Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ رضی اللہ عنہ کے صدقات و اوقاف

  علی محمد الصلابی

آپؓ کے صدقات واوقاف

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عہدِ نبوی میں ’’ثمغ‘‘ نامی اراضی اللہ کے راستہ میں وقف کر دی، اس میں کھجور کے درخت تھے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! مجھے ایسا مال ملا ہے جو میرے نزدیک سب سے نفیس مال ہے اور میں اس کو صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:

تَصَدَّقَ بِأَصْلِہٖ لَا یُبَاعُ وَلَا یُوْہَبُ وَلَا یُوْرَثُ وَلٰکِنْ یُنْفَقُ ثَمَرَہُ۔

ترجمہ: ’’اس کے اصل کو وقف کر دو، نہ اسے فروخت کیا جائے اور نہ ہبہ کیا جائے، نہ اس میں وراثت جاری کی جائے، البتہ اس کا پھل خرچ کیا جائے گا۔‘‘

چنانچہ سیدنا عمرؓ نے اسے وقف کر دیا۔ آپؓ کا یہ صدقہ اللہ کے راستہ میں، گردن آزاد کرانے میں، مسکینوں، مہمانوں، مسافروں اور قرابت داروں میں خرچ ہوتا رہا۔ جو اس کا نگراں ہو اس کے لیے اس میں سے معروف طریقہ سے کھانے یا اپنے دوست کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اسے مال دار بنانا مقصود نہ ہو۔ 

(صحیح البخاری: حدیث، 92 صحیح مسلم: حدیث، 2360)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کو خیبر میں ایک زمین حاصل ہوئی، وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: مجھے زمین حاصل ہوئی ہے، اس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا ، اس سلسلہ میں آپﷺ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟

نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:

 إِنْ شِئْتَ جَسَسْتَ أَصْلَہَا وَتَصَدَّقْتَ بِہَا۔

ترجمہ: ’’اگر تم چاہو تو اس کے اصل (زمین) کو روک لو اور اس (پھل وغیرہ) کو صدقہ کر دو۔‘‘

چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو وقف کر دیا اور فرمایا: اس کے اصل کو فروخت نہ کیا جائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس کا وارث بنایا جائے گا، وہ فقراء، قرابت داروں، غلاموں کی آزادی اور اللہ کے راستہ میں مہمانوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ جو اس کا نگراں ہو اس کا معروف طریقے سے اس میں سے کھانا یا اپنے دوست کو کھلانا جائز ہے بشرطیکہ اسے مال دار بنانا مقصود نہ ہو۔‘‘ 

(مسند أحمد: جلد، 4 صفحہ، 41 حدیث، 2206 اس کی سند ضعیف ہے اور یہ روایت صحیح لغیرہ ہے۔)

یہ ہے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ شاندار مؤقف جس میں آپؓ کی فضیلت، بھلائی و خیر کے کاموں میں آگے بڑھ نکلنے کی شدید خواہش اور اخروی زندگی پر دنیا کی فانی زندگی کو قربان کر دینے کی پوری کوشش نمایاں ہے۔