صلح حدیبیہ اور ہوازن و غزوہ خیبر
علی محمد الصلابیصلح حدیبیہ اور ہوازن و غزوہ خیبر
صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے عمرؓ کو مکہ بھیجنے کے لیے بلایا تاکہ وہ اشراف قریش کو اپنی آمد کا مقصد بتا دیں۔ تو آپؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے اپنے بارے میں قریش سے خطرہ ہے، اور مکہ میں بنو عدی بن کعب کا کوئی فرد بھی نہیں ہے جو میری حفاظت کرسکے، نیز قریش سے میری عداوت اور ان کے لیے میری سختی سے بھی آپﷺ واقف ہیں۔ لہٰذا میں آپﷺ کو ایسا آدمی بتاتا ہوں جو ان کے نزدیک مجھ سے زیادہ باعزت ہے۔ وہ عثمان بن عفان ہیں۔ آپﷺ نے سیدنا عثمان بن عفانؓ کو بلایا، اور انہیں ابوسفیان و دیگر اشراف قریش کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہماری آمد کا مقصد جنگ کرنا نہیں ہے، بلکہ ہم خانہ کعبہ بیت اللہ کی زیارت اور اس کی تقدیس وتعظیم کرنے آئے ہیں۔
(السیریۃ النبویۃ: ابن ہشام: جلد، 3 صفحہ، 319)
جب صلح نامہ کے معاہدہ پر اتفاق ہو گیا اور صرف اس کی قرار دادوں کو لکھنا باقی رہا تو مسلمانوں میں اس معاہدہ سے متعلق سخت مخالفت ہوئی۔خاص طور سے ان دو قرار دادوں پر سخت اعتراض تھا جن میں ایک کے بموجب نبیﷺ کو ان مسلمانوں کو واپس لوٹانا ضروری تھا جو آپﷺ کے پاس آ کر پناہ لیں، جب کہ قریش کے لیے ان افراد کا لوٹانا ضروری نہ تھا جو مرتد ہو کر ان کی پناہ لیں اور دوسرے کے بموجب اس سے مکہ میں داخل نہ ہوں اور حدیبیہ ہی سے مدینہ واپس لوٹ جائیں۔
ان قرار دادوں پر سب سے مخالف اور اس کے بڑے معترض سیدنا عمر بن خطابؓ، قبیلہ اوس کے سردار اسید بن حضیر اور خزرج کے سردار سعد بن عبادہ تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمر بن خطابؓ اس معاہدہ کی علانیہ مخالفت کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، اس کا رسول ہوں۔ انہوں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، مسلمان ہو۔ انہوں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! وہ مشرک ہیں۔ انہوں نے کہا: پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کیوں یہ گھٹیا شرط مان رہے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔
(السیریۃ النبویۃ الصحیحۃ: جلد، 2 صفحہ، 409)
اور ایک روایت میں ہے:
أَ نَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ لَنْ أُخَالِفَ أَمْرَہٗ وَلَنْ یُّضَیِّعَنِیْ۔
(التربیۃ القیادیۃ: جلد، 3 صفحہ،463)
’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اس کے حکم کی خلاف ورزی ہرگز نہ کروں گا اور وہ مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا۔‘‘
عمرؓ نے کہا: کیا آپﷺ ہم سے کہتے نہ تھے کہ ہم خانہ کعبہ بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ٹھیک ہے، لیکن کیا میں نے کہا تھا کہ اسی سال؟ میں نے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم اس کے پاس جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے۔ عمرؓ کا بیان ہے: میں ابوبکرؓ کے پاس آیا اور ان سے کہا: اے ابوبکرؓ! کیا آپﷺ اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، مسلمان ہیں۔ میں نے کہا: کیا وہ مشرک نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ایسے ہی ہے۔ میں نے فرمایا: پھر کیوں ہم اپنے دین میں رسوائی برداشت کریں؟ ابوبکر صدیقؓ نے مجھے اعتراض اور مخالفت سے باز آنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپﷺ کی بات مان لو، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، آپﷺ نے جو حکم دیا ہے وہی حق ہے، ہم حکم الہٰی کی مخالفت ہرگز نہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہ کرے گا۔
(صحیح البخاری: حدیث، 596)
ابوجندلؓ کے دردناک اور دل دوز واقعہ کے بعد صحابہؓ نے دوبارہ صلح پر اعتراض کیا اور وہ ایک وفد کی شکل میں، جس میں عمر بن خطابؓ بھی تھے، رسول اللہﷺ کے پاس دفعات پر نظر ثانی اور دوبارہ صلح کا مطالبہ لے کر گئے۔ لیکن نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت، صبر، بردباری اور قوت دلیل کے ذریعہ سے صلح کی عظمت سے صحابہؓ کو مطمئن کردیا اور بتایا کہ یہ صلح مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور یہ ان کے لیے مدد ہے۔
(السیرۃ النبویۃ' ابن ہشام: جلد، 2 صفحہ، 228 أخبار عمر: صفحہ، 34)
نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ابوجندلؓ جیسے کمزوروں کے لیے عنقریب کوئی کشادگی اور راستہ نکالے گا۔ پھر آپﷺ کی خبر کے مطابق حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔ اس واقعہ میں سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے (بدنیتی سے) پاک اعتراض و مخالفت کا احترام کرنا سیکھا، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ آپؓ اپنے دور خلافت میں مصالح عامہ کے لیے بہترین رائے دینے پر صحابہؓ کو ہمت دلاتے تھے۔
(من معین السیرۃ: الشامی: صفحہ، 333)
اسلامی معاشرہ میں آزادی رائے کا احترام ہے، اسلامی معاشرہ میں ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کرے، اگرچہ یہ رائے کسی حاکم یا خلیفہ کے مؤقف پر نقد و اعتراض ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمان فرد کا یہ حق ہے کہ وہ مکمل امن وامان کے ماحول میں اپنا نقطۂ نظر واضح کرے، وہاں کوئی دہشت اور جبر نہیں ہوتا جو فکر و آزادی کو دبا دے۔ سیدنا عمرؓ کا آپﷺ سے بحث و مباحثہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی رائے یا نقطۂ نظر میں حاکم وقت سے حجت و معارضہ کرنا ایسا جرم نہیں ہے جو باعثِ سزا ہو اور معترض کو جیل کی تاریکیوں میں دھکیل دینے کا باعث بنے۔
(صحیح البخاری: حدیث، 3182 تاریخ الطبری: جلد، 2 صفحہ، 634)
صلح حدیبیہ کے موقع پر جو کچھ ہوا اس میں عمر فاروقؓ کا مؤقف کسی شک اور تردد پر مبنی نہ تھا، کیونکہ اسلام کی تائید و نصرت میں آپؓ کی قوت و شجاعت مشہور ہے، بلکہ آپؓ کو حقیقتِ حال کی وضاحت اور کافروں کی ذلت مطلوب تھی۔
السیرۃ النبویۃ: ابن ہشام: جلد، 3 صفحہ، 346)
اور جب صلح کی حکمت آپؓ کے سامنے واضح ہو گئی تو حدیبیہ کے موقع پر اپنے نظریہ پر شرم سار ہوئے اور فرمایا: میں نے اس دن جو کیا اور کہا تھا اس کے خوف سے برابر صدقہ کرتا ہوں، نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہوں اور غلام آزاد کرتا ہوں، اس امید پر کہ یہ باعثِ خیر بن جائیں۔
(صلح الحدیبیۃ: محمد أحمد باشمیل: صفحہ، 270)
اور شعبان 7ھ میں آپﷺ نے سیدنا عمرؓ کو تیس 30 آدمیوں کا قائد بنا کر وادئ ’’ تُرْبَۃ‘‘
(القیادۃ العسکریۃ فی عہد رسول اللہ: جلد، 7 صفحہ، 495)
سے ہوتے ہوئے قبیلہ ہوازن کی پشت پر حملہ آور ہونے کو کہا۔ یہ وادی مکہ سے چار مراحل کی دوری پر ’’فلا‘‘ کے کنارے سے ہو کر گزرتی ہے، چنانچہ آپ اپنے ساتھ بنو ہلال کے ایک رہنما کو لے کر نکلے۔
(غزوۃ الحدیبیۃ: أبوفارس: صفحہ، 134٫135)
آپ رات میں چلتے اور دن میں چھپے رہتے، لیکن ہوازن والوں کو خبر مل گئی اور وہ سب بھاگ نکلے۔ سیدنا عمرؓ ان کے گھروں تک گئے، لیکن کسی کو نہ پایا، پھر واپس مدینہ لوٹ آئے۔
ایک روایت میں ہے کہ ہلالی رہنما نے کہا: ’’کیا آپؓ دوسرے محاذ یعنی ’’خَثْعَم‘‘سے محاذ آرائی کا ارادہ نہیں رکھتے، جن کو آپؓ نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ان کے شہر بھی قحط زدہ ہیں؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے مجھے ان سے محاذ آرائی کا حکم نہیں دیا۔ آپﷺ نے ’’تربہ‘‘ سے ہو کر ہوازن سے جنگ کرنے کا مجھے حکم دیا ہے۔
اس سریہ سے ہمارے سامنے تین عسکری نتائج سامنے آتے ہیں:
1ـ عمرؓ قیادت کے اہل تھے ، اگر آپؓ کے اندر اس کی صلاحیت نہ ہوتی تو نبیﷺ آپ کو مسلمانوں کے کسی ایسے سریہ کی قیادت نہ سونپتے جو بے حد پر خطر علاقہ اور قوی ترین وغیرت مند عربی قبیلہ کی ملکیت تھی۔
2ـ عمرؓ جو دن میں چھپے رہتے اور رات میں چلتے تھے، اچانک حملہ آور ہونے کے اصول سے بخوبی واقف تھے جو علی الاطلاق جنگی اصولوں میں سے اہم ترین اصول ہے، آپ کی یہی جنگی سیاست آپ کے دشمنوں کو چونکا دیتی اور اسے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی، اور اس طرح مختصر سی فوج کے ساتھ مشرکوں کی بڑی فوج پر آپؓ غالب آتے۔
3ـ سیدنا عمرؓ اپنے قائد اعلیٰ (چیف کمانڈر) کے احکامات کو حرف بہ حرف، پوری روحانیت و معنویت کے ساتھ نافذ کرتے تھے، اس سے ذرّہ برابر نہ ہٹتے تھے اور یہی چیز ہر دور میں اور ہر جگہ عسکری اور فوجی نظام کی روح رہی ہے۔
(صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق: صفحہ، 191)
اور غزوہ خیبر کے موقع پر جب رسول اللہﷺ نے اہلِ خیبر کا محاصرہ کیا تو فوجی قیادت کا جھنڈا عمر بن خطابؓ کو دیا۔ آپؓ کے ساتھ مل کر کچھ لوگوں نے اہلِ خیبر سے مقابلہ کیا، لیکن عمرؓ اور ان کے ساتھی بھی پیچھے ہٹ گئے اور لوٹ کر رسول اللہﷺ کے پاس آئے۔ آپﷺ نے فرمایا:
لَأُعْطِینَ اللِّوَائَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔
ترجمہ: ’’کل جھنڈا میں ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
چنانچہ دوسرے دن ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما مجلس میں آگے آگے تھے، لیکن آپﷺ نے سیدنا علیؓ کو بلایا، ان کی آنکھیں آئی ہوئی تھیں، آپﷺ نے ان کی آنکھ پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور جھنڈا ان کے ہاتھ میں دیا۔ پھر آپؓ کے ساتھ مل کر کچھ لوگوں نے اہلِ خیبر سے مقابلہ کیا۔ دوسری طرف سے ’’مرحب‘‘ ان رجزیہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے آیا
قد علمت خیبر أنی مرحب
آطعن أحیانا وحینا اضرب
ترجمہ: خیبر والے جانتے ہیں کہ میرا نام مرحب ہے، کبھی میں نیزہ بازی کرتا ہوں اور کبھی تلوار زنی۔‘‘
شاک السلاح بطل مجرب
إذا اللیوث اقبلت تلہب
ترجمہ: ’’ہتھیار سے لیس، تجربہ کار بہادر ہوں، جب شیر آگے آ جاتے ہیں بپھر اٹھتے ہیں۔‘‘
پھر وہ اور سیدنا علیؓ گتھم گتھا ہو گئے۔ سیدنا علیؓ نے اس کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ تلوار اس کے خود کو کاٹتی ہوئی اس کے سر میں گھس گئی اور کیمپ کے سبھی فوجیوں نے اس کی مار کی آواز سنی، پھر دشمن کا کوئی بھی آدمی علیؓ کے مقابل میں نہ آیا یہاں تک کہ اللہ نے آپﷺ اور مسلمانوں کے لیے خیبر فتح کر دیا۔
غزوۂ خیبر ہی کے موقع پر جب صحابہؓ کی ایک جماعت نبیﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ فلاں شہید ہے، تو آپﷺ نے فرمایا
کَلَّا إِنِّیْ رَأَیْتُہٗ فِی النَّارِ فِیْ بُرْدَۃٍ غَلَّہَا ، أَوْعَبَائَ ۃٍ۔
ترجمہ: ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے چادر یا عباء کی چوری کی وجہ سے جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘
پھر آپ نے فرمایا:
یَابْنَ الْخَطَّابِ! اِذْہَبْ فنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہٗ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُوْنَ۔
ترجمہ: ’’اے ابن خطاب! جاؤ لوگوں میں اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔‘‘
سیدنا عمر بن خطابؓ کا بیان ہے کہ پھر میں نکلا اور اعلان کیا: سن لو! جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔
(الفاروق القائد: شیت خطاب: صفحہ، 117،118)