انتخاب خلیفہ کے اسلامی طریقے سے متعلق شیعوں سے چند سوالات
مولانا علی معاویہانتخاب خلیفہ کے اسلامی طریقے سے متعلق شیعوں سے چند سوالات
سوال1:
حضرت علی المرتضیٰ کس طرح خلیفہ قرار پائے شیعہ کی معتبر کتاب کشف الغمہ ص103پرہے سعید بن مسیب کہتے ہیں جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو لوگ امیر المؤمنین کے پاس آئے اور گھر میں داخل ہو کر کہنے لگے آپ ہاتھ بڑھائیں ہم آپکی بیعت کرتے ہیں لوگوں کے لیے امیر ضرور ہونا چاہیے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسکا اختیار تم کو نہیں ٫٫
وانما ذلک لاھل بدر فمن رضوا بہ فھو خلیفۃ ،،
اسکا اختیار صرف بدریوں کو ہے جسے پسند کریں وہ خلیفہ ہوگا۔
فرمائیے اگر آپ پہلے سے منصوص خلیفہ تھے تو یہ کیوں فرمایا ۔ اھل بدر اور مہاجرین کو انتخاب کا حق کیوں بخشا اور ان کے منتخب شخص کو خلیفہ برحق کیوں بتایا؟
سوال 2:
اگر شوریٰ سے انتخاب برحق نہیں ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ کیوں فرمایا مسلمانوں کے خلافت کا معاملہ باہمی مشورے سے ہو گا مجھے اپنی جان کی قسم اگر ایسا ہو کہ امامت اور خلافت اس وقت تک قائم نہ ہو جب تک عامۃ الناس حاضر نہ ہوں پھر تو انتخاب ناممکن ہو گا کہ سب لوگوں کا اجتماع محال ہے لیکن (حق یہ ہے )کہ خلافت کے حل و عقد والے جس کے انتخاب کا فیصلہ کر دیتے ہیں وہ غیر موجود پر بھی لاگو ہوتا ہے پھر نہ شاہد کو رجوع کا اختیار ہے نہ غائب کو نئے انتخاب کا (نہج البلاغہ صفحہ 105 جلد 2)
سوال 3:
اگر بقول شیعہ یہ الزامی بات ہے تو پھر آپ نے حصر کرکے یوں کیوں فرمایا
انما الشوریٰ للمهاجرين والانصار فان اجتمعوا على رجل وسموه اماما كان ذلك لله رضی ( نهج البلاغه)
اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ شوریٰ سے انتخاب کا حق صرف مہاجرین و انصار کو ہے پس اگر کسی شخص پر اتفاق کرلیں اور اسے امام نامزد کر دیں تو یہی انتخاب اللہ کو پسند ہوتا ہے ۔
پس اگر ان کے اتفاق سے کوئی شخص کسی طعن یا بدعت کے ذریعے علیحدگی اختیار کرے تو یہ اسے واپس لائیں گے اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ کریں گے کیونکہ اس نے مومنین کا راستہ چھوڑ کر غیر راستہ اختیار کیا ہے
سوال نمبر 4:
اگر بقول مفترین بر مرتضیؓ یہ الزامی کلام ہے اور اپنے اعتقاد کے موافق آپ ان جمہور لوگوں کے انتخاب سے خلیفہ نہیں بنے تو فرمائیے آپ کو ان سے استحکام خلافت میں مدد لینے کا کیا حق تھا آپ نے ان کو ساتھ لے کر عظیم خونی معرکے اپنے سیاسی مخالفین سے کیوں سر کیے ؟شیعہ کی مزعومہ منصوصہ خلافت حسب سابق اب بھی باقی تھی پھر ستر ہزار مسلمانوں کے کشت و خون کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی؟ کیا خلافت کو غیر جمہوری ماننے پر شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ سنگین الزام دور کر سکتے ہیں؟ کس قدر مقام حیرت و استعجاب ہے کہ شیرخدا تو جمہوری انتخاب کو برحق اور جزو ایمان سمجھ کر ستر ہزار کشتگان کی ذمہ داری اپنے اوپر لیتے ہیں مگر آج آپ کا نادان دوست اس انتخاب کو ناجائز اور خلاف عقیدہ و ایمان بتاتا ہے۔
سوال 5..
اصول کافی صفحہ 407 جلد 1 بروایت جعفر صادق یہ مرفوع حدیث ہےکہ امامت صرف اس آدمی کی درست ہوتی ہے جس میں تین خصلتیں ہوں۔ گناہ سے مانع تقوی ہو۔ غصہ کے وقت بردباری ہو۔ ماتحت رعایا پر بہتر حکومت ہو۔ جیسے باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے۔ جمل و صفین پر بغلیں بجانے والے حضرات کیا تاریخ اور اپنی کتب کی روشنی میں تیسری خصلت کو ایام مرتضویؓ میں تلاش کر کے دکھلاسکتے ہیں کہ کس قدر لوگوں کو رحمت اور سکھ پہنچایا۔ کیا خلفاء ثلاثہؓ کے زمانوں کے ساتھ عشر عشیر نسبت بھی ہے۔ یہ الزامی اور خصم معاند کو خاموش کرنے کے لیے ہے ورنہ ہمارے عقیدے میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت برحق تھی اور مقدور بھر آپ( رعایا پر مہربان بھی تھے)پھر کیوں لوگ حضرت معاویہ رضی ﷲ عنہ کے طرف دار ہوتے گۓ حتی کہ آپ کی خلافت عراق و حجاز میں محدود رہ گئی ۔ (تاریخ)
سوال 6.
اصول کافی صفحہ 178جلد 1 پر امام جعفر صادق کی حدیث ہے کہ زمین کسی وقت امام سے خالی نہیں ہوتی تاکہ اگر مؤمنین دین میں کمی بیشی کریں تو وہ اسکی تلافی کرے نیز یہ کہ امام حلال و حرام کو پہچانتا اور لوگوں کو خدا کے راستے کی طرف بلاتا ہے۔ فرمائیے بقول شیعہ واعتراف حضرت علی رضی ﷲ عنہ (روضۂ کافی صفحہ 59وغیرہ)
خلفائے ثلاثہ نے دین میں بہت کمی بیشی کی تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے اسکی تلافی کر کے شیعی اسلام کو کیوں نافذ نہ کیا۔ متعہ کیوں نہ چلایا۔ شیعہ نے کیوں آپؓ پہ تقیہ کی تہمت لگائی۔ دو باتیں لازم ہیں۔ یا تو آپ رضی ﷲ عنہ سنی تھے۔ یا پھر امامت کے قابل نہیں تھے اور خلیفۂ برحق ثابت نہ ہوۓ۔ بینوا۔
سوال 7
ذرا غور فرمائیے مسئلہ امامت کی ایجاد سے دین اسلام اور مسلمانوں کو کیا نفع پہنچا؟۔ مجلسی نے لکھا ہے کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ولایت علی کی تبلیغ سے اسلیۓ ڈرتے اور تاخیر کرتے تھے مبادا امت میں اختلاف پیدا ہوجاۓ اور بعض دین سے مرتد ہو جائیں ۔(حیات القلوب صفحہ 540 جلد 2) پھر جب آپ نے اعلان کیا تو فرمایا جو علی کا انکار کرے کافر ہے۔ جو بیعت میں دوسرے کو شریک کرے مشرک ہے جو خلافت بلافصل میں شک کرے وہ جاہلیت اولی کیطرح کافر ہے (حیات القلوب صفحہ 543) کیا اس مسئلے کا حاصل مسلمانوں کو کافر و مرتد بنانے کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ شیعی ائمہ میں سے زیادہ سے زیادہ لشکر اور تابعدار حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو صرف ملے تھے مگر ان میں 50 سے بھی کم مسلمان تھے کیونکہ اس عقیدے سے جہالت و انکار کیوجہ سے سب کافر ہوئے (رجال کشی صفحہ 3)پر ہیکہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے ساتھ عراق میں دشمن سے لڑنے والے بکثرت تھے مگر ان میں 50 بھی ایسے نا تھے جو آپکی امامت کو کما حقہ پہچانتے ہوں ۔ باقی ائمہ کے شیعہ مومنین کی تعداد سوال نمبر 12 میں ملاحظہ فرمائیں۔ یہ بھی معلوم ہوچکا کہ یہ مسئلہ تقیہ باز منافقوں کی خانہ ساز ایجاد ہے ۔
سوال 8
جب امامت رسالت کیطرح منصوص عہدہ ہے امام واجب الاتباع اور معصوم بھی ہوتا ہے۔ وہ حلال و حرام میں مختار بھی ہوتا ہے۔اور ہر امام کو اپنے اپنے زمانے کیلئے الگ الگ کتاب بھی ملی ہے (کما فی الکافی وجلاء العیون) تو ہر امام کا مذہب و شریعت دوسرے سے جدا ثابت ہوئی جو پچھلے امام کے شیعہ کیلئے حجت نہیں جیسے سابق پیغمبر کی شریعت پچھلی امت کے لیے حجت نہیں۔ بنابریں آج امام مہدی کے شیعہ حضرت باقر و جعفر کے اقوال سے کیوں تمسک کرتے ہیں کیا اس سے امام مہدی کا انکار نہ ہوگیا؟ جبکہ انکو فقط حضرت مہدی سے شریعت سیکھنے کا حق ہے۔