شیعوں سے سنیوں کا میل جول رکھنے، اُن کی تقریبات وغیرہ میں شرکت کرنے اور ان کے مقتداء کا اکرام کرنے کا حکم
شیعوں سے سنیوں کا میل جول رکھنے، اُن کی تقریبات وغیرہ میں شرکت کرنے اور ان کے مقتداء کا اکرام کرنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کبیر پور ضلع سابر کانٹھا کا ایک دیہات ہے جس میں تقریباً اہلِ حق، بریلوی، شیعہ وغیرہ تمام مکتب فکر کے لوگ رہتے ہیں، آپسی اتفاق الحمدللہ قابلِ تعریف ہے، خصوصاً اجتماعی مسائل میں، نیز اکثریت اہلِ حق کی ہے، لہٰذا اُن کی رائے کا زیادہ دخل ہے، ان تمام فرقوں کا آپسی تعلق الحمدللہ نہایت ہی عمدہ اور قابل تعریف ہے، خصوصاً شیعوں کو کسی کام میں بغیر اہلِ حق کے آنکھیں ہی نہیں کھلتی۔
لہٰذا استفتاء یہ ہے کہ شیعوں نے اپنے کسی بڑے پیر کی خلافت ان کے بیٹے کو عطا کی اور خلیفہ بنایا، اس قوم میں پیر پرستی غالب ہونے کی وجہ سے پیر کے گاؤں جا کر مختلف انداز سے خوشیاں منائی گئیں، منجملہ ان خوشیوں کے کچھ دنوں کے بعد ان لوگوں نے کھانا پکا کر پورے گاؤں کی دعوت کی، اس دعوت میں مرد و عورت کا باقاعدہ معیاری انتظام تھا جو صرف اہلِ حق کی رعایت میں تھا، ورنہ وہ لوگ اپنے آپسی معاملات میں یہ انتظام نہیں کرتے مرد و عورت ساتھ ہوا کرتے ہیں، نیز اس دعوت میں پیر کے نام کا چڑھاوا تھا اور نہ کوئی نذر، اور دعوت میں منجانب شیعہ کے نہ کوئی قباحت شرعی تھی، نیز اس گاؤں میں اس خصوصی دعوت کے علاؤہ تمام لوگ اپنی شادی بیاہ وغیرہ میں ایک دوسرے کے یہاں شرکت کرتے ہیں، نیز خوشی غمی موت و میت وغیرہ اُمور آپس میں بغرض تعزیت، دلجوئی مبارک بادی و غمخواری وغیرہ اُمور میں ایک دوسرے کی خوب رعایت کرتے ہیں، خصوصاً اہلِ شیعہ لوگ، اہلِ حق سے زیادہ اُن اُمور کی رعایت کرتے ہیں، نیز بعض آپس میں ایک دوسرے کے قرابت دار ہیں، کیونکہ چند سال قبل تمام ایک تھے، الحمدللہ دعوت و مدارس کی محنت سے بعض بڑے بڑے صراط مستقیم پر گامزن ہوئے، اور اہلِ حق میں شامل ہو گئے، نیز اہلِ حق کی مسجد کی زمینیں شیعوں کو مزارعت پر دی جاتی ہیں، اسی طرح دیگر معاملات بیع و شراء و غیرہ بڑے اچھے انداز سے ہوتے ہیں، جن میں اہلِ حق کی بات غالب رہتی ہے، اور باقائدہ و با شرع مسلمانوں کی طرح وہ لوگ بھی معاملہ کرتے ہیں، خلاصہ یہ کہ الحمدللہ آپسی امور بڑے ہی اچھے ہیں، نیز خود سائل کا مکان اُن کے قرب و جوار میں ہے تو کبھی کبھی پڑوس کے حق کی وجہ سے چھوٹی موٹی کھانے پینے کی چیزوں کا لین دین رہتا ہے، ہم لوگ اُن کی کھانے کی چیزوں کو استعمال نہیں کرتے، لیکن وہ لوگ ہمارے کھانے کی چیزوں کو بہ طیب خاطر کھا لیتے ہیں۔
لہٰذا اصل استفتاء یہ ہے کہ مذکورہ دعوت میں اہلِ حق شرکت کریں یا نہیں؟ قباحت صرف اتنی ہے کہ داعی شیعہ ہیں۔ اہلِ حق میں دو (2) رائے ہیں، منکرین حضرات کی یہ دلیل ہے کہ اُن لوگوں نے حضرات اسلاف کے ساتھ ظلم و زیادتی کی تھی، لہٰذا کیا مخالفین کے ساتھ یہ رویہ روا ہو سکتا ہے؟ اور ظاہر ہے کہ شرکت نہ کرنے سے اُن کو تکلیف ہو رہی ہے، کیونکہ اس کا یہ کہنا کہ ہمیں آپ کی جماعت کی زیادہ قدر و قیمت ہے، اور آپ ہماری دعوت میں شریک نہیں ہوئے، حالانکہ ہماری رعایت میں اُن لوگوں نے تمام طرح کی رعایت کی تھی، نیز بعض عورتوں سے بعض منکرین کی طرف منسوب کرتے ہوئے حرمت تک کا قول سنا۔ لہٰذا اس مسئلہ میں ہماری رہبری فرمائیں۔ نیز شیعوں کے پیر سے سلام و مصافحہ اور ملاقات کرنا کیسا ہے؟
جواب: شیعوں کا جو فرقہ خلافِ شرع عقائد رکھتا ہو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلافِ عظام پر تبرا کرتا ہو (اور آج کل ہندؤستان میں ایسے ہی شیعوں کی اکثریت ہیں، جو ظاہرداری میں سنیوں سے بہت اچھا معاملہ کرتے ہے لیکن اندرونی طور پر مذہب اہلِ سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھتے ہیں) تو ایسے لوگوں سے سنیوں کا میل جول اور اُن کی تقریبات وغیرہ میں اس طرح شرکت کرنا کہ عوام کے ذہن سے اُن کے مذہب کی برائی نکل جائے ہرگز جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اُن کے کسی پیر یا مقتداء کا باقاعدہ اکرام بھی سنیوں کی طرف سے نہیں ہونا چاہئے، اور اُن سے قرابت اور رشتہ داری بھی درست نہیں ہے۔
:الرافضى ان كان ممن يعتقد الالوهية في على اوان جبرئيل عليه السلام غلط في الموحى او كمان ينكر صحبة الصديق او يقذف السيدة فهو كافرة لمخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة بخلاف ما اذا كان يفضل عليا او ايسب الصحابة، فانه مبتدع لا کافر:
(شامی جلد 4، صفحہ 135)
(کتاب النوازل جلد 16، صفحہ 371)