Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مانعینِ زکوٰۃ سے جہاد اور لشکر اسامہ کی روانگی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کی گفت وشنید

  علی محمد الصلابی

مانعینِ زکوٰۃ سے جہاد اور لشکر اسامہ کی روانگی میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے آپ کی گفت وشنید

سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپﷺ کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور عربوں میں سے کچھ مرتد ہو گئے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوبکر! آپؓ لوگوں سے کیسے جنگ کریں گے، جب کہ فرمان رسولﷺ ہے:

 أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتفلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، فَمَنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہٗ وَنَفْسَہٗ إِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ۔ 

(محض الصواب فی فضائل أمیر المومنین عمر بن الخطاب: جلد، 1 صفحہ، 280)

ترجمہ: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کر لیں یعنی اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور جس نے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کر لیا، اس نے مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا، مگر اس کلمہ کے حق کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘

سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی، جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا میں اس سے ضرور بالضرور جنگ لڑوں گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹنی کا ایک سال سے چھوٹا سا بچہ مجھے نہ دیا جسے رسول اللہﷺ کے زمانہ میں دیتے تھے تو اس کی عدم ادائیگی پر ان سے جنگ لڑوں گا۔

سیدنا عمرؓ کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم جب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر کا سینہ جنگ کے لیے کھول دیا ہے تو میں نے یقین کر لیا کہ آپؓ کی رائے برحق ہے۔

(صحیح البخاری: فضائل الصحابۃ: حدیث، 3668)

وفات النبیﷺ کے بعد جب بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سیدنا ابوبکرؓ کو مشورہ دیا کہ ملکی حالات کے درست ہونے تک لشکرِ اسامہ کو نہ روانہ کریں اور سیدنا عمر بن خطابؓ نے مقام جرف مجاہدین کے معسکر سے اسامہؓ کو سیدنا ابوبکرؓ کے پاس بھیجا تاکہ آپؓ لوگوں کو لے کر مدینہ واپس لوٹ جانے کی اجازت دے دیں اور یہ دلیل دی کہ ہمارے ساتھ بہت سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، میں خلیفۂ رسول، ازواجِ مطہراتؓ اور مسلمانوں کے بارے میں اس بات سے مامون نہیں ہوں کہ انہیں مشرکین اچک لیں۔

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 6 صفحہ، 305 ، 306 اس روایت کی سند صحیح ہے)

لیکن ابوبکر صدیقؓ نے اس بات کی مخالفت کی اور اس بات پر بضد رہے کہ شام کی طرف فوج کشی جاری رہے گی، حالات و ظروف اور نتائج جیسے بھی سامنے آئیں۔ اس موقع پر انصار نے مطالبہ کیا کہ لشکر کا امیر ایسا شخص ہونا چاہیے جو اسامہ سے زیادہ عمر کا ہو اور اس موضوع پر سیدنا صدیق اکبرؓ سے بات کرنے کے لیے انہوں نے سیدنا عمر بن خطابؓ کو بھیجا۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: انصار امارت کے لیے اسامہ سے زیادہ عمر کا آدمی چاہتے ہیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ بیٹھے ہوئے تھے، یہ سن کر آپؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدنا عمرؓ کی داڑھی پکڑ لی اور کہا: اے ابن خطاب! تمہاری ماں تم کو گم پائے، رسول اللہﷺ نے اس کو امیر بنایا اور تم مجھ سے کہتے ہو کہ اسے ہٹا دوں۔ 

(صحیح البخاری: استتابۃ المرتدین والمعاندین: حدیث، 6924)

سیدنا عمرؓ وہاں سے نکل کر لوگوں کے پاس گئے، انہوں نے پوچھا کہ آپؓ نے کیا کیا؟ آپؓ نے فرمایا: تمہاری مائیں تم کو گم پائیں، چلو، خلیفۂ رسولﷺ سے مجھے جو کچھ بھی سننا پڑا تمہاری وجہ سے۔ 

(صحیح البخاری: استنابۃ المرتدین والمعاندین وقتالہم: 6925)