Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مسلم بن عقیل رحمۃ اللہ کی گرفتاری اور قتل

  ابو شاہین

مسلم بن عقیلؒ کی گرفتاری اور قتل

 مسلم بن عقیلؒ تن تنہا کوفہ کی گلیوں میں پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر آنے جانے لگے، وہ ایک گھر کے دروازے پر آئے تو ایک عورت گھر سے باہر آئی ،آپ نے اس سے پانی مانگا، اس نے پانی پلایا اور پھر گھر کے اندر چلی گئی، جب تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلی تو مسلم بن عقیلؒ دروازے پر ہی موجود تھے، وہ کہنے لگی، آپ کا اس جگہ بیٹھنا مشکوک ہے لہٰذا یہاں سے اٹھ جائیں۔ انہوں نے کہا، میں مسلم بن عقیلؒ ہوں۔ کیا تیرے ہاں مجھے جگہ مل سکتی ہے۔ اس نے کہا، ہاں ، پھر اس نے آپ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اس خاتون کا بیٹا محمد بن اشعث کا آزاد کردہ غلام تھا، وہ اس کے پاس گیا اور اسے صورت حال سے مطلع کر دیا۔ اس پر عبیداللہ نے مسلمؒ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس بھیجی، آپ تلوار لہراتے گھر سے باہر آئے اور لڑنے لگے مگر ابن اشعث نے انہیں امان دے دی اور آپ نے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیا

( سیر اعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 308 )

ابن زیاد کی طرف جاتے ہوئے مسلم بن عقیلؒ رونے لگ گئے۔ ان سے کہا گیا، جو لوگ آپ جیسے مقاصد کے متلاشی ہوتے ہیں وہ رویا نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا! اللہ کی قسم میں نہ تو اپنے لیے روتا ہوں اور نہ مجھے اپنے قتل کیے جانے کا کوئی غم ہے، بلکہ میں اپنے ان اہل خانہ کے لیے روتا ہوں جو کوفہ آ رہے ہیں ، میں حضرت حسینؓ اور آل حسین رضی اللہ عنہم کے لیے روتا ہوں۔ پھر مسلم بن اشعث کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے مجھے لگتا ہے کہ تو میری امان سے عاجز آ جائے گا، کیا تو ایسا کر سکتا ہے کہ کسی آدمی کے ہاتھ میرا خط حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پہنچا دے؟ میرے خیال میں وہ اور ان کے اہلِ بیت یہاں آنے کے لیے روانہ ہو چکے ہوں گے۔ انہیں بتایا جائے کہ مسلم بن عقیلؒ کوفہ والوں کی قید میں ہے اور شاید اسے کسی وقت بھی قتل کر دیا جائے، اس کا آپ کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اھل خانہ کے ساتھ یہیں سے لوٹ جائیں اور اہل کوفہ کے دھوکہ میں نہ آئیں ۔ اہل کوفہ تمہارے باپ کے وہ ساتھی ہیں، جن سے وہ طبعی موت یا قتل کے ذریعے سے جدا ہونے کے متمنی تھے، اہل کوفہ نے تمہاری بھی تکذیب کی اور میری بھی، اور جھوٹے آدمی کی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ محمد بن اشعث کہنے لگا، و اللہ! میں ایسا ضرور کروں گا، اور میں ابن زیاد کو یہ بھی بتلا دوں گا کہ میں نے تمہیں امان دے دی ہے۔ پھر اس نے ایاس بن عباس طائی کو بلایا اور اس سے کہا کہ جاؤ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کر کے ان تک یہ خط پہنچاؤ، پھر اس نے اس کے لیے سواری کا انتظام کیا اور اس کے گھر اور اہل و عیال کی ذمہ داری قبول کر کے اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس بھجوا دیا۔

 ( البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ، 688 تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 297 )

بعدازاں ابن اشعث نے مسلم بن عقیلؒ کو ابن زیاد کے حوالے کر دیا اور اسے بتایا کہ میں انہیں امان دے چکا ہوں، اس پر ابن زیاد کہنے لگا، ہم نے تجھے انہیں امان دینے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔ پھر اس نے اس کی امان کو مسترد کر دیا۔ ( تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 298 )

ابن زیاد کے محل کے دروازے پر انہوں نے پانی کا مطالبہ کیا، تو عمار بن عقبہ ٹھنڈا پانی لے کر آیا مگر آپ کو اسے پینے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے کہ اس میں اس کا خون ملا تھا۔ جب مسلمؒ ’’ابن زیاد‘‘ کے پاس گئے تو وہ کہنے لگا، میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں۔ انہوں نے فرمایا، اگر مجھے اجازت ہو تو میں اپنی قوم کے بعض افراد کو وصیت کر لوں، اس نے اس کی اجازت دے دی، تو آپ نے وہاں موجود لوگوں کی طرف دیکھا، تو ان میں عمر بن سعد بن ابی وقاص نظر آئے۔ آپ نے اس سے مخاطب ہوکر فرمایا: عمر! میرے اور تمہارے درمیان قرابت داری ہے اور مجھے تم سے ضروری کام ہے۔ تم میرے ساتھ محل کے کونے تک چلو تاکہ میں تم سے کوئی بات کر سکوں۔ مگر اس نے ابن زیاد کی اجازت کے بغیر ایسا کرنے سے انکار کر دیا، وہ وہاں سے اٹھ کر ابن زیاد کے قریب ہوئے تو مسلمؒ اس سے کہنے لگے، کوفہ کے کچھ لوگوں کا میرے ذمے سات سو درہم قرضہ ہے وہ میری طرف سے ادا کرنا، میرا جثہ ابن زیاد سے وصول کر کے اس کو دفنا دینا اور سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام بھجوانا۔ قبل ازیں میں نے انہیں لکھا تھا کہ لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب وہ ادھر آ رہے ہوں گے۔ یہ سب کچھ سن کر عمر نے ابن زیاد کو مسلم بن عقیلؒ کی باتوں سے مطلع کیا۔ ابن زیاد نے ان تمام باتوں کو نافذ کر دیا اور پھر کہنے لگا، اگر سیدنا حسینؓ ہمارے پاس نہ آئے تو ہم ان کے پاس نہیں جائیں گے اور اگر انہوں نے ہمارے بارے میں کوئی غلط ارادہ کیا تو ہم ان سے اپنے ہاتھ نہیں روکیں گے۔ پھر اس نے مسلم بن عقیلؒ کے بارے میں حکم دیا تو انہیں محل کی چھت پر پہنچایا گیا، اس دوران میں وہ تکبیر و تہلیل، تسبیح و تحمید اور توبہ و استغفار کر رہے تھے۔ آپ یہ بھی فرما رہے تھے، اے اللہ! ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان جنہوں نے ہم سے جنگ کی اور ہمیں بے یار و مددگار چھوڑا فیصلہ فرما، پھر بکیر بن حمران نام کے آدمی نے ان کی گردن اڑا دی، پھر ان کا سر محل سے نیچے پھینک دیا اور اس کے بعد ان کا جسم بھی۔

( البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ، 690)