سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سيده فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی
جعفر صادقحضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی
سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سيده فاطمہ الزهراءؓ کی شادی میں سیدنا عثمانؓ اور سیدنا ابوبكرؓ کا کردار:
ساتویں صدی ہجری کے معروف شيعہ محقق علامہ ابوالحسن علی بن عيسىٰ الاربلی کی کتاب "كشف الغمة فی معرفة الأئمة" کا مطالعہ کرتے ہوۓ ایک بات نظر سے گزری سوچا کہ دوستوں کی خدمت میں پیش کردوں ذکر ہو رہا ہے سیدنا علىؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کا سیدنا علىؓ بیان فرماتے ہیں کہ:
الله کے رسولﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اے علیؓ! جاؤ اپنی ڈھال بیچ کر اسکی قیمت لاؤ تاکہ میں تمہارے اور اپنی بیٹی کے لیے کچھ تیاری کرلوں (یعنی کچھ چیزیں خرید لوں)، سیدنا علىؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی ڈھال سیدنا عثمان بن عفانؓ کو چار سو درہم کے عوض فروخت کر دی، جب میں نے ان سے درہم وصول کر لئے اور انہوں نے مجھ سے ڈھال لے لی تو بعد میں سیدنا عثمانؓ نے مجھے ڈھال بھی ہدیہ کر دی میں ڈھال اور درہم دونوں لے کر نبی کریمؓ کی خدمت میں آیا اور ڈھال اور درہم دونوں چیزیں آپﷺ کے سامنے ڈھیر کر دیں اور آپﷺ سے سیدنا عثمانؓ کے برتاؤ کا ذکر کیا تو آپﷺ نے ان کے لیے (سیدنا عثمانؓ کے لیے) دعائے خیر فرمائی پھر آپﷺ نے ان درہموں میں سے ایک مٹھی بھر کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو دی اور فرمایا کہ جائیں میری بیٹی کے لیے کچھ گھر کا سامان خریدیں، اور ساتھ ہی سیدنا سلمان فارسىؓ اور سیدنا بلالؓ کو بھی آپؓ کے ساتھ کر دیا کہ جو سامان خریدا جائے یہ دونوں اسے اٹھا کر لے آئیں، چنانچہ آپؓ نے ان دراہم سے مختلف سامان خریدا۔
(كشف الغمة فی معرفة الأئمة: جلد، 1 صفحہ، 368 - 369)
سبحان الله، ایک طرف ان لوگوں کے یہ مثالی تعلقات، اور دوسری طرف یار لوگوں کی یہ کوشش کہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ ان ہستیوں کے درمیان دشمنی اور بغض و عداوت تھی۔
حق بات جانتے ہیں مگر مانتے نہیں
یہ ضد ہے جناب شیخ تقدس مآب میں۔
سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کے گواہ:
گواہ وہی معتبر ہوتا ہے جو عادل ہو، اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے
جب کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔
اس فرمانِ باری تعالیٰ سے محدثین نے اصول بنایا کہ عادل کی گواہی قبول ہو گی۔
ہم اپنے معاشرے میں بھی دیکھ لیں جب کوئی کسی جوڑے کو نکاح کے بندھن میں باندھتے ہیں تو خاندان کے معزز اور معتبر افراد کو نکاح میں گواہ بناتے ہیں، کوئی کسی جھوٹے کو منافق کو بدنیت کو پاپی کو اپنے نکاح میں گواہ بنانا پسند نہیں کرتا، گواہ زیادہ سے زیادہ نیک و صالح ہو سب کی یہی خواہش ہوتی ہے۔
سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے نکاح میں رسول پاکﷺ نے کن شخصیات کو گواہ بنایا؟ آئیے شیعہ کی مشہور کتاب بحارالانوار سے دیکھتے ہیں شیعہ کا معتبر عالم ملا باقر مجلسی لکھتا ہے:
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں رسول پاکﷺ نے ارشاد فرمایا:
جاؤ ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ اور اتنے ہی انصار کو بلا کر لاؤ۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں، میں گیا اور میں نے ان سب کو بلا لیا۔جب وہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، تو رسول پاکﷺ نے فرمایا میں تم سب کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے فاطمہؓ کو علیؓ کی زوجیت میں چار سو مثقال چاندی کے عوض دیا۔
(بحارالانوار: جلد، 43 باب تزویجھا صلوات اللہ علیھا)
اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین یہ ہے وہ قریبی تعلق جو شیعہ کتب سے بھی ثابت ہے، اس کے باوجود شیعہ رافضی عوام کو دن رات گمراہ کرتے رہتے ہیں، جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آج شیعہ دشمنِ سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمہؓ بتاتا ہے، وہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے بابرکت نکاح کے گواہ ہیں اگر یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اچھے اور سچے نہیں تو یہ نکاح کہاں سے ثابت کرو گے؟
مشہور قول کے مطابق 2 ہجری میں شادی ہوئی تھی۔ جنگِ بدر کے بعد۔
سیدنا علیؓ سے شادی کے وقت سیدہ فاطمہؓ کی عمر 10 سال تھی
شیعہ کتب کے سکین
شیعہ کی معتبر کتب کے حوالہ جات
نکاح کے وقت سیدہ فاطمہؓ کی عمر 9 سال تھی۔