، 6)
ترجمہ: یقیناً مشکلات کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔
ایسے مسلم خلیفہ کے لیے یہ کوئی انوکھی اور نئی چیز نہیں جس کی نشوونما اور تربیت حضرت محمدﷺ کی زیرِ عاطفت ہوئی ہو آپﷺ شریعتِ اسلامیہ سے متعارض ہجو پر مشتمل اشعار پر سزا دیتے، اور اچھے اشعار پر تعریف کرتے، اور اس کو سننا پسند فرماتے اور یہ سب اسلامی مفاہیم کے ضمن میں داخل ہے۔
(ادب صدر الاسلام، واضح الصمد: صفحہ، 102)
تیسرے خلیفہ راشدؓ نے اگرچہ شعر کا اہتمام نہ کیا اور شعراء کو اپنے قریب نہ کیا لیکن فسادیوں کے ہاتھوں آپؓ کی شہادت نے سیاسی اشعار کی ترقی کا دروازہ کھول دیا، اور بعد کے اسلامی ادوار میں مؤثر صحافتی فن قرار پایا۔ آپؓ کی شہادت کی مناسبت سے بہت سے شعراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اشعار کہے۔
(الأدب الاسلامی، د۔ نائف معروف: صفحہ، 190)
ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں اس کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں گے۔