تقیہ اور کتمان قرآن وسنت کی روشنی میں
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓتقیہ اور کتمان قرآن وسنت کی روشنی میں
کتمان اور تقیہ کیا ہیں؟ یہ جھوٹ بولنے سے بھی بدترین گناہ اور عیب کیوں ہیں؟
شیعہ مذہب کی تعلیمات میں کتمان اور تقیہ بھی اہم اصول اور عقیدہ ہیں جبکہ ان دونوں لفظوں کے ترجمہ میں عام آدمی نمایاں فرق محسوس نہیں کر سکتا لِہٰذا کچھ علماء نے عوام کی آسانی کے لیے ان دو لفظوں کی جگہ صرف ایک لفظ تقیہ استعمال کیا ہے۔
ان دو لفظوں کے معنی اس طرح ہیں
کتمان: کتمة (اسم مصدر) کسی چیز کا بہت ذیادہ چھپانا
بیان اللسان عربی اردو ڈکشنری :672
تقیہ: دل میں عداوت ہو مگر بظاہر دوستی کا اظہار کیا جائے، وہ کام جس کے کرنے کو جی (دل) نہ چاہتا ہو مگر کسی کے خوف سے کیا جائے۔
فیروز اللغات اردو حصہ اول: 394
ماہنامہ میثاق اپریل 1985 میں ان دو لفظوں کا مطلب اس طرح بیان کیا گیا ہے:
(کتمان) کا مطلب ہے کہ اصل عقیدہ مذہب و مسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ کرنا۔
(تقیہ) کا مطلب اپنے عقیدہ مذہب و مسلک اور اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہنا اور عمل کرنا اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ دینا اور فریب میں مبتلا کرنا۔
اب دیکھیں موجودہ دور کا شیعہ رہنما خمینی "تقیہ" کا مطلب کیا بیان کرتا ہے ۔
چنانچہ خمینی لکھتا ہے
(1) معنی تقیہ آنست کہ انسان حکمی را بر خلاف واقع بگوید یا عملی برخلاف میزان شریعت بکند۔
یعنی تقیہ کا معنی ہے کہ انسان کسی حقیقت کے خلاف کچھ کہے یا کوئی کام قانون شریعت کے خلاف کرے:
کشف الاسرار صفحہ:168 از خمینی عکس 562
خمینی آگے لکھتا ہے:
(2) عقل و ہرکس جزئی خردی داشتہ باشدمی فہد کہ حکم تقیہ از احکام قطعیہ خداست چنانچہ واردشدہ کہ ہرکس تقیہ ندارودین نرارد۔
کشف الاسرار 129 از خمینی عکس 567
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو معمولی عقل اور فہم ہے وہ جانتا ہے کہ تقیہ اللہ کے قطعی احکام میں سے ہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ جو آدمی تقیہ نہ کرے تو اس کا کوئی دین نہیں۔
اب دیکھیں مندرجہ بالا عبارت میں خمینی نے کیا کہا ہے وہ کہتا ہے کہ:
(1)تقیہ کے معنی خلافِ حقیقت بات کہنا بالفاظ دیگر تقیہ کے معنی جھوٹ بولنا۔ جھوٹ بولا جاتا ہے دوسرے کو دھوکہ دینے کے لیے یا دوسرے سے دغا کرنے کے لیے تو پھر تقیہ کے معنی ہوئے جھوٹ، دھوکہ، دغا وغیرہ وغیرہ۔
(2)تقیہ کے معنی شریعت کے قوانین کے خلاف کام کرنا اور شریعت کے قوانین قرآن و سنت ہیں تو پھر تقیہ کے معنی ہوئے قرآن و سنت یعنی اسلام کے خلاف کرنا۔
(3)سب سے بڑی اہم بات جو خمینی نے کی ہے وہ یہ کہ اس کے الفاظ میں تقیہ یعنی جھوٹ بولنا دوسرے کو دھوکہ دینا اور شریعت کے قوانین کی خلاف ورزی کرنا یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ہیں (العیاذباللّٰہ)۔
جھوٹ بولنا ایک تسلیم شدہ اور مانی ہوئی برائی ہے جس کی ہر مذہب و ملت، سماج و معاشرہ اور ہر ایک ملک میں اس کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو ہر ذی شعور انسان ان برائیوں کی فہرست میں شامل کرتا ہے جو ام الخبائث ہیں یعنی جھوٹ ایسی برائی اور بیماری ہے کہ اس سے دوسری برائیاں جنم لیتی ہیں اس لیے کسی مذہب کو تو چھوڑیں بلکہ انسانوں کی کوئی قوم، قبیلہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو جھوٹ کو عیب نہ سمجھتا ہو، برعکس اس حقیقت کے کہ یہ خصوصیت صرف شیعوں کو ہی حاصل ہے کہ ان کے ہاں جھوٹ، دھوکہ اور سچ کو چھپانا یعنی کتمان اور تقیہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شیعیت کا اہم حصہ ہے بلکہ شیعہ مذہب کے 10 حصوں میں سے 9 حصے کتمان اور تقیہ میں موجود ہیں۔
تقیہ میں جھوٹ، دھوکہ، اور اس کی مکاری میں مندرجہ ذیل بدترین علامتیں موجود رہتی ہیں:-
(1)جھوٹ بولنا اور دوسرے کو دھوکہ میں رکھنا۔
(2)جھوٹ بولنے اور دوسرے کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے اللّٰه تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا اور یہ کہنا کہ یہ اللّٰه تعالٰی کا حکم ہے۔(دیکھیں خمینی کے الفاظ)
(3)جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کے لیے دوسرے کو حکم کرنے والے کو بھی جھوٹا اور دھوکہ باز کہا جاتا یے
تو پھر تقیہ اور کتمان کے لیے یوں کہنا کہ یہ اللہ کا حکم ہے نعوذباللہ یہ خود پروردگار کی ذات عالی پر جھوٹ باندھنا ہے نعوذباللّٰہ قرآن مجید میں جھوٹ بولنا اور اللّٰه تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا یہودیوں کی عادت بتائی گئی ہے۔
دیکھیں قرآن مجید میں ہے کہ
(1) فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا ۚ وَّلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌۙۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡذِبُوۡنَ البقرۃ آیت 10
ان کے دلوں میں بیماری ہے بڑھا دی اللّٰہ نے ان کی بیماری اور ان کیلئے عذاب درد ناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے۔
(یہاں پر جھوٹ پر جھوٹ کو منافقین کے دل کی بیماری کہا گیا ہے اور جھوٹ منافقین کی نشانی ہے۔ دیکھیے جھوٹ کی کتنی مذمت کی گئی ہے۔
(2) ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِالتَّوۡرٰٮةِ فَاتۡلُوۡهَاۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
فَمَنِ افۡتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الۡكَذِبَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
آل عمران آیت 93،94
تو کہہ لاؤ تورات اور پڑھو اگر سچے ہو، پھر جو کوئی باندھے اللّٰہ پر جھوٹ اس کے بعد تو وہی ہیں بڑے بے انصاف۔
یہاں پر یہودیوں کی عادت بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔
مذکورہ بالا آیات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا اور جھوٹ کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کرنا یہ یہودیوں کی عادت ہے معلوم ہوا کہ یہودی بدترین منافق ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ حضورﷺ کے پاس سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل شدہ کتابیں موجود نہیں تھیں اگر آپﷺ کے پاس تورات موجود ہوتی تو آپ یہودیوں کو دکھا کر ان کا جھوٹ ثابت کرتے لیکن چونکہ کتابیں نہیں تھیں اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ حضورﷺ کے پاس سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی کتابیں توریت و انجیل ہوتیں تو پھر یہودیوں کو حضورﷺ کے پاس آنے اور توریت و انجیل سے سوال کرنے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ لِہٰذا یہاں قرآن پاک شیعوں کے اس دعوے کو رد کردیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ائمہ کے پاس تمام انبیاؑء پر نازل شدہ آسمانی کتابیں موجود ہوتی تھیں اور وہ یہ کتابیں پڑھتے بھی تھے۔ چنانچہ شیعوں کی سب سے معتبر و مستند ترین کتاب اصول کافی میں ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا کہ ہمارے پاس زبور، توریت، انجیل اور ابراہیمؑ پر نازل شدہ صحیفے بھی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ کتابیں حضورﷺ کے پاس بھی نہیں تھی تو پھر یہ حضرت علیؓ کو کہاں سے دستیاب ہوئیں؟؟؟
اور دوسرے ائمہ کے پاس کہاں سے پہنچیں اور کیسے پہنچیں؟؟؟
معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب کے مصنفین نے یہ تمام روایات خود تراش کر اور ائمہ کے ناموں سے منسوب کر کے اس پورے مذہب کی عمارت بنائی ہے۔
مذکورہ تحریر سے جھوٹ کی مذمت اور کتمان و تقیہ کا سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہونے کے بارے میں کافی واقفیت ہوئی، اب یہ فیصلہ آپ کریں کہ کیا کتمان اور تقیہ کرنے کے لیے اللّٰه کا حکم ہوگا؟؟؟
یا اماموں کی تعلیم ہوگی؟؟؟
یا یہ تمام باتیں شیعہ مذہب کے مخترعین کی ایجاد کردہ ہیں جنہوں نے خود روایتیں تیار کر کے اماموں کے نام سے کتابوں میں درج کی ہیں اور یہ پورا مذہب تیار کیا ہے؟؟؟
شیعوں کے تقیہ سے علماء محققین نے کیا معنی مراد لئے ہیں ؟
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله کے مکتوبات جلد 2 مکتوب 36 تقیہ کے بارے میں ہے کہ
(1)واین جماعت بحکم تقیہ کہ دارند اکابر اہل بیت را منافق ومخادع انگاشتہ اندوحکم کردہ اند کہ حضرت امیر تا سی سال بحکم تقیہ باخلفاء ثلاثہ صحبت نیفاق داشتہ اندوبنا حق تعظیم و توقیرایشان نمود۔
مکتوبات جلد2 مکتوب36 صفحہ83
اور اس (شیعہ) جماعت کے تقیہ کے سبب جو وہ خود کرتے ہیں اہل بیت کے بزرگوں کو منافق اور مکار تصور کیا ہے اور کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ تقیہ کر کے پہلے 3 خلفاء کے ساتھ تیس برس تک منافقوں کی طرح وقت گزارتے رہے اور خواہ مخواہ ان کی تعظیم و عزت کرتے رہے۔
اس مکتوب میں حضرت دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ:
(2)تاسی سال دراسد اللہ این جبانت اثبات نمود و مصر بر تقیہ داشت بسیار مستکرہ است۔
30 برس تک شیر خدا میں ایسی بزدلی کا عیب ثابت کرنا کہ وہ 30 برس تک تقیہ کرتے رہے، انتہائی نفرت کی بات ہے۔
مکتوبات جلد2 مکتوب36 صفحہ83
اسی مکتوب کے صفحہ 91 پر حضرت مجدد رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
(3) در اثبات تقیہ تنقیص و توھین لازم است کہ این صفت از خصائص ارباب نفاق است واز لوازم اصحاب مکروخداع۔
تقیہ کو اہل بیت کے لیے ثابت کرنے میں تنقیص اور توہین ہے کیونکہ تقیہ منافقین، مکار اور دھوکہ باز آدمیوں کی خصوصیت ہے۔
مکتوبات جلد2 مکتوب36 صفحہ91
(2) لکھنؤ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر مصطفی حسن علوی ماہنامہ دارالعلوم مارچ 1957 کے صفحہ4 پر اپنے ایک مضمون میں علامہ ذہبی متوفی 748ھ کی تصنیف المنتقی خلاصہ منہاج السنہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
والرافضة یقرون بالکذب حدیثا، یقولون دیننا التقیة وھذا ھو النفاق۔
رافضی جھوٹ بولنے کے لیے خود قبول کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے دین میں تقیہ (جھوٹ بولنا) لازمی ہے اور تقیہ کو نفاق کہا جاتا ہے۔
(3)امام اشھب سے روایت ہے کہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے رافضیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا
لا نکلمھم ولا ترو عنھم فانھم یکذبون۔
المنتقی من منہاج السنۃالنبویہ صفحہ:31
رافضیوں سے بات نہ کر نہ ہی ان سے روایت بیان کر کیونکہ وہ جھوٹے ہیں
(4)حضرت امام حرملہ متوفی 243ھ کا بیان ہے کہ حضرت امام شافعیؒ نے فرمایا؛
لم ارا احدا اشھد بالزور من الرافضة۔
المنتقی صفحہ:31
گواہی دینے میں مجھے رافضیوں سے زیادہ جھوٹا اور کوئی نظر نہیں آیا
(5) فتنہ ابن سبا المعروف بہ تاریخ مذہب شیعہ کا مصنف کہتا ہے:
" تقیہ کا دوسرا نام ہے جھوٹ، اس جھوٹ میں فریب، مکاری، وعدہ خلافی وغیرہ شامل ہیں۔
تقیہ کیا ہے نیز اس لفظ کے معنی مفہوم اور حقیقت کہ یہ لفظ مذہب شیعہ میں جھوٹ، دغا، فریب اور منافقت کا دوسرا نام ہے امید ہے کہ آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ مذہب کے مصنفین کو تقیہ اور کتمان ایجاد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
السوال
شیعہ مذہب کے ایجاد کرنے والوں کو کتمان اور تقیہ کو اہم اصول اور عقیدہ بتانے کی ضرورت کیسے پیش آئی؟
الجواب
(1) اس کے بارے میں ماہنامہ میثاق لاہور اپریل 1985ء کے شمارے میں بعنوان "کیا ایرانی انقلاب اسلامی انقلاب ہے" میں لکھا ہے" کہ ایک طرف تو اہل تشیع ائمہ کو مامور من اللہ اور معصوم تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف تاریخ سے خواہ وہ سنیوں کی مرتب کردہ ہو یا شیعوں کی جب انہیں یہ نظر آتا ہے کہ یہ بات معروف و مسلم ہے کہ حضرت علیؓ سے لیکر حضرت حسن عسکریؒ تک کسی نے بھی عملاً عام مسلمانوں کے کسی بڑے اجتماع میں اپنی امامت اور اپنے حق ولایت و خلافت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ حضرت علیؓ نے تینوں خلفائے راشدین حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللّٰہ عنہم کے ہاتھ پر برضا ورغبت بیعت کی ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون فرماتے رہے، حضرت عمرؓ کے عقد میں اپنی صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ کو (جو حضرت فاطمۃالزہراؓ کی لخت جگر تھیں) دیا تھا حضرت حسنؓ نے رضاکارانہ طور پر خلافت سے دستبرداری اختیار کی اور حضرت امیر معاویہؓ سے بیعت خلافت کر لی۔ حضرت حسینؓ اور حضرت علیؓ کے دیگر تمام خانوادوں نے بھی امیر معاویہؓ سے بیعت سمع و اطاعت کرلی اہل تشیع کی وہ تمام باتیں ریت کی بنیادیں ثابت ہوجاتی ہیں جن پر حضرت علیؓ کی خلافت بلافصل اور ان کی فاطمی اولاد میں ائمہ معصومین کے تسلسل کے عقیدے کی عمارت تعمیر کی گئی ہے لِہٰذا اس حقیقت کو جو ان کے عقیدے کا تضاد ثابت کرتی ہے باطل قرار دینے کے لیے یہودی سبائی ذہنیت نے جو دراصل شیعت کی بانی ہے شیعہ مذہب کے لیے کتمان اور تقیہ کے اصول وضع کئے ہیں کتمان کا مطلب ہے اصل عقیدہ اور مذہب و مسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ کرنا اور تقیہ کا مطلب ہوتا ہے اپنے عقیدے اپنے مذہب و مسلک اور ضمیر کے خلاف کوئی بات کہنا اور کوئی عمل کرنا اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا یہ دونوں امور ان کے مذہب کے مطابق اعلی درجہ کی نیکی اور اجر و ثواب کے مستوجب ہیں
ماہنامہ میثاق اپریل 1985
(2)نواب محسن الملک مہدی علی خان ولد سید ضامن علی ایک معروف شیعہ خاندان میں پیدا ہوا اور آگے چل کر شیعوں کا بڑا عالم بنا, ایک عرصہ تک شیعہ مذہب کی ترویج و اشاعت کرتا رہا لیکن بعد میں آپ کے اوپر شیعہ مذہب کے بطلان کی حقیقت منکشف ہوگئی اور آپ اس مذہب کو ترک کرکے اہل سنت و الجماعت سنی مذہب یعنی "مذہب اسلام" میں داخل ہوگئے اس بات کے اوپر آپ اپنے پورے خاندان سے کٹ گئے اور آپ کو بہت کچھ تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔ آپ نے شیعوں پر حجت قائم کرنے کے لیے اور شیعیت کا بطلان ظاہر کرنے کے لیے ایک معرکۃ الآرا لاجواب کتاب "آیات بینات" کے نام سے لکھ دی یہ مہتم بالشان کتاب دو جلدوں میں ہے اور اس کا آج تک شیعہ دنیا کے کسی مجتہد نے مدلل انداز میں جواب نہیں دیا چنانچہ نواب محسن الملک محمد مہدی خان صاحب
آیات بینات جلد دوم کے صفحہ 351 پر تقیہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
اور مذہب تشیع کی جڑ مضبوط کی جاوے تب ایک نہایت ہی سچا اور صاف اور عمدہ دلچسپ اصول قائم کیا یعنی ظاہر کا باطن سے مخالف ہونا اور جھوٹ بولنا مگر چونکہ یہ لفظ نہایت ثقیل اور مکروہ تھا اور اگر اسی کو عقیدہ میں داخل کرتے تو جو سنتا وہ اس لفظ کے سنتے ہی نفرت کرتا اس لیے اس کی حقیقت کو ایک خوشنما اور خوبصورت لفظ کے پردے میں ظاہر کیا اور جھوٹ بولنے اور ظاہر کا باطن سے مخالف ہونے کا نام تقیہ رکھا۔
آیات بینات جلد دوم، :صفحہ351
اس کے بعد نواب صاحب لکھتے ہیں کہ:
بڑی بڑی فضیلت کی حدیثیں اماموں کی زبان سے شیعوں کی کتابوں سے سنیوں نے نکالیں اور اپنے خلفاء کی بزرگی اور فضیلت پر سند لائے اپنے نزدیک شیعوں کو لاجواب کرنا چاہا مگر ایک ایک ادنی طالب علم بلکہ جاہل شیعہ نے جواب دے دیا کہ یہ حدیث تقیہ کے سبب سے امام نے فرمائی ہے اور بڑے بڑے متکلمین فقہاء کو شیعوں کی ایسی دلیل سے چپ کروا دیا حقیقت میں جو فائدہ مذہب تشیع کو تقیہ کے سبب سے ہوا ہے اور جو حفاظت ان کی اس روش سے ہوئی ہے وہ کسی دوسرے عقیدے سے نہیں ہوئی
آیات بینات جلد دوم :صفحہ352
تقیہ کی ضرورت کیوں سمجھی گئی اسکی حکمت نواب صاحب یوں بیان کرتے ہیں اگر تقیہ کا اصول مذہب تشیع میں نہ ہوتا تو مذہب ہی خاک میں مل جاتا ایک قول کی دوسرے قول سے اور ایک فعل کی دوسرے فعل سے اور ایک حدیث کی دوسری حدیث سے بسبب تخالف اور تناقض کے مطابقت نہ ہو سکتی اور سب کا جھوٹ اور غلط ہونا کھل جاتا پس نہایت ذکی اور ذہین تھا وہ شخص (عبداللہ بن سباء) جس نے مذہب تشیع کو ایجاد کیا کہ جھوٹ کو جھوٹ سے بچایا تقیہ کی وہ گرم بازاری ہوئی اور اس عقیدہ باطل کو ایسی رونق دی گئی کہ امام اول سے لیکر امام آخر زمان تک سب کی زبان سے اس کی فضیلت میں احادیث نقل کی گئیں اور تقیہ کرنے والوں کے بڑے درجے مقرر کیے گئے۔
آیات بینات جلد دوم :
(3)حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدسہ العزیز بانی دارالعلوم دیوبند اپنی کتاب "ہدیۃالشیعہ" میں لکھتے ہیں:
آفرین ہے ان لوگوں کی ہوشیاری پر جن کا یہ دین ساختہ پرداختہ (گھڑا ہوا) ہے ایسی نامعقول باتوں کا بجز تقیہ کے رواج ہو ہی نہیں سکتا اگر سنیوں نے کلام اللّٰه کا حوالہ دیا تو عذر کیا، اماموں کا قول پیش کیا تو تقیہ سے الزام دیا۔
ہدیۃالشیعہ 157،158
(4)فاتح رافضیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللّٰہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف "تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین" میں فرماتے ہیں کہ:
"ہر معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو گہری عقیدت کے باوجود تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اس لیے کچھ لوگوں نے ان روایات کو ائمہ کے سامنے پیش کرنا اور ان سے تصدیق کروانا شروع کر دیا چنانچہ ائمہ نے جھوٹی اور من گھڑت روایات کی تکذیب شروع کردی اور شیعہ پر لعنت کرتے رہے اس کا سبائی گروہ نے مطلب یہ نکالا کہ امام تقیہ کرتے ہیں عوام کے سامنے سنی ہوتے ہیں وہی نماز پڑھتے ہیں مگر درحقیقت شیعہ ہوتے ہیں اور پوشیدہ طور پر ہمیں شیعہ مذہب کی تعلیم دیتے ہیں پھر تقیہ کے فضائل بیان کرتے کرتے بات یہاں تک پہنچا دی کہ تقیہ ہی اصل دین ہے اور دین اسلام کا 9/10 حصہ تقیہ میں پوشیدہ ہے یعنی جو آدمی تمام عبادات کا پابند ہے فضائل اخلاق کا حامل ہے مگر تقیہ نہیں کرتا یعنی جھوٹ نہیں بولتا تو وہ 9 حصے دین ضائع کرتا ہے، اس عقیدہ کی وجہ سے شیعہ مذہب دنیا کے تمام مذاہب میں ممتاز نظر آتا ہے ہر مذہب میں خواہ وہ آسمانی مذہب ہو یا غیر آسمانی جھوٹ بولنا برا سمجھا جاتا یے اور بنیادی انسانی اخلاقیات میں جھوٹ کو رذائل میں شمار کیا جاتا ہے مگر شیعہ مذہب میں اسے عبادت سمجھا جاتا ہے۔
تحذیر المسلمین عن کید الکاذبین: صفحہ 22
کتمان اور تقیہ کی تائید اور فضیلت میں ائمہ کی طرف منسوب کردہ روایات:
یہ بات ذہن میں رہے کہ شیعوں کی تمام کتابوں میں سے چار کتابیں بہت معتبر و مستند ترین مانی جاتی ہیں
(1) اصول کافی
(2)تہذیب الاحکام
(3)الاستبصار
(4)من لایحضرہ الفقیہ
پھر ان چار کتابوں میں سے اصول کافی کا درجہ سب سے بڑا ہے اور بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کتاب پر شیعوں کے متفق علیہ عقیدہ کے مطابق امام غائب یعنی امام مہدی امام العصر جو کہ ساڑھے گیارہ سو برس سے سر من رائی غار میں بغداد کے قریب خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی روپوشی میں گذار رہا ہے اور کسی کو بھی نظر نہیں آتا اس کی رضامندی کا سرٹیفکیٹ ریکارڈ کیا ہوا ہے صفحہ428 پر میرے پاس اصول کافی ہے جس میں یہ دو ابواب بھی ہیں۔
(1)باب التقیہ
(2)باب الکتمان
ان دونوں ابواب میں جھوٹ بولنے اور ظاہری زندگی کو باطن کے خلاف گزارنے کے لیے بڑے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں اور جھوٹ نہ بولنے اور ظاہر کو باطن کے خلاف نہ رکھنے پر ذلیل اور رسوا ہونے کی سخت وعیدیں مذکور ہیں یہ تمام روایات ائمہ کی طرف منسوب کردہ ہیں ان ابواب میں سے چند روایتیں پیش کی جاتی ہیں۔
(1) عن أبي عمر الأعجمي قال: قال لي أبو عبد الله (عليه السلام): يا أبا عمر إن تسعة أعشار الدين في التقية ولا دين لمن لا تقية له والتقية
ترجمہ: ابی عمر عجمی سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا اے ابوعمر دین کے 10 حصوں میں سے 9 حصے تقیہ (یعنی جھوٹ بولنے اور دوسرے کو دھوکہ دینے) میں ہیں اور جو آدمی تقیہ نہ کرے تو اس کا کوئی دین نہیں
اصول کافی۔۔ عکس 464 پر ملاحظہ فرمائیں۔
معلوم ہوا کہ تقیہ یعنی جھوٹ بولنے اور دوسروں کو دھوکہ دینے میں دین کے 9 حصے موجود ہیں اور باقی ایک حصہ جس میں دوسرے تمام اعمال ہیں۔ یہ ایک حصہ جس میں نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج، والدین کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ آجاتے ہیں وہ اگر نہ بھی ادا کئے جائیں تو کوئی پرواہ نہیں شاید یہی سبب ہے کہ عام طور سے شیعہ نماز، روزہ، زکٰوۃ سے اکثر غافل نظر آتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ دین کے دسویں حصہ میں ہے البتہ شیعہ مذہب کے 9حصوں یعنی تقیہ اور کتمان کے باقاعدہ پابند نظر آتے ہیں اور یہی ان کا اصل دین ہے اور سمجھنا بھی چاہیے۔
(1)قال ابوجعفرؑ التقیۃ من دینی ودین آبائی ولا ایمان لمن لا تقیۃ له۔
ترجمہ:امام محمد باقرؒ نے فرمایا کہ تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے اور جو تقیہ نہ کرے وہ بے ایمان ہے (نعوذباللّٰہ)
اصول کافی: 484 اس کا عکس دیکھیں صفحہ 465
یہ روایت ایسی معتبر ترین کتاب کی ہے جس کے لیے شیعہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب امام غائب نے دیکھی اور پڑھ کر پسند فرمائی اور اس کتاب پر امام العصر غائب مہدی کے الفاظ ھذا کاف لشیعتنا یعنی یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے بطور سند تحریر شدہ ہیں۔
(3) قال أبو عبد الله (عليه السلام): يا سليمان إنكم على دين من كتمه أعزه الله ومن أذاعه أذله الله ۔
ترجمہ: امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اے سلیمان! تم شیعہ ایسے دین پر کہ جو شخص کتمان کریگا (یعنی اپنا دین چھپائے گا) تو اللّٰه تعالیٰ اس کو عزت سے نوازے گا اور جو اس کو ظاہر کرے گا اللہ تعالیٰ اسکو ذلیل و خوار کرےگا۔اصول كافی جلد 2- صفحہ 222
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت شیعہ مذہب کی سو فیصد ترجمانی کرتی ہے کیونکہ شیعہ مذہب کے عقائد جیسے تحریف قرآن کا عقیدہ،
امامت کا عقیدہ،
حضورﷺ کے اہل بیت ازواج مطہرات ؓ اور صحابۂ کرامؓ پر تبرا کرنے کا عقیدہ،
کتمان اور تقیہ کا عقیدہ،
امام العصر امام غائب مہدی کی رجعت کا عقیدہ،
اور متعہ کا عقیدہ وغیرہ وغیرہ
ایسے عقائد ہیں جو اگر کوئی شیعہ ان کو غیر مذہب کے آگے ظاہر کرے گا تو وہ بیشک ذلیل و خوار ہوگا لِہٰذا شیعہ مذہب اور ان کے پیروکاروں کی سلامتی اور عزت اسی میں ہے کہ وہ یہ دین غیر شیعہ لوگوں پر ظاہر نہ کریں۔
(4)عن ابن ابی یعفور قال قال ابوعبداللهؑ من اذاع علینا حدیثنا سلبه اللّٰہ الایمان۔
( اصول کافی باب الاذاعتہ 551 فوٹو 468)
ترجمہ:عبداللہ بن ابی یعفور کہتا ہے کہ امام جعفر صادقؒ نے فرمایا کہ جو ہماری حدیث ظاہر کرے گا تو اللّٰه تعالیٰ اس کا ایمان سلب کر لے گا
اس روایت میں فی الحقیقت شیعہ مذہب کو غیر شیعہ مذہب سے مخفی رکھنے کے راز کی نشاندہی ملتی ہے کہ وہ اپنے اصلی عقیدہ کو کیوں غیر شیعوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ شیعہ اثناءعشریہ کے موجودہ دور کا امام العصر امام مہدی غائب کا نائب یا خلیفہ خمینی تقیہ کی تصدیق میں لکھتا ہے:
(4)ثانیھا التکفیر وھو وضع احدی الیدین علی الاخری نحو ما یصنعه۔
(التقیة تحریر الوسیلہ جلد اول 186 فوٹو 534)
ترجمہ:دوسرا عمل جو نماز کو باطل کرتا ہے وہ نماز میں ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنا ہے، جس طرح شیعوں کے سوا دوسرے تمام کرتے ہیں لیکن تقیہ کی حالت میں جائز ہے۔
(5)تاسعا تعمد قول آمین بعد إتمام الفاتحۃ الا مع التقیة فلا بأس به کالساھی۔
(تحریر الوسیلۃ جلد اول 190 فوٹو 535)
ترجمہ:اور نویں چیز جس سے نماز باطل ہوتی ہے وہ ہے سورة فاتحہ پڑھنے کے بعد قصداً آمین کہنا لیکن تقیہ کے خیال سے جائز ہے اور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہاں یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ جس مذہب میں اللّٰه کی سب سے افضل ترین عبادت یعنی نماز کے ذریعہ بھی دوسروں کو فریب دینے کی تعلیم دی گئی ہو۔ کیا وہ اللہ کا پسندیدہ مذہب ہو گا ؟
کیا یہ نبی کا دین ہو گا؟
آپ اگر شیعوں کو کہیں کہ حضرت علیؓ نے پہلے تین خلفاء کرامؓ سے رضا و خوشی سے بیعت کی تھی اور چوبیس برس تک ان کی اقتداء میں نماز ادا کرتے رہے اور آپؓ کے خلفاء ثلاثہؓ سے ایسے خوشگوار تعلقات رہے کہ اپنی اور سیدہ فاطمۃالزہراءؓ کی لخت جگر سیدہ ام کلثومؓ حضرت فاروق اعظمؓ کے عقد نکاح میں دی پھر تم کیسے کہتے ہو حضرت علیؓ پہلے 3 خلفاء کو معاذ اللّٰه کافر اور مرتد سمجھتے تھے ؟
تو یہ لوگ جواب دیں گے کہ یہ سب کچھ حضرت علیؓ کا تقیہ تھا نہ صرف یہ بلکہ شیعہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ تقیہ کے اتنے پابند تھے کہ آپ کی
اپنی خلافت میں اصل قرآن جو آپ نے ہی جمع کیا تھا اور وہ اس موجودہ قرآن کے خلاف تھا وہ بالکل ظاہر نہ کیا اور پہلے 3 خلفاء والے قرآن کو خود پڑھتے رہے، پڑھانے کا انتظام کرتے رہے اور اس پر عمل کرتے رہے اسی طرح دیگر تمام ائمہ کرام ساری زندگی تقیہ کرتے رہے اور غیر شیعوں سے اپنا اصل مذہب چھپاتے رہے۔
تقیہ اور کتمان کا قرآنی تعلیمات سے تقابل
(1) وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ۞
(سورہ ھود آیت 113)
اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللّٰہ کے سوا مددگار پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔
(2)هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ۔
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اگرچہ بُرا مانیں مشرک۔
ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے حضورﷺ کو بھیجا ہی اس لئے تھا کہ آپﷺ دین اسلام کو تمام مذاہب پر غالب کریں اور ظاہر کریں، چنانچہ حضورﷺ نے ابتدا سے ہی بالکل تنہا ہوتے ہوئے بھی تمام دشمنوں کے سامنے دین کا اعلان حق کیا اور پوری عمر میں کبھی بھی کتمان اور تقیہ نہیں کیا اگر آپﷺ تقیہ کرتے تو آپﷺ کی پاکیزہ زندگی مبارکہ میں آپﷺ کو تکالیف پیش نہ آتیں اور آپﷺ کیوں ہجرت فرماتے اور کیوں اپنے صحابۂ کرامؓ کو اپنے گھر بار اولاد وغیرہ سے جدا کر کے ہجرت کا حکم فرماتے؟
حضورﷺ اور ائمہ کرام کی طرف منسوب کردہ تقیہ کے چند عملی ثبوت بطور نمونہ۔
اب یہاں یہ لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ مذہب کے مصنفین نے یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ آپﷺ اور ائمہ حضرات تقیہ کرتے تھے اسکے بارے میں بھی انہوں نے بہت سارے جھوٹے قصے بیان کئے ہیں تاکہ اس فعل بد یعنی تقیہ اور نفاق کو حضور ﷺ اور ائمہ حضرات کہ طرف سے اہم اصول اور عقیدہ تسلیم کیا جائے چنانچہ اسکے سلسلے میں شیعہ مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ حضورﷺ اور ائمہ حضرات نے فلاں فلاں جگہ تقیہ کیا ہے اور تقیہ ان کا اہم اصول اور عقیدہ تھا ثبوت کے لیے بطور نمونہ چند مثالیں لکھی جاتی ہیں؛۔
(1) عن ابی عبداللہؑ قال لما کان عبداللہ بن ابی بن سلول حضرت النبیﷺ جنازته فقال عمر لرسول اللّٰهﷺ ینھك اللّٰہ ان تقوم علی قبره فسکت، یا رسول اللّٰہ الم ینھك اللّٰہ ان تقوم علی قبره،؟ فقال له ویلک ومایدریک ماقلت، انی قلت اللھم احشر بطنہ نارا واملاء قبره واصله نارا قال أبو عبداللہؑ فابدا من رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ واله وسلم ماکان یکره۔
فروع کافی جلد2 صفحہ188عکس دیکھیں472پر
یعنی امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ جب عبداللّٰہ بن ابی بن سلول مرگیا تو حضورﷺ اس کے جنازہ پر گئے اس وقت عمرؓ نے کہا کہ یارسول اللّٰہﷺ کیا اللّٰه نے آپ کو اس کی قبر پر کھڑے ہونے سے نہیں روکا ؟ رسول اللّٰہﷺ نے اس کا جواب نہیں دیا پھر عمرؓ نے پوچھا یارسول اللّٰہﷺ کیا اللّٰه نے آپ کو اس کی قبر پر کھڑے ہونے سے نہیں روکا پھر رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا اے عمر تجھے کیا خبر کہ میں نے کس طرح دعا کی؟ میں نے یہ دعا کی اے اللّٰه اس کے پیٹ میں آگ بھر دے اس کی قبر میں آگ بھر دے؛ اور اس کو دوزخ میں بھیج۔۔ پھر امام جعفرؒ نے فرمایا کہ عمرؓ نے رسول اللّٰہﷺ کا یہ راز ظاہر کیا جسکو ظاہر کرنا نبیﷺ نے برا سمجھا تھا۔
(2)عن ابی عبداللہؑ ان رجلا من المنافقين مات فخرج الحسین بن علی صلوة اللّٰہ علیھما یمشی معه مولی له فقال له الحسین علیہ السلام این تذہب یافلاں فقال لہ مولاہ افر من جنازة ھذا المنافق ان اصلی علیھا فقال له الحسینؑ انظر ان تقوم علی یمینی فما تسمعنی اقول فقل مثله فلما ان اکبر علیہ ولیہ قال الحسینؑ اللّٰہ اکبر اللھم العن فلانا عبدك الف لعنة مؤتلفة غیر مختلفة اللہم اخز عبدك فی عبادك وبلادك واصلہ حر نارك واذقہ عذاب الشدید فانہ تولی من اعدائک وتعادی من اولیائک ویبغض اھلبیت نبیک۔
(فروع کافی جلد3 189عکس473پر)
یعنی امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص مرگیا تو امام حسینؓ کو ان کا غلام ملا۔ امام حسینؓ نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں جاتے ہو؟ اس نے کہا اس منافق کی نماز جنازہ سے بھاگ رہا ہوں، امام حسینؓ نے اس کو کہا تو اس کی نماز میں میرے دائیں طرف کھڑے ہونا اور میرے پڑھنے کو سننا اور جو کہوں تو بھی وہ کہنا پھر جب ولی نے تکبیر کہی تو امام حسینؓ نے اللّٰه اکبر کے بعد اس طرح کہنا شروع کیا؛ اے اللّٰه اس اپنے بندے پر لعنت کر ہزار لعنتیں جو اکھٹی ہوں اور الگ الگ ہوں اے اللّٰه اس بندہ کو اپنے بندوں اور شہروں میں ذلیل کر اور اپنی آگ کے جلانے سے اس کو جلا اور اپنے عذاب کی سختی اسکو چکھا بیشک یہ ان میں سے تھا جو تیرے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں اور تیرے نبیﷺ کے اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں
فروع کافی کی جلد سوم کے باب الصلوٰۃ علی الناصب میں 7 روایات دی گئی جن میں غیر شیعوں پر نماز جنازہ پڑھنے اور ان پر مختلف بددعائیں کرنے کا ذکر تاکید سے موجود ہے۔
مذکورہ دونوں روایتوں میں سے پہلی روایت میں حضورﷺ اور دوسری روایت سے امام حسینؓ سے منافقین اور ان کی منافقی کی تائید ہوتی ہے۔ ان روایتوں میں منافقین اور مؤمنین صادقین کو دھوکہ میں رکھا گیا ہے مسلمانوں کو دھوکہ اس لیے کہ نبیﷺ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسرے بہت سے مسلمانوں نے بھی اب جنازوں میں شرکت کی ہوگی اور پھر حضورﷺ اور حضرت حسینؓ نے ان اموات کے لیے مخفی طور پر بددعا کی اور بظاہر دعا کا نمونہ دکھلایا یعنی کتمان اور تقیہ کیا (نعوذباللّٰہ)۔ دوسرے مسلمانوں نے ظاہر اور باطن دونوں طریقوں سے دعا کا طریقہ اور عمل قائم رکھا اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب کے مصنفین نے جھوٹ اور دھوکہ اور فریب کی ایسی داستانیں اور ایسے واقعات خود تراش کر حضورﷺ اور ائمہ کرام سے اس لیے منسوب کیے ہیں تاکہ شیعہ میں کتمان اور تقیہ کے عقیدہ کو حضورﷺ اور ائمہ کرام کی زندگیوں سے ثابت کر سکیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا چنانچہ جو شیعہ کسی دنیوی تعلقات کی بنا پر سنیوں کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں تو وہ ان روایتوں کی بنیاد پر میت کے لیے بددعا کرتے ہیں۔
ورنہ کسی شیعہ کو کسی سنی کے جنازہ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں فتوی کے الفاظ یہ ہیں؛
لہٰذا شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیحہ حرام ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے، ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوں کے جنازہ میں شریک ہوکر یہ دعا کرنا چاہیے کہ یااللّٰه اس کی قبر کو آگ سے بھر سے اور اس پر عذاب نازل کر؛
دیکھئے باب دوازدہم
(6) علامہ مجتہد العصر سید عرفان حیدر عابدی موسوی کی شیعت سے توبہ اور سنی مذہب اختیار کرنے کے بارے میں موصوف سے ایک انٹرویو۔۔۔۔
شیعہ رہنما اور قائد فقہ جعفریہ علامہ سید حامد علی موسوی کے صاحبزادہ سید عرفان حیدر عابدی جو کہ پہلے شیعہ مذہب کے عالم اور مجتہد تھے وہ شیعیت سے تائب ہو کر سنی مذہب میں داخل ہو گئے تھے انہوں نے کہاں تعلیم حاصل کی اور کہاں کہاں شیعیت کی تبلیغ کی اور شیعیت کو چھوڑنے کے اسباب و علل کیا تھے وغیرہ وغیرہ۔
یہ تمام باتیں آپ سے لئے گئے ایک انٹرویو میں موجود ہیں یہ انٹرویو ماہنامہ البلاغ کراچی بابت رمضان المبارک 1405ھ مطابق جون 1985 میں موجود ہے علامہ عرفان حیدر عابدی نے شیعیت کو چھوڑا اور سنی مذہب اختیار کیا اس کا ذکر روزنامہ جنگ لاہور 9 اگست 1984ء میں موجود ہے یہاں پر علامہ سے لئے گئے انٹرویو سے صرف کچھ سوالوں کے جواب ذکر کئے جاتے ہیں باقی تفصیل کیلئے البلاغ رمضان المبارک 1405ھ کا مطالعہ کیا جائے وہ سوال اور جواب اسطرح ہے:
السوال
آپ کن وجوہات کی بنا پر شیعہ مذہب کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے؟؟
الجواب
شیعہ مسلک کا مبلغ ہونے کے باوجود مجھے شرح صدر حاصل نہیں تھا اس لئے میں علماء اہلسنت کی کتب کا بھی مطالعہ کرتا تھا علمائے دیوبند میں سے بعض بزرگوں کی کتابوں سے زیادہ متاثر ہوا اور چند اہم وجوہات جن کی وجہ سے میں اس مذہب کو باطل یقین کرتے ہوئے تائب ہونے پر مجبور ہوا یہ ہیں؛
(1) 21 رمضان المبارک کو شیعہ حضرات حضرت علیؓ کا جنازہ نکالتے ہیں گذشتہ رمضان میں جب یہ رسم ادا ہو رہی تھی تو حسب سابق مبلغین و ذاکرین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی تو اس وقت سب نے اصحابؓ رسولﷺ پر تبراء شروع کر دیا میں نے کہا کہ میں نے جس قدر تحقیق کی ہے ہمارے کسی امام نے ان حضرات پر لعنت نہیں بھیجی تو اس وقت میرے والد صاحب سید حامد علی موسوی جو آجکل رافضیوں کے ایک گروپ کے قائد ہیں فرمانے لگے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے تولا اور تبراء ہمارے مذہب کا ایک اہم جزء اور حصہ ہیں تو اس پر میں نے والد صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر سب کیا لیکن جب حضرت عمرؓ پر تبراء شروع کیا تو میری زبان بند ہوگئی اور کافی دیر تک میری زبان بند رہی اور کافی دیر تک میری قوت گویائی سلب رہی میں اللّٰه تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرے توبہ کرنے اور خدا سے معافی مانگنے پر میری زبان نے دوبارہ بولنا شروع کیا تو اس پر میرا یقین کامل ہوا کہ اصحاب رسولﷺ سچے ہیں اور یہ ابن سباء یہودی کی نسل اپنے اس ملعون عمل سے اہل بیت کو بھی بدنام کر رہی ہے۔
(2)شیعہ حضرات ام المؤمنین حضرت عائشہؓ اور حفصہؓ پر لعنت بھیجتے ہیں میں نے سوچا کہ معاذاللّٰہ اگر یہ عورتیں اتنے برے کردار کی مالک تھیں تو خدا نے اپنے پیغمبر ﷺ کو ان سے شادی کرنے سے کیوں نہ روکا تحقیق سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ ایک یہودیانہ سازش کا نتیجہ ہے۔
(3) اہل تشیع قرآن مجید کو تحریف شدہ تصور کرتے ہیں اور یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔
(4)شیعہ مبلغین اور ذاکرین اپنے مذہب کی تبلیغ رقم طے کرکے سرانجام دیتے ہیں ہاں میں ان کے اس عمل سے شدید بدظن ہوا۔
(5)میں نے شیعہ مذہب کے مبلغین اور ذاکرین کی اکثریت کو جو دعویٰ "محبان اہلبیت" کہلانے کا کرتے ہیں فسق و فجور میں مبتلا پایا
ماہنامہ البلاغ کراچی جون 1985
مذکورہ انٹرویو میں 5 باتیں بیان کی گئیں ۔۔۔
اب آپ بتائیں آپ کی عمر کتنی ہے ؟
آپ نے اپنی زندگی میں کبھی دیکھا کہ شیعہ ہر سال حضرت علیؓ کا 21 رمضان کو جنازہ نکالتے ہیں اور صحابہ کرام ؓ پر تبرا کرتے ہیں؟
اگر آپ جواب میں ہاں کہتے ہیں تو صحیح ورنہ اگر جواب نفی میں ہے تو بتائیں آپ کو یہ خبر کیوں نہیں ؟
کیا شیعہ پاکستان میں نہیں رہتے ؟
آپ جس ضلع، تحصیل یا بستی میں رہتے ہیں کیا وہاں کوئی شیعہ نہیں ہے ؟
تو آپ لازم یہ کہیں گے کہ شیعہ تو برابر، ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن ہمیں خبر نہیں کہ وہ رمضان المبارک میں ایسا کرتے ہیں یہ خبر آپ کو کیوں نہیں ؟
دوستو۔۔۔۔! آپ کو یہ خبر نہ ہونا شیعوں کی تقیہ اور کتمان ہی کی کارفرمائی کا نتیجہ ہے شیعوں کے اصل میں جو عقائد ہیں قرآن و سنت نبوت اور ختم نبوت کے بارے میں "بدا" یعنی (اللّٰہ سے غلطی اور بھول ہونے کے بارے میں) بیت اللّٰه اور کربلا کے بارے میں امام غائب، رجعت اور تبراء، لعنت کرنے وغیرہ کے بارے میں ان تمام عقائد کو غیر شیعوں سے مخفی رکھنے کا نام تقیہ اور کتمان ہے مختصر عبارت میں کتمان اور تقیہ کی تعریف یوں ہو گی کہ؛
شیعہ۔ مذہب کے ہر عقیدہ اور عمل کو غیر شیعوں سے مخفی رکھنے کو تقیہ کہا جاتا ہے اب آپ کی مرضی اسکو جھوٹ، مکاری، منافقت وغیرہ کہیں یا کچھ اور لیکن شیعہ مذہب میں تو یہ اہم عبادت ہے جس میں دین کے 9 حصے آجاتے ہیں اور ان کے مذہب کی بقاء اور ترقی کا راز ہی تقیہ میں ہے یہ تقیہ ہی ہے جو شیعہ مذہب کے ذاکروں اور خطیبوں کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر حق بات کرنے سے روک رہا ہے چنانچہ یہ لوگ عوام کے سامنے اپنا صحیح عقیدہ بیان نہیں کرتے۔
(7)دو نو عمر بھائیوں محمد ارتضیٰ اور محمد مرتضی کا شیعیت سے تائب ہو کر سنی مذہب قبول کرنے کا واقعہ۔۔۔۔
نامور مفکر و ادیب علامہ سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف سیرت سید احمد شہیدؒ مطبوعہ 1941ء کے صفحہ350 سے 382 پر لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ آپ (حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ) نے اعلان فرمایا کہ کل ہم شیعوں کی عیدگاہ میں وعظ کہیں گے چنانچہ آپ حسب اعلان وعظ کہنے کے لیے عید گاہ تشریف لے گئے، اس اعلان کی اطلاع عام طور پر ہوگئی تھی، اس لیے دونوں فریق کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور بڑا مجمع ہو گیا، مولانا (شاہ اسماعیل شہیدؒ منبر پر تشریف لائے اور وعظ شروع کیا، وعظ میں آپ نے مذہب تشیع کی خوب دھجیاں اڑائیں، اس وعظ میں 2 نو عمر لڑکے آپس میں بھائی تھے جن میں سے ایک کا نام محمد ارتضیٰ اور دوسرے کا نام محمد مرتضیٰ تھا، مولانا کے قریب ہی دونوں بیٹھے ہوئے تھے ان پر اس وعظ کا اثر ہوا اور ان میں سے چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی سے کہا کہ مولانا کی تقریر سن کر میرے دل میں یہ بات آئی ہے کہ اس شہر میں ہماری حکومت ہے اور یہ شخص جو مذہب تشیع کی اس بے باکی سے تردید کر رہا ہے محض ایک معمولی اور دبلا پتلا آدمی ہے نہ کہیں کا بادشاہ ہے نہ نواب، نہ ہی اس کے پاس فوج ہے نہ ہی ہتھیار پھر باوجود اس بےکسی و بےبسی کے جو یہ اس قدر جرأت دکھلا رہا ہے تو وہ کونسی بات ہے جو اسے اس بےباکی و سرفروشی پر امادہ کر رہی ہے وہ صرف اس کا ایمان ہے اب ہم اپنے ائمہ پر نظر کرتے ہیں ہمارے ائمہ ہمارے مذہب کی روایات کے مطابق اس قدر قوی اور شجاع تھے کہ ان کی قوت کو نہ کسی فرشتے کی قوت پہنچتی تھی اور نہ جن کی۔ اور اسکے ساتھ ہی وہ تقیہ بھی اس قدر کرتے تھے کہ مخالف تو درکنار خود اپنے شیعوں سے بھی صاف بات نہ کہتے تھے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ مذہب تشیع تو کسی طرح حق نہیں ہو سکتا کیونکہ یا تو اس کی بہادری کے افسانے جھوٹے ہیں یا ان کی تقیہ کی کہانی جھوٹی ہے اب صرف دو مذہب سچے ہوسکتے ہیں یا مذہب خوارج کا جو ائمہ کو کافر سمجھتے ہیں یا مذہب اہل سنت و الجماعت جو کہتے ہیں کہ ائمہ نہایت راست گو اور نہایت ایمان دار تھے اور ان کی شان "لا یخافون فی اللّٰہ لومة لائم" تھی اور ان کا مذہب وہی تھا جو اہلسنت کا مذہب ہے اور جو باتیں ان کی طرف شیعہ منسوب کرتے ہیں وہ ان کا افتراء ہے اور جب مذہب تشیع بالکل افسانہ ثابت ہوا اور حق ظاہر ہو گیا خوارج اور اہل سنت کے مذہب کے درمیان تو پھر جب میں ان دونوں مذہبوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں تو مجھے اہل سنت کا مذہب اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے؛
یہ سن کر بڑے بھائی نے کہا کہ مجھے بھی یہی خیال آتا ہے جب وہ دونوں متفق ہو گئے تو چھوٹا بھائی اٹھا اور کہا مولانا ذرہ منبر سے اتر آئیے مجھے کچھ عرض کرنا ہے مولانا سمجھے کہ شاید میری تردید کرنی ہے یہ خیال کرکے آپ نیچے تشریف لے آئے۔ اس لڑکے نے منبر پر جاکر اپنا شبہ وضاحت کے ساتھ پیش کیا اور کہا کہ اگر کسی کے پاس اس کا جواب ہو تو اس کا جواب دے دیں ورنہ میں مذہب شیعہ سے تائب ہوتا ہوں اور میرے ساتھ میرا بڑا بھائی بھی تائب ہوگا اس مجمع میں مجتہدین بھی تھے مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا اس نے پھر کہا کہ یا تو کوئی صاحب جواب دیں ورنہ میں سنی ہوتا ہوں اس کا بھی کچھ جواب نہ ملا آخر وہ منبر پر سے اترا اور مولانا سے عرض کیا کہ میں اپنا کام کر چکا آپ وعظ فرمائیں۔؛
مولانا نے فرمایا کہ وعظ سے جو میرا مقصود تھا وہ حاصل ہو گیا اور جو تقریر تم نے کی میں ایسی نہ کرتا اس لئے اب مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی یہ دونوں لڑکے کسی بڑے وثیقہ دار کے لڑکے تھے جب یہ سنی ہو گئے تو انہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور مولانا کے ساتھ ہو گئے یہاں تک کہ جہاد میں آپ کے ساتھ شہید ہو گئے۔
(1941ء لکھنؤ 350تا382)
اب آپ کو معلوم ہوچکا کہ تقیہ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔
تقیہ نام ہے جھوٹ، دھوکہ، فریب اور منافقت کا یعنی دل میں ایک بات ہو اور زبان پر دوسری، اسی کا نام تقیہ ہے آپ کو یہ معلوم ہوا کہ شیعہ مذہب کے 10 حصوں میں سے 9 حصے تقیہ میں ہیں اور شیعہ مذہب تقیہ کے اصول اور عقیدہ کو تسلیم کرنے کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا لِہٰذا شیعوں کے مذہب کے مطابق تمام ائمہ کرام اور حضرت علیؓ سے لیکر گیارہویں امام حسن عسکریؒ تک تقیہ کی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ اپنا اصلی دین عام شیعوں سے بھی چھپاتے رہے۔
( معاذاللّٰہ)
حالانکہ دین؛ اسلام میں جھوٹ ام الخبائث ہے قرآن و حدیث میں جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے مگر کیا کیا جائے جس مذہب میں قرآن تحریف شدہ کتاب ہو حدیث رسولﷺ کا پورا ذخیرہ غیر معتبر اور ناقابل قبول ہو پیغمبر کریمﷺ کے اوپر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور وحی الٰہی کے اولین مخاطبین اور دین اسلام کے سرفروش مجاہدین حضرات صحابۂ کرامؓ نعوذباللّٰہ منہا مرتد اور غاصب ہوں تو اس مذہب میں سچ کو کہاں دخل ہوگا وہاں تو فریب اور دھوکہ کی تعلیم و تبلیغ ہوگی اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ایسے مذہب یعنی شیعیت کو دین اسلام سے کتنا واسطہ ہے ؟
اور کیا ایسے مذہب کو اسلام کہا جائیگا؟٠
شیعہ مجتہد العصر علامہ و ڈاکٹر سید موسی الموسوی کی تصنیف "الشیعہ والتصیح" کا اردو ترجمہ اصلاح شیعہ اس وقت میرے سامنے ہے جس میں ڈاکٹر نے شیعیت میں تقیہ کے اصول پر مندرجہ ذیل ریمارکس دیے ہیں۔
میرا پختہ اعتقاد ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی گروہ موجود نہیں جس نے اپنی تذلیل و توہین اس حد تک کی ہو جس قدر شیعہ نے خود اپنی تقیہ کا نظریہ قبول کرکے اور اس پر عمل پیرا ہوکر کی ہے؛
اصلاح شیعہ صفحہ95
ظاہر ہے کہ تقیہ کرنے والا اپنے آپ کو حد درجے کا ذلیل کرتا ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ تقیہ کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے کی نسبت اپنے ائمہ کی طرف کرتے ہیں تو وہ خود اپنے ائمہ کی توہین اور تذلیل کرنے کے مرتکب بن جاتے ہیں یہ بہت خطرناک مقام ہے اور شیعہ علماء ومجتہدین کو ایسی ایمان سوز گستاخی سے توبہ کرنی چاہیے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم عطا فرمائے۔آمین ثم آمین