سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہیبت اور شیطان کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے خوف کھانا
علی محمد الصلابیسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ہیبت اور شیطان کا سیدنا عمرؓ سے خوف کھانا
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہونے کی ایسے وقت میں اجازت مانگی جب کہ قریش کی چند عورتیں آپؓ سے بات کر رہی تھیں اور آپؓ کی آواز سے اونچی آواز کے ساتھ آپؓ سے کثرت (نان و نفقہ) کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جب عمر بن خطابؓ نے اجازت مانگی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور جلدی جلدی پردہ کرنے لگیں۔ آپﷺ نے انہیں اجازت دے دی، آپؓ اندر داخل ہوئے اور دیکھا کہ رسول اللہﷺ ہنس رہے ہیں۔ آپؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپﷺ کے دانتوں کو ہنسائے (ماجرا کیا ہے؟)، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
عَجِبْتُ مِنْ ہٰؤُلَائِ اللَّاتِیْ کُنَّ عِنْدِیْ فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَکَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ۔
ترجمہ:’’مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا وہ سب میرے پاس تھیں اور جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے پردہ میں ہو گئیں۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! آپﷺ تو اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ وہ آپﷺ سے ڈریں، پھر سیدنا عمرؓ نے کہا اے اپنی جانوں کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہﷺ سے نہیں ڈرتی؟ عورتوں نے جواب دیا: ہاں، آپ رسول اللہﷺ کے مقابلے میں زیادہ سخت اور غصے والے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا
اِیْہًا یَاابْنَ الْخَطَّابِ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ۔
(صحیح مسلم: حدیث، 2390)
ترجمہ: کیا خوب اے ابن خطاب! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کبھی کسی راستہ پر چلتے ہوئے شیطان کی تم سے ملاقات ہو جائے تو وہ راستہ بدل کر دوسرے راستہ پر چل پڑتا ہے۔
اس حدیث میں سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثرتِ مصاحبت کی وجہ سے ہمیشہ آپؓ کی رائے درست ہوتی تھی اور شیطان آپؓ کو بہکانے کا کوئی راستہ نہ پاتا تھا۔
حافظ ابن حجرؒ کا قول ہے کہ اس حدیث میں سیدنا عمرؓ کی فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ شیطان کا کوئی داؤ آپؓ پر کارگر نہ ہوتا تھا، اس کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ آپؓ غلطیوں سے معصوم تھے، کیونکہ حدیث میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ شیطان آپؓ کے راستہ سے راہِ فرار اختیار کر لیتا تھا کہ مبادا آپؓ سے ملاقات نہ ہو جائے اور اس کا راہِ فرار اختیار کر لینا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ وہ اپنی قدرت بھر آپؓ کو وسوسہ میں نہ ڈالتا رہا ہو۔
لیکن اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حدیث کا مفہوم موافق اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ آپؓ کو وسوسہ میں بھی نہیں ڈال سکتا تھا کیونکہ جب وہ آپؓ کے راستہ سے راہِ فرار اختیار کرتا تھا تو یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ آپؓ کے قریب بھی نہ آ سکے کہ آپؓ کو وسوسہ میں ڈال دے، لہٰذا ممکن ہے کہ آپؓ شیطان کی چالوں سے محفوظ کر دیے گئے ہوں۔
لیکن یاد رہنا چاہیے کہ اس ممکنہ صورت حال سے بھی آپؓ کے لیے عصمت ثابت نہیں ہوتی۔ آپﷺ کے حق میں عصمت واجب ہے، جب کہ دوسرے کے لیے صرف ممکن ہے اور امام طبرانی نے معجم الاوسط میں سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ان الفاظ میں نقل کی ہے:
إِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَلْقٰی عُمَرَ مُنْذُ أَسْلَمَ إِلَّا فَرَّ لِوَجْہِہ۔
ترجمہ: ’’عمر رضی اللہ عنہ جب سے مسلمان ہوئے (اس وقت سے وہ یعنی شیطان) جب بھی آپؓ سے ملا تو چہرہ پھیر کر بھاگا۔‘‘
پس یہ حدیث دینی امور میں آپؓ کی سختی اور خالص حق و کامل سچائی کے لیے آپؓ کی مسلسل محنت پر دلالت کرتی ہے۔
امام نوویؒ کا قول ہے: ’’یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، حقیقت میں شیطان جب آپؓ کو دیکھتا تو بھاگتا تھا۔‘‘
قاضی عیاضؒ کا قول ہے:
’’یہ بھی احتمال ہے کہ یہ حدیث بطور ضرب المثل ہو اور عمرؓ نے شیطان کے راستہ کو چھوڑ کر درستگی کا راستہ اپنا لیا ہے، یعنی جو چیزیں شیطان کو پسند ہیں آپؓ نے ان کی مخالفت کی ہو۔‘‘
حافظ ابن حجرؒ کا کہنا ہے کہ دونوں اقوال میں پہلا قول راجح ہے۔
(صحیح البخاری: حدیث، 3683 صحیح مسلم: حدیث، 2396)