Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فتح مکہ اور غزوہ حنین و تبوک

  علی محمد الصلابی

فتح مکہ اور غزوہ حنین و تبوک

جب قریش نے بدعہدی کر کے حدیبیہ کی صلح توڑ دی تو مدینہ کی طرف سے متوقع خطرات سے ڈر گئے اور ابوسفیان کو صلح کی بحالی اور مدت صلح میں اضافہ کے مقصد سے مدینہ روانہ کیا، وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آیا اور اپنی بیٹی سیدہ ام حبیبہؓ کے کمرہ میں داخل ہوا لیکن مقصد میں کامیاب نہ ہوا، پھر وہاں سے نکلا اور رسول اللہﷺ کے پاس آیا، آپﷺ سے ہم کلام ہوا۔ لیکن آپﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا، پھر سیدنا ابوبکرؓ کے پاس گیا، ان سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اس سے بات کرنے کے لیے کہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: میں بات نہیں کروں گا۔ پھر عمرؓ کے پاس آیا اور آپؓ سے گفتگو کی، آپؓ نے کہا: کیا میں تمہارے لیے رسول اللہﷺ سے سفارش کر دوں؟ اللہ کی قسم، اگر میں صرف چھوٹی چیونٹیوں کو تم سے جہاد کرنے کے لیے اپنا معاون پاؤں گا تو بھی جہاد کروں گا۔چنانچہ جب آپﷺ نے فتح مکہ کے لیے تیاریاں مکمل کر لیں تو حاطب بن ابی بلتعہؓ نے مکہ والوں کو ایک خط لکھا اور نبی کریمﷺ کے لشکر کشی کی اطلاع انہیں دے دی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اس خط کے بارے میں اپنے نبیﷺ کو مطلع کر دیا اور آپؓ نے اس کوشش کو آغاز ہی میں ختم دیا۔ آپؓ نے علی اور مقداد رضی اللہ عنہما کو بھیجا، انہوں نے مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر روضۂ خاخ کے پاس خط لے جانے والی عورت کو گرفتار کر لیا اور ڈرایا دھمکایا کہ اگر وہ خط نہیں دیتی تو اس کی تلاشی لیں گے، اس نے انہیں وہ خط دے دیا۔ پھر آپﷺ نے تحقیق کے لیے حاطبؓ کو طلب کیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپﷺ میرے بارے میں جلدی نہ کریں، میں قریش کا حلیف تھا، میں قریش میں سے نہیں ہوں اور آپﷺ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کے وہاں مکہ میں رشتے دار ہیں، جس کی وجہ سے ان کے مال اور اہل وعیال محفوظ ہیں۔ لہٰذا میں نے چاہا کہ جب وہاں ان سے میرا کوئی خاندانی رشتہ نہیں تو میں اس طرح ان کو اپنا معاون بنا لوں تاکہ میرے قرابت داروں کا خیال رکھیں، میں نے اپنے دین سے ارتداد یا اسلام لانے کے بعد کفر سے رضامندی کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:

أَمَا إِنَّہٗ قَدْ صَدَقَکُمْ۔

ترجمہ: اس نے تم سے سچ سچ بات بتائی۔ 

سیدنا عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیجیے۔ آپﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

إِنَّہٗ قَدْ شَہِدَ بَدْرًا ، وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ اللّٰہُ اَطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَہِدَ بَدْرًا ،قَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔

(اس کی سند حسن ہے، اس کے رجال شیخین کے رجال ہیں ۔ الموسوعۃ الذہبیۃ: مسند احمد: جلد، 1 حدیث، 30، 203)

ترجمہ: ’’انہوں نے بدر میں شرکت کی ہے، تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ بدر میں شرکت کرنے والوں سے مطلع ہے، اور ان کے بارے میں فرمایا ہے: تم جو چاہو کرو میں نے تم کو بخش دیا ہے۔‘‘

رسول اللہﷺ اور سیدنا عمرؓ کے درمیان حاطب کے بارے میں جو گفتگو ہوئی اس سے مندرجہ ذیل عبرت و موعظت کی باتیں سامنے آتی ہیں:

جاسوس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ سیدنا عمرؓ نے قتل کرنے کی اجازت مانگی، لیکن آپﷺ نے ان کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا، بلکہ ان کے بدری ہونے کی وجہ سے ان پر سزا نافذ کرنے سے منع کیا۔

دین کے بارے میں سیدنا عمرؓ کی سختی:

دین کے بارے میں آپؓ کی سختی اس وقت نمایاں ہوتی ہے جب کہ آپؓ نے حاطب کی گردن زدنی کی اجازت مانگی۔

گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے ایمان باطل نہیں ہوتا: حاطبؓ کا عمل یعنی جاسوسی گناہ کبیرہ تھا۔ اس کے باوجود انہیں مومن مانا گیا۔

عمرؓ نے عہد نبویﷺ میں حاطبؓ پر اصطلاحی معنوں میں نہیں بلکہ لغوی معنی میں منافقت کا حکم لگایا تھا کیونکہ نفاق کا اصطلاحی معنی ہے اسلام کو ظاہر کرنا اور کفر کو دل میں پوشیدہ رکھنا۔ سیدنا عمرؓ کا کہنا یہ تھا کہ حاطبؓ کے ظاہر و باطن میں مخالفت ہے، کیونکہ انہوں نے جو خط بھیجا ہے وہ اس ایمان کے خلاف ہے جس کے راستہ میں جہاد کرنے اور قربانی دینے کے لیے نکلے ہیں۔ 

(السیرۃ النبویۃ: ابن ہشام: جلد ، 2 صفحہ، 265 أخبار عمر، صفحہ، 37)

سیدنا عمرؓ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے انکار سے بہت متاثر ہوئے، چنانچہ کچھ دیر پہلے سخت غصہ میں تھے اور حاطب پر سخت ترین سزا کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے چند ہی لمحوں میں خشیت الہٰی سے رونے لگے، اور کہا: ’’ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اچانک اس تبدیلی کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے غصہ ہوئے تھے، لیکن جب معلوم ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی کا سبب کچھ اور ہے تو ان کے مجاہدانہ کارنامے کے احترام میں اور اپنے ساتھی محمدﷺ کے حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کی غلطی سے چشم پوشی کر لی اور آپﷺ کی بات مان گئے۔ 

(صحیح البخاری: المغازی: حدیث، 4274)

جب رسول اللہﷺ مرالظہران پہنچے اور ابوسفیان کو اپنے بارے میں خطرہ لاحق ہوا، رسول اللہﷺ کے چچا عباسؓ نے اسے مشورہ دیا کہ وہ آپﷺ سے امان طلب کر لے، تو اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ عباس بن عبدالمطلبؓ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اے ابوسفیان! تیری بربادی ہو، دیکھ! رسول اللہﷺ لوگوں میں موجود ہیں۔ ہائے! قریش کی بری صبح۔ اس نے کہا: تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، پھر بچاؤ کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم، اگر وہ تم کو گرفتار کر لیں گے تو یقیناً تمہاری گردن مار دیں گے، اس خچر کے پیچھے سوار ہوجاؤ میں تم کو رسول اللہﷺ کے پاس لے چلتا ہوں اور تمہارے لیے آپﷺ سے امان مانگ لوں گا۔ پھر وہ میرے پیچھے سوار ہو گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس ہو گئے۔ میں اس کو لے کر آیا، میں جب بھی کسی مسلمان کے الاؤ کے قریب سے گزرتا تو پوچھتے کہ یہ کون ہے؟ لیکن جب وہ لوگ رسول اللہﷺ کے خچر کو دیکھتے اور میں اس پر سوار ہوتا تو کہتے: آپﷺ کے خچر پر آپﷺ کے چچا ہیں یہاں تک کہ جب میں سیدنا عمر بن خطابؓ کے الاؤ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: یہ کون ہے؟وہ میری طرف کھڑے ہو گئے اور جب خچر پر پیچھے ابوسفیان کو دیکھا تو کہا: یہ ابوسفیان، اللہ کا دشمن! اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں بلا کسی عہد و ارادہ کے تجھ پر قابو عطا کیا، پھر وہ تیزی سے رسول اللہﷺ کی طرف جانے لگا اور عمرؓ بھی آپﷺ کے پاس آ گئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ابوسفیان ہے، بغیر ہمارے کسی عہد و ارادہ کے اللہ نے اسے ہمارے قابو میں کر دیا ہے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن مار دوں۔ عباسؓ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے اسے پناہ دے دی ہے لیکن جب سیدنا عمرؓ اپنی بات پر بضد رہے تو میں نے کہا: اے عمرؓ! ذرا ٹھہرو، اللہ کی قسم اگر اس کا تعلق بنو عدی سے ہوتا تو تم ایسا نہ کہتے، تم ایسا اس لیے کہہ رہے ہو کہ جانتے ہو کہ یہ بنو عبد مناف کا ایک فرد ہے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اے عباس ذرا ٹھہریے! اللہ کی قسم، جب آپؓ نے اسلام قبول کیا تھا اس دن اگر خطاب بھی اسلام لاتے تو آپ کا اسلام لانا میرے نزدیک زیادہ محبوب تھا، اور میری یہ پسندیدگی صرف اس وجہ سے تھی کہ رسول اللہﷺ کے نزدیک خطاب کے مسلمان ہونے کے مقابلے میں، اگر وہ اسلام لاتے، آپ کا اسلام لانا زیادہ محبوب تھا۔ پھر رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

اِذْہَبْ بِہٖ یَا عَبَّاسُ إِلٰی رَحْلِکَ فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَأْتِنِیْ بِہٖ۔

(السیرۃ النبویۃ: ابوفارس: صفحہ، 404)

’’اے عباسؓ! اسے اپنے خیمے میں لے جاؤ جب صبح ہو تو انہیں لے کر آنا۔‘‘

یہ ہے فاروقی مؤقف؛ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ کا دشمن مسلمانوں کی فوج کے پاس سے ایسی حالت میں گزر رہا ہے کہ رسول اللہﷺ کے چچا کے پیچھے چھپا ہوا ہے اور ڈرتے ہوئے رسوائی کی حالت میں خود کو ظاہر کرتا ہے، سیدنا عمرؓ چاہتے ہیں کہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور اس کی رضامندی کی خاطر اللہ کے اس دشمن کی گردن مار دیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کو خیر سے نوازنا چاہا اور ان کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیااور ان کی جان و خون کو محفوظ کر دیا۔

(التاریخ الإسلامی: جلد، 7 صفحہ، (176،177 )

غزوۂ حنین میں مشرکین نے اسلامی لشکر پر اچانک حملہ کر دیا اور لوگ تیزی سے پیچھے کی طرف پلٹ گئے، کوئی کسی کی پروا نہ کرتا تھا۔ رسول اللہﷺ داہنی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:

أَیْنَ أَیُّہَا النَّاسُ؟ ہَلُمَّ إِلَیَّ ، أَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ۔

ترجمہ: ’’اے لوگو! تم کہاں بھاگ رہے ہو؟ میری طرف آؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں عبداللہ کا بیٹا محمد ہوں۔‘‘

لیکن کسی نے آپﷺ کی بات نہ سنی، اونٹ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، اکثر لوگ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مہاجرین، انصار اور آپﷺ کے اہلِ بیتؓ کے چند لوگ ہی آپﷺ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقی رہے۔ مہاجرین میں سے ابوبکرؓ اور عمرؓ اور اہل بیتؓ میں سے علی بن ابی طالبؓ، عباس بن عبدالمطلبؓ، ان کے لڑکے فضل بن عباسؓ، ابوسفیان بن حارثؓ، ان کے لڑکے، اور ربیعہ بن حارثؓ وغیرہ آپﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

(السیرۃ النبویۃ: صفحہ،: 518، 519، 520)

اس غزوہ میں فاروقی مؤقف کو ابوقتادہؓ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’غزوۂ حنین کے سال ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے، جب معرکہ شروع ہوا تو فتح کی پہلی بالی مسلمانوں کے حق میں آئی، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک آدمی ایک مسلمان کو زیر کیے ہے۔ میں نے پیچھے سے اس کی گردن پر تلوار سے وار کیا، جس سے اس کا بازو کٹ گیا، وہ میری طرف پلٹا اور مجھے اتنا سخت دبوچ لیا جیسے کہ میں مرجاؤں گا، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں سیدنا عمر بن خطابؓ سے ملا اور کہا: لوگوں کو کیا ہوچگیا ہے؟ آپؓ نے جواب دیا: اللہ کا یہی حکم ہے۔ پھر سب دوبارہ واپس آئے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس غزوہ کی منظر کشی اس طرح کی ہے:

لَـقَدۡ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِىۡ مَوَاطِنَ كَثِيۡرَةٍ‌ وَّيَوۡمَ حُنَيۡنٍ‌ اِذۡ اَعۡجَبَـتۡكُمۡ كَثۡرَتُكُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡكُمۡ شَيۡئًـا وَّضَاقَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّـيۡتُمۡ مُّدۡبِرِيۡنَ‌۞

(سورۃ التوبۃ: آیت، 25)

ترجمہ: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا، بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے۔‘‘

پھر ایسے وقت میں جب کہ مسلمان ہزیمت کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور اپنے محبوب بندوں کی مدد فرمائی۔ یہ تائید اس وقت ملی جب کہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس دوبارہ لوٹ کر گئے، اور آپﷺ کے پاس جمع ہوئے، پھر اللہ نے اپنی فوج پر اپنی رحمت اور مدد نازل کی:

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا‌ وَعَذَّبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ وَذٰ لِكَ جَزَآءُ الۡـكٰفِرِيۡنَ ۞

(سورۃ التوبة: آیت، 26)

ترجمہ: ’’پھر اللہ نے اپنی طرف سے تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وہ لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے، اور کافروں کو پوری سزا دی، اوران کفار کا یہی بدلہ تھا۔‘‘

معرکہ حنین کے بعد مسلمان مدینہ لوٹے، جب وہ ’’جِعِرَّانہ‘‘(الفاروق مع النبی: د/ عاطف لماضۃ: صفحہ، 42) گزر رہے تھے تو رسول اللہﷺ بلالؓ کے کپڑے میں سے مالِ غنیمت کی چاندی پکڑتے اور لوگوں میں تقسیم کرتے، اسی دوران ایک آدمی آیا اور آپﷺ سے کہنے لگا: اے محمد! انصاف سے کام لیجیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تیری بربادی ہو، اگر میں انصاف نہ کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟ اگر میں نے عدل سے کام نہ لیا تو میں خسارے میں ہوا۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے، اس منافق کو قتل کردوں؟

آپﷺ نے فرمایا: 

 مَعَاذَ اللّٰہ أَنْ یَّتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّیْ أَقْتُلُ أَصْحَابِیْ ، إِنَّ ہٰذَا وَأَصْحَابُہٗ یَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنْہُ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ۔

(السیرۃ النبویۃ: ابن ہشام:جلد، 2 صفحہ، 289 أخبار عمر: صفحہ، 41)

’اللہ کی پناہ، خوف ہے کہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں، بے شک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق (صحیح البخاری: حدیث، 4066،4067) سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے ایسے ہی خارج ہوں گے جیسے کہ تیر کمان سے۔‘‘ 

اس واقعہ سے سیّدنا عمرؓ کے مؤقف کی عظمت و منقبت جلوہ گر ہے، بایں طور کہ جب آپؓ کے سامنے شرعی محرمات کی تحقیر و بےحرمتی کی گئی تو آپؓ قطعاً برداشت نہ کرسکے، اُس خارجی نے مقام نبوت و رسالت پر جوں ہی حملہ کیا آپؓ فوراً یہ کہتے ہوئے سامنے آئے: ’’اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔‘‘ سیدنا عمر فاروقؓ کا یہی ردّ عمل ان تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا تھا جو نبوت و رسالت کے تقدس کی بے حرمتی کرنا چاہتے تھے۔

(مکہ کے شمال مشرق میں ننانوے 99 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔)

جعرانہ میں سیّدنا عمرؓ نے یعلی بن امیہؓ، جنہوں نے رسول اللہﷺ پر نزول وحی کا عینی مشاہدہ کیا۔۔ کی رغبت پر لبیک کہا۔ صفوان بن یعلی کا بیان ہے کہ یعلیؓ کہتے تھے

’’کاش میں رسول اللہﷺ کو اس وقت دیکھتا جب آپﷺ پر وحی نازل ہو رہی ہو۔‘

(صحیح مسلم: حدیث، 1063 صحیح البخاری: حدیث، 3138 )

ایک مرتبہ نبیﷺ جعرانہ میں تھے، آپﷺ کے اوپر کپڑے کا سائبان تھا، آپﷺ کے ساتھ اس میں آپﷺ کے دوسرے ساتھی بھی تھے۔ اتنے میں ایک اعرابی آیا، وہ ایک جبہ میں ملبوس تھا جو کہ خوشبو سے تر تھا، اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر کسی آدمی نے اس جبہ میں عمرہ کا احرام باندھا ہو جو خوشبو سے بھیگا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا عمرؓ نے یعلیؓ کو ہاتھوں سے اشارہ کیا اور کہا: آؤ، یعلیؓ آئے، دیکھا تو نبیﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہے، کچھ دیر تک آپﷺ سے خراٹے جیسی آواز سنائی دیتی رہی، پھر آپﷺ سے وہ کیفیت ختم ہو گئی، اور آپﷺ نے کہا:

أَمَّا الطِّیْبُ الَّذِیْ بِکَ فَاغْسِلْہُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَأَمَّا الْجُبَّۃُ فَانْزِعْہَا ثُمَّ اصْنَعْ فِیْ عُمْرَتِکَ کَمَا تَصْنَعُ فِیْ حَجِّکَ۔ 

اس کے دو مطلب بتائے گئے ہیں : 

1ـ ان کی تلاوت صرف زبان تک محدود ہے، دل سے اسے قبول نہیں کرتے نہ اس پر عمل کرتے ہیں ۔

2ـ نہ ان کا عمل ہی قبول ہے نہ تلاوت ہی۔ (مترجم)

خوشبو کو تین مرتبہ دھو دو اور جبہ اتار پھینکو، اپنے عمرہ میں ویسا ہی کرو جیسا حج میں کرتے ہو۔‘‘

اور غزوۂ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنا نصف مال اللہ کے راستہ میں صدقہ کر دیا اور جب لوگوں کو شدت کی بھوک لگی تو آپ نے رسول اللہﷺ کو مشورہ دیا کہ لوگوں کے لیے برکت کی دعا کریں۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ سخت بھوک سے دوچار ہوئے، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر آپﷺ اجازت دیں تو ہم اپنی اونٹنیوں کو ذبح کر دیں، انہیں کھائیں اور چربی استعمال کریں؟ آپﷺ نے فرمایا: ایسا کر لو۔ سیدنا عمرؓ آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اگر انہوں نے ایسا کر لیا تو سواریوں کی کمی ہوجائے گی، بلکہ ان سے کہیے کہ وہ اپنا باقی ماندہ توشہ لے کر آپﷺ کے پاس آئیں، چنانچہ کوئی مٹھی بھر مکئی، کوئی کھجور، کوئی روٹی کا ٹکڑا لے کر آیا، اس طرح دستر خوان پر کچھ کھانا جمع ہو گیا، پھر آپﷺ نے اس میں برکت کی دعا فرمائی، اور فرمایا:

خُذُوْا فِیْ أَوْعِیَتِکُمْ ’’اپنے برتنوں میں لے جاؤ‘‘ وہ اپنے برتنوں میں لے جانے لگے اور مجاہدین کا کوئی برتن ایسا نہ رہا جس کو انہوں نے نہ بھرا ہو۔ انہوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور اس سے کچھ بچ بھی گیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا

أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ لَا یَلْقَی اللّٰہَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرَ شَاکٍ فَیُحجَبَ عَنِ الْجَنَّۃِ۔ 

(صحیح التوثیق فی سیرۃ وحیاۃ الفاروق: صفحہ، 200)

ترجمہ: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ نہیں ہے کوئی بندہ جو اس بات کا اقرار کرتے ہوئے اللہ سے ملے کہ وہ اس ملاقات میں شک نہ کرتا ہو، تو اسے جنت میں جانے سے روک دیا جائے۔‘‘

یہ چند فاروقی مواقف ہیں جنہیں آپؓ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ اختیار کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غزوات نبویﷺ میں جو عبرت و موعظت اور دینی و فقہی مسائل پیش آئے انہیں آپؓ نے اچھی طرح سمجھا اور شریعت الہٰی کی روشنی میں لوگوں کی قیادت و رہنمائی کے لیے یہی چیز آپؓ کے لیے زادِ راہ بنی۔