حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بارے میں صحابہ و تابعین کا موقف
ابو شاہینحضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بارے میں صحابہ و تابعین کا موقف
محمد بن حنفیہؒ:
ان اپنے بھائی کی کوفہ روانگی کا علم ہوا تو وہ آپ کے پاس آئے اور سخت مضطرب ہو کر کہنے لگے: میرے بھائی! آپ مجھے سب لوگوں سے پیارے ہیں اور میری نظروں میں آپ کی عزت بھی بہت زیادہ ہے، مخلوق میں ایسا کوئی شخص نہیں جو میری نصیحت کا آپ سے زیادہ حق دار ہو، آپ یوں کریں کہ خود بھی یزید بن معاویہ کی بیعت نہ کریں اور جہاں تک ہو سکے دوسرے شہروں کو بھی اس سے روکیں ، پھر لوگوں کے پاس اپنے قاصد بھیج کر انہیں اپنی طرف بلائیں اگر وہ لوگ آپ کی بیعت کر لیں تو ہم اس پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں گے اور اگر ان کا کسی اور پر اتفاق ہو جائے تو اس سے اللہ تعالیٰ نہ آپ کے دین میں کمی کرے گا اور نہ آپ کی عقل میں اور نہ اس سے آپ کی مردانگی میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کسی شہر میں داخل ہو کر کسی جماعت کے پاس جائیں اور ان کا آپس میں اختلاف ہو جائے، کہ ان میں سے کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہوں اور کچھ آپ کے خلاف اور پھر وہ آپس میں لڑ پڑیں اور آپ پہلے نیزے کا شکار بن جائیں اور اس طرح اس امت کے ہر اعتبار سے بہتر اور افضل انسان کا خون رائیگاں چلا جائے۔ مگر حضرت حسینؒ نے فرمایا کہ میرے بھائی! میں تو جا رہا ہوں ۔ انہوں نے فرمایا: پھر آپ مکہ چلے جائیں ، اگر آپ کو وہاں اطمینان میسر آئے تو ٹھیک ہے ورنہ شہر شہر پھرتے رہیں اور لوگوں کے فیصلے کا انتظار کریں ۔ انہوں نے جواب دیا: میرے بھائی! تم نے میری خیرخواہی فرمائی اور امید کرتا ہوں کہ تمہاری رائے درست ہو گی۔
( انساب الاشراف: جلد، 6 صفحہ، 15 اور 16)
مگر وہ اپنی کوفہ روانگی پر مصر رہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:
جب ان کی روانگی کا علم ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ہوا تو وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: لوگ یہ سن کر بڑے پریشان ہیں کہ آپ عراق جا رہے ہیں، مجھے اصل حقیقت سے آگاہ کیجیے! حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے عزم کر لیا ہے کہ آج یا کل روانہ ہو جاؤ ں گا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: کیا آپ ایسے لوگوں میں جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے دشمن کو نکال دیا ہے اور ملک پر قبضہ کر لیا ہے، اگر تو وہ ایسا کر چکے ہیں تو بڑے شوق سے جائیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوا، حاکم بدستور ان کی گردنیں دبائے بیٹھا ہے اور اس کے کارکن مسلسل اپنی کارستانیاں کر رہے ہیں تو پھر وہ آپ کو فتنہ اور جنگ کی طرف بلا رہے ہیں ، میں ڈرتا ہوں کہ وہ آپ کو دھوکا نہ دیں اور جب دشمن کو طاقت ور دیکھیں تو آپ کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار نہ ہو جائیں ۔ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کروں گا اور صورت حال پر نگاہ رکھوں گا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کی گفتگو اور تیاری سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ روانگی کے لیے پرعزم ہیں لیکن چونکہ میں اس سے خوش نہیں ہوں لہٰذا وہ اصل بات مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جب ان کی روانگی کا وقت قریب آ گیا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما پھر دوڑے آئے اور کہنے لگے: اے چچا زاد! میں خاموش رہنا چاہتا تھا مگر خاموش رہ نہیں سکتا، میں اس راہ میں آپ کی ہلاکت اور بربادی دیکھ رہا ہوں ، اہل عراق دغا باز قسم کے لوگ ہیں ان کے دھوکے میں نہ آئیں ، یہیں قیام کریں ، یہاں تک کہ جب عراق والے اپنے دشمن کو نکال باہر کریں تو پھر وہاں ضرور تشریف لے جائیے۔ اگر آپ حجاز سے جانا ہی چاہتے ہیں تو پھر یمن چلے جائیں وہاں قلعے اور دشوار گزار پہاڑ ہیں اور ملک کشادہ ہے۔ وہاں کے لوگ آپ کے والد کے ہم نوا ہیں ۔ ان لوگوں سے الگ تھلگ رہیں ، خطوط اور قاصدوں کے ذریعے سے اپنی دعوت پھیلاتے رہیں ، مجھے یقین ہے کہ آپ یہ کام کریں گے تو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر حضرت حسینؓ نے جواب دیا: اے چچا زاد ! میں جانتا کہ آپ میرے خیرخواہ ہیں لیکن اب میں روانگی کا عزم کر چکا ہوں ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر آپ نے جانا ہی ہے تو عورتوں اور بچوں کو ساتھ نہ لے جائیں ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ ان کے سامنے اس طرح قتل نہ کر دیے جائیں جس طرح سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اپنے گھر والوں کے سامنے قتل کر دئیے گئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد سیدنا حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے پرجوش انداز میں کہا: اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں آپ کے بال پکڑ لوں اور اس پر لوگوں کے جمع ہونے سے آپ رک جائیں گے تو میں یہ کام بھی کر ڈالوں۔مگر آپ پھر بھی اپنے ارادے پر قائم رہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرعی اعتبار سے یزید کے خلاف ان کے خروج کے خلاف نہیں تھے البتہ وہ اس حکمت عملی کے خلاف تھے۔ ان کے نزدیک حضرت حسینؓ کو اس وقت تک عراق کے لیے روانہ نہیں ہونا چاہیےتھا ۔ جب تک انہیں وہاں موجود اپنے حمایتیوں کی طاقت کا علم نہ ہو جائے اور امویوں کے اثر و نفوذ کے خاتمہ کا یقین نہ ہو جائے اور اگر وہ کہیں جانے پر مصر ہی ہیں تو پھر یمن چلے جائیں جو اموی اثر و نفوذ سے دُور ہے اور وہاں ان کے انصار و معاونین بھی ہیں اور چھپنے کے کئی ایک مقامات بھی، اس طرح وہ یزید کے مقابلے میں اپنی تمام قوتوں کو یکجا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:
انہوں نے کئی مواقع پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خیر خواہی کی، جب انہیں یہ خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اور سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما یزید کی بیعت کو ردّ کر کے مکہ مکرمہ جا رہے ہیں تو وہ ان سے کہنے لگے: میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہیں سے لوٹ جاؤ اور حالات کا انتظار کرو۔ اگر لوگوں کا اس پر اتفاق ہو جائے تو تم اس سے علیحدہ نہ رہو اور اگر اس پر اتفاق نہ ہو سکے تو اس سے تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔
( الطبقات الکبری، تحقیق سلمی: جلد، 1 صفحہ، 666)
جب مدینہ منورہ آنے پر انہیں ان کے کوفہ روانہ ہونے کی خبر ملی تو وہ رات کی مسافت پر انہیں پیچھے سے جا ملے اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہم عراق جا رہے ہیں ۔ اس وقت ان کے پاس کئی خطوط بھی تھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم کوفہ والوں کے پاس مت جاؤ۔ انہوں نے کہا: یہ ان کے خطوط اور بیعت کا عہد ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا و آخرت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا تو انہوں نے آخرت کو پسند کیا، جبکہ تم بھی انہی کا ایک حصہ ہو۔ تم میں سے کوئی ایک بھی کبھی اقتدار نہیں سنبھال سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بہتر چیز کے لیے ہی تم سے دنیا کو دُور کیا ہے۔ لہٰذا تم لوٹ چلو۔ مگر انہوں نے اس سے انکار کر دیا، اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان سے بغل گیر ہو کر فرمانے لگے: اے مقتول! میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔
( سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 292 )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کے بعد فرمایا کرتے تھے: حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کے بارے میں ہم پر غالب آ گئے۔ مجھے میری زندگی کی قسم یقینا انہوں نے اپنے باپ اور بھائی میں عبرت کا سامان دیکھ لیا ہو گا۔ ایسے حالات میں ان کے لیے متحرک ہونا درست نہیں تھا۔ انہیں لوگوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے تھا اس لیے کہ جماعت میں خیر ہوتی ہے۔
( مختصر تاریخ دمشق: جلد، 7 صفحہ، 137)
سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ:
بعض ضعیف روایات میں ان پر یہ تہمت لگائی گئی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو روانگی پر مطمئن کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ حالانکہ ان کے بارے میں یہ ثابت ہے کہ انہوں نے انہیں کوفہ جانے سے خبردار کرتے ہوئے اور ان کی خیرخواہی کرتے ہوئے فرمایا تھا: آپ ان لوگوں کے پاس جا رہے ہیں جنہوں نے آپ کے باپ کو قتل کیا اور بھائی کو زخمی کیا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: اگر مجھے فلاں فلاں جگہ قتل کر دیا جائے تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میری وجہ سے مکہ مکرمہ کی حرمت پامال کی جائے۔
( مصنف ابن ابی شیبۃ: جلد، 5 صفحہ، 95 حسن سند کے ساتھ )
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو صاحب بیعت امام کے خلاف خروج سے تعبیر کیا تھا۔ انہوں نے ان کے خروج کو اس طرح بھی دیکھا کہ طرفین کے لیے اس کے جو بھی نتائج ہوں یہ امت کے لیے شر اور آزمائش کا پیغام لے کر ہی آئے گا۔
( مواقف المعارضۃ: صفحہ، 236)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما
انہوںؓ نے فرمایا تھا: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خروج کے حوالے سے مجھ پر غالب آ گئے۔ میں نے ان سے کہا تھا: اپنی ذات کے بارے میں اللہ سے ڈریں ، اپنے گھر میں ٹکے رہیں اور اپنے امام کے خلاف خروج نہ کریں ۔
( تہذیب الکمال: جلد، 6 صفحہ، 661 الطبقات: جلد، 1 صفحہ، 665 )
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما:
آپؓ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے بات کی اور ان سے کہا: اللہ سے ڈریں اور لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف نہ بھڑکائیں ۔ اللہ کی قسم تم جو کچھ کر رہے ہو وہ لائق ستائش نہیں ہے۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ مانی۔
(ایضا)
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما:
انہوں نے آپ کے نام خط لکھا اور اسے اپنے دو بیٹوں محمد اور عون کے ہاتھوں ان تک پہنچایا، انہوں نے اس میں لکھا تھا: میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ یہ خط پڑھتے ہی اپنے ارادے سے باز آ جائیں ۔ اس لیے کہ اس راہ میں آپ کے لیے ہلاکت اور اہل بیتؓ کی بربادی ہے۔
( تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 311 )
مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس سے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے خروج کا سبب یزید کے والی حضرت عمرو بن سعید بن العاصؓ کا خوف ہے۔ چنانچہ انہوں نے سیدنا عمرو بن سعیدؓ سے مطالبہ کیا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے نام خط لکھ کر انہیں ہر طرح سے مطمئن کر دو۔ حضرت عمروؓ نے کہا: آپ جو کچھ چاہیں لکھ لائیں ، میں اس پر مہر لگا دوں گا۔
( ایضا )
چنانچہ انہوں نے والی حضرت عمرو بن سعیدؓ کی جانب سے یہ خط لکھا:
’’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو اس راستہ سے دُور کر دے جس میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے اور اس راستہ کی طرف رہنمائی کر دے جس میں سلامتی ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ عراق جا رہے ہیں، میں آپ کی ہلاکت سے ڈرتا ہوں، میں عبداللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، ان کے ساتھ واپس آ جائیں، میرے پاس آپ کے لیے امن، نیکی، احسان اور حسن جوار ہے، اللہ اس پر شاہد ہے اور وہی اس کا نگہبان اور کفیل ہے۔‘‘ ( تاریخ الطبری: جلد،6 صفحہ، 312 ) مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس پیش کش کو بھی مسترد کر دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ:
ان سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں مجھے حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے خروج کی خبر ملی، تو میں نے انہیں اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ آپ ایسا نہ کریں، یہ خروج کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں ہے اس طرح آپ اپنے آپ کو ہلاکت سے دوچار کر دیں گے مگر انہوں نے کہا کہ میں واپس نہیں جاؤں گا
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 7 صفحہ، 139)
حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰنؓ:
انہوں نے ایک خط کے ذریعے سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے اس فعل کی سنگینی سے آگاہ کیا اور انہیں اطاعت اور لزوم جماعت کا مشورہ دیا اور انہیں بتایا کہ انہیں ان کے مقتل کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ (ایضاً: جلد، 7 صفحہ، 160)
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث رضی اللہ عنہ:
آپ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا میرے عم زاد! رشتہ داری مجھے تم پر رحم کرنے کے لیے مجبور کرتی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ میں تمہاری خیر خواہی کیسے کروں ؟ انہوں نے فرمایا ابوبکر! آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں ضرور کہیں انہوں نے فرمایا اہل عراق نے تمہارے باپ اور تمہارے بھائی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ میری آنکھوں کے سامنے ہے تم ان لوگوں کے پاس جانا چاہتے ہو، حالانکہ وہ دنیا کے پجاری ہیں، تمہارے ساتھ وہی لوگ قتال کریں گے جنہوں نے تم سے مدد کا وعدہ کیا ہے اور تمہیں وہی لوگ بے یار و مددگار چھوڑیں گے، جنہیں تم ان لوگوں سے زیادہ پیارے ہو جن کی وہ معاونت کریں گے میں تمہارے بارے میں تمہیں اللہ یاد کراتا ہوں یہ سن کر انہوں نے فرمایا میرے عم زاد! اللہ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے میرے بارے میں اللہ جو بھی فیصلہ کر چکا ہے وہ نافذ ہو جائے اس پر ابوبکر نے انا للہ پڑھا اور فرمایا: ابوعبداللہ! ہم اللہ سے ثواب حاصل کریں گے۔ ( البدایہ و النہایہ:جلد، 11صفحہ، 506 )
حضرت عبداللہ بن مطیع رضی اللہ عنہ:
انہوں نے کہا ! میرے والدین آپ پر قربان، اپنی ذات سے ہمیں فائدہ پہنچائیں اور عراق جانے کا ارادہ ترک کر دیں، اللہ کی قسم اگر ان لوگوں نے آپ کو قتل کر دیا تو یہ ہمیں غلام بنا لیں گے۔
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 7 صفحہ، 139)
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ:
امام ذہبیؓ نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ عراق نہ جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا.
حضرت عمرو بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ:
انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو صحیح راستہ القا کرے اور تباہ کن چیز سے دور ہٹا دے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے عراق جانے کا عزم کر لیا ہے، میں تمہیں تشتت و اختلاف سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 209 احداث و احادیث فتنۃ الہرج: صفحہ، 212)
فرزدق
مشہور محبِ اہل بیت شاعر فرزدق نے صفاح کے مقام پر حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، آپ نے اس سے پوچھا تیرے پیچھے لوگوں کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا لوگ آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں مگر ان کی تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں اور فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔
(مختصر تاریخ دمشق: جلد، 7 صفحہ، 166)
دوسری روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہاکہ میں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا اہل عراق تمہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیں گے، ان کے پاس مت جائیں مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی۔
(تاریخ دمشق: جلد، 16 صفحہ، 216)
حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی عراق روانگی کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین کے مؤقف کے بارے میں یہ ہیں ان کے اقوال اور اس اہم ترین قضیہ کے بارے میں ان کا فلسفہ انہوں نے یزید کی بیعت اس لیے نہیں کی تھی کہ وہ اسے دیگر صحابہ کرامؓ اور تابعین سے افضل خیال کرتے تھے بلکہ انہوں نے مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ بازی سے بچنے کے لیے اس سے بیعت کی تھی اس کی دلیل حمید بن عبدالرحمٰن سے مروی ان کا یہ بیان ہے کہ جب یزید بن معاویہ کو خلیفہ بنایا گیا تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک آدمی کے پاس گئے تو انہوں نے فرمایا کیا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ یزید امت محمدیہ کا بہتر آدمی نہیں ہے، زیادہ سمجھ دار بھی نہیں ہے اور نہ زیادہ عز و شرف والا ہے؟ ہم نے کہا ہاں انہوں نے فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں، مگر اللہ کی قسم امت محمدیہﷺ کا اجتماع مجھے ان کے افتراق سے زیادہ پسند ہے۔
(الطبقات: جلد، 7 صفحہ، 167 تاریخ خلیفۃ: صفحہ، 166)
یہ بات خاص طور پر نوٹ کی جائے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے تمام خیر خواہوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ انہیں عراق نہیں جانا چاہیے اور یہ کہ اہل عراق پر قطعاً اعتماد نہیں کرنا چاہیے، سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک خط میں لکھا تھا کہ انہیں عراقیوں کے خطوط کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے، انہیں یہ بھی نصیحت کی گئی تھی کہ وہ حرم میں ہی موجود رہیں، اگر لوگوں کو ان کی ضرورت ہو گی تو وہ خود ان کی طرف دوڑے چلے آئیں گے اس طرح وہ پوری قوت اور تیاری کے ساتھ عراق روانہ ہو سکیں گے۔ (مختصر تاریخ دمشق: جلد، 7 صفحہ، 160)
ناصحینِ حسین رضی اللہ عنہ کا اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ اہل عراق خائن لوگ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی صورت قابلِ اعتماد نہیں ہیں، مزید برآں وہ سب کے سب ان کی شہادت کا خطرہ بھی محسوس کر رہے تھے اور یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کے خیرخواہ یہ علماء نئے حالات و واقعات سے بخوبی آگاہ تھے اور ان گزشتہ واقعات سے بھی جو فتنہ کے دوران میں سیّدنا علیؓ اور امیر معاویہؓ کے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔
(اثر العلماء فی الحیاۃ السیاسیۃ: صفحہ، 681)