Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم اور دین و ایمان

  علی محمد الصلابی

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا علم اور دین و ایمان

آپؓ کے ایمانی مقام و مرتبہ کے بارے میں عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپﷺ سیدنا عمر بن خطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدنا فاروق اعظم رضہ اللہ عنہ نے آپﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ میرے نزدیک ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ آپﷺ نے فرمایا:

لا، وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ ، حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْکَ مِنْ نَّفْسِکَ

ترجمہ: نہیں (تم مومن نہیں ہوسکتے)، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب ہو جاؤں۔‘‘

سیدنا عمر فاروقؓ نے فرمایا: اب ایسے ہی ہے۔ اللہ کی قسم آپﷺ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَلْآنَ یَاعُمَرُ

ترجمہ: ’’اب (تمہارا ایمان مکمل ہو ا) اے عمر! ‘‘

(مسند أحمد، حدیث، 222 الموسوعۃ الحدیثیۃ۔ اس کی سند شیخین کی شرط کے مطابق ہے)

سیدنا عمرؓ کے علم کے بارے میں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

 بَیْنَمَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ۔ یَعْنِیْ اللَّبَنَ ۔ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَی الرَّی یَجْرِیْ فِیْ ظُْفْرِیْ أَوْ فِیْ أَظْفَارِیْ ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ۔

ترجمہ: ’’میں سورہا تھا تو میں نے (خواب میں) دودھ نوش کیا، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کی تراوٹ میرے ناخن یا ناخنوں میں جاری ہے، پھر میں نے وہ (دودھ) عمر کو دیا۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: آپﷺ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’العلم‘‘ یعنی (دودھ سے) علم مراد ہے۔ 

(عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام د ناصر بن علی عائض حسن الشیخ: جلد، 1 صفحہ، 243 )

آپﷺ نے دودھ کی تعبیر علم سے اس لیے کی کہ نفع رسانی کی کثرت اور تعمیر و نمو کا سبب ہونے میں دونوں مشترک ہیں۔ پس دودھ جسمانی غذا کے لیے اور علم روحانی غذا کے لیے ہے۔ اس حدیث میں سیدنا عمرؓ کی فضیلت ومنقبت نمایاں طور پر جھلک رہی ہے۔ دراصل خواب کی حقیقت یہ ہے کہ اسے ظاہر پر محمول نہ کیا جائے اور انبیاء علیہم السلام کا خواب اگرچہ وحی کا ایک حصہ ہے تاہم اس میں بھی بعض کو ظاہر پر محمول کیا جاتا ہے اور بعض کی تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ مذکورہ حدیث میں علم سے مراد لوگوں کے ساتھ آپ کی وہ شرعی سیاست و تدبیر ہے جو اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول اللہﷺ پر مبنی ہوتی تھی اور آپؓ کو یہ خصوصیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آپؓ کی مدت خلافت طویل رہی اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں آپؓ کی اطاعت پر لوگ زیادہ متفق تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ کی مدت خلافت مختصر رہی اور اس میں فتوحات کی کثرت نہیں ہوئی جو اختلافات کے نمایاں ہونے کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس مدت میں لوگوں کے ساتھ طویل معاشرت کے باعث ان میں اس طرح سیاست کرتے رہے کہ کسی نے آپؓ کی مخالفت نہ کی اور جب سیدنا عثمانؓ کے دورِ خلافت میں فتوحات کا دائرہ وسیع ہو گیا تو اختلاف آراء و اقوال کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا اور آپؓ کی فرمانروائی کو تسلیم کرنے کے لیے عوام کا وہ اتفاق سامنے نہ آیا جو سیدنا عمر فاروقؓ کے لیے ہوا تھا۔ پھر یہیں سے فتنوں کا آغاز ہوا، یہاں تک کہ معاملہ آپؓ کی شہادت تک جا پہنچا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے لیکن اختلافات سنگین سے سنگین تر اور فتنے وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے۔

اور جہاں تک آپؓ کی دینداری کا تعلق ہے سو اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

 بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُ النَّاسَ یُعْرَضُوْنَ عَلَیَّ وَعَلَیْہِمْ قُمُصٌ مِنْہَا مَا یَبْلُغُ الثَّدِیَّ وَمِنْہَا مَا یَبْلُغُ دُوْنَ ذٰلِکَ وَمَرَّ عُمَرو ابْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَیْہِ قَمِیْصٌ یَجُرُّہُ۔

ترجمہ: ’’میں سویا ہوا تھا، میں نے (خواب) دیکھا کہ لوگ مجھ پر پیش کیے گئے اور ان کے جسموں پر قمیضیں تھیں، اس میں بعض کی قمیض سینے تک اور بعض کی اس سے کم ہے ، اور عمر بن خطاب گزرے تو ان کے جسم پر (لمبی) قمیض تھی جسے وہ گھسیٹ رہے تھے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: آپﷺ اس کی کیا تعبیر کرتے ہیں اے اللہ کے رسول؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اَلدِّیْنَ یعنی قمیض سے مراد دین ہے۔

(الصحیح المسند فی فضائل الصحابۃ: صفحہ، 66)