Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غزوۂ احد، بنو مصطلق اور خندق

  علی محمد الصلابی

غزوۂ احد، بنو مصطلق اور خندق

بلند ہمت رہنا اور ذلت و رسوائی کی موت کو نہ برداشت کرنا اگرچہ شکست کی علامتیں صاف ہی کیوں نہ ہوں، سیدنا فاروقؓ کے خاص مجاہدانہ اوصاف میں سے ہیں، جیسا کہ دوسرے بڑے اسلامی معرکہ جس میں رسول اللہﷺ بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے، یعنی غزوۂ احد میں پیش آیا۔

لڑائی جب اختتام کو پہنچ رہی تھی، ابوسفیان کھڑا ہوا اور کہا: کیا محمد زندہ ہے؟ آپﷺ نے (صحابہؓ سے) فرمایا: تم جواب نہ دو۔ اس نے پھر کہا: کیا مسلمانوں میں ابن ابی قحافہ زندہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جواب نہ دو۔ اس نے کہا: کیا مسلمانوں میں ابنِ خطابؓ زندہ ہے؟ پھر اس نے خود ہی کہا: یہ سب قتل کر دیے گئے، اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ (یہ سن کر) سیدنا عمرؓ خود کو قابو میں نہ رکھ سکے اور کہا: اے اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹ کہا۔ اللہ نے تیری رسوائی کا سارا سامان باقی رکھا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ’’أعل ہبل‘‘ ھبل کی جے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اسے جواب دو۔ صحابہؓ نے کہا: ہم کیا کہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: کہو: اَللّٰہُ أَعْلٰی وَأَجَلَّ اللہ سب سے بلند و بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا: إِنَّ لَنَا عُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ۔ ہمارے لیے ’’عزیٰ‘‘ ہے، اور تمہارے لیے ’’عزیٰ‘‘ نہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: جواب دو۔ صحابہؓ نے کہا: ہم کیا کہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: کہو اَللّٰہُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَالَکُمْ اللہ ہمارا مالک ومددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔ 

ابوسفیان نے کہا: آج کا دن بدر کا بدلہ ہے اور جنگ مثل ڈول ہے۔ تم لاشوں کو مثلہ کیا ہوا پاؤ گے اس کا میں نے حکم نہیں دیا ہے، تم مجھے برا بھلا مت کہنا۔ 

(صحیح السیرۃ النبویۃ: علی محمد الصلابی: صفحہ، 60)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمرؓ نے جواب دیا: ہم تم برابر نہیں، ہمارے مقتول جنت میں اور تمہارے مقتول جہنم میں ہوں گے۔ 

(السیرۃ النبویۃ، عرض واقع وتحلیل أحداث: الصلابی: صفحہ، 868)

تو ابوسفیان نے کہا: اے عمرؓ میں تم کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا ہم نے محمد کو قتل کر دیا؟ عمرؓ نے کہا: نہیں، وہ اب بھی تمہاری بات سن رہے ہیں۔ اس نے کہا: تم میرے نزدیک ابن قمئہ سے زیادہ سچے اور نیک ہو۔ ابن قمئہ نے لوگوں سے کہا ہے کہ میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔ 

رسول اللہﷺ ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ابوسفیان کا پوچھنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مشرکین دیگر مسلمانوں کے مقابلے میں ان افراد کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، وہ جانتے تھے کہ یہی لوگ اسلام کے اصل محافظ ہیں، انہی کی وجہ سے اسلامی عمارت، اسلامی مملکت، اور اسلامی نظام کے ستون قائم ہیں۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان افراد کی موت کے بعد پھر دوبارہ اسلام قائم نہ ہوسکے گا۔ شروع میں ابوسفیان کی تحقیر کے لیے اس کا جواب دینے سے خاموشی اختیار کی گئی، لیکن جب وہ خوشی سے بدمست ہو گیا اور غرور سے بھر گیا تب صحابہؓ نے اسے حقیقت حال سے خبردار کیا اور مکمل پامردی سے اس کا جواب دیا۔

غزوہ بنو مصطلق میں بھی فاروقؓ کا منفرد مؤقف تھا۔ جابر بن عبداللہ انصاریؓ واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہم مجاہدین میں سے تھے، ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات ماری، انصاری نے کہا: اے انصار! مدد کے لیے آؤ، اور مہاجر نے کہا: اے مہاجرو! مدد کے لیے آؤ۔ رسول اللہﷺ نے اسے سن کر فرمایا: ’’دَعُوْہَا فَاِنَّہَا منتنۃ‘‘ اسے چھوڑ دو، یہ ناپاک بدبودار ہے۔ جب عبداللہ بن ابی نے اس واقعہ کو سنا تو کہا: کیا واقعی مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ سن لو! اللہ کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس گئے تو باعزت لوگ ذلیلوں کو یقینا نکال دیں گے۔ عمر بن خطابؓ نے یہ بات سنی اور رسول اللہﷺ کے پاس تشریف لائے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ 

(صحیح البخاری: المغازی: حدیث: 4043، السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد، 2 صفحہ، 392 )

اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے کہا: آپ عباد بن بشر کو حکم دیں کہ وہ اسے قتل کر دیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عمرؓ! جب لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے تب کیا کرو گے؟ نہیں، بلکہ لشکر کو کوچ کرنے کا حکم دے دو اور یہ ایسی گھڑی تھی کہ عموماً اس وقت اللہ کے رسول کوچ نہ کرتے تھے۔ پھر لوگوں نے کوچ کیا۔ 

(السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد، 2 صفحہ، 392)

اس طرح سے نبوی رہنمائی اور مواقف سے سیدنا عمرؓ نے مصالح اور مفاسد میں تمیز کی فہم و بصیرت پائی، جیسے کہ یہ فہم و بصیرت اس فرمان نبوی سے بالکل واضح ہے:

فَکَیْفَ یَا عُمَرُ إِذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلْ أَصْحَابَہٗ۔ 

(صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق: صفحہ، 189)

ترجمہ: ’’اے عمر جب لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے تب کیا کرو گے؟‘‘

اس نبوی رہنمائی میں سیاسی شہرت کی مکمل حفاظت اور قوم کو داخلی انتشار سے محفوظ رکھنے کی حکمت نمایاں ہے۔ نیز ان دونوں شہرتوں میں بڑا فرق ہے کہ لوگ آپﷺ سے آپﷺ کے صحابہؓ کی شدید محبت کا ذکر خیر کریں اور خود اپنے قائد ابوسفیان کی زبانی اس کی تائید اس طرح کریں کہ میں نے کسی کو کسی سے اس طرح محبت کرتے نہیں دیکھا جس طرح محمد کے صحابہ محمد سے محبت کرتے ہیں

(السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد ، 2 صفحہ، 392 )

اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ ہو کہ محمدﷺ اپنے صحابہؓ کو قتل کرتے ہیں۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آپﷺ کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کو عام کرنے کے لیے بڑی سازشوں کی ضرورت تھی، جو مدینہ میں مسلمانوں کی داخلی صف میں دشمنوں کی شمولیت کی شکل میں پوری ہوسکتی تھی، کیونکہ وہ اس سے بالکل مایوس ہوگئے تھے کہ اب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے والہانہ لگاؤ اور عظیم قربانیوں کے سامنے ہم کچھ کر سکیں۔ 

غزوہ خندق کے بارے میں جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد عمر بن خطابؓ آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے، اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے سورج ڈوبتے ڈوبتے نماز پڑھی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اور میں نے، اللہ کی قسم! ابھی پڑھی ہی نہیں۔ پھر ہم نبیﷺ کے ساتھ ’’بطحان‘‘ گئے۔ آپﷺ نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب پڑھی۔ 

(السیریۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد ، 2 صفحہ، 409)