مالک بن حارث الاشتر النخعی (منافقین کا سردار)
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندمالک بن حارث الاشتر النخعی نامی منافقین کا سردار، خلیفہ راشد حضرت عثمان رضی اللہ کا قاتل، ام المومنین سیدہ صفیہ رضی اللہ کی توہین کرنے والا،امی عائشہ رضی اللہ کا اسکے مومن ہونے کا انکار کرنا، حضر ت عمر رضی اللہ کا اسکو مسلمانوں کیلئے سخت فتنہ کا حدشہ ظاہر کرنا۔امام اہلسنت امام احمد ابن حنبل کا اسکو خوارج کے سردار کی طرح مترک قرار دینا۔علی رضی اللہ کے ساتھ بھی زاتی مفاد کیلئے نتھی ہوگیا تھا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️ 01-امی عائشہ رضی اللہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے ایک دن عثمان رضی کو بلایا اور فرمایا:
وَقَالَ: «يَا عُثْمَانُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَسَى أَنْ يُلْبِسَكَ قَمِيصًا، فَإِنْ أَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ عَلَى خَلْعِهِ، فَلَا تَخْلَعْهُ حَتَّى تَلْقَانِي، (مسند الإمام أحمد بن حنبل)
عثمان عنقریب اللہ تمہیں ایک قمیص پہنائیگا، اگر منافقین اسے اتارنا چاہیں تو تم اُسے نہ اتارنا یہاں تک کہ مجھے آ ملو (یعنی شہید کردئے جاؤ) یہ بات تین مرتبہ بیان فرمائی تھی۔(رجال ثقہ)♦️
♦️01-الشهرة : عبد القدوس بن الحجاج الخولاني , الكنيه: أبو المغيرة(ثقة)-01
♦️02-الشهرة : الوليد بن سليمان القرشي(ثقة)
♦️03-الشهرة : ربيعة بن يزيد الإيادي(ثقة)-03
♦️04-الشهرة : عبد الله بن عامر اليحصبي(ثقة) -04
♦️05-النعمان بن بشير الأنصاري (متوفی 65)(صحابي صغير)
(اس روایت سے ثابت ہوگیا کہ عثمان رضی کے قاتل مسلمان یا صحابہ رضی نہیں بلکہ منافقین تھے)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️02-مالک بن حارث منافقین کا سردار تھا، محمد بن سعد نے طبقات میں عثمان کی شہادت کا واقعہ نقل فرمایا:♦️
یعنی عثمان رضی نے الاشتر کو بلایا، اور فرمایا اے الاشتر تیرے گماشتے مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔
♦️قَالَ: " يَا أَشْتَرُ، مَا يُرِيدُ النَّاسُ مِنِّي؟♦️
الاشتر نے جواب دیا:
قَالَ: ثَلَاثٌ، لَيْسَ لَكَ مِنْ إِحْدَاهُنَّ بُدٌّ، قَالَ: مَا هُنَّ؟ قَالَ: يُخَيِّرُونَكَ بَيْنَ أَنْ تَخْلَعَ لَهُمْ أَمَرَهُمْ فَتَقُولَ: هَذَا أَمْرُكُمْ فَاخْتَارُوا لَهُ مَنْ شِئْتُمْ، وَبَيْنَ أَنْ تَقُصَّ مِنْ نَفْسِكِ , فَإِنْ أَبَيتَ هَاتَيْنِ فَإِنَّ الْقَوْمَ قَاتِلُوكَ۔
تین باتوں جن میں سے ایک کے بغیر اپ کیلئے چارہ نہیں فرمایا وہ کیا ہیں؟ الاشتر نے کہا وہ لوگ اپ کو اختیار دیتے ہیں کہ یا آپ ان کے حق میں حکومت سے دست بردار ہوجائیں اور کہہ دیں کہ یہ تہماری حکومت ہے، تم جسے چاہو امیر بناو، یا اپ اپنی جان سے ان لوگوں کو قصاص لینے دیں، اگر آپ کو ان دونوں سے انکار ہے تو یہ لوگ اپ سے جنگ کرینگے۔
♦️عثمان رضی نے جواب دیا:
قَالَ: أَمَّا أَنْ أَخْلَعَ لَهُمْ أَمَرَهُمْ فَمَا كُنْتُ لِأَخْلَعَ سِرْبَالًا سَرْبَلَنِيهُ اللَّهُ، قَالَ: وَقَالَ غَيْرُهُ: وَاللَّهِ لِأَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَخْلَعَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ،
یہ ممکن نہیں کہ میں حکومت سے دست بردار ہوجاوں، میں اس کرتے کو اتارنے والا نہیں جو اللہ نے مجھے پہنایا ہے واللہ اگر مجھے آگے کر کے گردن مار دی جائے تو یہ زیادہ پسند ہے بہ نسبت اسکے کہ امت محمد کو بعض پر بعض کو چھوڑ دو۔(رجال ثقہ)♦️
♦️00-محمد بن سعد بن منيع الهاشمي (ثقة )
♦️01- إسماعيل بن علية الأسدي , الكنيه: أبو بشر(ثقة حجة حافظ)
♦️02-عبد الله بن عون المزني , الكنيه: أبو عون(ثقة )
♦️03-الحسن البصري , الكنيه: أبو سعيد(ثقة)
♦️04- وَثَّابٌ مولی عثمان
حافظ ابن حجر نے لکھا:
وقال ابن أبي خيثمة في تاريخه سمعت ابن معين يقول: "إذا روى الحسن البصري عن رجل فسماه فهو ثقة يحتج بحديثه" وذكره ابن حبان في الثقات،تهذيب التهذيب
________
♦️03-امام ابو بکر ابن ابی شیبہ نے مصنف میں کلیب بن شھاب الجرمی سے نقل فرمایا:
كِتَابُ الْجَمَلِ وَصِفِّينَ وَالْخَوَارِجِ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ وَآلِهِ♦️
37757 - : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ:---
(الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار)
جب حضرت علی رضی نے عبداللہ بن عباس کو بصرہ کا عامل مقرر کیا۔ تو الاشتر النخعی کا ساتھی عتاب التغلبی الاشتر کے پاس آیا اسکے گلے میں تلوار لٹک رہی تھی، اور اسنے کہا:
♦️ قَالَ: فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عَتَّابٌ التَّغْلِبِيُّ وَالسَّيْفُ يَخْطِرُ أَوْ يَضْطَرِبُ فِي عُنُقِهِ فَقَالَ: هَذَا أَمِيرُ مُؤْمِنِيكُمْ قَدِ اسْتَوْلَى ابْنُ عَمِّهِ عَلَى الْبَصْرَةِ ,
یہ تمہارے مومنین کے امیر نے اپنے چاچے کے بیٹے کو بصرہ کی حکومت دے دی۔♦️
♦️تو الاشتر غصہ سے مسکرایا اور بولا:
فَتَبَسَّمَ تَبَسُّمًا فِيهِ كُشُورٌ , قَالَ: فَقَالَ: فَلَا نَدْرِي إِذًا عَلَامَ قَتَلْنَا الشَّيْخَ بِالْمَدِينَةِ؟
اگر ایسا ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ ہم نے شیخ(امیر المومنین عثمان غنی) کو مدینہ میں کیوں قتل کیا:؟♦️
♦️00-ابن أبي شيبة العبسي , الكنيه: أبو بكر( ثقة حافظ )
♦️01-حماد بن أسامة القرشي , الكنيه: أبو أسامة( ثقة ثبت)
♦️02-العلاء بن منهال الغنوي(ثقة، أبو زرعة و عجلی، و ابن حبان)
♦️03- عاصم بن كليب الجرمي(ثقة)
♦️04-كليب بن شهاب الجرمي (ثقة)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️04-محمد بن جریر الطبری نے اپنی سند سے یہی واقعہ اسطرح نقل کیا:
قَالَ أَبُو جَعْفَر: أخرج إلي زياد بن أيوب كتابا فِيهِ أحاديث عن شيوخ ذكر أنه سمعها مِنْهُمْ، قرأ علي بعضها ولم يقرأ علي بعضها، فمما لم يقرأ علي من ذَلِكَ فكتبته مِنْهُ، قَالَ:حَدَّثَنَا مُصْعَب بن سلام التميمي، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن سوقة، عن عاصم بن كليب الجرمي، عَنْ أَبِيهِ،-------
الاشتر کو جب معلوم ہوا کہ علی نے عبداللہ بن عباس کو بصرہ کا عامل بنا دیا تو غصہ میں بولا:♦️
♦️♦️وأتاه الخبر باستعمال عَلِيّ ابن عباس فغضب وقال: علام قتلنا الشيخ! إذ اليمن لعبيد اللَّه، والحجاز لقثم، والبصرة لعبد اللَّه، والكوفة لعلي
(تاريخ الطبري )♦️♦️
کیا اسی لئے ہم نے اس بوڑھے (عثمان) رضی کو قتل کیا تھا کہ یمن عبیدااللہ بن عباس کو دے دیا جائے، حجاز قثم بن عباس کو دے دیا جائے، بصرہ عبداللہ بن عباس کو اور کوفہ خود علی رضی اپنے لئے رکھ لیں۔♦️
♦️00- محمد بن جرير بن يزيد (ثقة )
♦️01-زياد بن أيوب الطوسي (ثقة حافظ)
♦️02-مصعب بن سلام التميمي(الصدق)
♦️03-محمد بن سوقة الغنوي (ثقة )
♦️04-عاصم بن كليب الجرمي (ثقة )
♦️05-كليب بن شهاب الجرمي (ثقة )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️05-حافظ ذہبی نے مالک بن الحارث الاشتر کے ترجمہ میں لکھا:
6 - الأَشْتَرُ مَالِكُ بنُ الحَارِثِ النَّخَعِيُّ *------زَعِراً أَلَبَّ عَلَى عُثْمَانَ، وَقَاتَلَهُ، وَكَانَ ذَا فَصَاحَةٍ وَبَلاَغَةٍ.شَهِدَ صِفِّيْنَ مَعَ عَلِيٍّ۔
(سير أعلام النبلاء)
بہتان لگا کر اسنے عثمان رضی کو قتل کردیا تھا، اور فصیح اور بلیغ تھا اور صفین میں علی کا ساتھی تھا۔♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️06-حافظ ابن حجر نے ابن حبان کی کتاب الثقات سے نقل فرمایا:
وذكره بن حبان في الثقات قال شهد اليرموك فذهبت عينه يومئذ وكان رئيس قومه وكان ممن يسعى في الفتنة والب على عثمان وشهد حصره
(تهذيب التهذيب)
یعنی ابن حبان نے اسکا ذکر الثقات میں کرکے لکھا کہ یرموک میں یہ موجود تھا، اور اپنی قوم کے سرداروں میں سے تھا اور یہ وہ شخص تھا جس نے فتنہ کی سب سے زیادہ کوشش کی، اور عثمان کے خلاف فتنہ اور شرا نگیزی پھیلانے والا میں شامل تھا اور عثمان رضی کے گھر کا محاصرہ کرنے والا میں یہ آدمی شامل تھا۔♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️07-حافظ ابن کثیر نے تاریخ البدايہ والنهايہ میں لکھا:
ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنِّي مُرْتَحِلٌ غَدًا فَارْتَحِلُوا، وَلَا يَرْتَحِلُ مَعِي أَحَدٌ أَعَانَ عَلَى عُثْمَانَ بِشَيْءٍ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ.
حضرت علی رض نے فرمایا کہ کل میں کوچ کرنے والا ہوں، اور ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص کوچ نہ کرے جس نے عثمان رضی کے قتل میں لوگوں کی کچھ بھی مدد کی ہو۔
تو ابن کثیر نے لکھا:
هَذَا اجْتَمَعَ مِنْ رُءُوسِهِمْ جَمَاعَةٌ ; كَالْأَشْتَرِ النَّخَعِيِّ، وَشُرَيْحِ بْنِ أَوْفَى، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَبَأٍ، الْمَعْرُوفِ بِابْنِ السَّوْدَاءِ، وَسَالِمِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، وَعِلْبَاءَ بْنِ الْهَيْثَمِ، وَغَيْرِهِمْ فِي أَلْفَيْنِ وَخَمْسِمِائَةٍ وَلَيْسَ فِيهِمْ صَحَابِيٌّ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ.
روساء کی ایک جماعت جسمیں الاشتر النخعی، شریح بن اوفی، عبداللہ بن سبا، بابن السوداء، سالم بن ثعلبہ، غلاب بن الہیثم، اور اڑھائی ہزار آدمی جمع ہوگئے اوران میں ایک بھی صحابہ رضی نہیں تھا۔♦️
♦️اسکے بعد الاشتر نے کہا:
فَقَالَ الْأَشْتَرُ: قَدْ عَرَفْنَا رَأْيَ طَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ فِينَا، وَأَمَّا رَأْيُ عَلِيٍّ فَلَمْ نَعْرِفُهُ إِلَى الْيَوْمِ، فَإِنْ كَانَ قَدِ اصْطَلَحَ مَعَهُمْ فَإِنَّمَا اصْطَلَحُوا عَلَى دِمَائِنَا،
طلحہ اور زبیر لی رائے تو معلوم ہے،علی کی ہمارے بارے میں رائے کا پتہ نہیں چلا، اگر انہونے اُن کے ساتھ صلح کرلی ہے تو انہونے ہمارے خون پر صلح کی ہے۔
فَإِنْ كَانَ الْأَمْرُ هَكَذَا أَلْحَقْنَا عَلِيًّا بِعُثْمَانَ، فَرَضِيَ الْقَوْمُ مِنَّا بِالسُّكُوتِ.
اگر بات ایسی ہی ہے تو ہم حضرت علی رضی کو بھی حضرت عثمان رضی کے ساتھ ملادینگے اور لوگ ہمارے ساتھ خاموشی اختیار کرکے راضی ہوجائینگے۔♦️
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️08-امی عائشہ رضی نے عثمان رضی کے قاتلوں کو بددعا دیتے ہوئے اسمیں مالک الاشتر کا بھی ذکر فرمایا:
133 - حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ أَبُو خَلِيفَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْحَجَبِيُّ، ثنا حَزْمٌ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلِيقَ بْنَ خَشَّافٍ، يَقُولُ:------
امام طبرانی نے طلیق بن خشاف بن بکر سے نقل فرمایا کہ امی عائشہ سے پوچھا کہ عثمان کو کیوں قتل کیا گیا: تو جواب دیا:
: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، فِيمَ قُتِلَ عُثْمَانُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ؟ قَالَتْ: «قُتِلَ وَاللهِ مَظْلُومًا، لَعَنَ اللهُ قَتَلَتَهُ،
پھر امی نے فرمایا:
♦️♦️وَسَاقَ اللهُ إِلَى الْأَشْتَرِ سَهْمًا مِنْ سِهَامِهِ»♦️♦️
اللہ مالک الاشتر کی طرف اپنے تیروں میں سے ایک تیر بھیج یعنی اسکے ہلاک کردے۔ اور طلیق نے فرمایا:
فَوَاللهِ مَا مِنَ الْقَوْمِ رَجُلٌ إِلَّا أَصَابَتْهُ دَعْوَتُهَا
(المعجم الكبير)
اللہ کی قسم لوگوں میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں جس پر امی کی بددعا نہیں پہنچی ہو۔ (علامہ ہیثمی نے لکھارجال رجال الصحیح غیر طلق وھو ثقہ)
♦️00-سليمان بن أحمد، الطبراني (حافظ ثبت)
♦️01-الفضل بن الحباب الجمحي،أبو خليفة ( ثقة ثبت)
♦️02-عبد الله بن عبد الوهاب الحجبي (ثقة)
♦️03-حزم بن أبي حزم القطعي (صدوق حسن الحديث)
♦️04-ظالم بن عمرو ،أبو الأسود الدؤلي (ثقة)
♦️05-طلق،طَلِيقَ بن خشاف بن بكر
(ہیثمی نے کہا ثقہ، ذہبی نے اور ابن سعد نے انکو صحابہ رسول قرار دیا ہے۔)
*سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپؒ نے فرمایا:*
سَاقَ اللهُ إِلَى الْأَشْتَرِ سَهْمًا مِنْ سِهَامِهِ
ترجمہ: اور اے الله مالک اشتر سے بدلہ لے، اور اپنے تیروں میں سے خاص تیر بھیج کر اس کا کام تمام کردے۔
[المعجم الكبير للطبراني، جلد ۱، صفحہ نمبر ۸۸، رقم: ۱۳۳]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️09-حضرت عمر رضی اور الاشتر النخعی:علامہ قرطبی نے سورہ الحجرایت 75 کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی:♦️
♦️یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ علامہ ہیثمی نے اسکو حسن قرار دیا ہے۔♦️
اور قرطبی نے عمر بن خطاب کا اثر نقل کیا جسکی سند االعلل ابن حنبل میں موجود ہے۔ :
♦️-540- قَالَ أبي فِي حَدِيث يزِيد بن زُرَيْع عَن شُعْبَة قَالَ أنبأني عَمْرو بن مرّة عَن عبد الله بن سَلمَة قَالَ دَخَلنَا على عمر معاشر وَفد مذْحج وَكنت من أقربهم مِنْهُ مَجْلِسا فَجعل عمر نظر إِلَى الأشتر وَيصرف بَصَره فَقَالَ لي أمنكم هَذَا قلت نعم يَا أَمِير الْمُؤمنِينَ قَالَ مَا لَهُ قَاتله الله كفى الله أمة مُحَمَّد شَره وَالله أَنِّي لأحسب أَن للْمُسلمين مِنْهُ يَوْمًا عصيبا۔
(العلل ومعرفة الرجال)
یعنی حضرت عمر بن خطاب مذحج کی ایک جماعت کے پاس تشریف لے گئے ان میں الاشتر بھی تھا، پس آپ نے اس میں نظر جمادی اور خوب غور سے دیکھا اور فرمایا: یہ کون ہے؟ انہونے کہا: یہ مالک بن حارث ہے۔ تو آپ نے فرمایا:ا سے کیا ہے اللہ اسے قتل کرے!بے شک میں مسلمانوں کیلئے اسکی طرف سے انتہائی سخت (تکلیف دہ) دن دیکھ رہا ہوں۔♦️
♦️علامہ قرطبی نے لکھا:
فَكَانَ مِنْهُ فِي الْفِتْنَةِ مَا كَانَ
(تفسير القرطبي)
پھر اس کی طرف سے فتنہ میں وہی ہوا جو ہوا۔♦️
(سند صحیح)
♦️00-أحمد بن حنبل الشيباني(ثقة حافظ فقيه حجة)
♦️01- يزيد بن زريع العيشي( ثقة ثبت)
♦️02-شعبة بن الحجاج العتكي( ثقة حافظ متقن عابد)
♦️03-عمرو بن مرة المرادي(ثقة)
♦️04-عبد الله بن سلمة المرادي(ثقة ،تغير في آخر عمره)
♦️♦️اس صحیح اثر کی سند پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ عبداللہ سلمہ اخری عمر میں تغیر کا شکار ہوگے تھے۔اسکا جواب ہے کہ جب عمرو بن مرہ ان سے روایت کرتے ہیں تو وہ تغیر سے قبل ہوتی ہے، نیز عمرو بن مرۃ عن عبداللہ بن سلمہ سے مروی سند کی توثیق 21 محدثین سے پوسٹ میں موجود ہے۔♦️♦️
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️10-ام المومنین عائشہ رضی کی طرف جنگ جمل میں زخمی ہونے کے بعد الاشتر النخعی نے اونٹ کا تحفہ کلیب کے ہاتھوں بیھجا اور سلام عرض کروایا۔
37757 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ------
(المصنف في الأحاديث والآثار)
کہ آپکا بیٹا آپ کو سلام کہتا ہے۔
قَالَ: يَا كُلَيْبُ , إِنَّكَ أَعْلَمُ بِالْبَصْرَةِ مِنَّا-- قَالَ: اذْهَبْ بِهِ إِلَى عَائِشَةَ وَقُلْ: يُقْرِئُكَ ابْنُكَ مَالِكٌ السَّلَامَ ()
مگر جواب میں امی عائشہ رضی نے جواب دیا:
فَقَالَتْ: لَا سَلَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ , إِنَّهُ لَيْسَ بِابْنِي , (المصنف في الأحاديث والآثار)
اس پر سلامتی نہ ہو اور وہ میرا بیٹا نہیں ہے اور اونٹ لینے سے انکار کردیا۔
امی عائشہ رضی کیونکہ مومنین کی ماں تھی پس ثابت ہوگیا کہ الاشتر النخعی ایک منافق انسان تھا۔ اس کیلئے دعا نہیں کی جائیگی۔♦️
(نوٹ بعض جہلا منکر الحدیث نے یہاں بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر عبداللہ بن یونس پر جرح کرنے شروع کردی، جبکہ عبداللہ بن یونس اس روایت کا راوی نہیں بلکہ پوری کی پوری مصنف کا مرکزی راوی ہے۔ اور مصنف ایک مشہور معروف کتاب ہے اسلئے اسکی سند پر اعتراض کرنے والا جرح اور تعدیل کے علم سے نابلد ہے۔)پھر بھی اگر کسی کو تکلیف ہے تو اسی اثر کی دوسری سند محمدبن جریر طبری سے موجود ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️11-ام المومنین صفیہ رضی کی توہین:
کنانہ جو امی صفیہ رضی کے غلام تھے ان سے مروی ہے کہ:
2666 - حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أَنَا زُهَيْرٌ، نَا كِنَانَةُ قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ لِتَرُدَّ عَنْ عُثْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَلَقِيَهَا الْأَشْتَرُ فَضَرَبَ وَجْهَ بَغْلَتِهَا حَتَّى مَالَتْ، فَقَالَتْ: " رُدُّونِي لَا يَفْضَحُنِي هَذَا الْكَلْبُ قَالَ: فَوَضَعْتُ خَشَبًا بَيْنَ مَنْزِلِهَا وَبَيْنَ مَنْزِلِ عُثْمَانَ، يَنْقُلُ عَلَيْهِ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ "
(مسند ابن الجعد)♦️
عثمان کے دفاع میں سیدہ صفیہ رضی ایک خچر پر سوار ہرکر نکلیں، میں اُنکے خچر کو ہانک رہا تھا، راستہ میں الاشتر ملا ا س نے خچر کے منہ پر مارا یہاں تک کہ وہ مڑ گیا۔ ♦️♦️اورامی صفیہ نے فرمایا:
فَقَالَتْ: " رُدُّونِي لَا يَفْضَحُنِي هَذَا الْكَلْبُ
مجھے واپس جانے دو تاکہ یہ کتا مجھے بے نقاب نہ کردے۔♦️♦️
پھر میں نے صفیہ رضی اور عثمان رضی کے گھر کے درمیان لکڑی رکھ دی جس پر کھانا پینا لایا جاتا تھا۔
اس روایت کی سند بالکل صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
♦️00-علي بن الجعد الجوهري , الكنيه: أبو الحسن(ثقة )
♦️01-زهير بن معاوية الجعفي , الكنيه: أبو خيثمة(ثقة ثبت)
♦️02-كنانة مولى صفية بنت حيي(ثقة )
(نوٹ بعض جہلا نے کنانہ پر بلاوجہ جرح کرنی کی ناکام کوشش کی جبکہ اس کی توثیق کئی محدثین سے موجود ہے۔
♦️1حافظ ابن حجر نے اسکو چوتھے طبقہ کا مقبول راوی قرار دیا اور چوتھے طبقہ کے بارےمیں مقدمہ میں لکھا ہے کہ اسمیں شامل راوۃ ثقہ ہیں۔
♦️2۔ امام عجلی نے اسکو ثقہ قرار دیا۔
♦️3۔ نور الدین ہیثمی نے اسکو ثقہ قرار دیا۔
♦️4۔ امام حاکم نے کنانہ عن صفیہ سے مروی ایک روایت پر صحیح الاسناد کا حکم لگایا (اور ذہبی نے تلخیص میں موافقت کی ہوئی ہے۔)
♦️5- کچھ جہلا نے ذہبی کے کلمہ وثق سے اسکی توثیق کا رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ وثق کا کلمہ ہرجگہ پر راوی کی توثیق کی نفی کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ اس پر بعد میں تفصیلی پوسٹ کی جائیگی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️12- امام اہلسنت امام احمد ابن حنبل سے انکی ثقہ شاگرد مھنی بن یحییٰ الشامی نے انکے منہج کو سمجھتے ہوئے الاشتر النخعی اور عبداللہ بن الکواء دونوں کے بارے میں سوال کیا تو امام احمد ابن حنبل نے دونوں سے روایت حدیث لینے سے منع کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الاشتر النخعی کا درجہ عبداللہ بن الکواء کی طرح ہے جو خوارجیوں کا سردار تھا۔
837 - وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: ثَنَا مُهَنَّى وَدَفَعَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ سَمِعَ مُهَنَّى، قَالَ: سَأَلْتُ أَحْمَدَ عَنْ مَالِكٍ الْأَشْتَرِ، يُرْوَى عَنْهُ الْحَدِيثَ؟ قَالَ: لَا، وَسَأَلْتُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْكَوَّاءِ؟ قَالَ: كُوفِيُّ , قُلْتُ: يُرْوَى عَنْهُ الْحَدِيثُ؟ قَالَ: لَا "(السنة للخلال)♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️12-امام ابو نعیم الاصبھانی متوفی 430ھ نے لکھا:
بعده على اسْتِخْلَاف عُثْمَان بن عَفَّان رَضِي الله عَنهُ وأرضاه،-------وَشهد لَهُ بهَا فِي غير مجْلِس مَعَ إخْبَاره أَنه وَأَصْحَابه عِنْد ظُهُور الْفِتْنَة على الْهدى---وَأَن مخالفيه على ضلال، وَذَلِكَ عِنْد ظُهُور من حرم صُحْبَة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ
اور اسکے بعد عثمان کی خلافت پر اللہ ان سے راضی اور خوش ہو۔ اور انکے ساتھی فتنہ کے وقت ہدایت پر تھے، اور انکے مخالفین گمراہ تھے۔
قائدهم الأشتر فِي إخوانه من أهل الْجَهْل والغي من أهل الْكُوفَة من قبائل عبس أول قوم أَحْدَثُوا وانتهكوا حُرْمَة الْمَدِينَة وأحدثوا فِيهَا فباءوا بلعنة رَسُول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ۔
(الإمامة والرد على الرافضة)
اور ان گمراہ کا سردار الاشتر النخعی اور اسکے ساتھی اہل جہل میں سے اور کوفہ کے غلط لوگوں میں سے تھے یعنی قبائل عبس وہ پہلے لوگ تھے جنہونے مدینہ کی حرمت کو پامال کیا اور اسمین بدعت جاری کی تو رسول اللہ کی ان پر لعنت ہوں۔♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️13-وحضرت علی رضی کا عثمان رضیکے قاتلوں پر لعنت کرنا:
37757 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ-----
(مصنف ابن أبي شيبة)
مصنف نے کلیب بن شھاب الجرمی ثقہ سے روایت نقل کی ہے۔ نہ انہونے فرمایا:
قَالَ: ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ وَكَانَ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ , قَالَ: -----مَا قَوْلُ صَاحِبِكَ فِي عُثْمَانَ؟ ----
(مصنف ابن أبي شيبة)
محمد بن حاطب الجمحی صحابہ رسول نے علی رضی سے پوچھا کہ میری قول کے لوگ عثمان رضی کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو علی رضی کے آس پاس ک لوگوں نے انہیں برا بھلا کہا تو علی رضی کی پیشانی پر ناپسندیدگی کا اظہار ہورہا تھا۔
قَالَ: فَسَبَّهُ الَّذِينَ حَوْلَهُ , قَالَ: فَرَأَيْتُ جَبِينَ عَلِيٍّ يَرْشَحُ كَرَاهِيَةً لِمَا يَجِيئُونَ بِهِ
(مصنف ابن أبي شيبة)
پھر علی رضی نے فرمایا:
قَالَ: فَقَالَ عَلِيٌّ: أَخْبِرْهُمْ أَنَّ قَوْلِي فِي عُثْمَانَ أَحْسَنُ الْقَوْلِ , إِنَّ عُثْمَانَ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
(مصنف ابن أبي شيبة)
تم عثمان رضی کے بارے میں میری سب سےاچھی بات ان لوگوں کو بتادینا کہ وہ اہل ایمان میں سے تھا، نیک اعمال کرنے والا تھا، اللہ سے ڈرنے والے تھے، اور حسن سلوک کرنے والے اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
(وسند صحیح رجال ثقہَ)♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️14-مصنف نے محمد بن حنیفہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عباس نے فرمایا: جنگ جمل کی شام مدینہ سے چیخ کی آواز سنی تو خبر آئی کہ ام المومنین عائشہ
37793 - يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِيَّةِ، قَالَ:----- فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ وَجَدَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ وَاقِفَةً فِي الْمِرْبَدِ تَلْعَنُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ
(المصنف في الأحاديث )
عثمان رضی کے قاتلوں پر لعنت کررھی ہیں۔
تو حضرت علی نے فرمایا:
فَقَالَ عَلِيٌّ: لَعَنَ اللَّهُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ فِي السَّهْلِ وَالْجَبَلِ وَالْبَرِّ وَالْبَحْرِ
(المصنف في الأحاديث )
لعنت ہو عثمان کے قاتلوں پر وہ چاہئے نرم زمین میں ہوں، یا پہاڑوں میں خشکی میں ہوں یا تری میں۔♦️
♦️00- أبو بكر بن أبي شيبة(ثقة )
♦️01-يزيد بن هارون الواسطي (ثقة متقن)
♦️02-: سعد بن طارق الأشجعي،أبو مالك (ثقة)
♦️03-سالم بن أبي الجعد الأشجعي(ثقة)
♦️04-محمد بن الحنفية الهاشمي / ولد في :8 / توفي في :73
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
♦️♦️پس ثابت ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی مظلومانہ شہید کئے گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی بشارت کےمطابق ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے منافقین تھے۔ اور صحیح سند سے ثابت ہوگیا کہ ان منافقین کا سردار مالک بن حارث الاشتر النخعی تھا، اور وہی عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے والا میں شامل تھے اور جب اسکو بصرہ کی خلافت نہیں ملی تو اسنے اپنے عمل کا خود اعتراف کرلیا کہ اسی کےلئے تو ہم (الاشتر اور اسکے شتونگڑوں) نے عثمان کا قتل کیا تھا۔
(نوٹ کس کو خیال گزرے کہ یہ تو علی کا ساتھی تھا تو عرض ہے کہ یہ اپنے زاتی مفاد کیلئے علی کے ساتھ چپکا ہوا تھا، مگر اندر سے یہ پکا منافق لعین، عثمان رضی کا قاتل تھا)♦️♦️
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ