Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بدعت ایجاد کرنے سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ڈرانا

  علی محمد الصلابی

بدعت ایجاد کرنے سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ڈرانا

مسور بن مخرمہ (صحیح البخاری: العلم، حدیث، 131) اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے، ان دونوں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزامؓ کو اس وقت سورة الفرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا جب آپﷺ باحیات تھے، میں نے ان کی قرأت کو سنا، وہ اسے کئی حروف (لہجوں) میں پڑھ رہے تھے، ان (لہجوں) میں ہم کو رسول اللہﷺ نے نہیں پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں ان پر چڑھ دوڑوں، لیکن انتظار کیا یہاں تک کہ انہوں نے سلام پھیر دیا، میں نے ان کا گریبان پکڑ لیا اور کہا: میں نے ابھی تم کو جو سورۃ پڑھتے سنا ہے اسے تم کو کس نے پڑھایا ہے؟ انہوں نے کہا: اس کو مجھے رسول اللہﷺ نے پڑھایا ہے، میں نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، بے شک مجھے بھی رسول اللہﷺ ہی نے یہی سورۃ پڑھائی ہے جسے تم کو پڑھتے سنا ہے، میں انہیں لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا، اور آپﷺ سے کہا اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو سورة الفرقان کی تلاوت ان حروف میں کرتے ہوئے سنا ہے جنہیں آپﷺ نے مجھے نہیں پڑھایا ہے، حالانکہ آپﷺ نے مجھے بھی سورة الفرقان پڑھائی ہے، آپﷺ نے فرمایا: اے ہشام! اسے پڑھو چنانچہ انہوں نے اسی قرأت پر اسے پڑھا جس پر میں نے سنا تھا، آپﷺ نے فرمایا: ہٰکَذَا اُنْزِلَتْ اسی طرح اس کا نزول ہوا ہے پھر آپ نے کہا: اے عمر تم پڑھو! میں نے اس طرح پڑھا جس طرح آپﷺ نے مجھے پڑھایا تھا، آپﷺ نے فرمایا اسی طرح اس کا نزول ہوا ہے، پھر آپﷺ نے فرمایا: 

 إِنَّ الْقُرْاٰنَ أُنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاْقرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہ

ترجمہ: ’’بے شک قرآن سات حروف (لہجوں) پر نازل ہوا ہے، پس جو ان میں سے تمہیں میسر آئے پڑھو‘‘

میں اس وقت کو جانتا ہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس (باغ) میں تشریف لے گئے تاکہ اس میں برکت کی دعا کریں

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد فوت ہو گئے اور ایک یہودی کا تیس 30 وسق کھجور ان پر قرض باقی تھا۔ حضرت جابرؓ نے یہودی سے مہلت مانگی، لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کر دیا، حضرت جابرؓ نے اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ سے بات کی تاکہ آپﷺ ان کے لیے یہودی سے سفارش کر دیں، رسول اللہﷺ یہودی کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ قرض کے عوض وہ ان کی کھجور کے پھلوں کو لے لے، لیکن اس نے انکار کردیا، آپﷺ کھجور کے باغ میں داخل ہوئے اور اس میں گھومے، پھر جابرؓ سے فرمایا:

جُدَّ لَہٗ ، فَأَوْفِ لَہٗ الَّذِیْ لَہُ۔

ترجمہ: ’’اس کا حصہ لگاؤ اور اس کا پورا (قرض) اسے دے دو۔‘‘

جب آپﷺ وہاں سے لوٹ آئے تو آپﷺ نے اس کا حصہ لگایا اور اسے پورا تیس (30) وسق دے دیا نیز سترہ 17 وسق مزید کھجوریں بچ گئیں۔ حضرت جابرؓ رسول اللہﷺ کے پاس واقعہ کی خبر دینے آئے تو آپﷺ کو عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو آپﷺ کو کھجوریں بچ جانے کی خبر دی۔ آپﷺ نے فرمایا:

أَخْبِرْ بِذٰلِکَ ابْنَ الْخَطَّابِ

ترجمہ: ’’یہ خبر ابن خطاب کو بتا دو۔‘‘

چنانچہ حضرت جابرؓ سیدنا عمرؓ کے پاس گئے اور انہیں بتایا تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: مجھے وہ وقت معلوم ہے جب رسول اللہﷺ اس میں چلے تھے تاکہ اس میں برکت کی دعا کریں۔ 

(صحیح مسلم: الزکاۃ: حدیث، 1045)