Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت ابوطالب اور صحیح بخاری

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

حضرت ابوطالب اور صحیح بخاری 

کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان
باب: قحط میں امام سے پانی کی دعا کا کہنا

1009 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيشَ كُلُّ مِيزَابٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ

اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر ( ابو طالب ) کا شعر یا د آجاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعاءاستسقاء ( منبر پر ) کر رہے تھے اور ابھی ( دعا سے فارغ ہو کر ) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہوگئے۔
ابوطالب کا شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ( گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے، لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقہ سے۔”

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
باب: جب مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ

1360 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ الْآيَةَ

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ ( ابراہیم بن سعد ) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ ( مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیںیہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ “ لا الٰہ الا اللہ ” ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تا آنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت { وماکان للنبی } نازل فرمائی۔
جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔ ابوطالب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔ اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔ جب سورۃ توبہ کی آیت وماکان للنبی نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں‘ اس وقت آپ رک گئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔ سکرات کی توبہ قبول نہیں جیسا کہ قرآنی آیت

فَلَم یَکُ یَنفَعُہُم اِیمَانُہُم لَمَّا رَاَوبَاسُنَا

( غافر: 85 )

میں مذکور ہے۔

کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: مکہ شریف کے گھر مکان میراث۔۔۔

1588 حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ تَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ فَقَالَ وَهَلْ تَرَكَ عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ فَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَكَانُوا يَتَأَوَّلُونَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ الْآيَةَ

ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبردی، انہیں یونس نے، انہیں ابن شہاب نے، انہیں علی بن حسین نے، انہیں عمرو بن عثمان نے اور انہیں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مکہ میں کیا اپنے گھر میں قیام فرمائیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ عقیل نے ہمارے لیے محلہ یا مکان چھوڑا ہی کب ہے۔ ( سب بیچ کھوچ کر برابر کردئیے ) عقیل اور طالب، ابوطالب کے وارث ہوئے تھے۔ جعفر اور علی رضی اللہ عنہما کو وراثت میں کچھ نہیں ملا تھا، کیونکہ یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے اور عقیل رضی اللہ عنہ ( ابتداءمیں ) اور طالب اسلام نہیں لائے تھے۔ اسی بنیاد پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ ابن شہاب نے کہا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے دلیل لیتے ہیں کہ ” جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی، وہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ “
مجاہد سے منقول ہے کہ مکہ تمام مباح ہے نہ وہاں کے گھروں کا بیچنا درست ہے نہ کرایہ پر دینا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک مکہ کے گھر مکان ملک ہیں اور مالک کے مرجانے کے بعد وہ وارثوں کے ملک ہوجاتے ہیں۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ( شاگرد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ) کا بھی یہ قول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ ہاں خاص مسجد حرام میں سب مسلمانوں کا حق برابر ہے جو جہاں بیٹھ گیا اس کو وہاں سے کوئی اٹھا نہیں سکتا۔ اوپر کی آیت میں چونکہ عاکف اور معکوف کا مادہ ایک ہی ہے۔ اس لیے معکوف کی بھی تفسیر بیان کردی۔
حدیث باب میں عقیل کا ذکر ہے۔ سو ابو طالب کے چار بیٹے تھے۔ عقیل، طالب، جعفر اور علی۔ علی اور جعفر نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ مدینہ آگئے مگر عقیل مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے ابوطالب کی ساری جائیداد کے وہ وارث ہوئے۔ انہوں نے اسے بیچ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا ذکر فرمایا تھا جو یہاں مذکور ہے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں عقیل مسلمان ہوگئے تھے۔ داؤدی نے کہا جو کوئی ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا جاتا اس کا عزیز جو مکہ میں رہتا وہ ساری جائداد دبالیتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ان معاملات کو قائم رکھا تاکہ کسی کی دل شکنی نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ ابوطالب کے یہ مکانات عرصہ دراز بعد محمد بن یوسف، حجاج ظالم کے بھائی نے ایک لاکھ دینار میں خریدلیے تھے۔ اصل میں یہ جائداد ہاشم کی تھی، ان سے عبدالمطلب کو ملی۔ انہوں نے سب بیٹوں کو تقسیم کردی۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بھی تھا۔
آیت مذکورئہ باب شروع اسلام میں مدینہ منورہ میں اتری تھی۔ اللہ پاک نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث بنا دیا تھا۔ بعد میں یہ آیت اتری

واولو الارحام بعضہم اولیٰ ببعض

( الانفال: 75 )

یعنی غیر آدمیوں کی نسبت رشتہ دار میراث کے زیادہ حقدار ہیں۔ خیر اس آیت سے مومنوں کا ایک دوسرے کا وارث ہونا نکلتا ہے۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ مومن کافر کا وارث نہ ہوگا اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا جو اس کے بعد ہے۔

والذین امنوا ولم یہاجروا

( الانفال: 72 )

یعنی جو لوگ ایمان بھی لے آئے مگر کافروں کے ملک سے ہجرت نہیں کی تو تم ان کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جب ان کے وارث نہ ہوئے تو کافروں کے بطریق اولیٰ وارث نہ ہوں گے۔

( وحیدی )

کتاب: حج کے مسائل کا بیان
باب: نبی کریم ﷺ مکہ میں۔۔۔

1590 حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْغَدِ يَوْمَ النَّحْرِ وَهُوَ بِمِنًى نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ يَعْنِي ذَلِكَ الْمُحَصَّبَ وَذَلِكَ أَنَّ قُرَيْشًا وَكِنَانَةَ تَحَالَفَتْ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَوْ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ وَلَا يُبَايِعُوهُمْ حَتَّى يُسْلِمُوا إِلَيْهِمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ سَلَامَةُ عَنْ عُقَيْلٍ وَيَحْيَى بْنُ الضَّحَّاكِ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ وَقَالَا بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ بَنِي الْمُطَّلِبِ أَشْبَهُ

ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولیدبن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ گیارہویں کی صبح کو جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں تھے تو یہ فرمایا تھا کہ کل ہم خیف بنی کنانہ میں قیام کریں گے جہاں قریش نے کفر کی حمایت کی قسم کھائی تھی۔ آپ کی مراد محصب سے تھی کیونکہ یہیں قریش اور کنانہ نے بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب یا ( راوی نے ) بنو المطلب ( کہا ) کے خلاف حلف اٹھایا تھا کہ جب تک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالہ نہ کردیں، ان کے یہاں بیاہ شادی نہ کریں گے اور نہ ان سے خریدوفروخت کریں گے۔ اور سلامہ بن روح نے عقیل اور یحٰ بن ضحاک سے روایت کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے خبردی، انہو ںنے ( اپنی روایت میں ) بنوہاشم اور بنو المطلب کہا۔ ابو عبداللہ امام بخاری نے کہا کہ بنو المطلب زیادہ صحیح ہے۔
کہتے ہیں اس مضمون کی ایک تحریری دستاویز مرتب کی گئی تھی۔ اس کو منصور بن عکرمہ نے لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ہاتھ شل کردیا۔ جب یہ معاہدہ بنی ہاشم اور بنی مطلب نے سنا تو وہ گھبرائے مگر اللہ کی قدرت کہ اس معاہدہ کے کاغذ کو دیمک نے کھالیا۔ جو کعبہ شریف میں لٹکا ہوا تھا۔ کاغذ میں فقط وہ مقام رہ گیا جہاں اللہ کا نام تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر ابوطالب کو دی۔ ابو طالب نے ان کافروں کو کہا میرا بھتیجا یہ کہتا ہے کہ جاکر اس کاغذ کو دیکھو اگر اس کا بیان صحیح نکلے تو اس کی ایذا دہی سے باز آؤ، اگر جھوٹ نکلے تو میں اسے تمہارے حوالے کردوں گا پھر تم کو اختیار ہے۔ قریش نے جاکر دیکھا تو جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا تھا کہ ساری تحریک کو دیمک چاٹ گئی تھی، صرف اللہ کا نام رہ گیا تھا۔ تب وہ بہت شرمندہ ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اس مقام پر جاکر اترے تو آپ نے اللہ کا شکر کیا اور یاد کیا کہ ایک دن تو وہ تھا۔ ایک آج مکہ پر اسلام کی حکومت ہے۔

کتاب: مساقات کے بیان میں
باب : لکڑی اور گھاس بیچنا

2375 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُ قَالَ أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْنَمٍ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَارِفًا أُخْرَى فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ فَقَالَتْ أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ وَمِنْ السَّنَامِ قَالَ قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا قَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَنَظَرْتُ إِلَى مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِي فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ فَخَرَجَ وَمَعَهُ زَيْدٌ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَدَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ فَرَفَعَ حَمْزَةُ بَصَرَهُ وَقَالَ هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِآبَائِي فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَهْقِرُ حَتَّى خَرَجَ عَنْهُمْ وَذَلِكَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الْخَمْرِ

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، انہیں زید العابدین علی بن حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے، ان سے ان کے والد حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی کے موقع پر مجھے ایک جوان اونٹنی غنیمت میں ملی تھی۔ ایک دن ایک انصاری صحابی کے دروازے پر میں ان دونوں کو اس خیال سے باندھے ہوئے تھا کہ ان کی پیٹھ پر اذخر ( عرب کی ایک خوشبودار گھاس جسے سنار وغیرہ استعمال کرتے تھے ) رکھ کر بیچنے لے جاؤں گا۔ بنی قینقاع کا ایک سنار بھی میرے ساتھ تھا۔ اس طرح ( خیال یہ تھا کہ ) اس کی آمدنی سے فاطمہ رضی اللہ عنہا ( جن سے میں نکاح کرنے والا تھا ان ) کا ولیمہ کروں گا۔ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی ( انصاری کے ) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا : ” ہاں : اے حمزہ ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف “ ( بڑھ ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی ( ابن جریج نے بیان کیا کہ ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ میں نے آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپ تشریف لائے۔ زید رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ ہی تھے اور میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی ظاہر فرمائی تو حضرت حمزہ نے نظر اٹھا کر کہا ” تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔ “ حضور صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں لوٹ کر ان کے پاس سے چلے آئے۔ یہ شراب کی حرمت سے پہلے کا قصہ ہے۔
حدیث ہذا میں بیان کردہ واقعات اس وقت سے متعلق ہے جب کہ اسلام میں شراب گانا سننا حرام نہ ہوا تھا۔ بدر کے اموال غنیمت میں سے ایک جوان اونٹنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطور مال غنیمت ملی تھی۔ اور ایک اونٹنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بطور صلہ رحمی اپنے خاص حصہ میں سے مرحمت فرما دی تھی۔ چنانچہ ان کا ارادہ ہوا کہ کیوں نہ ان اونٹنیوں سے کام لیا جائے۔ اور ان پر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے لاد کر لائی جائے اور اسے بازار میں فروخت کیا جائے۔ تاکہ ضروریات شادی کے لیے جو ہونے ہی والی تھی کچھ سرمایہ جمع ہوجائے۔ اس کاروبار میں ایک دوسرے انصاری بھائی اور ایک بنی قینقاع کے سنا ربھی شریک ہونے والے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان ہی عزائم کے ساتھ اپنی ہر دو سواریوں کو لے کر اس انصاری مسلمان کے گھر پہنچے۔ اوراس کے دروازے پر جا کر ہر دو اونٹنیوں کو باندھ دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس انصاری کے اسی گھر میں اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شراب نوشی اور گانا سننے میں محو تھے۔ گانے والی نے جب ان اونٹنیوں کو دیکھا اور ان کی فربہی اور جوانی پر نظر ڈالی اور ان کا گوشت بہت ہی لذیذ تصور کیا تو اس نے عالم مستی میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو گاتے گاتے یہ مصرع بھی بنا کر سنا دیا جو روایت میں مذکور ہے۔ ( پوار شعر یوں ہے ) 

الا یا حمز للشرف النوائ و ہن معقلات بالفنائ

حمزہ ! اٹھو یہ عمر والی موٹی اونٹیاں جو مکان کے صحن میں بندھی ہوئی ہیں، ان کو کاٹو، اور ان کا گوشت بھون کر کھاؤ اور ہم کو کھلاؤ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر مستی سوارتھی، شعر سنتے ہی فوراً تلوار لے کر کھڑے ہوئے اور عالم بے ہوشی میں ان ہر دو اونٹنیوں پر حملہ کر دیا اور ان کے کلیجے نکال کر، کوہان کاٹ کر گوشت کا بہترین حصہ کباب کے لیے لے آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جگر خراش منظر دیکھا تو اپنے محترم چچا کا احترام سامنے رکھتے ہوئے وہاں ایک لفظ زبان پر نہ لائے بلکہ سیدھے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے۔ اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ چنانچہ آپ نے سار واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا اور اپنی اس پریشانی کو تفصیل سے بیان کیا۔ جسے سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور آپ کو ہمراہ لے کر فوراً ہی موقع پر معائنہ فرمانے کے لیے چل کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو کہ ابھی تک شراب اور کباب کے نشہ میں چور تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر اظہار خفگی فرمایا مگر حمزہ کے ہوش و حواس شراب و کباب میں گم تھے۔ وہ صحیح غور نہ کرسکے بلکہ الٹا اس پر خود ہی اظہار خفگی فرمایا۔ اور وہ الفاظ کہے جو روایت میں مذکورہیں۔
مولانا فرماتے ہیں حضرت حمزہ اس وقت نشہ میں تھے۔ اس لیے ایسا کہنے سے وہ گنہگار نہیں ہوئے دوسرے ان کا مطلب یہ تھا کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد حضرت عبداللہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد حضرت ابوطالب دونوں ان کے لڑکے تھے اور لڑکا گویا اپنے باپ کا غلام ہی ہوتا ہے۔ یہ حالات دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔ اس وقت یہی مناسب تھا۔ شاید حمزہ کچھ اور کہہ بیٹھتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان کا نشہ اترنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اونٹنیوں کی قیمت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دلوائی۔ باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے کہ ان پر اذخر گھاس لاد کر لاؤں، اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے۔

( وحیدی )

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی۔

باب : اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا ( جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند ) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر ( زور سے ) آمین کہتے ہیں۔

3231 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ، قَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ العَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ، فَنَادَانِي مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ، لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو عبداللہ بن وہب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ، ان سے ابن شہاب نے کہا ، ان سے عروہ نے کہا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے ( طائف کے سردار ) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا ۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا ۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا ۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں ، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا ۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں ۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہں نے بھی وہی بات کہی ، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ چکنا چور ہوجائیں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔
یہ طائف کا مشہور واقعہ ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شفیق چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد بغرض تبلیغ اسلام طائف تشریف لے گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے سرداروں کو خصوصیت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی، مگر وہ لوگ بدتمیزی سے پیش آئے اور آپ کے پیچھے اوباش لڑکوں کو لگادیا جن کی حرکات سے آپ کو سخت تکلیف کا سامنا ہوا، مگر ان حالات میں بھی آپ نے ان پر عذاب پسند نہیں فرمایا، بلکہ ان کی ہدایت کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو لاکر اس سے بھی فرشتوں کا وجود ثابت فرمایا۔ اخشبین سے مراد مکہ کے دو مشہور پہاڑ جبل ابوتبیس اور جبل قعیقعان مراد ہیں۔
لفظ عقبہ جو روایت میں آیاہے یہ طائف کی طرف ایک گھاٹی کا نام ہے۔ طائف کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم شوال10نبوی میں تشریف لے گئے تھے۔ پہلے وہاں کے لوگوں نے خود آپ کو بلا بھیجا تھا بعد میں وہ مخالف ہوگئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر مارے، ایک پتھر آپ کی ایڑی میں لگا اور آپ زخمی ہوگئے۔ اس قدر ستانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ صلی اللہ علیہ وسلم

کتاب: انصار کے مناقب
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان

3845 حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا قطن أبو الهيثم، حدثنا أبو يزيد المدني، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال إن أول قسامة كانت في الجاهلية لفينا بني هاشم، كان رجل من بني هاشم استأجره رجل من قريش من فخذ أخرى، فانطلق معه في إبله، فمر رجل به من بني هاشم قد انقطعت عروة جوالقه فقال أغثني بعقال أشد به عروة جوالقي، لا تنفر الإبل‏.‏ فأعطاه عقالا، فشد به عروة جوالقه، فلما نزلوا عقلت الإبل إلا بعيرا واحدا، فقال الذي استأجره ما شأن هذا البعير لم يعقل من بين الإبل قال ليس له عقال‏.‏ قال فأين عقاله قال فحذفه بعصا كان فيها أجله، فمر به رجل من أهل اليمن، فقال أتشهد الموسم قال ما أشهد، وربما شهدته‏.‏ قال هل أنت مبلغ عني رسالة مرة من الدهر قال نعم‏.‏ قال فكنت إذا أنت شهدت الموسم فناد يا آل قريش‏.‏ فإذا أجابوك، فناد يا آل بني هاشم‏.‏ فإن أجابوك فسل عن أبي طالب، فأخبره أن فلانا قتلني في عقال، ومات المستأجر، فلما قدم الذي استأجره أتاه أبو طالب فقال ما فعل صاحبنا قال مرض، فأحسنت القيام عليه، فوليت دفنه‏.‏ قال قد كان أهل ذاك منك‏.‏ فمكث حينا، ثم إن الرجل الذي أوصى إليه أن يبلغ عنه وافى الموسم فقال يا آل قريش‏.‏ قالوا هذه قريش‏.‏ قال يا آل بني هاشم‏.‏ قالوا هذه بنو هاشم‏.‏ قال أين أبو طالب قالوا هذا أبو طالب‏.‏ قال أمرني فلان أن أبلغك رسالة أن فلانا قتله في عقال‏.‏ فأتاه أبو طالب فقال له اختر منا إحدى ثلاث، إن شئت أن تؤدي مائة من الإبل، فإنك قتلت صاحبنا، وإن شئت حلف خمسون من قومك أنك لم تقتله، فإن أبيت قتلناك به فأتى قومه، فقالوا نحلف‏.‏ فأتته امرأة من بني هاشم كانت تحت رجل منهم قد ولدت له‏.‏ فقالت يا أبا طالب أحب أن تجيز ابني هذا برجل من الخمسين ولا تصبر يمينه حيث تصبر الأيمان‏.‏ ففعل فأتاه رجل منهم فقال يا أبا طالب، أردت خمسين رجلا أن يحلفوا مكان مائة من الإبل، يصيب كل رجل بعيران، هذان بعيران فاقبلهما عني ولا تصبر يميني حيث تصبر الأيمان‏.‏ فقبلهما، وجاء ثمانية وأربعون فحلفوا‏.‏ قال ابن عباس فوالذي نفسي بيده، ما حال الحول ومن الثمانية وأربعين عين تطرف‏.‏

ہم سے ابو معمر نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے قطن ابو الہیثم نے کہا ، ہم سے ابو یزید مدنی نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عبا س رضی اللہ عنہما نے بیان کیا جاہلیت میں سب سے پہلا قسامہ ہمارے ہی قبیلہ بنو ہاشم میں ہواتھا ، بنوہاشم کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کو قریش کے کسی دوسرے خاندان کے ایک شخص ( خداش بن عبد اللہ عامری ) نے نوکری پر رکھا ، اب یہ ہاشمی نوکراپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر شام کی طرف چلا ، وہاں کہیں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا ، اس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا ۔ اس نے اپنے نو کر بھائی سے التجا کی میری مدد کراونٹ باندھنے کی مجھے ایک رسی دے دے ، میں اس سے اپنا تھیلا باندھوں اگر رسی نہ ہوگی تو وہ بھاگ تھوڑے جائے گا ۔ اس نے ایک رسی اسے دے دی اور اس نے اپنی بوری کا منہ اس سے باندھ لیا ( اور چلاگیا ) ۔ پھر جب اس نوکر اور صاحب نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا تو تمام اونٹ باندھے گئے لیکن ایک اونٹ کھلا رہا ۔ جس صاحب نے ہاشمی کو نوکری پر اپنے ساتھ رکھاتھا اس نے پو چھا سب اونٹ تو باندھے ، یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا کیا بات ہے ؟ نوکر نے کہا اس کی رسی موجود نہیں ہے ۔ صاحب نے پوچھا کیا ہوئی اس کی رسی ؟ اور غصہ میں آ کر ایک لکڑی اس پر پھینک ماری اس کی موت آن پہنچی ۔ ا س کے ( مرنے سے پہلے ) وہاں سے ایک یمنی شخص گذر رہا تھا ۔ ہاشمی نوکر نے پوچھا کیا حج کے لیے ہر سال تم مکہ جاتے ہو ؟ اس نے کہا ابھی تو ارادہ نہیں ہے لیکن میں کبھی جاتا رہتا ہوں ۔ اس نوکر نے کہا جب بھی تم مکہ پہنچوکیا میرا ایک پیغام پہنچادوگے ؟ اس نے کہا ہاں پہنچا دوں گا ۔ اس نوکر نے کہا کہ جب بھی تم حج کے لیے جاؤ تو پکار نا اے قریش کے لوگو ! جب وہ تمہارے پاس جمع ہوجائیں تو پکارنا اے بنی ہاشم ! جب وہ تمہارے پاس آجائےں تو ان سے ابو طالب پو چھنا اور انہیں بتلانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے لیے قتل کردیا ۔ اس وصیت کے بعد وہ نوکر مرگیا ، پھر جب اس کا صاحب مکہ آیا تو ابو طالب کے یہا ں بھی گیا ۔ جناب ابو طالب نے دریافت کیا ہمارے قبیلہ کے جس شخص کو تم اپنے ساتھ نوکری کے لیے لے گئے تھے اس کا کیا ہوا ؟ اس نے کہا کہ وہ بیمار ہوگیا تھا میں نے خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ( لیکن وہ مرگیاتو ) میں نے اسے دفن کردیا ۔ ابو طالب نے کہا کہ اس کے لیے تمہاری طر ف سے یہی ہونا چاہئے تھا ۔ ایک مدت کے بعد وہی یمنی شخص جسے ہاشمی نوکر نے پیغام پہنچانے کی وصیت کی تھی ، موسم حج میں آیا اور آواز دی اے قریش کے لوگو ! لوگوں نے بتا دیا کہ یہاں ہیں قریش ۱س نے آواز دی اے بنو ہاشم ! لوگو ں نے بتایاکہ بنوہاشم یہ ہیں اس نے پوچھاابوطالب کہا ں ہیں ؟ لوگوںنے بتایا تو اس نے کہا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک پیغام پہنچانے کے لیے کہا تھاکہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کی وجہ سے قتل کردیا ہے ۔ اب جناب ابو طالب اس صاحب کے یہا ں آئے اور کہا کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی چیز پسند کرلواگر تم چاہو تو سو اونٹ دیت میں دے دو کیونکہ تم نے ہمارے قبیلہ کے آدمی کو قتل کیا ہے ااور اگر چاہو تو تمہاری قو م کے پچاس آ دمی اس کی قسم کھالیں کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا ۔ اگر تم اس پر تیار نہیں تو ہم تمہیں اس کے بدلے میں قتل کردیںگے ۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا تو وہ اس کے لیے تیار ہوگئے کہ ہم قسم کھا لیں گے ۔ پھر بنو ہاشم کی ایک عورت ابو طالب کے پاس آئی جو اسی قبیلہ کے ایک شخص سے بیاہی ہی ہوئی تھی اور اپنے اس شوہر سے اس کا بچہ بھی تھا ۔ اس نے کہا اے ابوطالب ! آپ مہر بانی کریں اور میرے اس لڑکے کو ان پچاس آدمیوں میں معاف کردیں اور جہاں قسمیں لی جاتی ہیں ( یعنی رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان ) اس سے وہا ں قسم نہ لیں ۔ حضرت ابو طالب نے اسے معاف کردیا ۔ اس کے بعد ان میں کا ایک اورشخص آیا اور کہا اے ابو طالب ! آپ نے سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم طلب کی ہے ، اس طرح ہر شخص پر دو دو اونٹ پڑ تے ہیں ۔ یہ دواونٹ میری طرف سے آپ قبول کرلیں اور مجھے اس مقام پر قسم کھا نے کے لیے مجبور نہ کریں جہاں قسم لی جاتی ہے ۔ حضرت ابو طالب نے اسے بھی منظور کرلیا ۔ اس کے بعد بقیہ جواڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی ، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ا بھی اس واقعہ کو پورا سال بھی نہیں گذراتھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں رہا جو آنکھ ہلاتا ۔
یعنی کوئی زندہ نہ رہا ، سب مر گئے۔ جھوٹی قسم کھانے کی یہ سزا ان کو ملی اور وہ بھی کعبہ کے پاس معاذ اللہ ۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان سب کی زمین جائداد حضرت طیب کو ملی جس کی ماں کے کہنے سے ابو طالب نے ا س کی قسم معاف کردی تھی، گو ابن عباس رضی اللہ عنہ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے مگر انہوں نے یہ واقعہ معتبر لوگوں سے سنا جب ہی اس پر قسم کھائی۔ فاکہی نے ابن ابی نجیح کے طریق سے نکالاکہ کچھ لوگوں نے خانہ کعبہ کے پاس ایک قسامہ میں جھوٹی قسمیں کھائیں پھر ایک پہاڑ کے تلے جاکر ٹھہرے ایک پتھر ان پر گرا جس سے دب کر سب مرگئے جھوٹی قسمیں کھانا پھر بعض لوگوں کا ان قسموں کے لیے قرآن پاک اور مساجد کو استعمال کر نا بے حد خطرناک ہے، کتنے لوگ آج بھی ایسے دیکھے گئے کہ انہوں نے یہ حرکت کی اور نتیجہ میں وہ تباہ وبرباد ہوگئے ۔ لہٰذ کسی بھی مسلمان کو ایسی جھوٹی قسم کھانے سے قطعاً پر ہیز کر نا لازم ہے۔

کتاب: انصار کے مناقب
باب: ابوطالب کا واقعہ

3883 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ

ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ، ان سے سفیان ثوری نے ، کہا ہم سے عبد الملک بن عمیرنے ، ان سے عبداللہ بن حارث نے بیان کیا ان سے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا ( ابو طالب ) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ کے لئے غصہ ہوتے تھے ؟ آپ نے فرمایا ( اسی وجہ سے ) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے ۔

کتاب: انصار کے مناقب
باب: ابوطالب کا واقعہ

3884 حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالَا يُكَلِّمَانِهِ حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَنَزَلَتْ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ

ہم سے محمودبن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزق نے بیان کیا ، انہیں معمر نے خبردی ، انہیں زہری نے ، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ان کے والد مسیب بن حزن صحابی رضی اللہ عنہ نے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس وقت وہاں ابو جہل بھی بیٹھا ہوا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چچا ! کلمہ لاالہ الااللہ ایک مرتبہ کہہ دو ، اللہ کی بارگاہ میں ( آپ کی بخشش کے لئے ) ایک یہی دلیل میرے ہاتھ آجائے گی ، اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ، اے ابو طالب ! کیا عبدالمطلب کے دین سے تم پھر جاؤ گے ! یہ دونوں ان ہی پر زور دیتے رہے اور آخر ی کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا ، وہ یہ تھا کہ میں عبد المطلب کے دین پر قائم ہوں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کے لئے اس وقت تک مغفرت طلب کتا رہوں گاجب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے گا ۔ چنانچہ ( سورئہ براۃ میں ) یہ آیت نازل ہوئی ” نبی کے لئے اور مسلمانوں کے لئے منا سب نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے دعاءمغفرت کریں خواہ وہ ان کے ناطے والے ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ دوزخی ہیں “ اور سورئہ قصص میں یہ آیت نازل ہوئی ” بے شک جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے ۔

کتاب: انصار کے مناقب
باب: ابوطالب کا واقعہ

3885 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ يَزِيدَ بِهَذَا وَقَالَ تَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ

ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن عبد اللہ ابن الہاد نے ، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ کے چچا کا ذکر ہورہا تھا تو آپ نے فرمایا شاید قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کام آجائے اور انہیں صرف ٹخنوں تک جہنم میں رکھا جائے جس سے ان کا دماغ کھولے گا ۔
روایت میں ابو طالب کا ذکر ہے یہی وجہ منا سبت باب ہے۔

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت

(( واٰخرون اعترفوا.... ))

کی تفسیر

4675 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہو ا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے ، اس وقت وہاں ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ( آپ ایک بار زبان سے کلمہ ) لاالہ الا اللہ کہہ دیجئے میں اسی کو ( آپ کی نجات کے لئے وسیلہ بناکر ) اللہ کی بارگاہ میں پیش کرلوںگا ۔ اس پر ابو جہل اور عبد اللہ ابی امیہ کہنے لگے ابوطالب ! کیا آپ عبد المطلب کے دین سے پھر جاؤ گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لئے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ، تو یہ آیت نازل ہوئی ” نبی اور ایمان والوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے بخشش کی دعا کریں ۔ اگر چہ وہ ( مشرکین ) رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں ۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ ( یقینا ) اہل دوزخ سے ہیں ۔ “
آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک کے لئے عام ہے۔ 

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: جنت و جہنم کا بیان

6557 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ فَيَقُولُ نَعَمْ فَيَقُولُ أَرَدْتُ مِنْكَ أَهْوَنَ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا فَأَبَيْتَ إِلَّا أَنْ تُشْرِكَ بِي

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران جونی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوزخ کے سب سے کم عذاب پانے والے سے پوچھے گا ( یعنی ابوطالب سے ) اگر تمہیں روئے زمین کی ساری چیزیں میسر ہوں تو کیا تم ان کو فدیہ میں ( اس عذاب سے نجات پانے کے لیے ) دے دو گے۔ وہ کہے گا کہ ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تم سے اس سے بھی سہل چیز کا اس وقت مطالبہ کیا تھا جب تم آدمی علیہ السلام کی پیٹھ میں تھے کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تم نے ( توحید کا ) انکار کیا اور نہ مانا آخر شرک ہی کیا۔

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: جنت و جہنم کا بیان

6561 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَرَجُلٌ تُوضَعُ فِي أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ جَمْرَةٌ يَغْلِي مِنْهَا دِمَاغُهُ

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابو اسحاق سبیعی سے سنا، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن عذاب کے اعتبار سے سب سے کم وہ شخص ہوگا جس کے دونوں قدموں کے نیچے آگے کا انگارہ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ سے اس کا دماغ کھول رہا ہوگا۔
صحیح مسلم میں آگ کی دو جوتیاں پہنانے کا ذکر ہے۔ اس سے ابوطالب مراد ہیں۔
تشریح :

ابوطالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت ہی معزز چچا ہیں۔ ان کا نام عبدمناف بن عبدالمطلب بن ہاشم ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ان کے فرزند ہیں۔ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے رہے مگر قوم کے تعصب کی بنا پر اسلام قبول نہیں کیا۔ ان کی وفات کے پانچ دن بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ کا بھی انتقال ہوگیا۔ ان دونوں کی جدائی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد رنج ہوا مگر صبر و استقامت کا دامن آپ نے نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غالب فرمایا۔

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: جنت و جہنم کا بیان

6564 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ أُمُّ دِمَاغِهِ

ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کا ذکر کیاگیا تھا، تو آپ نے فرمایا ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آجائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا۔
قرآن شریف میں

فما تنفعہم شفاعۃ الشافعین۔

( مدثر: 48 )

( ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کام نہ دے گی ) لیکن آیت میں نفع سے یہ مراد ہے کہ وہ دوزخ سے نکال لیے جائیں، یہ فائدہ کافروں اور مشرکوں کے لیے نہیں ہوسکتا۔ اس صورت میں حدیث اور آیت میں اختلاف نہیں رہے گا مگر دوسری آیت میں جو یہ فرمایا

فلا یخفف عنہم العذاب

( البقرۃ:86 )

( یعنی ان سے عذاب کم نہیں کیا جائے گا ) اس کا جواب یوں بھی دے سکتے ہیں کہ جو عذاب ان پر شروع ہوگا وہ ہلکا نہیں ہوگا یہ اس کے منافی نہیںہے کہ بعض کافروں پر شروع ہی سے ہلکا عذاب مقرر کیا جائے، بعض کے لیے سخت ہو۔

کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب: جنت و جہنم کا بیان

6572 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ الْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن حارث بن نوفل نے بیان کیا اور ان سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ نے ابوطالب کو کوئی نفع پہنچایا؟
یہ روایت مختصر ہے۔ دوسری جگہ ہے کہ آپ نے فرمایا، ہاں پہنچایا۔ وہ گھٹنوں تک عذاب میں ہیں اور اگر میری یہ شفاعت نہ ہوتی تو وہ دوزخ کے نیچے والے درجہ میں داخل ہوتا۔

کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
باب: جب کسی نے کہا کہ واللہ ، میں آج بات نہیں کروں گا پھر اس نے نماز پڑھی ، قرآن مجید کی تلاوت کی ، تسبیح کی ، حمد یا لا الہٰ الا اللہ کہا تو اس کا حکم اس کی نیت کے موافق ہو گا۔۔

6681 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی، ان کے والد (مسیب رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ جب جناب ابوطالب کی موت کی وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کہہ دیجئیے کہ لا الہٰ الا اللہ تو میں آپ کے لیے اللہ سے جھگڑ سکوں گا۔
تاکہ اللہ آپ کوبخش دےمگر ابوطالب ا س کےلیے بھی تیار نہ ہوسکے ان کا نام عبدمناف تھا اوریہ عبدالمطلب کےبیٹے اورحضرت علی کےوالد تھے۔

کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
باب: تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان

6939 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ فُلَانٍ قَالَ تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ لِحِبَّانَ لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ يَعْنِي عَلِيًّا قَالَ مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ قَالَ شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ قَالَ مَا هُوَ قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ وَأَبَا مَرْثَدٍ وَكُلُّنَا فَارِسٌ قَالَ انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقُلْنَا أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ قَالَتْ مَا مَعِي كِتَابٌ فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَقَالَ صَاحِبَايَ مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا قَالَ فَقُلْتُ لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْ الصَّحِيفَةَ فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ قَالَ صَدَقَ لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ قَالَ أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمْ الْجَنَّةَ فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ خَاخٍ أَصَحُّ وَلَكِنْ كَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ وَهُوَ مَوْضِعٌ وَهُشَيْمٌ يَقُولُ خَاخٍ

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمن سلمی نے، ان سے فلاں شخص( سعید بن عبیدہ) نے کہ ابوعبدالرحمن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہوگئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پ رحبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمن نے کہا کہ علی کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو( جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت( سارہ نامی) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھاگیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوارجارہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو آنحضرت کی مکہ کو آنے کی خبردی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھادیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہوجائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو( ان کے ہاتھ سے) بچالوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ مے ں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے اللہ اوراس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن ماردوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں( خوشی سے) آنسو بھرآئے اور عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری) نے کہا کہ ” خاخ“ زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے حاج ہی بیان کیا ہے اور لفظ حاج بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہیثم نے ” خاخ“ بیان کیا ہے۔
یہ حدیث کئی بار اوپر گزر چکی ہے۔ باب کا مطلب اس طرح نکلا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نزدیک حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کو خائن سمجھا۔ ایک روایت کی بناپر ان کو منافق بھی کہا مگر چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایسا خیال کرنے کی ایک وجہ تھی یعنی ان کا خط پکڑا جانا جس میں اپنی قوم کا نقصان تھا تو گویا وہ تاویل کرنے والے تھے اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا۔ اب یہ اعتراض ہوتا ہے کہ ایک بار جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کی نسبت یہ فرمایا کہ وہ سچا ہے تو پھر دوبارہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مارڈالنے کی اجازت کیوں کر چاہی اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت کی رائے ملکی اور شرعی قانون ظاہری پر تھی جو شخص اپنے بادشاہ اپنی قوم کا راز دشمنوں پر ظاہر کرے اس کی سزا موت ہے اور ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے کہ وہ سچا ہے ان کی پوری تشفی نہیں ہوئی کیوں کہ سچا ہونے کی صورت میں بھی ان کا عذر اس قابل نہ تھا کہ اس جرم کی سزا سے وہ بری ہوجاتے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہ فرمایا کہ اللہ نے بدریوں کے سب قصور معاف فرمادیئے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تسلی ہوگئی اور اپنا خیال انہوں نے چھوڑدیا اس سے بدری صحابہ کے جنتی ہونے کا اثبات ہوا۔ لفظ لاابالک عربوں کے محاورہ میں اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی شخص ایک عجیب بات کہتا ہے مطلب یہ ہوتا ہے کہ تیرا کوئی ادب سکھانے والا باپ نہ تھا جب ہی تو بے ادب رہ گیا۔ ابوعبدالرحمن عثمانی تھے اور حبان بن عطیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طرف دارتھے۔ ابوعبدالرحمن کا یہ کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت صحیح نہ تھا کہ وہ بے وجہ شرعی مسلمانوں کی خونریزی کرتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا حکم شرعی کے تحت کہا ابوعبدالرحمن کو یہ بدگمانی یوں ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی تھی کہ جنگ بدر میں شرکت کرنے والے بخشے ہوئے ہیں اللہ پاک نے بدریوں سے فرمادیا کہ اِعمَلُوا مَاشِئتُم فَقَد اَوجَبتُ لَکُمُ الجَنَّۃِ تم جو چاہو عمل کرو میں تمہارے لیے جنت واجب کرچکا ہوں چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بدری ہیں اس لیے اب وہ اس بشارت خدائی کے پیش نظر خون ریزی کرنے میں جری ہوگئے ہیں۔ ابوعبدالرحمن کا یہ گمان صحیح نہ تھا ناحق خون ریزی کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بالکل بعید تھا۔ جو کچھ انہوں نے کیا شریعت کے تحت کیا یوں بشری لغزش امر دیگر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوطالب کے بیٹے ہیں، نوجوانوں میں اولین اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ عمر دس سال یا پندرہ سال کی تھی۔ جنگ تبوک کے سوا سب جنگوںمیں شریک ہوئے۔ گندم گوں، بڑی بڑی آنکھوں والے، درمیانہ قد، بہت بال والے، چوڑی داڑھی والے، سر کے اگلے حصہ میں بال نہ تھے۔ جمعہ کے دن 18ذی الحجہ 35 ھ کو خلیفہ ہوئے یہی شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کا دن ہے۔ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم مرادی نے18رمضان بوقت صبح بروز جمعہ 40ھ میں آپ کو شہید کیا۔ زخمی ہونے کے بعد تین رات زندہ رہے، 63سال کی عمر پائی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم اجمعین نے نہلایا اور حضرت حسن نے نماز جنازہ پڑھائی۔ صبح کے وقت دفن کئے گئے۔ مدت خلافت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ رابع برحق ہیں۔ بہت ہی بڑے دانش مند اسلام کے جرنیل، بہادر اور صاحب مناقب کثیرہ ہیں آپ کی محبت جزوایمان ہے۔ تینوں خلافتوں میں ان کا بڑا مقام رہا۔ بہت صائب الرائے اور عالم و فاضل تھے۔ صدافسوس کہ آپ کی ذات گرامی کو آڑ بناکر ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے امت مسلمہ میں خانہ جنگی و فتنہ و فساد کو جگہ دی۔ یہ محض مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا۔ اس نے یہ فتنہ کھڑا کیا کہ خلافت کے وصی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، حضرت عثمان ناحق خلیفہ بن بیٹھے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت کے لیے حضرت علی کو اپنا وصی بناگئے ہیں، لہٰذا خلافت صرف حضرت علی ہی کا حق ہے۔ عبداللہ بن سبا نے یہ ایسی من گھڑت بات ایجاد کی تھی جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں خلافت صدیقی و فاروقی و عثمانی میں کوئی ذکر نہیں تھا مگر نام چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے عالی منقبت کا تھا اس لیے کتنے سادہ لوح لوگوں پر اس یہودی کا یہ جادو چل گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اندوہناک واقعہ اسی فتنہ کی بنا پر ہوا۔ آپ بیاسی سال کی عمر میں 18ذی الحجہ 35ھ کو جبکہ آپ قرآن شریف کی آیت فَسَےَکفِےکَہُمُ اﷲ پر پہنچے تھے کہ نہایت بے دردی سے شہید کئے گئے اور آپ کے خون کی دھار قرآن پاک کے ورق پر اسی آیت کی جگہ جاکر پڑی۔ رضی اللہ عنہ۔ الحمد للہ حرمین شریفین کے سفر میں تین بار آپ کی قبر پر دعائے مسنون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن ان سب بزرگوں کی زیارت نصیب کرے آمین۔ شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے امت کا نظام ایسا منتشر ہوا جو آج تک قائم ہے اور شاید قیامت تک بھی نہ ختم ہو

فلیبک علی الاسلام من کان باکیا۔