حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمت افزائی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بشارت
علی محمد الصلابیحضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمت افزائی اور ابن مسعودؓ کو بشارت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً لَا یَسْقُطُ وَرَقُہَا وَہِیَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُوْنِیْ مَا ہِیَّ؟
ترجمہ:’’درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے کبھی نہیں جھڑتے، اور یہی مسلمان کی مثال ہے۔ بتاؤ یہ کون سا درخت ہے؟‘‘
لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن میں شرم سے نہ بولا۔ صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس درخت کے بارے میں ہمیں بتا دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ کھجور کا درخت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے اپنا خیال اپنے والد کو بتایا تو انہوں نے کہا: تمہارا اسے بتا دینا میرے نزدیک اس بات سے کہیں زیادہ بہتر تھا کہ میرے پاس ایسا ایسا (قیمتی سرمایہ) ہوتا۔‘‘
(صحیح مسلم: حدیث، 2068)
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ابنِ مسعودؓ کو خوشخبری دینے کا واقعہ یوں ہے: سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں نبیﷺ کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں رات دیر تک گفتگو کی۔ پھر آپﷺ نکلے اور ہم بھی آپﷺ کے ساتھ نکلے، ہم نے دیکھا کہ ایک آدمی مسجد میں نماز پڑھ رہا ہے۔ نبیﷺ کھڑے ہو کر اس کی قرأت سننے لگے، قریب تھا کہ ہم اسے پہچان لیتے، اتنے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأ الْقُرْآنَ رَطْبًاکَمَاأُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلٰی قِرَائَ ۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ۔
ترجمہ: ’’جو قرآن کو تروتازہ پڑھنا چاہے جس طرح کہ اس کا نزول ہوا، تو وہ اسے ابنِ ام عبد کی قرائت پر پڑھے۔‘‘
پھر وہ آدمی بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا۔ اللہ کے رسولﷺ اس کے لیے فرمانے لگے:
سَلْ تُعْطَہٗ سَلْ تُعْطَہٗ۔
ترجمہ: ’’تو مانگ لے تجھے دیا جائے گا، تو مانگ لے تجھے دیا جائے گا۔‘‘
سیدنا عمرؓ کا بیان ہے کہ میں نے سوچا، اللہ کی قسم میں صبح سویرے اس کے پاس جاؤں گا اور اسے خوشخبری دوں گا جب میں خوش خبری دینے گیا تو سیدنا ابوبکرؓ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے پہلے حاضر ہیں اور اسے بشارت دے چکے ہیں۔ اللہ کی قسم ! جب کبھی میں نے ان سے کسی خیر میں مقابلہ کیا تو وہ اس میں مجھ سے آگے ہی رہے۔
(صحیح البخاری: البیوع: حدیث، 2115)
تمہارے پاس جو مال آئے اسے قبول کر لو بشرطیکہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور نہ اس کی لالچ کی ہو
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہﷺ مجھے عطیات سے نوازتے اور میں آپﷺ سے کہتا: آپﷺ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے کہا: جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو اسے دے دیجیے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
خُذُہُ وَمَا جَائَ کَ مِنْ ہٰذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَیْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْہُ ، وَمَ لَا فَلَا تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ۔
(مسند أحمد: حدیث، 175، الموسوعۃ الحدیثیۃ اس کی سند صحیح ہے۔)
ترجمہ: ’’اسے لے لو اور اس طرح کا جو مال تمہیں ملے اسے لے لو بشرطیکہ تم نے اس کا لالچ نہ کیا ہو اور اسے مانگا نہ ہو۔ اور جو ایسا نہ ہو اس کے پیچھے جان مت کھپاؤ۔‘‘