Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف

  علی محمد الصلابی

وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف

جب لوگوں کو رسول اللہﷺ کی وفات کی خبر ملی تو بڑا واویلا مچ گیا، آپﷺ کی وفات مسلمانوں کے لیے اور خاص طور پر سیدنا ابنِ خطابؓ کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس صورت حال کی تفصیل ہمیں اس طرح بتاتے ہیں: ’’جب رسول اللہﷺ کی وفات ہوئی تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: کچھ منافق لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی، حالانکہ آپﷺ مرے نہیں ہیں، وہ تو اپنے ربّ کے پاس گئے ہیں جیسے کہ موسیٰ بن عمران علیہ السلام گئے تھے۔ وہ اپنی قوم کی نگاہوں سے چالیس (40) رات تک غائب تھے اور پھر واپس لوٹے جب کہ کہا جانے لگا تھا کہ وہ مر گئے۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول بھی اسی طرح واپس ہوں گے جس طرح موسیٰ علیہ السلام واپس آئے تھے اور ضرور ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹیں گے جو کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مر گئے ہیں۔ 

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپؓ مسجد نبوی کے دروازے پر آئے اور سیدنا عمرؓ لوگوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی چیز کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہﷺ کے پاس پہنچے، گھر کے ایک طرف آپﷺ کے جسمِ اطہر پر چادر ڈالی ہوئی تھی، آپ آگے بڑھے اور رسول اللہﷺ کے چہرہ مبارک کو کھولا، پھر آپﷺ کو بوسہ دیا، اور بولے: آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان، اللہ نے جس موت کو آپﷺ پر لکھ دیا تھا آپﷺ اس سے گزر گئے، اب اس کے بعد آپﷺ کو کبھی موت لاحق نہ ہوگی۔ راوی کہتے ہیں: پھر آپؓ نے چادر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر لوٹا دیا، باہر نکلے اور سیدنا عمرؓ بولتے جا رہے تھے، تو کہا: اے عمر! ذرا ٹھہرو، خاموش ہو جاؤ! آپؓ نے خاموش ہونے سے انکار کیا، جب سیدنا ابوبکرؓ نے دیکھا کہ وہ چپ نہیں ہو رہے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور جب لوگوں نے آپؓ کی آواز سنی تو عمرؓ کو چھوڑ دیا اور آپؓ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ آپؓ نے اللہ کی حمد وثنا کی، پھر فرمایا: اے لوگو! جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد فوت ہو گئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، وہ کبھی نہیں مرے گا۔ پھر آپؓ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی:

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ‌ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ‌ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا‌ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ ۞

(سورۃ آل عمران آیت، 144)

ترجمہ: ’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں کے بل تو ہرگز وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا، عنقریب اللہ تعالیٰ کا شکر گزاروں کو اچھا بدلہ دے گا۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم؛ گویا کہ لوگوں نے جانا ہی نہ تھا کہ یہ آیت نازل ہو چکی ہے یہاں تک کہ اس دن سیدنا ابوبکرؓ نے اس کی تلاوت کی۔ لوگوں نے اس آیت کو سیدنا ابوبکرؓ سے سیکھا اور اب یہ ان کی زبانوں پر تھی۔ ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ: سیدنا عمرؓ نے کہا: قسم اللہ کی، جب میں نے سیدنا ابوبکرؓ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا تو قریب تھا کہ زمین پر گرجاؤں اور میں نے یقین کر لیا کہ رسول اللہﷺ وفات پا چکے ہیں۔ 

(شرح النووی: جلد، 11 صفحہ، 90، فصل الخطاب فی موافق الاصحاب: الغرسی: صفحہ، 41)