سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی میں سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ کا مؤقف اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت
علی محمد الصلابیسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلافت صدیقی میں سقیفہ بنی ساعدہ میں آپ کا مؤقف اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہؓ کے پاس جمع ہوئے اور کہا: ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا۔ پھر ان کے پاس ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح رضوان اللہ علیہم اجمعین گئے، سیدنا عمرؓ نے بولنا شروع کیا لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپؓ کو خاموش کر دیا۔ سیدنا عمرؓ کہتے تھے: اللہ کی قسم میں نے اس موقع پر کچھ ایسی باتیں کہنا چاہتا تھا جو مجھے بہت پسند تھیں اور مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں سیدنا ابوبکرؓ اس کو نہ جانتے ہوں۔ پھر ابوبکرؓ نے تقریر کی اور خوب فصیح و بلیغ تقریر کی، تقریر میں کہا: ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہو گے۔ خباب بن منذر نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ایسا ہرگز نہ ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک تم میں سے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے کہا: نہیں، لیکن ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر ہو گے۔ وہ مہاجرین عرب کے بہترین گھرانے کے لوگ ہیں، حسب و نسب میں اعلیٰ درجہ کے عربی ہیں، تم عمرؓ یا ابوعبیدہؓ سے بیعت کر لو۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: بلکہ ہم آپؓ سے بیعت کریں گے۔ آپؓ ہم سے بہتر، ہمارے بڑے اور رسول اللہﷺ کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب رہے ہیں۔ پھر عمرؓ نے آپ ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کی اور دوسرے لوگوں نے بھی آپؓ سے بیعت کی۔
(البخاری: الجنائز: حدیث، 1242)
ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ سیدنا عمرؓ سے خوش ہو اور دوسروں کو بھی ان سے خوش کرے، کیونکہ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں ہنگامہ ہو گیا، آپس میں بحث شروع ہو گئی تو سیدنا عمرؓ اختلاف سے ڈر گئے اور سب سے خطرناک بات جس سے آپؓ خائف تھے کہ کہیں کسی انصاری کے ہاتھ پر بیعت شروع نہ ہو جائے اور پھر ایک بڑا فتنہ رونما ہو جائے۔ کیونکہ کسی انصاری کے لیے بیعت کا آغاز ہو جانے کے بعد پھر دوسرے کے ہاتھ پر بیعت کرنا آسان نہیں ہے، لہٰذا آپؓ نے فتنے کو بھانپتے ہوئے اسے فوراً مٹانے میں جلدی کی اور انصار سے کہا: ’’اے انصار! کیا تم جانتے نہیں ہو کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو لوگوں کی امامت کرنے کا حکم دیا تھا؟ پھر تم میں سے کس کو گوارا ہے کہ ابوبکرؓ سے آگے بڑھے؟‘‘ انصار نے کہا: ہم سیدنا ابوبکرؓ سے آگے بڑھنے پر اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(مسند أحمد: جلد، 1 صفحہ، 213 علامہ احمد شاکر نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے۔)
پھر آپؓ خود آگے بڑھے اور سیدنا ابوبکرؓ سے کہا: اپنا ہاتھ بڑھایئے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا، سیدنا عمرؓ نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے بیعت کی۔
(الحکمۃ فی الدعوۃ الی اللّٰه: سعید القحطانی: صفحہ، 226)
منگل کا دن تھا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف لائے، سیدنا ابوبکرؓ کی تقریر سے پہلے سیدنا عمرؓ نے وعظ کیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا:
’’اے لوگو! میں نے تم سے کل ایک بات کہی تھی جو ہو گئی، نہ اسے قرآن میں پایا اور نہ رسول اللہﷺ نے اسے کہنے کا مجھ سے وعدہ لیا تھا۔ لیکن میں خود سوچتا تھا کہ رسول اللہﷺ ہمارے معاملے کی کوئی تدبیر کریں گے اور ہم میں سب سے آخر میں اٹھائے جائیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان وہ قرآن باقی رکھا ہے جس کے ذریعہ سے اس نے اپنے رسولﷺ کو ہدایت دی۔ پس اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑتے ہو تو تم کو بھی اسی طرح ہدایت دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ تمہارے سب سے بہتر فرد رسول اللہﷺ کے خاص مصاحب اور یارِ غار یعنی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ٹھہرا دیا ہے، لہٰذا اٹھو اور بیعت کرو۔‘‘
پھر سقیفہ والی بیعت کے بعد یہاں لوگوں نے آپ سے عام بیعت کی۔
جناب سیدنا عمرؓ برابر تائید کرتے اور تقویت دیتے رہے اور لوگوں کو سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت پر ابھارتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اختلاف و انتشار اور فتنہ سے بچا کر ایک امام پر متفق کر دیا۔ درحقیقت اس اہم موقع پر لوگوں کو سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کی امامت پر متفق کرنے میں آپؓ نے جو کردار ادا کیا اور پُر از حکمت جو مؤقف اختیار کیا وہ بہت عظیم ہے اور آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔
آپؓ ڈر رہے تھے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت منتشر ہو جائے گی اور فتنوں کے شعلے بھڑک اٹھیں گے اس لیے آپ نے ابوبکر صدیقؓ سے بیعت کر کے ان شراروں کو بجھانے میں جلدی کی اور صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی بیعت عامہ پر ابھارا، گویا آپؓ کا یہ عمل مسلمانوں کو اس بڑے حادثہ سے نجات دینے کا سبب بن گیا جو ان کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والا تھا، اگر توفیق الہٰی کے بعد آپؓ کی دور اندیشی اور بالغ نظری نہ ہوتی۔