Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ایمان بالرسول کی حقیقت اور اس پر شیعی شکوک وشبہات سے متعلق شیعوں سے چند سوالات

  مولانا علی معاویہ

ایمان بالرسول کی حقیقت اور اس پر شیعی شکوک وشبہات سے متعلق شیعوں سے چند سوالات

سوال نمبر 1
ذرا بتائیں ایمان بالرسول کی کیا حقیقت ہے؟ کیا آپ کو امین سچا اور نیک و پارسا ماننا کافی ہے ؟ يہ تو ابوجہل بھی مانتاتھا، یا جو کچھ آپ خدا کی طرف سے لائے ہیں اور قول وعمل سے امت تک پہنچایا اس سب کی تصدیق ضروری ہے؟ اگر سب کی تصدیق ضروری ہے تو شیعہ عملاً اس تفریق کے کیوں قائل ہیں کہ (بقول ان کے ) حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ اور آپؓ کی اولاد کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے وہی اخذ کیا جائے اور احکام شرع میں شیعہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے محتاج نہیں نہ آپؓ سے حاصل کرنا ضروری ہے وہ عالم لدنی و مسلمان ازلی امام اول حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے لینا ضروری ہیں۔ چنانچہ جعفر صادق کا يہ فرمان اصول کافی ج1ص 117لکھنؤ پر موجود ہے۔ 

جو احکام شرع علی لائے ہیں میں وہ لیتا ہوں اور جس سے وہ روکیں رکتا ہوں آپ کا وہی منصب ہے جو محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کا ہے ۔

سوال نمبر2

 کیا خدا کی طرف سے پیدائشی عالم و فاضل شیعہ کے امام و معلم اول حضرت علیؓ کتاب اللہ اور شرع سیکھنے میں حضور ﷺ کے محتاج تھے ؟ جمہور شیعہ اس کے منکر ہیں اور اسے حضرت علیؓ کی توہین جانتے ہیں کیونکہ حضرت علیؓ کے علم لدنی کا انکار اور جاہل و غیرمسلم ہونا لازم آتا ہے،
 خاتم المحدثین ملا باقر علی مجلسی لکھتا ہے کہ جب حضرت علیؓ پیدا ہوۓ تو حضرت ابراہیمؑ اور نوح علیہ السلام کے صحیفے،حضرت موسیٰ کی تورات فر فر ایسے زبانی سنا دیں کہ ان پیغمبروں سے بھی زیادہ یاد تھیں جن پر نازل ہوئیں ۔ پھرانجیل کی تلاوت کی اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام حاضر ہوتے تو اقرار کرتے کہ یہ مجھ سے بہتر تورات اور انجیل کا عالم ہے پس وہ قرآن جو مجھ پر نازل ہوا سب پڑھ سنایا بغیر اس کے کہ مجھ سے کچھ سنا ، میں نے اس سے بات کی اس نے مجھ سے کی جیسے کہ پیغمبر اور اوصیاء ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں ۔ (جلاء العيون ١۶٩) 

حب حضرت علیؓ از خود قرآن کے حافظ و عالم تھے اور صاحب انجیل کی طرح صاحب قرآن سے بھی بڑے عالم ہوں گے تو آپ حضور ﷺ کے کسی بات میں قطعاً شاگرد و محتاج نہ بنے شیعی سلسلہ اسلام بواسطه ائمہ براه راست وبلا واسطہ نبوت خدا تک پہنچ گیا۔ اس حقیقت کے باوجود شیعہ کا ایمان بالرسالت کا دعویٰ  کیا سنگین جھوٹ اور فراڈ نہیں؟؟؟؟ 

سوال نمبر3

کیا حضور علیہ السلام کے قول وفعل سے جو کچھ ظاہر ہوتا وہ مبنی برحقیقت اور قابل تصدیق ہوتا تھا یا نہیں؟ اگر ہر فعل و ارشاد حقیقت کا ترجمان تھا تو شیعہ حضور علیہ السلام پر تقیہ کا الزام شنیع کیوں لگاتے ہیں جس کا مطلب يہ ہے کہ جو بات آپ نے ظاہر کی وہ حق نہ تھی جو کچھ دل میں چھپایا وہ حقیقت ہوتا تھا۔ اس صورت میں نبوت کے ارشادات و اعمال سے یقین اٹھ جائے گا۔ امام صادق رحمة ﷲ علیہ کا يہ فرمان کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم آیت "بلغ ما انزل" کے نازل ہونے سے پہلے کبھی کبھی تقیہ کرتے تھے۔ نیز يہ کہ حج کی احادیث مختلفہ تقیہ پر محمول ہیں۔ نیز حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی ولایت اور امامت کا حکم خدا پہنچانے میں لوگوں سے ڈرتے ہیں اورخدا نے ڈانٹ کر تاکیدی وحی اتاری نیز يہ کہ لشکر اسامہ رضی ﷲ عنہ کو بھیجنے سے مقصود جہاد نہ تھا بلکہ مدینہ کو منافقوں سے خالی کرانا تھا تا کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت میں کوئی نزاع نہ کر سکے ملاحظہ ہو (حیات القلوب ج 2 ص 118،537،542،678 وغیرہ)

کیا نبوت محمدی صلی ﷲ علیہ وسلم کا انکار کرنے کے لئے اس سے بہتر حربے بھی کسی فرقے کو سوجھے ہیں؟؟؟ 

سوال نمبر 4

کیا حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے متعلقین اور رشتہ داروں کو رشتۂ اسلام کی وجہ سے ماننا اور عزت کرنا احترام رسول میں داخل اور ایمان بالرسالت کا شعبہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو شیعہ اسے صرف چار افراد میں منحصر کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا ان چار کے سوا آپ ﷺ نے کسی اور رشتہ دار اور قریبی کے متعلق کچھ مدح نہیں فرمائی یا اپنے عمل سے کسی کی توقیر و عزت میں اضافہ نہیں فرمایا۔ اگر جواب نفی میں ہے تو حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کی سب طرز زندگی اور بیسیوں ارشادات سے اعراض کر کے صرف چار حضرات کو چند فضائل کی بناء پر مستحق عزت جاننا کیا نبوت کا انکار اور حب مرتضوی میں غلو نہیں ہے؟ آخر کس اصول کی رو سے ان کے حق میں چند مدحیہ ارشادات رسول واجب التسلیم ہیں اور بقیہ حضرات کے متعلق آپ کے دسیوں ارشادات اور عملی اعزازات قابل تسلیم نہیں ہیں؟