مرتدین کے خلاف جنگ میں مسلمان مقتولین کی دیت کی عدم قبولیت پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے
علی محمد الصلابیمسلمان مقتولین کی دیّت کی عدم قبولیت کے بارے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن کو مخصوص زمین دینے پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اعتراض
مرتدین کے خلاف جنگ میں مسلمان مقتولین کی دیّت کی عدم قبولیت پر سیدنا عمر فاروقؓ کی رائے
اسد اور غطفان کی طرف سے بزاخہ کی قیادت میں ایک وفد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور صلح کا مطالبہ کرنے لگا، آپؓ نے ان کو تباہ کن جنگ اور رسوائی پر مبنی صلح کی ادائیگی کے درمیان اختیار دیا۔ انہوں نے کہا: تباہ کن جنگ تو دیکھ لی لیکن رسوائی پر مبنی صلح کیا ہے؟ آپؓ نے فرمایا: تم سے تمہارے مویشیوں اور کھیتیوں کو چھین لیا جائے گا اور تمہارا جو مال ہم کو ملے گا اسے ہم مال غنیمت سمجھیں گے اور تم ہمارا جو مال پاؤ گے اسے واپس کر دو گے، ہمارے مقتولین کی تم دیّت دو گے اور تمہارے مقتولین جہنم رسید ہوں گے اور تم ان لوگوں کا پیچھا چھوڑ دو گے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے چلتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ، خلیفۂ رسول اور مہاجرین کوئی ایسی چیز دیکھ لیں کہ تم کو معذور سمجھنے لگیں۔
سیدنا ابوبکرؓ نے اس وفد کے سامنے جو بات کہی تھی اسے جب سیدنا عمرؓ کے سامنے پیش کیا تو وہ کھڑے ہو گئے اور کہا: آپؓ نے جو بات کہی ٹھیک ہے لیکن ہم بھی آپؓ کو مشورہ دیتے ہیں کہ آپؓ نے تباہ کن جنگ اور رسوا کن صلح کی جو بات کہی وہ بہت اچھی بات کہی اور یہ کہ جو تمہارا مال ہمیں ملے گا اسے ہم مالِ غنیمت سمجھیں گے اور ہمارا جو مال تم کو ملے گا سو اس کے بارے میں بھی آپؓ نے بہت اچھا کہا لیکن آپؓ نے ہمارے مقتولین کی دیّت لینے اور ان کے مقتولین کے جہنم رسید ہونے کی جو بات کہی ہے تو اس سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ہمارے مقتولین نے جنگ لڑی اور اللہ کے راستہ میں شہید کر دیے گئے اس کا اجر ان کو اللہ تعالیٰ دے گا، ان کی کوئی دیّت نہیں۔ پھر لوگوں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات کی موافقت کی۔
(کنز العمال: جلد، 5 صفحہ، 620 حدیث، 14093)