Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

واقعہ ایلاء

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

واقعہ ایلاء

بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم اٹھالینے کوایلاء کہتے ہیں ،ہجرت مدینہ منورہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں بے انتہا بڑھ گئیں ،ایک طرف منصب رسالت کی ذمہ داریاں تھیں تودوسری طرف سربراہ مملکت کی حیثیت سے مدینہ کے باشندوں کی جان ومال کی حفاظت بھی آپ کی ذمہ داری تھی ،اس پر منافقین کی سازشوں ،کفارمکہ اور ارد گرد کے قبائل کی شورشوں کی وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائی چارسال تک اپنی معاشی ضروریات کاکوئی بندوبست نہ کرسکے، ۴ہجری میں بنی نضیرکی مدینہ سے جلاوطنی کے بعدان کی متروکہ زمینوں کاایک حصہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کی ضروریات کے لئے مخصوص کردیاگیا مگروہ بھی اتناکم تھاکہ آپ کے کنبے کے لئے ناکافی تھااس لئے ان دنوں میں مالی حیثیت سے آپ انتہائی تنگ حال تھے ،

وَعَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ، فَرَأَیْتُهُ مُتَغَیِّرًا، قُلْتُ: بِأَبِی وَأُمِّی، مَا لِی أَرَاكَ مُتَغَیِّرًا؟ قَالَ: مَا دَخَلَ جَوْفِی مَا یَدْخُلُ جَوْفَ ذَاتِ كَبِدٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ . قَالَ: فذهبت، فَإِذَا یَهُودِیٌّ یَسْقِی، فَسَقَیْتُ لَهُ عَلَى كُلِّ دلو بتمرفَجَمَعْتُ تَمْرًا فأتیت به النَّبِیَّ  صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فقال من أین لك یا كعب فأخبرته

کعب بن عجرہ بلوی کہتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوامیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انورپرنظرڈالی تواسے(بھوک کی وجہ سے) متغیرپایا،یہ خیال کرکے کہ معلوم نہیں سیدالامم صلی اللہ علیہ وسلم کوکب سے فاقہ ہے بے چین ہوگیا (لیکن خودبھی نادارآدمی تھے گھرمیں کوئی چیزنہ تھی کہ لاکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے لیکن پھربھی انہیں یہ گوارانہ تھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے رہیں اسی وقت کوئی چیزتلاش کرنے اٹھے)راستے میں ایک یہودی ملاجواپنے اونٹ کوپانی پلاناچاہتا تھا میں نے اسی پیش کش کی کہ میں کنوئیں سے پانی کھینچ دوں اوروہ فی ڈول ایک چھوہارادے دے،اس نے منظورکرلیاچنانچہ میں نے کئی ڈول پانی کے نکالے جب کچھ چھوہارے جمع ہوگئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور چھوہارے پیش کیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایااے کعب رضی اللہ عنہ !یہ چھوہارے کہاں سے آئے؟تومیں نے ساراواقعہ بیان کردیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور چھوہارے کھاکران کے لیے دعائے خیرکی۔

[ تاریخ دمشق لابن عساکر۱۴۶؍۵۰،تاریخ الاسلام بشار۵۳۴؍۲]

اصحاب صفہ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی حالت کچھ مختلف نہ تھی ،کئی کئی دن تک گھروں میں فاقہ رہتا تھا اور روشنی کے لئے دیاتک نہیں جلتاتھااس صورت حال میں ازواج مطہرات سخت پریشان تھیں ، آخرایک دن تمام ازواج مطہرات نے جمع ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھرکے خرچہ کامطالبہ کیا،ایک طرف حددرجہ مالی مشکلات تھیں تودوسری طرف کفرواسلام کی کشمکش انتہائی عروج پرتھی،ان حالات میں ازواج مطہرات کے تقاضے کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیااورناراضگی کااظہارکیا،

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ یَسْتَأْذِنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ النَّاسَ جُلُوسًا بِبَابِهِ، لَمْ یُؤْذَنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ، قَالَ: فَأُذِنَ لِأَبِی بَكْرٍ، فَدَخَلَ،ثُمَّ أَقْبَلَ عُمَرُ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَوَجَدَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا حَوْلَهُ نِسَاؤُهُ، وَاجِمًا سَاكِتًا، فَقَالَ: لَأَقُولَنَّ شَیْئًا أُضْحِكُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ رَأَیْتَ بِنْتَ خَارِجَةَ، سَأَلَتْنِی النَّفَقَةَ، فَقُمْتُ إِلَیْهَا، فَوَجَأْتُ عُنُقَهَا،فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:هُنَّ حَوْلِی كَمَا تَرَى، یَسْأَلْنَنِی النَّفَقَةَ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ یَجَأُ عُنُقَهَا فَقَامَ عُمَرُ إِلَى حَفْصَةَ یَجَأُ عُنُقَهَا، كِلَاهُمَا یَقُولُ: تَسْأَلْنَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَا لَیْسَ عِنْدَهُ ، فَقُلْنَ: وَاللهِ لَا نَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ شَیْئًا أَبَدًا لَیْسَ عِنْدَهُ ، ثُمَّ اعْتَزَلَهُنَّ شَهْرًا أَوْ تِسْعًا وَعِشْرِینَ

جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہونے کی اجازت چاہی اورلوگوں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پرجمع ہیں مگرکسی کواندرجانے کی اجازت نہیں ملی اورجب سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کواجازت ملی تووہ اندرداخل ہوگئے، پھرسیدناعمر رضی اللہ عنہ آئے ان کوبھی اندرجانے کی اجازت مل گئی،جب سیدناعمر رضی اللہ عنہ اندرداخل ہوئے تو دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کے گردآپ کی ازواج مطہرات(اس وقت ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ، عائشہ رضی اللہ عنہا ، حفصہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں ،ابھی زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح نہیں ہوا تھا ) خاموش اورغمگین بیٹھی ہوئی ہیں ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوچاکہ میں کوئی ایسی بات کروں جس سے آپ مسکرا دیں ، چنانچہ یہ سوچ کرانہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ خارجہ کی بیٹی(ان کی بیوی)کودیکھتے کہ اگروہ مجھ سے خرچ مانگتی تومیں کھڑے ہوکراس کا گلا گھونٹتا، سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی بات سنکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادیئے اور فرمایایہ سب میرے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورمجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں ،سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھے اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کاگلاگھونٹنے لگے،اورسیدناعمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اوراپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کاگلاگھونٹنے لگے، اور دونوں کہنے لگے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوتنگ کرتی ہواوروہ چیزمانگتی ہوجوآپ کے پاس نہیں ہے،وہ دونوں کہنے لگیں اللہ کی قسم ہم وہ چیزآپ سے کبھی نہیں مانگیں گےجوآپ کے پاس نہ ہو،اس کے بعدسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ وسیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے گئے،ان دونوں کے جانے کے بعد(کفرواسلام کی انتہائی کشمکش کے زمانے میں )ازواج مطہرات کے خرچہ کے تقاضے پرناراض ہوکررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک ماہ تک)ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔

[ صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ ۳۶۹۰، مسند احمد ۱۴۵۱۵، السنن الکبریٰ للنسائی۹۱۶۴،السنن الکبری للبیہقی۱۳۲۶۸]

کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر مبارک میں موچ آگئی تھی اس لئے آپ ایک بالاخانہ پررہائش پذیرہوگئے،

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: آلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، وَكَانَتْ انْفَكَّتْ قَدَمُهُ

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کے پاس ایک مہینہ تک نہ جانے کی قسم کھائی تھی اور(ایلاء کے واقعہ سے پہلے پانچ ہجری میں )آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک میں موچ آگئی تھی۔

[ صحیح بخاری كِتَاب المَظَالِمِ وَالغَصْبِ بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا ۲۴۶۹]

سیدناعمر رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قسم کے بارے میں کوئی خبر نہ ہوئی،وہ مدینہ منورہ کی بلندی پربنوامیہ بن زیدکے محلہ میں رہتے تھے۔

 قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَجَارٌ لِی مِنَ الأَنْصَارِ فِی بَنِی أُمَیَّةَ بْنِ زَیْدٍ، وَهُمْ مِنْ عَوَالِی المَدِینَةِ،وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَیَنْزِلُ یَوْمًا وَأَنْزِلُ یَوْمًا،فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِمَا حَدَثَ مِنْ خَبَرِ ذَلِكَ الیَوْمِ مِنَ الوَحْیِ أَوْ غَیْرِهِ، وَإِذَا نَزَلَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ،وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى الأَنْصَارِ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَطَفِقَ نِسَاؤُنَا یَأْخُذْنَ مِنْ أَدَبِ نِسَاءِ الأَنْصَارِ، فَصَخِبْتُ عَلَى امْرَأَتِی فَرَاجَعَتْنِی، فَأَنْكَرْتُ أَنْ تُرَاجِعَنِی

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامیں اورمیرے ایک انصاری پڑوسی جوبنوامیہ بن زیدسے تھے اورعوالی مدینہ میں رہتے تھے،ہم نے (عوالی سے)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے باری مقررکر رکھی تھی ،ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں ، جب میں حاضرہوتاتواس دن کی تمام خبریں جووحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا (اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا)اورجس دن وہ حاضرہوتے تووہ بھی ایسے کرتے تھے، ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پرغالب تھے لیکن جب ہم ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے تویہ ایسے لوگ تھے جواپنی عورتوں سے مغلوب تھے،ہماری عورتوں نے بھی انصارکی عورتوں کاطریقہ سیکھناشروع کردیا،ایک دن میں نے اپنی بیوی کوڈانٹاتواس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا، میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پرناگواری کااظہارکیا،

قَالَتْ: وَلِمَ تُنْكِرُ أَنْ أُرَاجِعَكَ؟ فَوَاللهِ إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ لَیُرَاجِعْنَهُ، وَإِنَّ إِحْدَاهُنَّ لَتَهْجُرُهُ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ،فَأَفْزَعَنِی ذَلِكَ وَقُلْتُ لَهَا: قَدْ خَابَ مَنْ فَعَلَ ذَلِكِ مِنْهُنَّ، ثُمَّ جَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی، فَنَزَلْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا: أَیْ حَفْصَةُ، أَتُغَاضِبُ إِحْدَاكُنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ الیَوْمَ حَتَّى اللیْلِ؟قَالَتْ: نَعَمْ،فَقُلْتُ قَدْ خِبْتِ وَخَسِرْتِ، أَفَتَأْمَنِینَ أَنْ یَغْضَبَ اللهُ لِغَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَتَهْلِكِی؟ لاَ تَسْتَكْثِرِی النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلاَ تُرَاجِعِیهِ فِی شَیْءٍ وَلاَ تَهْجُرِیهِ ، وَسَلِینِی مَا بَدَا لَكِ،وَلاَ یَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ عَائِشَةَ

تواس نے کہاکہ میراجواب دیناتمہیں براکیوں لگتاہے اللہ کی قسم !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ان کو جواب دے دیتی ہیں اوربعض تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں ،میں اس بات پرکانپ اٹھااورکہاکہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیایقیناًوہ نامرادہوگئی،پھرمیں نے اپنے کپڑے پہنے اور(مدینہ منورہ کے لئے)روانہ ہوا، پھرمیں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھرگیااورمیں نے اس سے کہااے حفصہ رضی اللہ عنہا !کیاتم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں (کبھی ایساہوجاتاہے)اس پر میں نے کہاکہ پھرتم نے اپنے آپ کوخسارہ میں ڈال لیااورنامرادہوئی ،کیاتمہیں  اس بات کاکوئی ڈرنہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پرغصہ ہوجائے اور پھر تم تنہاہوجاؤگی،خبردار!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات نہ کیاکرواورنہ کسی معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوجواب دیاکرواگرتمہیں کوئی ضرورت ہوتومجھ سے مانگ لیا کرو ، تمہاری سوکن جوتم سے زیادہ خوبصورت ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتم سے زیادہ پیاری ہے،ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں مبتلانہ ہوجاناان کااشارہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا،

قَالَ عُمَرُ: وَكُنَّا قَدْ تَحَدَّثْنَا أَنَّ غَسَّانَ تُنْعِلُ الخَیْلَ لِغَزْوِنَا، فَنَزَلَ صَاحِبِی الأَنْصَارِیُّ یَوْمَ نَوْبَتِهِ، فَرَجَعَ إِلَیْنَا عِشَاءً فَضَرَبَ بَابِی ضَرْبًا شَدِیدًا، وَقَالَ: أَثَمَّ هُوَ؟فَفَزِعْتُ فَخَرَجْتُ إِلَیْهِ، فَقَالَ: قَدْ حَدَثَ الیَوْمَ أَمْرٌ عَظِیمٌ، قُلْتُ: مَا هُوَ، أَجَاءَ غَسَّانُ؟قَالَ: لاَ، بَلْ أَعْظَمُ مِنْ ذَلِكَ وَأَهْوَلُ، طَلَّقَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ،فَقُلْتُ: خَابَتْ حَفْصَةُ وَخَسِرَتْ، قَدْ كُنْتُ أَظُنُّ هَذَا یُوشِكُ أَنْ یَكُونَ،فَجَمَعْتُ عَلَیَّ ثِیَابِی، فَصَلَّیْتُ صَلاَةَ الفَجْرِ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَشْرُبَةً لَهُ فَاعْتَزَلَ فِیهَا(قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ: یَا بِنْتَ أَبِی بَكْرٍ، أَقَدْ بَلَغَ مِنْ شَأْنِكِ أَنْ تُؤْذِی رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا لِی وَمَا لَكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، عَلَیْكَ بِعَیْبَتِكَ)

سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ان دنوں میں مدینہ منورہ اکثریہ چرچا تھا کہ(امیرشام) غسان مسلمانوں سے جنگ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے ،میرے انصاری ساتھی اپنی باری کے دن مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے اور رات گئے واپس لوٹے اورمیرے دروازہ پربڑی زورزورسے دستک دی اورکہاکہ کیاسیدناعمر رضی اللہ عنہ گھرمیں ہیں ؟میں گھبراکرباہرنکلا تو اس انصاری نے کہاآج توایک بڑاحادثہ ہو گیا،چونکہ غسان کاچرچاتھااس لئے میں نے پوچھا کیاغسان چڑھ آئے ہیں ؟انصاری نے کہانہیں اس سے بھی بڑااورخوفناک حادثہ ہوگیاہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق دے دی ہے، سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہاحفصہ رضی اللہ عنہا نقصان میں رہی اورنامرادہوگئی میں پہلے ہی سمجھ رہاتھاکہ بہت جلدایساہوجائے گا،صبح میں کپڑے پہن کرگھرسے روانہ ہوا اورنمازفجرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی ، نمازکے بعدنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالاخانہ پرتشریف لے گئے اوروہاں تنہائی اختیارکرلی ،سیدناعمر رضی اللہ عنہ ازواج مطہرات کے حجروں کی طرف آئے توکیادیکھتے ہیں کہ ہر گھر میں رونا ہو رہا ہے اور ہر بیوی کے گھروالے اس کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں ،  میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں داخل ہوا اوران سے کہااے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی!تمہارایہ کیاحال ہوگیاہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے لگی ہو،ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہاتم کومجھ سے اورمجھ کو تم سے کیامطلب تم اپنی گٹھڑی (ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا )کی خبرلو(یعنی اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کوسمجھاؤمجھے کیانصیحت کرتے ہو)

وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَإِذَا هِیَ تَبْكِی،فَقُلْتُ: مَا یُبْكِیكِ أَلَمْ أَكُنْ حَذَّرْتُكِ هَذَا(وَاللهِ، لَقَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، لَا یُحِبُّكِ، وَلَوْلَا أَنَا لَطَلَّقَكِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ)أَطَلَّقَكُنَّ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَتْ: لاَ أَدْرِی( فَبَكَتْ أَشَدَّ الْبُكَاءِ)هَا هُوَ ذَا مُعْتَزِلٌ فِی المَشْرُبَةِ،خَرَجْتُ فَجِئْتُ إِلَى المِنْبَرِ،فَإِذَا حَوْلَهُ رَهْطٌ یَبْكِی بَعْضُهُمْ(یَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، وَیَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ)

میں وہاں سے اٹھ کرام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیاتو وہ رورہی تھیں ،میں نے کہااب کیوں تم رورہی ہو؟میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کردیاتھا(کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نامناسب بات نہ کہنا)اللہ کی قسم تم جانتی ہوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو(زیادہ)نہیں چاہتے اورمیں نہ ہوتاتوابھی تک تم کوطلاق دے چکے ہوتے،اچھایہ بتاؤ کیارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہامجھے معلوم نہیں ، پھر زارو قطار رونے لگیں ،میں نے پوچھارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں ؟ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے بالاخانہ پرتنہاتشریف فرماہیں ،میں وہاں سے نکل کرمنبرکے پاس آیااس کے اردگردکچھ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے اوران میں سے بعض رو رہے تھے کنکریاں الٹ پلٹ کررہے تھے(جیسے کوئی بڑی فکراورترددمیں ہوتاہے)اورکہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کوطلاق دے دی ،

جَلَسْتُ مَعَهُمْ قَلِیلًا،ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ،فَجِئْتُ المَشْرُبَةَ الَّتِی فِیهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ(فَدَخَلْتُ، فَإِذَا أَنَا بِرَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَاعِدًا عَلَى أُسْكُفَّةِ الْمَشْرُبَةِ)فَقُلْتُ لِغُلاَمٍ لَهُ أَسْوَدَ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ،فَدَخَلَ الغُلاَمُ فَكَلَّمَ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: كَلَّمْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ،فَانْصَرَفْتُ حَتَّى جَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِینَ عِنْدَ المِنْبَرِ، ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ فَجِئْتُ فَقُلْتُ لِلْغُلاَمِ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَ،دَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ،فَرَجَعْتُ فَجَلَسْتُ مَعَ الرَّهْطِ الَّذِینَ عِنْدَ المِنْبَرِ ثُمَّ غَلَبَنِی مَا أَجِدُ، فَجِئْتُ الغُلاَمَ فَقُلْتُ: اسْتَأْذِنْ لِعُمَرَفَدَخَلَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَیَّ فَقَالَ: قَدْ ذَكَرْتُكَ لَهُ فَصَمَتَ

میں کچھ دیران لوگوں کے پاس بیٹھارہااس کے بعدمیری بے چینی نے مجھ پرغلبہ کیاتومیں نے سوچاکہ میں اس معاملہ کی تحقیق کروں ،میں بالاخانہ پرچڑھاجہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے، میں بالاخانہ پرگیاتومیں نے دیکھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشی غلام رباح رضی اللہ عنہ دروازے کی چوکھٹ پربیٹھے ہوئے تھے ،میں نے ان سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اندرآنے کی اجازت لے لو،غلام اندرگیا اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگوکرکے واپس آگیا،اس نے مجھ سے کہاکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے لئے اجازت طلب کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیاچنانچہ میں وہاں سے واپس چلا آیا اوران لوگوں کے پاس بیٹھ گئے جومنبرکے پاس بیٹھے ہوئے تھے،کچھ دیربعد میری بے چینی نے پھرمجھ پر غلبہ کیااورمیں پھربالاخانہ پرگیا اورغلام سے کہاعمر رضی اللہ عنہ لئے اجازت طلب کرو،رباح رضی اللہ عنہ پھر اندرگئے اورواپس آکرکہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیاتورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،میں پھرواپس آگیااور منبر کے پاس جولوگ موجودتھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا،کچھ دیرکےبعد پھر میری بے چینی نے مجھ پر غلبہ کیااورمیں بالاخانہ پرگیا اوررباح رضی اللہ عنہ سے کہا عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اجازت طلب کرو،وہ اندرگئے اور پھرواپس آکرکہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے،

(ثُمَّ رَفَعْتُ صَوْتِی، فَقُلْتُ: یَا رَبَاحُ، اسْتَأْذِنْ لِی عِنْدَكَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّی أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ظَنَّ أَنِّی جِئْتُ مِنْ أَجْلِ حَفْصَةَ، وَاللهِ، لَئِنْ أَمَرَنِی رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِضَرْبِ عُنُقِهَا)  فَلَمَّا وَلَّیْتُ مُنْصَرِفًا، قَالَ: إِذَا الغُلاَمُ یَدْعُونِی، فَقَالَ: قَدْ أَذِنَ لَكَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،فَدَخَلْتُ()فَإِذَا هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَى رِمَالِ حَصِیرٍ، لَیْسَ بَیْنَهُ وَبَیْنَهُ فِرَاشٌ، قَدْ أَثَّرَ الرِّمَالُ بِجَنْبِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِیفٌ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْه، ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ: یَا رَسُولَ اللهِ، أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ؟فَرَفَعَ إِلَیَّ بَصَرَهُ فَقَالَ: لاَ

پھرمیں نے بلند آوازسے کہا شایدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خیال ہے کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے لئے(سفارش کرنے)آیاہوں ،اللہ کی قسم اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گردن مارنے کاحکم دیں تومیں اس کی گردن مار دوں ،یہ کہہ کرواپس روانہ ہوا ہی تھا کہ یکایک غلام نے آوازدی اورکہانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کواجازت دے دی ہے میں اندرگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناتہ بنداچھی طرح لپیٹ لیا،اس تہ بندکے علاوہ آپ کے پاس کوئی اورکپڑانہیں تھا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پرجس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے ،چٹائی پر کوئی بستروغیرہ نہیں تھابان کے نشان آپ کے پہلومبارک پرپڑے ہوئے تھے ،جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں کھجورکی چھال بھری ہوئی تھی، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، اورکھڑے ہی کھڑے عرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !کیا آپ نے اپنی ازواج کوطلاق دے دی ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظرمبارک اٹھاکران کو دیکھا اور فرمایا نہیں ،

فَقُلْتُ: اللهُ أَكْبَرُ،ثُمَّ قُلْتُ وَأَنَا قَائِمٌ أَسْتَأْنِسُ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ رَأَیْتَنِی وَكُنَّا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ نَغْلِبُ النِّسَاءَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا المَدِینَةَ إِذَا قَوْمٌ تَغْلِبُهُمْ نِسَاؤُهُمْ، فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ لَوْ رَأَیْتَنِی وَدَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ فَقُلْتُ لَهَا: لاَ یَغُرَّنَّكِ أَنْ كَانَتْ جَارَتُكِ أَوْضَأَ مِنْكِ، وَأَحَبَّ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیدُ عَائِشَةَ فَتَبَسَّمَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ تَبَسُّمَةً أُخْرَى، فَجَلَسْتُ حِینَ رَأَیْتُهُ تَبَسَّمَ

میں (خوشی کی وجہ سے)کہہ اٹھااللہ اکبر،پھرمیں نے کھڑے ہی کھڑےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخوش کرنے کے لئے کہاکہ اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کومعلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پرغالب رہاکرتے تھے ، پھر جب ہم مدینہ منورہ آئے تویہاں کے لوگوں پران کی عورتیں غالب تھیں ،نبی اکرم یہ سن کرمسکرادیئے،پھرمیں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کومعلوم ہے میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک مرتبہ گیاتھااوراس سے کہہ آیاتھاکہ اپنی سوکن کی وجہ سے جوتم سے زیادہ خوبصورت اورتم سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعزیزہے،دھوکامیں مت رہنا،ان کااشارہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا،اس پرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرادیئے،میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومسکراتے دیکھا توبیٹھ گیا،

فَرَفَعْتُ بَصَرِی فِی بَیْتِهِ، فَوَاللهِ مَا رَأَیْتُ فِی بَیْتِهِ شَیْئًا یَرُدُّ البَصَرَ، غَیْرَ أَهَبَةٍ ثَلاَثَةٍ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ فَلْیُوَسِّعْ عَلَى أُمَّتِكَ، فَإِنَّ فَارِسَ وَالرُّومَ قَدْ وُسِّعَ عَلَیْهِمْ وَأُعْطُوا الدُّنْیَا، وَهُمْ لاَ یَعْبُدُونَ اللهَ( قَالَ: فَابْتَدَرَتْ عَیْنَایَ،قَالَ:مَا یُبْكِیكَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ،قُلْتُ: یَا نَبِیَّ اللهِ، وَمَا لِی لَا أَبْكِی وَهَذَا الْحَصِیرُ قَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِكَ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِیهَا إِلَّا مَا أَرَى، وَذَاكَ قَیْصَرُ وَكِسْرَى فِی الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ، وَأَنْتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفْوَتُهُ، وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ) فَجَلَسَ النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ مُتَّكِئًا( فَقَالَ:یَا ابْنَ الْخَطَّابِ، أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْیَا؟)فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ اسْتَغْفِرْ لِی

پھرنظراٹھاکرمیں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرکاجائزہ لیااللہ کی قسم !میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرمیں کوئی ایسی چیزنہیں دیکھی جس پرنظررکتی،سواتین چمڑوں کے(جووہاں موجودتھے) پس میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ سے اپنی امت پر رزق کی کشادگی کی دعا کیجیے ، فارس اور روم پر اللہ نے کشادگی دنیا میں ہی کر دی تھی لیکن بدبختی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی نہ کی،عسرت کایہ عالم دیکھ کرمیری آنکھیں بھرآئیں اورمیں رونے لگا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے ابن خطاب کیوں روتے ہو؟میں نے کہامیں کیسے نہ روؤں آپ رسول اللہ ہیں اوریہ آپ کی کل کائنات ہے ،چٹائی کے نشان بازوپرپڑگئے ہیں ، یہ فارس اورروم کے لوگ ہیں کہ پھلوں اور نہروں میں عیش کررہے ہیں ،ان کوخوب وسعت اورفراغی دی گئی ہے ، دنیاکی کونسی نعمت ہے جوانہیں نہ ملی ہوحالانکہ وہ (خالص)اللہ کی پرستش نہیں کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے یہ سنکرسیدھے بیٹھ گئے، اورفرمایا اے ابن خطاب !کیاتم اس بات پر راضی نہیں کہ ان کے لئے دنیاہواورتمہارے لئے آخرت ، میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے استغفار کیجئے(کہ میں نے دنیاوی شان وشوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا)

(فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا یَشُقُّ عَلَیْكَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ؟ فَإِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهُنَّ، فَإِنَّ اللهَ مَعَكَ، وَمَلَائِكَتَهُ، وَجِبْرِیلَ، وَمِیكَائِیلَ، وَأَنَا، وَأَبُو بَكْرٍ، وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَكَ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّی دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُسْلِمُونَ یَنْكُتُونَ بِالْحَصَى، یَقُولُونَ: طَلَّقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ،فَأُخْبِرَهُمْ أَنَّكَ لَمْ تُطَلِّقْهُنَّ، قَالَ:نَعَمْ، إِنْ شِئْتَ ،فَلَمْ أَزَلْ أُحَدِّثُهُ حَتَّى تَحَسَّرَ الْغَضَبُ عَنْ وَجْهِهِ، وَحَتَّى كَشَرَ فَضَحِكَ، وَكَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ثَغْرًا، فَقُمْتُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَنَادَیْتُ بِأَعْلَى صَوْتِی، لَمْ یُطَلِّقْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ)

یہ کہہ کرمیں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ کو اپنی ازواج کے متعلق پریشان ہونے کی کیاضرورت ہے ،اگرآپ انہیں طلاق بھی دے دیں تواللہ اس کے فرشتے ، میں اورسیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورتمام مسلمان آپ کے ساتھ ہیں ،اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !جب میں مسجدمیں داخل ہواتومسلمان کنکریاں الٹ پلٹ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کوطلاق دیدی،کیامیں انہیں مطلع کردوں کہ آپ نے طلاق نہیں دی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااگرتم چاہو تو مطلع کردو،میں کچھ دیراورباتیں کرتے رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاغصہ بالکل زائل ہوگیا،آپ مسکرائے اور مسکراتے وقت اتنے اچھے معلوم ہوتے تھے کہ اتنے اچھے دوسرے لوگ مسکراتے وقت معلوم نہیں ہوتے (پھر میں واپس آگیا اور)مسجدکے دروازہ پرکھڑے ہوکراعلان کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کوطلاق نہیں د ی،

ثُمَّ نَزَلَ نَبِیُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَنَزَلْتُ، فَنَزَلْتُ أَتَشَبَّثُ بِالْجِذْعِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا یَمْشِی عَلَى الْأَرْضِ مَا یَمَسُّهُ بِیَدِهِ،فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ إِنَّمَا كُنْتَ فِی الْغُرْفَةِ تِسْعَةً وَعِشْرِینَ،قَالَ:إِنَّ الشَّهْرَ یَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ، فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَةً دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: یَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّكَ كُنْتَ قَدْ أَقْسَمْتَ أَنْ لاَ تَدْخُلَ عَلَیْنَا شَهْرًا، وَإِنَّمَا أَصْبَحْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِینَ لَیْلَةً أَعُدُّهَا عَدًّافَقَالَ:الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَیْلَةًفَكَانَ ذَلِكَ الشَّهْرُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَة،قَالَتْ عَائِشَةُ: ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى آیَةَ التَّخَیُّرِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورمیں بالاخانہ سے اترے،میں توکھجورکے تنے کوپکڑتے ہوئے اترا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح اترے گویابے تکلف زمین پرچل رہے ہوں ،آپ نے کسی چیز کو ہاتھ بھی نہ لگایا، میں نے عرض کیااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ انتیس دن بالاخانہ میں رہے(یعنی مہینہ ابھی پورانہیں ہوا)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہینہ انتیس دن کابھی ہوتاہے، جب انتیس دن گزرگئے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے،انہوں نے کہااے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے توقسم کھائی تھی کہ ایک مہینہ تک ہمارے پاس نہیں آئیں گے میں نے یہ دن گن گن کرکاٹے ہیں ابھی انتیس دن ہی ہوئے ہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامہینہ انتیس دن کابھی ہوتاہے اوریہ مہینہ انتیس دن ہی کاہے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اسی اثنامیں آیت تخییر نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کواختیار دے دیاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیں یا دنیاکو۔

[ صحیح بخاری کتاب النکاح بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا ۵۱۹۱، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ، وَتَخْیِیرِهِنَّ وَقَوْلِهِ تَعَالَى وَإِنْ تَظَاهَرَا عَلَیْهِ۳۶۹۱]

خط کشیدہ الفاظ صحیح مسلم میں ہیں ،دوہری لائن کے الفاظ صحیح بخاری میں ہے۔

أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَالَ:إِنِّی ذَاكِرٌ لَكِ أَمْرًا، فَلا عَلَیْكِ أَنْ لا تَسْتَعْجِلِی حَتَّى تَسْتَأْمِرِی أَبَوَیْكِ ، وَقَدْ عَلِمَ أَنَّ أَبَوَیَّ لَمْ یَكُونَا یَأْمُرَانِی بِفِرَاقِهِ،قَالَتْ:ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللهَ قَالَ

چنانچہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایامیں تم سے ایک معاملہ کے متعلق کہنے آیا ہوں ضروری نہیں کہ تم اس میں جلد بازی سے کام لو بلکہ اپنے والدین سے بھی مشورہ کرسکتی ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ میرے والدکبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کامشورہ نہیں دے سکتے، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاپھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کافرمان ہے۔

‏ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا ‎﴿٢٨﴾‏ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٢٩﴾‏ یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ مَن یَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ یَسِیرًا ‎﴿٣٠﴾‏۞ وَمَن یَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیمًا ‎﴿٣١﴾‏ یَا نِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِی فِی قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ‎﴿٣٢﴾‏ وَقَرْنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِینَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیرًا ‎﴿٣٣﴾‏ وَاذْكُرْنَ مَا یُتْلَىٰ فِی بُیُوتِكُنَّ مِنْ آیَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِیفًا خَبِیرًا ‎﴿٣٤﴾‏(الاحزاب)

اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ، اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں ، اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی کھلی بےحیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے، اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے، اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو، اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو، اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوة دیتی رہو اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو، اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے نبی کی گھر والیو ! تم سے وہ (ہر قسم کی)گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے، اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے والا خبردار ہے۔

ازواج مطہرات کی رفعت :اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں سے کہو اگرتم دنیاکاعیش وآرام کی طرف مائل ہواوراس کے فقدان پرناراض ہوتومجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں تو آؤ میرے پاس جوسروسامان ہے وہ تمہیں بغیرکسی ناراضی اورسب وشتم کے دے کر آزادکر دیتاہوں ،لیکن اگرتم اللہ کی خوشنودی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاچاہتی ہواورآخرت کےگھرکی انواع واقسام کی لازوال نعمتیں تمہارامطلوب ومقصودہے تو میرے ساتھ قناعت میں صبروشکرکے ساتھ زندگی گزارواورایسامطالبہ نہ کروجوآپ پرشاق گزرے ، توجان لواللہ نے تم میں سے نیکوکارعورتوں کے لئے بڑااجرتیارکررکھاہے ،لیکن اگرتم میں سے کسی نے اپنے مرتبہ سے گرا ہوا کوئی کام کیاتوتمہیں عذاب بھی دوگنادیاجائے گا ، اللہ کے لئے یہ مشکل کام نہیں ہے، اورجواللہ اوراس کے رسول کی اطاعت شعارہوں گی اورتھوڑایابہت عمل صالحہ اختیارکریں گی ہم انہیں دوگنااجر عظیم عطافرمائیں گے،اورہم نے ان کے لئے جنت کی عظیم لازوال نعمتیں تیارکررکھی ہے ،اے نبی کی بیویوں !نبی کی بیوی ہونے کی وجہ سے تمہاری حیثیت ومرتبہ عام عورتوں کاسانہیں ہے بلکہ تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اس لئے تم امت کی مائیں ہو ،اور اسلامی معاشرے میں تمہارامقام بہت بلندہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آوازمیں بھی فطری طور پر دلکشی،نرمی اورنزاکت رکھی ہے جومردکواپنی طرف کھینچتی ہے)اس لئے اگرکوئی مرد تم سے کوئی چیزلینے دینے یا دین کے بارے میں کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے آئے تو ان سے دھیمے،نرم لہجے اوررغبت دلانے والی نرم کلام سے گفتگوکرنے کے بجائے قصداً(درشت لہجے اوربداخلاقی سے نہیں )قدرے سخت لہجے میں بات کیاکرو ،ہوسکتاہے وہ مردجس کے دل میں روگ ہووہ تمہاری طرف مائل ہوجائے ،یعنی نرم لہجے سے بات کرنابھی فتنہ انگیزہےاورحکم فرمایا

 وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى۔

[۔الاحزاب۳۳]

اپنے گھروں میں ٹک کررہواورسابق دورجاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

تَــبَرُّجَ باب تفعل کامصدرہے ،تبرجت الْمَرْأَة لغت میں اس وقت کہاجاتاہے جب عورت اجنبیوں کواپنی زینت اورمحاسن دکھلائے اورتبرجت السَّمَاء اس وقت کہاجاتاہے جب ستاروں کے ساتھ آسمان مزین ہوجائے اوربرج الشی کالغت میں معنی کسی چیز کا ظاہر ہونا اور بلندہوناہے اورالبرج کامعنی ستون،قلعہ،مینار،گنبدہے اورالبارجة بڑی جنگی کشتی کوکہتے ہیں اورمافلان الابارجة  کامعنی ہے فلاں شخص شریر ہے توخلاصہ کلام یہ نکلاکہ لغت میں  تَــبَرُّجَ کہتے ہیں عورت زیب وزیبائش کے ساتھ اس طرح غیرمحارم اوراجنبی لوگوں کے سامنے ظاہراوربلند ہوجس طرح ستون اورمحل ومیناروگنبدوقلعہ اورجنگی کشتی دورسے نظرآتے ہیں ،انسان کادل للچانے لگتاہے کہ کاش مجھے مل جائے اوراس کے دل میں شرارت اورہوس سی پیداہوتی ہے اور آخرکار دنیا اس کامطمع نظربن جاتی ہے اورپھردیوانوں کی طرح وہ دنیاکا پجاری بن جاتاہے اور دین کویکسرترک کرنے لگتا ہے۔

[ المعجم الوسیط۴۶؍۱]

 

أَنْ تُبْدِیَ الْمَرْأَةُ مِنْ زِینَتِهَا وَمَحَاسِنِهَا مَا یَجِبُ عَلَیْهَا سَتْرُهُ، مِمَّا تَسْتَدْعِی بِهِ شَهْوَةَ الرَّجُلِ

اصطلاح شریعت میں تبرج کہتے ہیں عورت اپنی اس زینت ومحاسن کوظاہر کرے جس کو چھپانااس پرواجب ہے تاکہ اس زینت ومحاسن کے ظہورکے ساتھ مردکی شہوت کو طلب اورللکاراجائے اورتاکہ اس کے ظہورسے مردکی شہوت کاابھرنالازم قرار پائے۔

[ فتح القدیر۳۲۰؍۴]

اورقرآن مجیدنے اسی تبرج سے منع کیاہے ،چنانچہ قدیم جاہلیت کے تبرج کے معنی میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام ومفسرمجاہد رحمہ اللہ کاقول نقل کیاہے

كَانَتِ الْمَرْأَةُ تَخْرُجُ تَمْشِی بَیْنَ یَدَیِ الرِّجَالِ، فَذَلِكَ تَبَرُّجُ الْجَاهِلِیَّةِ

عورت اپنے گھرسے نکلتی اورمردوں کے آگے چلناشروع کردیتی تھی یہی جاہلیت کاتبرج ہے۔

[تفسیر عبدالرزاق۳۷؍۳]

 

وَالتَّبَرُّجُ: أَنَّهَا تُلْقِی الْخِمَارَ عَلَى رَأْسِهَا، وَلَا تَشُدُّهُ فَیُوَارِی قَلَائِدَهَا وَقُرْطَهَا وَعُنُقَهَا، وَیَبْدُو ذَلِكَ كُلُّهُ مِنْهَا، وَذَلِكَ التَّبَرُّجُ

اورمقاتل بن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ سج دھج ۔‘‘ کامطلب یہ ہے کہ عورت اپنے دوپٹے کوسرپرلٹکالے اوراپنے ہار،اپنے جھمکے اوراپنے گلے کونہ چھپائے بلکہ ان سب چیزوں کو نمایاں کر دے اوریہ ہی سج دھج تھا۔

[ تفسیرابن ابی حاتم۲۶۴۲؍۸]

قال اللیث: ویقال تبرجت المرأة إذا أبدت محاسنها من وجهها وجسدها ویرى مع ذلك من عینها حسن نظر

امام لیث’’ سج دھج ۔‘‘ کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں عورت کااپنے چہرے اورجسم کے محاسن کوظاہر کرنا سج دھج ہے ،ساتھ ساتھ اس کی نگاہوں سے حسن نظریعنی اشتیاق جھلکتاہو۔

[تفسیرالالوسی ۔روح المعانی۱۸۹؍۱۱]

وتَبَرَّجَتِ المرأَةُ: أَظهرت وَجْهَه

لسان العرب میں ہےعورت کااپنے چہرہ کوننگاکرناہی سج دھج ہے۔

[ لسان العرب۲۱۲؍۲]

چنانچہ قرآن مجید نےلفظ

 تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الأولَى

سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

سے واشگاف الفاظ میں بتلادیاکہ جہالت میں بے پردگی تھی اوراسلام میں پردہ ہے اور لغوی واصطلاح شریعت میں تَــبَرُّجَ کامعنی یہ سمجھ میں آیاکہ عورت اپنی زینت اور سنگھارکوجب غیرمحرموں کے سامنے کرکے آئے تووہ بے پردہ ہےچہ جائیکہ وہ گلے میں (دوپٹہ جوکہ زینت کوچھپانے کے لیے لیناتھا)جہالت وبے پردگی کاپھندابناکرگلی کوچوں اورسڑکوں بازاروں میں دندناتی پھرے ۔

چنانچہ فرمایااوراپنے گھروں میں جو تمہارے لئے زیادہ حفاظت اورسلامتی کامقام ہیں ٹک کررہواورامورخانہ داری سرانجام دو اور بغیرضروری حاجت کے گھرسے باہرنہ نکلو،

فَقَالَتْ:یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ قِصَّتُكُنَّ كُلُّهَا وَاحِدَةٌ أَحَلَّ اللهُ لَكُنَّ الزِّینَةَ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایااے عورتو!تم سب کامعاملہ ایک ہی ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زینت حلال کی ہے مگرتبرج کے بغیر۔

[ تفسیرابن ابی حاتم محققا ۱۴۸۴۹]

وَلَقَدْ دَخَلْتَ نَیِّفًا عَلَى أَلْفِ قَرْیَةٍ مِنْ بَرِیَّةٍ، فَمَا رَأَیْت نِسَاءً أَصْوَنَ عِیَالًا، وَلَا أَعَفَّ نِسَاءً مِنْ نِسَاءِ نَابُلُسَ، الَّتِی رُمِیَ فِیهَا الْخَلِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ بِالنَّارِ، فَإِنِّی أَقَمْت فِیهَا أَشْهُرًا، فَمَا رَأَیْت امْرَأَةً فِی طَرِیقٍ، نَهَارًا، إلَّا یَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِنَّهُنَّ یَخْرُجْنَ إلَیْهَا حَتَّى یَمْتَلِئَ الْمَسْجِدُ مِنْهُنَّ، فَإِذَا قُضِیَتْ الصَّلَاةُ، وَانْقَلَبْنَ إلَى مَنَازِلِهِنَّ لَمْ تَقَعْ عَیْنِی عَلَى وَاحِدَةٍ مِنْهُمْ إلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى

ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں مجھے ایک ہزارسے زائدبستیوں میں جانے کاموقع ملاہے، میں نے نابلس کی عورتوں سے زیادہ اپنے بچوں اوراپنی عزت وآبروکی حفاظت کرنے والی عورتیں نہیں دیکھیں ،نابلس وہ شہرہے جس میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کوآگ میں ڈالاگیاتھا،میں نے نابلس میں کئی مہینے قیام کیامیں نے جمعہ کے دن کے علاوہ دن کے وقت کسی راستے پرکبھی کوئی عورت نہیں دیکھی،نابلس کی عورتیں جمعہ کے روزنکلاکرتی تھیں حتی کہ پوری مسجدان سے بھرجایاکرتی تھی،اورجب نماز ادا ہو جاتی تووہ اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ آتیں اورپھراگلے جمعہ تک کوئی خاتون دکھائی نہ دیتی۔

[ احکام القرآن لابن العربی۵۶۹؍۳]

عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِیهِ، عَن رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَرْأَة عَورَة وَإِنَّهَا ذَا خَرَجَتْ من بَیتهَا اسْتَشْرَفَهَا الشَّیْطَان وَإِنَّهَا لَا تكون أقرب إِلَى الله مِنْهَا فِی قَعْر بَیتهَا

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعورت پردے کانام ہے اورجب یہ اپنے گھرسے نکلتی ہے توشیطان اس کوجھانکتاہے (ورغلاتا ہے ) اور اللہ تعالیٰ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھرکے اندرہو۔

[ جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۳،الترغیب والترھیب للمنذری۵۱۴]

 

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّیْطَانُ

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکوئی مردکسی عورت کے ساتھ الگ ہوتوتیسراشیطان ہوتاہے۔

[ جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِیبَاتِ۱۱۷۱،مسنداحمد۱۷۷]

 

لایفظ الْمَرْأَةُ الابیتھاأَوْ قَبْرِهَاأَوْ زَوْجُهَا

اورقدیم مقولہ ہےعورت کی حفاظت یاتوگھرکرسکتاہے یا قبر کر سکتی ہے یا خاوند کرسکتا ہے۔

عَنْ مَیْمُونَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، وَكَانَتْ خَادِمًا لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:مَثَلُ الرَّافِلَةِ فِی الزِّینَةِ، فِی غَیْرِ أَهْلِهَا، كَمَثَلِ الظُّلْمَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، لَا نُورَ لَهَا

میمونہ بنت سعدجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ تھیں کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاوہ عورت جواپنی زینت میں نازسے اپنے اہل کے علاوہ چلتی ہے وہ اس تاریکی کی طرح ہے جوقیامت کوہوگی جس کانورنہیں ہوگا۔

[ المعجم الکبیر للطبرانی۷۰،جامع ترمذی أَبْوَابُ الرَّضَاعِ بَابُ مَا جَاءَ فِی كَرَاهِیَةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِی الزِّینَةِ۱۱۶۷، كتاب الأمثال فی الحدیث النبوی لابی الشیخا الاصبھانی۲۶۵]

اور اگرکسی ضرورت سے نکلنابھی پڑے توجاہلیت کے دورکی طرح بناؤ سنگارکرکے ،خوشبولگاکربے پردہ جس سے تمہارا سر، بازواورچھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے باہرنہ گھومتی پھروبلکہ بغیرخوشبولگائے ، سادہ لباس میں ملبوس اورباپردہ باہرنکلو ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ، وَلَكِنْ لِیَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی بندیوں کواللہ کی مسجدوں (میں جانے)سے منع نہ کرولیکن انہیں زیب وزینت کے بغیرنکلناچاہیے۔

[ سنن ابوداود كِتَاب الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِی خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ۵۶۵]

 

مُوسَى بْنُ عَلِیِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِیهِ، عَنْ أَبِی أُذَیْنَةَ الصَّدَفِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَشَرُّ نِسَائِكُمُ الْمُتَبَرِّجَاتُ

موسی بن علی بن رباح کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہاری سب سے بدترین عورت وہ ہے جوبے پردہ گھومتی پھرتی ہیں ۔

[ السنن الکبری للبیہقی ۱۳۴۷۸]

 

أَنَّ عَائِشَةَ رَضِیَ اللهُ عَنْهَا كَانَتْ إِذَا قَرَأَتْ هَذِهِ الْآیَةَ تَبْكِی حَتَّى تَبُلَّ خِمَارَهَا،وَذَكَرَ أَنَّ سَوْدَةَ قِیلَ لَهَا: لِمَ لَا تَحُجِّینَ وَلَا تَعْتَمِرِینَ كما یفعل أَخَوَاتُكِ؟ فَقَالَتْ: قَدْ حَجَجْتُ وَاعْتَمَرْتُ، وَأَمَرَنِی اللهُ أَنْ أَقِرَّ فِی بَیْتِی، قَالَ الرَّاوِی: فَوَاللهِ مَا خَرَجَتْ مِنْ بَابِ حُجْرَتِهَا حَتَّى أُخْرِجَتْ جِنَازَتُهَا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب آیت’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ پڑھتیں تواس قدرروتیں کہ ان کادوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا ،ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا نے پوچھااے عائشہ رضی اللہ عنہا !تواپنی دوسری بہنوں کی طرح حج وعمرہ کیوں نہیں کرتی؟توجواب دیاکہ میں نے حج وعمرہ کر لیا ہے اوراللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں اپنے گھرمیں ٹھیری رہوں ،راوی حدیث کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرے کے دروازے سے باہرنہ نکلتی تھیں حتی کہ ان کے جنازے نے ہی ان کوباہرنکالا۔

[ تفسیر القرطبی ۱۸۰؍۱۴]

اورنیکی اختیارکرنے کے متعلق فرمایاکہ اللہ کی یادکے لئے فرض نماز اور نوافل کا اہتمام کرو،اپنے مالوں سے مستحقین کوزکواة کے علاوہ بھی صدقہ وخیرات کیاکرو اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی بلاچوں وچرا تعمیل کرو،اے اہل البیت !اللہ نے تمہیں جن چیزوں کاحکم دیااورجن سے روکاہے اس کامقصد صرف یہ ہے کہ وہ تم سے گندگی،شراورناپاکی کودورکردے اورتمہیں خوب پاک کردےاورتمہارے گھروں میں جواللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کویادرکھواوران پرعمل کرو،بیشک اللہ تعالیٰ باریک بین اورخبردارہے۔

أَفِی هَذَا أَسْتَأْمِرُ أَبَوَیَّ، فَإِنِّی أُرِیدُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الآخِرَةَ،( أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَا تُخْبِرْ نِسَاءَكَ أَنِّی اخْتَرْتُكَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِیُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللهَ أَرْسَلَنِی مُبَلِّغًا، وَلَمْ یُرْسِلْنِی مُتَعَنِّتًا)ثُمَّ خَیَّرَ نِسَاءَهُ كُلَّهُنَّ فَقُلْنَ مِثْلَ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ

یہ آیات مبارکہ سننے کے بعد ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فورا ًکہاکیا میں اس بات میں اپنے والدین سے مشورہ کروں ؟میں تواللہ اوراس کے رسول اوردارآخرت کواختیارکرتی ہوں ،اورام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ نے عرض کیااے اللہ کے رسول آپ یہ بات کسی اوربیوی کونہ بتائیں کہ میں نے آپ کواختیارکرلیاہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے ضرور بتاؤں گاکیونکہ اللہ نے مجھے مبلغ ،معلم اورآسانی پہنچانے والابناکربھیجاہے ،اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی اورتنگی میں ڈالنے والا بنا کر نہیں بھیجا ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کرنے کے بعدآپ نے دوسری بیویوں ( ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا ، حفصہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا ) کوبھی اختیاردیااورسب ازواج نے وہی جواب دیاجوعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیاتھایعنی کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کردنیاکے عیش وآرام کوترجیح نہیں دی۔

[ صحیح بخاری کتاب التفسیرسورة الاحزاب بَابُ قَوْلِهِ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیلًا۴۷۸۵، وکتاب النکاح بَابُ مَوْعِظَةِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ لِحَالِ زَوْجِهَا۵۱۹۱، وکتاب الظلم بَابُ الغُرْفَةِ وَالعُلِّیَّةِ المُشْرِفَةِ وَغَیْرِ المُشْرِفَةِ فِی السُّطُوحِ وَغَیْرِهَا ۲۴۶۸، صحیح مسلم کتاب الطلاق بَابُ بَیَانِ أَنَّ تَخْیِیرَ امْرَأَتِهِ لَا یَكُونُ طَلَاقًا إِلَّا بِالنِّیَّةِ ۳۶۸۱، و بَابٌ فِی الْإِیلَاءِ، وَاعْتِزَالِ النِّسَاءِ عن عائشہ وعمر ۳۶۹۶، مسند احمد ۱۴۵۱۵،السنن الکبری للنسائی۹۱۶۴]

خط کشیدہ عبارتیں صرف صحیح مسلم میں ہیں ۔

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَیَّرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَاخْتَرْنَاهُ، فَلَمْ یَعُدَّهَا عَلَیْنَا شَیْئًا

ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اختیاردے دیاتھامگرہم نے آپ ہی کاانتخاب کیاتوآپ نے اسے کوئی چیز(طلاق وغیرہ)شمارنہیں کی۔

[ مسنداحمد۲۴۲۰۸]

إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِینَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِینَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِینَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِینَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِینَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِینَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا ‎﴿٣٥﴾‏(الاحزاب)

بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں ، راست باز مرد اور راست باز عورتیں ،صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں ، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں ، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں ، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنی والی عورتیں ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں ، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ،(ان سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔

عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الأَنْصَارِیَّةِ، أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: مَا أَرَى كُلَّ شَیْءٍ إِلاَّ لِلرِّجَالِ وَمَا أَرَى النِّسَاءَ یُذْكَرْنَ بِشَیْءٍ؟ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآیَةَ {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالمُسْلِمَاتِ وَالمُؤْمِنِینَ وَالمُؤْمِنَاتِ} الآیَةَ.

ام عمارہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورکہاکہ کیابات ہے اللہ تعالیٰ ہرجگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتاہے عورتوں سے نہیں ،جس پریہ آیت’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ۔‘‘ نازل ہوئی۔

[ جامع ترمذی ابواب تفسیرالقرآن بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ۳۲۱۱،مسنداحمد ۲۶۵۷۵، مستدرک حاکم ۳۵۶۰]

أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: قُلْتُ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَنَا لَا نُذْكَرُ فِی الْقُرْآنِ كَمَا یُذْكَرُ الرِّجَالُ؟ قَالَتْ: فَلَمْ یَرُعْنِی مِنْهُ یَوْمَئِذٍ إِلَّا وَنِدَاؤُهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، قَالَتْ: وَأَنَا أُسَرِّحُ شَعْرِی، فَلَفَفْتُ شَعْرِی، ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى حُجْرَةٍ مِنْ حُجَرِ بَیْتِی، فَجَعَلْتُ سَمْعِی عِنْدَ الْجَرِیدِ، فَإِذَا هُوَ یَقُولُ عِنْدَ الْمِنْبَرِ: یَا أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ یَقُولُ فِی كِتَابِهِ: {إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} ، إِلَى آخِرِ الْآیَةِ، {أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا}

[ الأحزاب: 35]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہےوہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کیابات ہے ہماراقرآن مجیدمیں اس طرح ز کرنہیں ہوتاجس طرح مردوں کاذکرہوتاہے؟ ایک دن اچانک میں نے یہ دیکھاکہ آپ منبرپراعلان فرمارہے تھے میں اس وقت اپنے بالوں میں کنگھی کررہی تھی،میں نے اپنے بال سمیٹےاوراپنے گھرکے حجرے کی طرف نکلی،اورمیں نے آپ کے اعلان کوسننے کے لیے کان لگادیے،آپ منبرکے پاس فرمارہے تھے لوگو!بے شک اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے’’ بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں ، مومن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزہ رکھنے والے ہیں ،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔‘‘ 

[ مسند احمد ۲۶۶۰۳، السنن الکبری للنسائی۱۱۳۴۱،تفسیرطبری۲۷۰؍۲۰]

ازواج مطہرات کے ذکر کے بعددوسری عورتوں کے بارے میں فرمایاکہ یہ انعامات صرف ام المومنین کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمان مروو عورتیں کے لئے بھی مغفرت اوراجرعظیم تیارکررکھاہے جوظاہری طورپرنہیں بلکہ خلوص نیت سے اسلام کی رہنمائی کوحق مانتے ہیں اورعملاًاطاعت کرتے ہیں ،جواپنے کردارو گفتار اور معاملات میں سچے ہیں ،کیونکہ سچ بولناایمان کی کی اورجھوٹ بولنانفاق کی نشانی ہے ،جس شخص نے سچ بولاوہ نجات پاگیا۔


بشکریہ البرھان آرگنائزیشن۔

یہ تحریر البرھان سائیٹ سے لی گئی ہے۔ 

لنک