Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بعض آیات کی تفسیر کرنا اور تعلیق لگانا

  علی محمد الصلابی

سیّدنا عمرؓ کا بعض آیات کی تفسیر کرنا اور تعلیق لگانا

سیّدنا عمرؓ قرآن کی تفسیر بالرائے کو باعثِ گناہ سمجھتے تھے، اسی لیے جب آپ سے اللہ تعالیٰ کے کلام: ’’ وَالذَّارِیَاتِ ذَرْوًا‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: اس سے مراد ہوائیں ہیں اور اگر میں رسول اللہﷺ کو یہ تفسیر کرتے ہوئے نہ سنتا تو میں ایسا نہ کہتا۔ آپ سے کہا گیا: ’’فَالْحٰمِلَاتُ وَقْرًا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد بادل ہیں اور اگر میں رسول اللہﷺ کو اس کی تفسیر کرتے ہوئے نہ سنتا تو ایسا نہ کہتا۔ اور کہا گیا: ’’فَالْجَارِیَاتِ یُسْرًا‘‘ تو آپ نے فرمایا: اس سے مراد کشتیاں ہیں اور اگر میں رسول اللہﷺ کو اس کی تفسیر کرتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو ایسا نہ کہتا۔ اور کہا گیا: ’’فَالْمُقَسِّمَاتُ اَمْرًا‘‘ سے کیا مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد فرشتے ہیں۔ اگر میں نے رسول اللہﷺ سے اس کی تفسیر نہ سنی ہوتی تو ایسا نہ کہتا۔

 (مسند أحمد: الموسوعۃ الحدیثیۃ: حدیث، 311)

آیات کی تفسیر میں آپ کا ایک خاص منہج اور انداز تھا۔ اگر آپ رسول اللہﷺ کی کوئی تفسیر پاتے تو اسے لے لیتے اور وہی افضل ہوتا، جیسا کہ اس کی مثال ابھی ہمارے سامنے سے گزری اور جب بعض صحابہؓ کے پاس جن سے تفسیر کے علم ہونے کا امکان ہوتا جیسے کہ ابنِ عباس، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود اور معاذ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے پاس تفسیر نہ پاتے، مثال کے طور پر ایک دن سیدنا عمرؓ نے نبی کریمﷺ کے صحابہؓ سے کہا کہ یہ آیت کریمہ: 

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمۡ اَنۡ تَكُوۡنَ لَهٗ جَنَّةٌ مِّنۡ نَّخِيۡلٍ وَّاَعۡنَابٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ لَهٗ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَاَصَابَهُ الۡكِبَرُ وَلَهٗ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَآءُ فَاَصَابَهَاۤ اِعۡصَارٌ فِيۡهِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ‌ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ ۞

(سورة البقرة: آیت، 266)

ترجمہ: کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، اس کے لیے اس میں ہر قسم کے کچھ نہ کچھ پھل ہوں اور اسے بڑھاپا آ پہنچے اور اس کے کمزور بچے ہوں، پھر اسے ایک بگولا آ پہنچے،جس میں ایک آگ ہو تو وہ بالکل جل جائے۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم سوچو۔ ‘‘

کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ صحابہ نے کہا: اللہ اعلم۔

 سیّدنا عمرؓ غصہ ہو گئے اور کہا: تم کہو کہ ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ ابنِ عباسؓ نے فرمایا: امیر المؤمنین! اس آیت کے بارے میں میرے دل میں کچھ بات ہے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اپنی بات کہو اور اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھو۔ ابنِ عباسؓ نے فرمایا: ایک عمل کی مثال دی گئی ہے۔ سیدنا عمرؓ نے پوچھا: کون سا عمل؟ ابنِ عباسؓ نے کہا: کوئی بھی نیک عمل۔ عمرؓ نے فرمایا: اس مال دار آدمی کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کا عمل کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے شیطان بھیجتا ہے، پھر وہ گناہ والے اعمال کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے سارے اعمال برباد کر دیے جاتے ہیں۔

(تفسیر ابن کثیر: جلد، 4 صفحہ، 266)

ایک روایت میں ہے کہ ابنِ عباسؓ نے فرمایا: اس آیت میں عمل مراد ہے۔ ابنِ آدم جب بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس کے آل و اولاد کی کثرت ہو جاتی ہے تو وہ اپنے باغ کا بہت محتاج ہوتا ہے، اسی طرح جب وہ قبر سے اٹھایا جائے گا تو اپنے عمل کا بہت ہی محتاج ہوگا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: اے میرے بھتیجے! تم نے صحیح کہا۔ 

(اخبار عمر ابن الخطاب: الطنطاویات: صفحہ، 307 نقلًا عن الریاض النظرۃ)

آپ نے بعض آیات پر تعلیقات لگائیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان

الَّذِيۡنَ اِذَآ اَصَابَتۡهُمۡ مُّصِيۡبَةٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ ۞ اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ ۞

(سورۃ البقرة: آیت، 156اور157)

ترجمہ: ’’وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔"

اس آیت کے بارے میں آپ نے فرمایا: کیا ہی بہتر ہیں دونوں عدل اور کیا ہی بہتر بلندی۔ 

(فتح الباری: جلد، 8 صفحہ، 49)

آپ دونوں عدل سے نماز اور رحمت اور بلندی سے ہدایت مراد لے رہے تھے۔ آپ نے ایک قاری کو پڑھتے ہوئے سنا: 

يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِ۞

(سورۃ الإنفطار: آیت، 6)

ترجمہ: ’’اے انسان! تجھے اپنے ربّ کریم سے کس چیز نے بہکایا۔‘‘

تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: ’’الجہل‘‘ یعنی جہالت نے۔

آپ نے اللہ تعالیٰ کے قول:

وَاِذَا النُّفُوۡسُ زُوِّجَتۡ ۞

(سورة التکویر: آیت، 7) 

ترجمہ: ’’اور جب جانیں (جسموں سے) ملائی جائیں گی‘‘ کی تفسیر اس طرح کی: فاجر فاجر کے ساتھ ہوگا، اور بُرا بُرے کے ساتھ۔

اور اللہ تعالیٰ کے قول:

تُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ تَوۡبَةً نَّصُوۡحًا ۞

(سورۃ التحريم آیت 8) 

ترجمہ: ’’تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو‘‘ کی تفسیر اس طرح کی ہے: یعنی انسان ایسی توبہ کرے کہ پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے تو یہی توبہ مکمل اور ضروری ہے۔

ایک دن آپ ایک راہب کے گھر کے پاس سے گزرے، اس کو ’’اے راہب‘‘ کہہ کر پکارا۔ راہب جھانکنے لگا۔ سیدنا عمرؓ اس کی طرف دیکھنے لگے اور رونے لگے۔ آپ سے کہا گیا: امیر المؤمنین! اس کی وجہ سے

آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: مجھے اللہ کی کتاب میں اس کا یہ فرمان یاد آگیا

عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ۞ تَصۡلٰى نَارًا حَامِيَةً ۞

(سورة الغاشیۃ: آیت، 3، 4) 

ترجمہ: ’’محنت کرنے والے، تھک جانے والے ۔گرم آگ میں داخل ہوں گے ۔‘‘انہی آیات نے مجھے رلایا ہے۔ 

(الخلافۃ الراشدۃ والدولۃ الأمویۃ: د/ یحیٰی الیحیٰی: صفحہ، 305)

آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ (سورة النساء: آیت، 51) میں ’’جبت‘‘ کی تفسیر جادو سے اور ’’طاغوت‘‘ کی تفسیر شیطان سے کی ہے۔ 

(المستدرک: الحاکم: جلد، 2 صفحہ، 270)