حضرت عمرؓ ڈرپوک اور بزدل تھے (حياة الصحابہ)
زینب بخاری♦️حضرت عمرؓ ڈرپوک اور بزدل تھے (حياة الصحابہ)
(الجواب اہلسنّت)
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ
ترجمہ “تحقيق بغض و عداوت ان کے منہ سے پھسل پڑی ہے”
مذکورہ ترجمہ پورے صفحہ کے کسی لفظ کا نہ ترجمہ ہے اور نہ ہی حاصل ترجمہ بلکہ یہ وہی بغض ہے جو آگ کی طرح شیعہ کلیجہ کو کھائے اور جلائے جا رہا ہے ایک آدھ انگارہ باہر کو بھی پھسل پڑا۔ عربی خواں تو صفحہ کا مطالعہ کر کے جھوٹوں کے غلیظ پروپیگنڈہ سے واقف ہو ہی جائیں گے اردو خواں دوستوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مذکورہ صفحہ میں اسلام کے عظیم فرزند حضرت فاروق اعظمؓ کے ایمان لانے پر کفار کا ظلم و ستم اور فاروق اعظمؓ کی بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا نمونہ مذکور ہے خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابن اسحاق نے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت حضرت فاروق اعظمؓ مسلمان ہوئے تو پوچھا کہ کون میرا اسلام لانا کفار تک پہنچائے گا (یعنی میرے اسلام لانے کی خبر کون کفار کو دے گا) تو بتایا گیا کہ جمیل بن معمر، آپؓ اس کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تجھے پتہ نہیں کہ میں مسلمان ہو کر دین محمدﷺ میں داخل ہو چکا ہوں تو جمیل اٹھا اور بیت اللہ کے دروازے پر آ کر اعلان کرنے لگا اور بلند آواز سے کہنے لگا
اے قریش کی جماعت جو کعبہ کے گرد اپنی مجلسیں جماتے بیٹھے ہو، سنو عمر صابی ہو گیا (پہلے مشرک مسلمانوں کو صابی کا طعنہ دیتے تھے اب وہابی کا) راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے سے کہتے جاتے تھے اس نے جھوٹ بولا میں تو مسلمان ہو گیا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔ (یہ سن کر) لوگ حضرت عمرؓ پر ٹوٹ پڑے آپ ان سے لڑتے رہے حضرت عمرؓ ان سے لڑتے رہے اور کافر حضرت عمرؓ سے لڑتے اور حملہ کرتے رہے یہاں تک کہ سورج سر پر آ گیا، حضرت عمرؓ لڑتے لڑتے تھک کر بیٹھ گئے اور کافر پر جمکھٹا کر کہ کھڑے رہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو تم سے ہو سکتا ہے کر لو، میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر ہم 3 سو آدمی ہو گئے تو تم کو یہاں سے نکال باہر کریں گے یا تم ہمارے دین میں مداخلت نہ کرو گے۔ (یعنی ہم سے جنگ نہ کرو گے ) اس اثنا میں ایک قریشی آدمی سرخ چادر اور رنگ دار قمیض پہنے آیا اس نے پوچھا تم یہاں کیوں جمع ہو تو لوگوں نے کہا کہ عمر تو بدمذہب ہو گیا تو اس شخص نے جواب دیا: پھر کیا ہوا، اس نے اپنے لئے دین پسند کر لیا ہے تم کیا چاہتے ہو کہ قبیلہ بنو عدی اپنا ایک فرد ( مارنے کے واسطہ ) تمہیں دے دیں، اسے چھوڑ دو اس پر لوگ ان کو چھوڑ کر ادھر ادھر سمٹ کر چلے گئے جیسے کپڑا لپیٹا جاتا ہے۔ ابن عمرؓ فرماتے ہیں میں نے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد اپنے والد سے پوچھا وہ شخص کون تھا جس نے آپ کے پاس سے لوگوں کو منتشر کیا تھا جبکہ لوگ آپ کو قتل کرنے پر ٹوٹ پڑے تھے تو انہوں نے فرمایا اے بیٹے وہ عاص بن وائل السہمی تھا۔
غور فرمائیے اس پوری عبارت میں “حضرت عمر رضی اللہ عنہ ڈرپوک اور بزدل تھے” اس مفہوم کا کوئی جملہ یا لفظ موجود ھے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ صفحہ حضرت عمرؓ کے کمال شجاعت پر کس قدر صاف اور واضح دلالت کر رہا ہے کہ چوک میں کھڑے ہو کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنے اسلام کا اعلان کیا اور پھر کفار کے ساتھ تن تنہا مقابلہ کیا، کفار کا جم غفیر ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ پرٹوٹ پڑا اور یہ جوان ان سب پر حاوی ہو گیا کیا اسی کو ڈرنا اور بزدلی کا مظاہرہ کرنا کہتے ہیں؟ محترم قارئین یہ ھے ان کرم فرماؤں کا انصاف اور دیانت داری۔ خُدا ہی جانتا ہے کہ اس طرح کی فریب کاری سے وہ اپنے نفس کو آخر کیسے مطمئن کرتے ہوں گے ایک مرد و باضمیر شخص بھی کم از کم دین کے بارے میں خلاف واقعہ رائے قائم کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ تو سوچتا بھی ہو گا مگر یہاں تو معاملہ ہی عجیب ھے۔
جب ایک چوری اور اس پر سینہ زوری! اللہ تعالیٰ اگر ہدایت کے دروانے بند ہی کر دے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟