میں نے ایسی نابغۂ روزگار شخصیت نہ دیکھی جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی ذہین و فطین ہو
علی محمد الصلابیمیں نے ایسی نابغۂ روزگار شخصیت نہ دیکھی جو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جیسی ذہین و فطین ہو
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
رَأَیْتُ کَأَنِّیْ أَنْزِعُ بِدَلْوٍ بَکْرَۃٍ عَلٰی قَلِیْبٍ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْ ذَنُوْبَیْنِ فَنَزَعَ نَزْعًا ضَعِیْفًا وَاللّٰہُ یَغْفِرُ لَہُ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَاْستَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أَرَعَبْقَرِیًّا مِنَ النَّاسِ یَفْرِیْ فَرْبَہٗ حَتّٰی رَوِیَ النَّاسُ وَضربوا الْعَطَنَ۔
(صحیح البخاری: حدیث، 3689۔ صحیح مسلم: حدیث، 2398)
ترجمہ: میں نے خواب دیکھا کہ ایک کنویں پر ایک ڈول سے پانی کھینچ رہا ہوں، پھر ابوبکر آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول ناتوانی کے ساتھ کھینچے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ پھر عمر بن خطاب آئے انہوں نے پانی کھینچنا شروع کیا تو وہ ڈول جرسہ (بڑے ڈول) میں بدل گیا۔ میں نے آپ جیسا شہ زور پہلوان نہیں دیکھا جو آپ جیسا غیر معمولی اوصاف کا حامل ہو، یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو گئے اور اپنے اونٹوں کو بھی پلایا۔
اس حدیث میں فرمان نبویﷺ
فَجَائَ عُمَرُ فَاسْتَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا
ترجمہ: یعنی ’’عمر بن خطاب آئے انہوں نے پانی کھینچنا شروع کیا تو وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا‘‘ سے آپؓ کی فضیلت بالکل واضح ہے۔ حدیث میں وارد لفظ ’’اِسْتَحَالَتْ‘‘ کا معنی ہے کہ وہ ڈول چھوٹا تھا لیکن اس وقت بڑا ہو گیا، اور ’’عَبْقَرِیٌ‘‘ کا معنی سردار، یا وہ شخص جو اپنی خصوصیات میں منفرد ہو۔ اور ’’ ضَرَبُوا الْعَطَنَ‘‘ کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنے اونٹوں کو پانی پلایا، پھر ان کے آرام کرنے کی جگہ میں لے گئے۔
نبیﷺ کے اس خواب میں ان تمام (حوادث و واقعات) کی مثال موجود ہے جو خلافت صدیقی و خلافت فاروقی میں واقع ہوئے۔ نیز ان دونوں کی سیرت کی خوبیاں، نقوش اور لوگوں کی نفع رسانی کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافتِ صدیقی میں مرتدین سے قتال ہوا اور آپؓ نے ان کی ہوا اکھاڑ دی، اسلام کی شعائیں منور ہوئیں حالانکہ آپؓ کی مدت خلافت مختصر رہی۔ یعنی دو سال اور کچھ مہینے۔ لیکن اللہ نے اس مختصر سی مدت میں برکت عطا فرمائی اور اسلام کو بہت فائدہ ہوا۔ اور جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو آپ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا، آپؓ کے دورِ خلافت میں اسلامی حدود کا دائرہ وسیع ہوا اور لوگوں کے لیے آپؓ نے ایسے فرامین جاری کیے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس طرح خلافت فاروقی کی مدت طویل ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی فائدہ پہنچا، آپؓ نے شہروں کو آباد کیا، ہر محکمہ کے الگ دفاتر تیار کرائے اور فتوحات و مال غنیمت کی کثرت ہوئی۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
فَلَمْ أَرَعَبْقَرِیًّا مِنَ النَّاسِ یَْفرِیْ فَرْیَہٗ۔
کا معنی ہے کہ میں نے ایسا کوئی سردار نہیں دیکھا جو آپ جیسا کام کرتا ہو اور آپ جیسا پختہ عزم ہو۔ اور قاضی عیاضؒ نے ’’ضَرَبُوا الْعَطَنَ‘‘ کی تشریح میں لکھا ہے کہ یہ خصوصیت صرف خلافتِ فاروقی کو حاصل ہے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا: خلافتِ فاروقی اور خلافتِ صدیقی دونوں کو شامل ہے اس لیے کہ دونوں کی بالغ نظری، حسنِ تدبیر اور مسلمانوں کے مفاد و مصلحت کی مکمل رعایت ہی سے یہ چیز وجود میں آئی، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرتدین کو پست کیا اور مسلمانوں کو متحد کر کے ان میں الفت و محبت پیدا کی، فتوحات کا آغاز کیا اور معاملات کا راستہ ہموار کیا اور پھر ان کوششوں کے ثمرات و نتائج دورِ فاروقی میں سامنے آئے۔
(مفتاح دار السعادۃ: جلد، 1 صفحہ، 255)