سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور یمن سے معاذ رضی اللہ عنہ کی واپسی
علی محمد الصلابیسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور یمن سے معاذ رضی اللہ عنہ کی واپسی
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن میں ٹھہرے رہے، وہاں آپؓ کی اہم دعوتی کوششیں رہیں، اسی طرح مرتدین کے خلاف جہاد میں بھی آپؓ نے حصہ لیا، لیکن وفات النبیﷺ کے بعد آپؓ مدینہ چلے آئے، تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اس آدمی کو بلایے اور اس کی ضرورت بھر کی چیزیں اس کے پاس رہنے دیجیے بقیہ لے لیجیے، تو سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: نبی کریمﷺ نے اس کو بھیجا تھا تاکہ اس کی کمی پوری کر دیں، اگر وہ خود مجھے کچھ نہیں دیتے تو میں ان سے لینے والا نہیں۔ جب سیدنا عمرؓ نے دیکھا کہ سیدنا ابوبکرؓ میری رائے سے متفق نہیں ہیں اور آپؓ اپنی رائے صحیح سمجھتے ہیں تو خود ہی معاذؓ کے پاس انہیں راضی کرنے کے لیے گئے۔ معاذؓ نے کہا: مجھے رسول اللہﷺ نے میری ضرورت کی کمی پوری کرنے کے لیے بھیجا تھا، میں کچھ بھی واپس نہیں دوں گا۔
دراصل سیدنا عمرؓ ابوبکر صدیقؓ کے پاس اس لیے نہیں گئے تھے کہ وہ معاذؓ پر ظلم کریں بلکہ وہ معاذؓ اور دوسرے مسلمانوں کے لیے خیر چاہتے تھے، اور دوسری طرف معاذؓ نے عمرؓ کی نصیحت کو ٹھکرا دیا اور عمرؓ کو بتایا کہ وہ معاذؓ پر حاکم نہیں ہیں۔ لیکن عمرؓ بخوشی واپس لوٹ آئے اس لیے کہ آپؓ نصیحت کی ذمہ داری کو پورا کر چکے تھے، لیکن معاذؓ نے بھی عمرؓ کی نصیحت کو ٹھکرانے کے بعد پھر غور کیا اور آپؓ کے پاس یہ کہتے ہوئے حاضر ہوئے کہ میں آپؓ کی بات مانتا ہوں اور آپؓ نے مجھے جو حکم دیا ہے میں اسے پورا کروں گا۔ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں گہرے پانی میں ہوں اور ڈر ہے کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں، تو اے عمر! آپؓ نے مجھے اس سے بچا لیا۔ پھر معاذؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس گئے اور ان سے بھی پورا واقعہ ذکر کیا اور ان سے قسم کھائی کہ آپؓ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھوں گا۔ ابوبکرؓ نے کہا: میں کچھ نہیں لوں گا، وہ سب تم کو میں نے بطورِ عطیہ دے دیا، تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اپنی بات چھوڑ دی اور دل سے راضی ہو گئے۔
(تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 46)
ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ نے معاذؓ سے کہا: اپنا حساب چکا لو، تو سیدنا معاذؓ نے کہا: کیا دو حساب چکاؤں، ایک اللہ تعالیٰ کا حساب اور دوسرا تمہارا حساب؟ اللہ کی قسم!