مقام صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن مجید کی روشنی میں
امام اہلسنت علامہ عبد الشکور لکھنوی رحمۃ اللہالحمد لله حمداً كثيراً كما امر والصلوٰة والسلام على سيد البشر سیدنا مولانا محمد ذی النور الانور و علىٰ آله وصحبه الى يوم المحشر
اما بعد! حق تعالیٰ کی عنایت بے غایت کا شکر کسی طرح ادا نہیں ہو سکتا کہ تفسیر آیاتِ خلافت کا سلسلہ اختتام کو پہنچا اور یہ رسالہ اس سلسلہ کا آخری نمبر ہے، اس وقت جو چند متفرق آیات کی تفسیر ہدیہ ناظرین کی جاتی ہے اس سے یہ بات اچھی طرح ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید کو کس قدر اہتمام صحابہ کرامؓ کی تقدیس و تظہیر کا مد نظر ہے اور کیوں نہ ہو اس آخری شریعت کے راوی اور ناقل اور پاسبان اور نگہبان وہی حضرات ہیں، قرآن مجید کے اس اہتمام بلیغ کا یہ اثر ہے کہ کلمہ گویان اسلام میں بہت سے فرقے ہو گئے جن میں با خودہا سخت اختلاف ہے مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت و جلالت پر سب متفق ہیں، کسی نے ان کے تقدس میں کلام نہیں کیا سوائے ایک فرقہ شیعہ کے جس کا اصل مقصد قرآن مجید کو مشکوک بنانا ہے اور جس کو اصل عداوت قرآن مجید سے ہے اور اسی وجہ سے قرآن مجید کا یہ تمام اہتمام اس کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتا،
قرآن مجید کے سامنے شیعوں کی حیرانی و پریشانی قابل تماشا ہے، کبھی تو وہ قرآن مجید کو محرف کہہ کر اپنی گلو خلاصی کرنا چاہتے ہیں اور بے تامل صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس قرآن میں کفر کی باتیں بھری ہوئی ہیں اور اس قرآن کے مضامین سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور کبھی قرآن مجید کو معمیٰ اور چیستاں کہہ کر پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں غرض یہ کہ عجیب مخمصہ میں ہیں، کچھ بنائے نہیں بنتی، مجتہدین شیعہ نے میری تفاسیر میں دو ایک کا جواب لکھ کر اپنی عاجزی و سراسیمگی کا اچھی طرح اظہار کر دیا کہ اب کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی والحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
واضح رہے کہ قرآن مجید میں علاوہ ان آیات کے جن میں صحابہ کرامؓ کی مدح و صفتِ اصلی مقصد کے طور پر بیان کی گئی ہے بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں ضمناً و تبعاً اُن کی تعریف ہے اور تعریف بھی ایسی جس سے مذہب شیعہ کا ساختہ و پرداختہ گھروندا بالکل مٹ جاتا ہے نمونے کے طور پر چند آیات اس مقام پر زیب رقم کی جاتی ہیں، وَاللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ( سورۃ النور: آیت 46)
پہلی آیت:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَة وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ
(سورۃ آل عمران: آیت 164)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
فائدہ: اس آیت میں حق تعالیٰ نے حضورﷺ کی بعثت کو اپنا احسان قرار دیا ہے اور جو فوائد آپﷺ کی ذات مبارک سے مخلوق کو حاصل ہوئے ان کو بیان فرمایا ہے جن میں ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ لوگوں کو پاک کرتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ پاک کرنا ظاہر جسم کا پاک کرنا نہ تھا اور نہ ظاہر جسم کا پاک کرنا کوئی ایسی چیز ہے جو سید الانبیاءﷺ کے اوصاف میں ذکر کی جائے اور خداوند عالم اس کو اپنے انعامات و احسانات میں شمار فرمائے، ظاہر جسم کی پاکی تو ہر شخص خود وضو یا غسل سے حاصل کر سکتا ہے، بلکہ یہ پاک کرنا باطن کا تھا کہ آپ کی صحبت سے، آپ کی توجہ سے لوگوں کے قلوب پاک ہوتے تھے، لوگوں کے نفوس سے بری عادات و خصائل، کفر و شرک کی ظلمت و نجاست کا ازالہ ہوتا تھا، احادیث میں سینکڑوں واقعات اس قسم کے ملتے ہیں کہ کوئی کافر آپﷺ کی خدمت میں آیا جو شرک و کفر کی نجاست میں سر سے پاؤں تک ڈوبا ہوا اور اسلام کی عداوت سے اس کا سینہ بھرا ہوا تھا اور چشم زدن میں آپﷺ کی توجہ اس میں انقلاب عظیم پیدا کر دیتی تھی اور وہ مسلمان ہو کر دینِ الٰہی کی محبت میں سرشار ہو جاتا تھا۔
اسی آیت کی وجہ سے اہلِ سنت کا یہ اعتقاد ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کل کے کل نہایت مقدس اور نہایت مزکی تھے اور زمانہ ما بعد کا کوئی بڑے سے بڑا ولی بھی اُن کے رتبہ کو نہیں پاسکتا وہ سب خدا کے رسولﷺ کے پاک کیے ہوئے تھے، اگر کوئی روایت اُن کے تقدس کے خلاف ملے تو یقیناً وہ روایت جعلی ہے اور قرآن مجید کے خلاف ہونے کے باعث مردود ہے، مگر مذہب شیعہ کی تعلیم کے موافق اگر تینوں خلیفہ اور ان کے ساتھیوں کو منافق و مرتد اور ظالم و غاصب مان لیا جائے (معاذ اللہ منہ) تو پھر یہ صفت تزکیہ کی رسول خداﷺ میں باقی نہیں رہتی بلکہ آیت کی تکذیب لازم آتی ہے، اگر شیعہ کہیں کہ اس آیت میں جمع کے الفاظ سے صرف ایک حضرت علیؓ کی ذات مراد ہے، انہی کو رسول خداﷺ نے پاک کیا تھا اور وہی ایک مقدس مزکی تھے، تو جواب اس کا یہ ہے کہ سیدنا علیؓ بقول شیعہ کبھی گمراہی میں نہ تھے اور یہ آیت بتا رہی ہے کہ جو لوگ صریح گمراہی میں تھے رسولِ خداﷺ ان کو پاک کرتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ چار اشخاص کو اور بھی شیعہ مؤمن کہتے ہیں لیکن اول تو انکا ایمان حسبِ روایات شیعہ کامل نہ تھا۔
(حاشیہ: حیات القلوب جلد: 2، صفحہ، 643 میں ہے "شیخ کشی بسند معتبر روایت کرده است کہ ہیچ از یک صحابہ نبود کہ بعد از حضرت رسول حرکتے نکند مگر مقداد بن اسود" پھر اسی کتاب کے اسی صفحہ میں ہے "کشی بسند حسن از باقر روایت کرده است کہ صحابہ بعد از رسولﷺ مرتد شدند مگر سہ نفر سلمان و ابوزر و مقداد راوی گفت عمار چہ شد حضرت فرمود کہ اندک میلے کر دو بزودی برگشت پس فرمود کہ اگر کسے را خواهی کہ پیچ شک نہ کردہ و شبہ اور اعارض نہ شد او مقداد است)
دوسرے یہ کہ چار اشخاص کی پاکی کوئی ایسی غیر معمولی اہمیت نہیں رکھتی جس کا ذکر اس اہتمام سے کیا جائے، خصوصاً جبکہ ایک بڑا گروہ جو ہر وقت آپﷺ کی صحبت میں رہتا تھا اس کو آپ مطلق پاک نہ کر سکے، جس طبیب کے زیرِ علاج ایک لاکھ مریض ہوں ان میں اگر تین چار مریض شفا پائیں اور باقی سب اسی طرح اپنے مرض میں مبتلا رہ کر ہلاک ہو جائیں تو وہ طبیب ہر گز لائق نہیں تعریف ہو سکتا اور ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے ہاتھ میں شفا ہے،
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے علم کی عظمت بھی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے جن کو آپﷺ نے خود قرآن کی تعلیم دی ہو ان کے برابر کس کا علم ہو سکتا ہے، جو مضمون اس آیت میں بیان فرمایا ہے وہی مضمون قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ہے از انجملہ سورۃ جمعہ میں تو الفاظ بھی قریب قریب متحد ہیں۔
دوسری آیت:
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ
(سورۃ آل عمران: آیت 103)
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں اس طرح ہے:
وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡۤا اَنۡ يَّخۡدَعُوۡكَ فَاِنَّ حَسۡبَكَ اللّٰهُ هُوَ الَّذِىۡۤ اَيَّدَكَ بِنَصۡرِهٖ وَبِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوْبِھِمْ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيۡنَهُمۡ اِنَّهٗ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ
(سورۃ انفال: آیت 62٫63٫64)
ترجمہ: اور اگر وہ تمہیں دھوکا دینے کا ارادہ کریں گے تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے، وہی تو ہے جس نے اپنی مدد کے ذریعے اور مؤمنوں کے ذریعے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے، اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت پیدا کردی، اگر تم زمین بھر کی ساری دولت بھی خرچ کرلیتے تو ان کے دلوں میں یہ الفت پیدا نہ کرسکتے، لیکن اللہ نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا، وہ یقیناً اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے ،اے نبی! تمہارے لیے تو بس اللہ اور وہ مؤمن لوگ کافی ہیں جنہوں نے تمہاری پیروی کی ہے۔
فائدہ: ان دونوں آیتوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق وہ باتیں بیان فرمائی ہیں کہ ان کے مان لینے کے بعد مذہب شیعہ قطعاً فنا ہو جاتا ہے، ایک مضمون ان دونوں آیتوں میں مشترک ہے اور ایک ایک غیر مشترک۔
مشترک مضمون یہ ہے کہ خداوند کریم نے خبر دی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں قبل اسلام باہم سخت عداوت تھی کہ اس کا دور کر دینا انسانی طاقت سے بالا تر تھا حتٰی کہ سید الانبیاءﷺ کی بابت فرمایا کہ آپ بھی تمام دنیا کی دولت خرچ کر کے ان کی عداوت زائل نہ کر سکتے تھے، خداوند کریم نے اپنی قدرت کاملہ سے اُس عداوت کو دور کر کے ان میں باہم الفت پیدا کر دی کہ وہ بھائی بھائی ہو گئے، ان کی اس باہمی الفت کو خدا نے اپنی نعمت فرمایا۔
اس مضمون سے دو نتیجے برآمد ہوئے:
اول: یہ کہ قرآن شریف یہ بتاتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں باہم الفت و محبت تھی اور ایسی الفت و محبت جو خدا کی قدرت کاملہ کا ایک نمونہ تھی، ان کی اس باہمی محبت کو ایک اور آیت میں رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ کی لفظ سے تعبیر فرمایا اور ایک اور آیت میں اَذِلَّةً عَلى الْمُؤْمِنِیْنَ کی لفظ سے غرض یہ کہ جا بجا مختلف کلمات میں اُس کو بیان فرمایا ہے، مگر مذہب شیعہ یہ بیان کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی وہ دیرینہ عداوتیں بدستور قائم تھیں، بنی امیہ اور بنی ہاشم میں باہم وہی بغض و عناد اپنا کام کر رہا تھا اور اسی بغض و عناد کی وجہ سے حضرت علیؓ کو پہلی خلافت نہ مل سکی اور ان پر طرح طرح کے ظلم ہوئے( نعوذ باللہ من ذٰلک)
دوم: یہ کہ قرآن شریف یہ بتاتا ہے کہ صحابہؓ مخلصین کی ایک جماعت تھی مگر مذہب شیعہ کی تعلیم یہ ہے کہ صرف چار پانچ اشخاص مخلص تھے باقی سب منافق تھے یہ تعلیم کھلم کھلا قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ ان چار پانچ اشخاص میں نہ تو پہلے سے کوئی عداوت تھی نہ چار پانچ اشخاص میں اُلفت پیدا کر دینا کوئی ایسا بڑا کام ہے جس کو اہتمام سے بیان کیا جائے اور اسکو خدا کی قدرت کا کرشمہ کہا جائے،
تینوں خلفاء راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین کو مؤمن کامل اور خلیفہ برحق نہ ماننے سے شیعوں کو یہ دو صریح مخالفتیں قرآن کی کرنی پڑیں لیکن وہ مخالفت قرآن کی کچھ پروا نہیں کرتے خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ، کوئی شیعہ خدا کے لیے بتادے کہ وہ کون لوگ تھے جن میں باہم عداوت تھی اور ایسی عداوت کہ کسی طرح زائل نہ ہو سکتی تھی اور خدا نے ان کی عداوت کو دور کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا، یقیناً قیامت تک کوئی شیعہ اپنے مذہب کی رو سے اس کو نہیں بتا سکتا، اگر شیعہ کہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں بے شک ان کی عداوتیں زائل ہوگئی تھیں اور وہ باہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے تھے لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد ان میں وہ عداوتیں پھر عود کر آئیں، لہٰذا آیت کا مضمون سچا ہے اور مذہب شیعہ کی تعلیم اس کے خلاف نہیں۔ تو جواب اس کا یہ ہے کہ: اول تو یہ بات مسلمات مذہب شیعہ کے خلاف ہے کیونکہ شیعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اول روز سے مؤمن نہیں مانتے، کہتے ہیں کہ منافقانہ ایمان لائے تھے، دوسرے یہ کہ جو نعمت اس قدر قلیل مدت کے لیے ان کو ملی تھی اور پھر ان سے لے لی گئی اس کا احسان رکھنا خداوند عالم الغیب کی شان سے بعید اور بہت بعید ہے۔
غیر مشترک مضمون یہ ہے کہ: پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اسے اصحاب نبیﷺ تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے خدا نے تم کو اس سے نجات دی اور دوسری آیت میں فرمایا کہ اے نبیﷺ کی آپ کی مدد کے لیے وہ مؤمنین کافی ہیں جو آپ کے پیرو ہو چکے ہیں،
ان دونوں مضمونوں کی تصدیق مذہب شیعہ کی تعلیم پر نا ممکن ہے، اس لیے کہ تینوں خلیفہ کے مؤمن اور خلیفہ برحق نہ ہونے سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو باستثنا چار پانچ اشخاص کے منافق و مرتد ماننا پڑتا ہے، لہٰذا وہ دوزخ سے نجات یافتہ نہیں ہو سکتے یا بعبارت دیگر خدا جس کے نجات یافتہ ہونے کی خبر دے وہ منافق و مرتد نہیں ہو سکتا،
نیز جب کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین مرتد قرار دیے گئے، منافق مانے گئے تو چار پانچ اشخاص حضورﷺ کی مدد کے لیے کسی طرح کافی نہیں ہو سکتے اور حضرت علیؓ اگر مدد کے لیے تنہا کافی ہوتے تو آپﷺ کے بعد بے یار و مددگار ہونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کیوں کر لیتے؟ مذہب شیعہ کا عجب حال ہے کبھی تو وہ سیدنا علیؓ کو اتنا بڑا شجاع اور اتنا بڑا طاقتور ظاہر کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے مقابلہ میں وہی اکیلے کافی تھے اور کبھی وہ ان کو ایسا کمزور اور مغلوب اور بزدل بناتا ہے کہ وہ کچھ کر ہی نہ سکتے تھے، ان کی خلافت چھین لی گئی، ان کی بیٹی غصب کر لی گئی سارا دین تباہ کر دیا گیا مگر وہ بول بھی نہ سکے۔
تیسری آیت:
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِيۡكُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰهِ لَوۡ يُطِيۡعُكُمۡ فِىۡ كَثِيۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيۡكُمُ الۡاِيۡمَانَ وَزَيَّنَهٗ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ وَكَرَّهَ اِلَيۡكُمُ الۡكُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡيَانَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَنِعۡمَةً وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ
( سورۃ الحجرات: آیت 7،8)
ترجمہ: اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں، بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے، ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے، جو اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کا نتیجہ ہے، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک ہے۔
فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَلۡزَمَهُمۡ كَلِمَةَ التَّقۡوٰى وَ كَانُوۡۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهۡلَهَاؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ( سورۃ الفتح: آیت 26)
ترجمہ: پھر اللہ نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں پر سکینت نازل فرمائی، اور ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا، اور وہ اسی کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
فائدہ: ان دونوں آیتوں میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے لیے اور دوسری آیت میں خصوصیت کے ساتھ اہلِ حدیبیہ کے لیے چند ایسی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں جن کی نظیر کسی اور کے لیے مل نہیں سکتی، ان فضائل کو مذہب شیعہ کے لیے سمِ قاتل کہا جائے تو بجا ہے:
1: اُن کو ایمان سے قلبی محبت ہے۔
2: ایمان ان کے دلوں میں بس گیا ہے۔
3: کفر و فسق اور ہر قسم کے گناہ سے ان کو دلی نفرت ہے۔
4: وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
5: اُن پر سکینہ نازل ہوا۔
6: صفتِ تقویٰ اُن کے لیے لازم ہے یعنی اُن سے جدا نہیں ہو سکتی۔
7: وہ لوگ اس عظیم الشان انعام کے مستحق اور سزاوار تھے۔
قرآن شریف میں جن کے ایسے عظیم الشان اوصاف بیان کئے گئے ہوں، بھلا کوئی ایمان دار اس بات کو مان سکتا ہے کہ ان سے کوئی حرکت ایمان اور تقویٰ کے خلاف صادر ہو، اگر کوئی شخص نا انصافی پر کمر باندھ کر یہ کہے کہ ان تمام اوصاف کے مصداق صرف ایک حضرت علیؓ تھے تو جواب اُس کا یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شیعہ معصوم مانتے ہیں اور ان آیتوں میں یہ صفات ان لوگوں کی بیان ہوئی ہیں جن کا غیر معصوم ہونا بھی انہی آیتوں سے ظاہر ہے، پہلی آیت میں فرمایا کہ رسولﷺ اکثر باتوں میں تمہارا کہنا مان لیں تو تم تکلیف میں پڑ جاؤ، اگر وہ معصوم ہوتے تو اُن کا کہنا مان لینے سے کبھی کوئی خرابی نہ پیش آتی، ان آیتوں کے ہوتے ہوئے اگر لاکھوں روایتیں کیسی ہی صحیح السند صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے خلاف ایمان و خلاف تقویٰ کسی حرکت کا صادر ہونا بیان کریں تو ایماندار کا فرض ہے کہ ان روایتوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے، قرآن مجید کے خلاف کوئی روایت اور کوئی چیز مقبول نہیں ہو سکتی۔
چوتھی آیت:
اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ اٰتَيۡنٰهُمُ الۡـكِتٰبَ وَالۡحُكۡمَ وَالنُّبُوَّةَ فَاِنۡ يَّكۡفُرۡ بِهَا هٰٓؤُلَۤاءِ فَقَدۡ وَكَّلۡنَا بِهَا قَوۡمًا لَّيۡسُوۡا بِهَا بِكٰفِرِيۡنَ (سورۃ الانعام: آیت 89)
ترجمہ: وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب، حکمت اور نبوت عطا کی تھی، اب اگر یہ (عرب کے) لوگ اس (نبوت) کا انکار کریں تو (کچھ پرواہ نہ کرو، کیونکہ) اس کے ماننے کے لیے ہم نے ایسے لوگ مقرر کر دیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں۔
فائدہ: اس آیت میں ایک قوم کی خدا نے تعریف کی ہے اور اپنا مقرر کیا ہوا ان کو فرمایا ہے اور فرمایا کہ وہ قوم انبیاء کی نبوت کا کفر کرنے والی نہیں ہے، اب رہی یہ بات کہ مراد اس قوم سے کون لوگ ہیں یہ بالکل ظاہر ہے اس لیے کہ یہ سورۃ الانعام مکی ہے، قبل ہجرت نازل ہوئی ہے، معلوم ہوا کہ لفظ قوم سے مراد مہاجرین کی جماعت ہے جو قبل ہجرت ایمان لا چکے تھے اور ہو سکتا ہے کہ انصار بھی مراد لیے جائیں کیونکہ وہ بھی ہجرت سے پہلے ہی مشرف باسلام ہو چکے تھے، حق تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کو اپنا مقرر کیا ہوا اس لیے فرمایا کہ اس سعادت عظمیٰ کی توفیق ان کو خدا ہی کی طرف سے ملی تھی۔
پانچویں آیت:
اِنَّ رَبَّكَ يَعۡلَمُ اَنَّكَ تَقُوۡمُ اَدۡنىٰ مِنۡ ثُلُثَىِ الَّيۡلِ وَ نِصۡفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ الَّذِيۡنَ مَعَكَ(سورۃ المزمل: آیت 20)
ترجمہ: (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب، اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لیے) کھڑے ہوتے ہو، اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)
فائدہ: حق تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرتﷺ کی کثرت عبادت کا ذکر فرمایا ہے اور آپﷺ کے ساتھ والوں میں دو چار نہیں بلکہ ایک مکمل گروہ کو اس صفت میں شامل کیا ہے سورۃ المزمل مکی ہے لہٰذا معلوم ہوا اس میں اصحابِ مہاجرین کی تعریف بیان ہو رہی ہے حالانکہ از روئے مذہب شیعہ مہاجرین میں سوائے حضرت علیؓ کے کوئی لائق نہ تھا، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زہد اور کثرتِ عبادت کی صفت حضرت ابوبکر صدیقؓ میں زیادہ تھی خدا کی قدرت ہے کہ کتب شیعہ میں بھی یہ اقرار موجود ہے، فروع کافی:جلد2، صفحہ،4 میں ایک طولانی حدیث اس مضمون کی ہے کہ کچھ صوفی لوگ سیدنا جعفر صادقؒ کے پاس آئے امام ممدوح نے ان کو کچھ نصیحتیں کیں، اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ،حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور فرمایا "من از هد من هٰولاء وقد قال فيهم رسول الله ما قال"
ترجمہ: یعنی ان لوگوں سے بڑھ کر زاہد کون ہو سکتا ہو ہے اور بہ تحقیق رسول اللہﷺ نے ان کےحق میں فرمایاہے، جو کچھ فرمایا ہے۔
حق تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کی کثرت عبادت کا ذکر متعدد آیات میں فرمایا ہے: آیت معیت میں تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا فرمایا آیت میراث ارض میں قوم عابدین فرمایا آیت کے استخلاف میں یَعْبُدُوْنَنِیْ فرمایا آیتِ تمکین میں وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ فرمایا وغیرہ۔
چھٹی آیت:
كَلَّاۤ اِنَّهَا تَذۡكِرَةٌ فَمَنۡ شَآءَ ذَكَرَهٗۘ فِىۡ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ مَّرۡفُوۡعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِاَيۡدِىۡ سَفَرَةٍ كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ
( سورۃ عبس: آیت 11تا16)
ترجمہ: بہ تحقیق یہ ایک نصیحت ہے جو چاہے اس کو یاد کرے ان با عزت صحیفوں میں جو بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں اور بزرگ نیکو کار لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔
فائدہ: اس آیت میں رسولﷺ کے صحابہ کرامؓ کی تعریف ہے، ان کو بزرگ اور نیکو کار فرمایا گیا ہے، یہ ان صحابہ کرامؓ کی بابت ہے جو قرآن مجید کی کتابت کرتے تھے جیسے حضرت عثمانؓ، حضرت زید بن ثابتؓ، اس آیت کی تفسیر میں سَفَرَةٍ كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ سے فرشتوں کو مراد لینا سیاقِ قرآن کے مطابق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نصیحت ان پاکیزہ ورقوں میں ملے گی جو بزرگ نیکوکار لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، فرشتوں کے ہاتھ میں جو چیز ہے وہ انسانوں کی نظر سے غائب ہے، اس سے نصیحت کیوں کر حاصل کی جا سکتی ہے۔
ساتویں آیت:
وَرَاَيۡتَ النَّاسَ يَدۡخُلُوۡنَ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اَفۡوَاجًا ( سورۃ النصر: آیت 2)
ترجمہ: اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں۔
فائدہ: اس سورۃ میں حق تعالیٰ نے اپنے دو انعام ذکر فرمائے ہیں، اول: فتح مکہ، دوم: لوگوں کا بکثرت دینِ الٰہی میں داخل ہونا، پھر ان انعامات پر آنحضرتﷺ کو شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے، ظاہر ہے کہ مذہب شیعہ کی بنا پر کسی طرح یہ آیت صادق نہیں ہو سکتی کیونکہ آیت بتا رہی ہے کہ فوجوں کی فوجیں دینِ الٰہی میں داخل ہوئیں اور مذہب شیعہ یہ تعلیم دیتا ہے کہ صرف معدودے چند صدق دل سے مسلمان ہوئے تھے باقی سب منافقانہ طور اسلام کا اظہار کرتے تھے اور بعد آنحضرتﷺ کے مرتد ہو گئے تھے (معاذ اللہ منہ ) بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ معدودے چند لوگوں کو افواج کی لفظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا منافقانہ طور پر اظہار اسلام کرنے کو دین الٰہی میں داخل ہونا کہا جاسکتا ہے اور پھر یہ منافقانہ اسلام اور وہ بھی چند روز کے لیے انعام الٰہی میں شمار ہو سکتا ہے، حاشاثم حاشا
آٹھویں آیت:
قرآن مجید میں کہیں کہیں صحابہ کرامؓ پر تعلیمی طرز میں کچھ عتاب کیا گیا ہے ہوتا رہا ہے بالکل اسی رنگ میں جیسا کہ انبیاء سابقین علیہم السلام کے متعلق بھی ہے مگر ان عتاب کی آیتوں میں بھی صحابہ کرامؓ کی فضیلت ایسی ہے کہ مذہب شیعہ کے قلع قمع کرنے کے لیے کافی ہے، چنانچہ دو ایک آیتیں اس قسم کی بھی ملاحظہ ہوں:
وَاِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَهۡلِكَ تُبَوِّئُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مَقَاعِدَ لِلۡقِتَالِ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ،اِذۡ هَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡكُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا وَاللّٰهُ وَلِيُّهُمَا وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ( سورۃ آل عمران: آیت 121،122)
ترجمہ: (اے پیغبر! جنگ احد کا وہ وقت یاد کرو) جب تم صبح کے وقت اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو جنگ کے ٹھکانوں پر جما رہے تھے، اور اللہ سب کچھ سننے جاننے والا ہے،جب تم ہی کے دو گروہوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ ہمت ہار بیٹھیں، حالانکہ اللہ ان کا حامی و ناصر تھا، اور مؤمنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
فائدہ: اس آیت میں احد کی لڑائی کا بیان ہے، ارشاد فرمایا کہ تم میں سے دو گروہوں نے ہمت ہاری تھی اور اللہ ان دونوں کا ولی تھا، معلوم ہوا کہ رسولﷺ کے زمانے میں مؤمنین کی بہت بڑی جماعت تھی اور اس جماعت کے دو گروہوں نے ہمت ہار دی تھی، ان ہمت ہارنے والوں کا بھی اللہ ولی تھا، ہمت نہ ہارنے والوں کا بدرجہ اولیٰ اور یہ بات قرآن مجید کی دوسری آیات سے ثابت ہے کہ اللہ ایمان والوں کا ہی ولی ہوتا ہے، اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا، اب خیال کرو مذہبِ شیعہ کی تعلیم کہ اس زمانہ میں صرف چار پانچ مؤمن تھے اس آیت سے غلط ہو گئی یا نہیں، اور مذہب شیعہ کا قلع قمع ہو گیا یا نہیں؟
نویں آیت:
كَمَاۤ اَخۡرَجَكَ رَبُّكَ مِنۡۢ بَيۡتِكَ بِالۡحَـقِّ وَاِنَّ فَرِيۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ لَـكٰرِهُوۡنَ ( سورۃ الانفال: آیت 5)
ترجمہ: (مال غنیمت کی تقسیم کا) یہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے تمہارے رب نے تمہیں اپنے گھر سے حق کی خاطر نکالا، جبکہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی۔
فائدہ: اس آیت میں غزوہ بدر کا بیان ہے کہ ایمان والوں میں ایک گروہ اس سفر کو نا پسند کرتا تھا، معلوم ہوا کہ اس وقت بھی ایمان والوں کی بڑی تعداد تھی جن میں سے کچھ لوگ اس سفر کے خلاف تھے، حالانکہ مذہب شیعہ کی رو سے اس وقت چار پانچ مؤمن بھی نہ تھے، کیونکہ سلمان فارسی بھی اس وقت تک مشرف با اسلام نہ ہوئے تھے، شیعوں نے اپنی کتابوں میں یہ بھی لکھ دیا کہ جن لوگوں کو اس آیت میں سفر کا مخالف ظاہر کیا گیا ہے وہ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ تھے۔
(حیات القلوب: جلد 2،صفحہ229) میں ہے"کہ موافق روایات سابق معلوم است که ایں کنایات با ابوبکر و عمر است که کاره بودند جہاد را" مگر اتنا نہ سمجھے کہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو کارہین میں داخل کرنے سے ان کا مؤمن ہونا بھی ثابت ہو جائے گا، کیونکہ خدا نے کارہین کو فَرِيۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فرمایا ہے۔
دسویں آیت:
وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا فَلَمَّا نَـبَّاَتۡ بِهٖ وَاَظۡهَرَهُ اللّٰهُ عَلَيۡهِ عَرَّفَ بَعۡضَهٗ وَاَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ فَلَمَّا نَـبَّاَهَا بِهٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَكَ هٰذَا قَالَ نَـبَّاَنِىَ الۡعَلِيۡمُ الۡخَبِیْرُ اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُكُمَا
(سورۃ التحریم: آیت 3،4)
ترجمہ: اور یاد کرو جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے راز کے طور پر ایک بات کہی تھی، پھر جب اس بیوی نے وہ بات کسی اور کو بتلا دی، اور اللہ نے یہ بات نبی پر ظاہر کردی تو اس نے اس کا کچھ حصہ جتلا دیا اور کچھ حصے کو ٹال گئے، پھر جب انہوں نے اس بیوی کو وہ بات جتلائی تو وہ کہنے لگیں کہ آپ کو یہ بات کس نے بتائی؟ نبی نے کہا کہ مجھے اس نے بتائی جو بڑے علم والا، بہت باخبر ہے، (اے نبی کی بیویو) اگر تم اللہ کے حضور توبہ کر لو (تو یہی مناسب ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل مائل ہوگئے ہیں۔
فائدہ: ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کا تذکرہ روایات میں ہے، 9ھ کا واقعہ ہے کہ رسولﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے کوئی راز بیان فرمایا اور انہوں نے وہ راز سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہہ دیا اور بذریعہ وحی آنحضرتﷺ کو افشائے راز کی خبر دی گئی اور آپﷺ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے اس کی باز پرس کی، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، وہ راز کی بات کیا تھی اس کے متعلق روایات مختلف ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ مغافیر ایک قسم کا شہد ہوتا ہے رسول اللہﷺ اس کا استعمال فرمایا کرتے تھے اور آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ کو پسند نہ تھا، سیدہ حفصہؓ سے آپ نے فرمایا کہ اب میں اس شہد کا کبھی استعمال نہ کروں گا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سیدہ حفصہؓ کے مکان میں آنحضرتﷺ نے سیدہ ماریہ قبطیہؓ سے خلوت فرمائی یہ امر سیدہ حفصہؓ کو ناگوار گزرا تو آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ اچھا اب میں ماریہ کو اپنے اوپر حرام کیے لیتا ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے یہ بیان کیا تھا کہ میرے بعد ابوبکر خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد عمر بن خطاب، ان تینوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ تینوں باتیں ایک ساتھ پیش آئی ہوں، یہ روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے خلافت کی سنی و شیعہ دونوں کی کتابوں میں متعدد سندوں سے منقول ہے، چنانچہ کتب اہلِ سنت کے چند حوالے حسب ذیل ہیں،ازالۃ الخفا مقصد اول صفحہ 30 میں ہے:
عن ابن عباس قال والله ان امارة ابي بكر وعمر لفى كتاب اللہ قال اللہ تعالىٰ واذ اسر النبي الىٰ بعض ازواجه حديثا قال لحفصة ابوك وابو عائشة اولياء الناس بعدی فاياك ان تخبری به احدا اخرجه الواحدى وله طرق ذكر بعضها في الرياض النظرة
ترجمہ: ابنِ عباسؓ سے روایت ہے وہ کہتے تھے کہ خدا کی قسم ابوبکرؓ و عمرؓ کی خلافت کا ذکر اللہ کی کتاب میں ہے، دیکھو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَاِذ٘ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا فَلَمَّا وہ بات یہ تھی کہ آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے یہ فرمایا کہ تمہارے والد اور عائشہ کے والد میرے بعد خلیفہ ہوں گے، خبر دار! اس کو کسی سے بیان نہ کرنا، اس حدیث کی تخریج واحدی نے کی ہے، اس کی سندیں متعدد ہیں جن میں بعض ریاض النظرۃ میں مذکور ہیں۔
پھر اسی کتاب کے صفحہ،249 میں ہے:
عن عائشة في قوله واذ اسر النبي الى بعض ازواجه حديثا قال اسر اليها ان ابابكر خليفتي من بعدى وعن على وابن عباس قالا والله ان امارة ابي بكر وعمر لفى الكتاب واذاسر النبى الى بعض ازواجه حديثا قال الحفصة ابوك وابو عائشة واليا الناس بعدى فاياك ان تخبری به احدا و عن ميمون بن مهران في قوله واذاسر النبى الى بعض ازواجه حديثا قال اسراليها ان ابابكر خليفتي من بعدى وعن حبيب بن ابی ثابت واذ اسر النبي الى بعض ازواجه حديثا، قال اخبر عائشة ان اباها الخليفة من بعد ابيها و عن الضحاك في قوله واذ اسر النبى الى بعض ازواجه حديثا قال اسر الى حفصة بنت عمر ان الخليفة من بعده ابوبكر ومن بعد ابي بكر عمر وعن مجاهد في قوله عرف بعضه واعرض عن بعض قال الذى عرف امر مارية واعرض عن قوله ان اباك واباهايليان الناس من بعدى مخافة ان يفشو
سیدہ عائشہؓ سے وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا کی تفسیر میں منقول ہے کہ وہ راز یہ تھا کہ رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ ابوبکر میرے بعد میرے خلیفہ ہوں گے، اور علی اور ابنِ عباس سے روایت ہے کہ وہ دونوں کہتے تھے اللہ کی قسم ابوبکرؓ و عمرؓ کی خلافت قرآن میں مذکور ہے وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا رسولﷺ نے سیدہ حفصہؓ سے فرمایا کہ تمہارے والد اور سیدہ عائشہؓ کے والد میرے بعد لوگوں کے والی ہوں گے، خبردار اس کو کسی سے بیان نہ کرنا۔
اور میمون بن مہران سے وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا کی تفسیر میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہوں گے، اور حبیب بن ابی ثابت سے وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا کی تفسیر میں منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سیدہ عائشہ کو خبر دی تھی کہ تمہارے والد میرے بعد خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد حفصہ کے والد اور ضحاک سے وَاِذۡ اَسَرَّ النَّبِىُّ اِلٰى بَعۡضِ اَزۡوَاجِهٖ حَدِيۡثًا کی تفسیر میں منقول ہے کہ آنحضرتﷺ نے حضرت حفصہ بنت عمرؓ سے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے اور بعد ابوبکر کے عمر، اور مجاہد سے عرف بعضه و اعرض عن بعض کی تفسیر میں منقول ہے کہ جس بات پر آپﷺ نے باز پرس کی وہ ماریہ قبطیہؓ کا معاملہ تھا اور جس بات سے آپﷺ نے چشم پوشی کی وہ یہ تھی کہ اے حفصہ تمہارے والد اور عائشہ کے والد میرے بعد لوگوں کے والی ہوں گے یہ چشم پوشی اس لیے کی کہ بات زیادہ مشہور نہ ہو۔
اور کتب شیعہ میں اُن کی سب سے زیادہ معتبر تفسیر قمی مطبوعہ ایران: صفحہ354 میں ہے کہ رسولﷺ نے حفصہ سے کہا:
ان ابابکر يلى الخلافة بعدى ثم من بعده ابوك فقالت من اخبرک بھٰذا قال اللہ اخبرنی
ترجمہ: بہ تحقیق ابوبکر والی خلافت ہوں گے میرے بعد، پھر ان کے بعد تمہارے والد، سیدہ حفصہ نے پوچھا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ خبر دی ہے۔
( حاشیہ: مقبول احمد نے اپنے ترجمہ قرآن صفحہ، 894 میں اس روایت کو نقل کیا ہے مگر ترجمہ میں بڑی خیانت کی ہے لکھتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا میرے بعد ابوبکر خلیفہ بن بیٹھے گا لفظ یلی کا ترجمہ بن بیٹھے گا کتنی بڑی جرأت ہے، اللہ اکبر)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرات شیخینؓ کی خلافت کی خبر رسولﷺ پہلے ہی سے دے گئے تھے، اور یہ خبر آپ نے اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے سنائی تھی اور یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی نا جائز چیز کی خبر سنا کر آپ اپنی بیوی کو خوش کریں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مشیت الٰہی کا حال معلوم ہو چکا اور خدا آپﷺ کو خبر دے چکا کہ آپﷺ کے بعد شیخینؓ خلیفہ ہوں گے تو یہ ممکن نہیں کہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کی خلافت کے متعلق کوئی ارشاد فرمایا ہو، جس قدر روایتیں کتب شیعہ میں اس کے متعلق ہیں ان سب کا جعلی ہونا اس سے ظاہر ہے۔
فائدہ: ان آیتوں میں حق تعالیٰ نے ازواجِ مطہراتؓ کو نصیحت فرمائی ہے اور تعلیمی طرز میں ان پر عتاب کیا ہے اور توبہ کا حکم دیا ہے، شیعہ اس پر بہت خوش ہوتے ہیں اور سیدہ حفصہؓ اور سیدہ عائشہؓ کی برائی ثابت کرنے کے لیے اسی آیت کو پیش کر دیا کرتے ہیں، اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اس قسم کی تعلیمی باتوں سے طعن قائم ہو سکے تو پھر اسی قرآن مجید سے نبیوں کی مذمت بھی ثابت ہو سکے گی، خصوصاً سید الانبیاءﷺ کی جن کے متعلق اس سورۃ میں فرمایا کہ:لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَۚ-تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ( سورۃ التحریم: آیت 1)
ترجمہ: یعنی اے نبیﷺ آپ حلال چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں، آپ اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہیں، اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ: وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ( سورۃ الاحزاب: آیت 37)
ترجمہ: اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے، حالانکہ اللہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
دوسری بات یہ ہے کہ شیعہ جس لفظ پر زیادہ کودتے ہیں یعنی فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا خدا کی قدرت یہ ہے کہ اس لفظ سے ازواجِ مطہراتؓ کی منقبت بھی ثابت ہوتی ہے، اس لفظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس افشائے راز کی وجہ سے ان کے دل مائل ہو گئے، اس سے پہلے مائل نہ تھے، حالانکہ حسب عقائد شیعہ وہ پہلے ہی سے منافق تھے اور ان کے دل پہلے ہی سے بوجہ نفاق کے مائل تھے، معاذ اللہ من ذالک اس لفظ سے ان کے نفاق کی نفی ایسی واضح ہے کہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا، رہا دل کا مائل ہو جانا وہ کوئی ایسی بڑی چیز نہیں ہے، خود رسولﷺ کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ: وَلَوۡلَاۤ اَنۡ ثَبَّتۡنٰكَ لَقَدۡ كِدْتَّ تَرۡكَنُ اِلَيۡهِمۡ شَيۡـئًـا قَلِيۡلًا (سورۃ الاسراء: آیت 74)
ترجمہ: اور اگر ہم نے تمہیں ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تم بھی ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔
ازواجِ مطہراتؓ کو ان آیتوں میں توبہ کا حکم دیا گیا، یوں تو ہر توبہ کے قبول فرمانے کا وعدہ ہے مگر جس کو خصوصیت کے ساتھ توبہ کا حکم دیا جائے اس کی توبہ کے قبول ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا، لہٰذا تائبین کے جو فضائل قرآن مجید میں ہیں ان کے لیے ثابت ہو گئے، اب رہی یہ بات کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ انہوں نے توبہ کی یا نہیں؟ اس کا ثبوت بھی قرآن مجید ہی سے ہوتا ہے، کیونکہ اس کے بعد ازواجِ مطہراتؓ کی سخت آزمائش کی گئی ایک طرف ان کو غیر محدود متاع دنیا کا وعدہ دیا گیا اور دوسری طرف رسولِﷺ کی زوجیت رکھی گئی ہے، جب اس امتحان میں وہ کامل اُتریں اور اس غیر محدود متاع کو اُنہوں نے ٹھکرا کر رسول اللہﷺ کی زوجیت کو اختیار کیا تو پھر ان کی شان میں آیتِ تطہیر نازل ہوئی، ان کو تمام ایمان والوں کی ماں کا خطاب دیا گیا اور ان کو تمام جہان کی عورتوں سے افضل فرمایا گیا اور رسولﷺ کی دائمی زوجیت کی خبر ان کو دی گئی، اس طرح کہ رسول اللہﷺ کو انکے طلاق دینے سے ممنوع کر دیا گیا، یہ سب مضامین آیت قرآنی میں مذکور ہیں ( دیکھیے تفسیر آیت تطہیر ) اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر انہوں نے توبہ نہ کر لی ہوتی تو یہ فضائل ان کے ہر گز نہ بیان فرمائے جاتے۔
چشم بداندیش کہ بر کنده باد
عیب نماید ہنرش در نظر
ایک لطیفہ:
قرآن مجید میں علاوہ تصریحات کے لطیف اشارات میں بھی صحبت نبویﷺ کے اثرات کو بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ایک لطیفہ ان لطائف میں سے ہدیہ ناظرین ہے، سورۃ نمل میں بذیل قصہ حضرت سلیمان علیہ السلام ارشاد ہوا ہے:
قَالَتۡ نَمۡلَةٌ يّٰۤاَيُّهَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰكِنَكُمۡ لَايَحۡطِمَنَّكُمۡ سُلَيۡمٰنُ وَجُنُوۡدُهٗ وَهُمۡ لَايَشۡعُرُوۡنَ( سورۃ النمل: آیت 18)
یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کی فوج چیونٹیوں کے جنگل میں داخل ہوئی تو ایک چیونٹی دوسری سے کہنے لگی کہ دیکھو تم سب اپنے اپنے سوراخوں میں داخل ہو جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور ان کی فوج کے لوگ نادانستگی میں تم کو کچل ڈالیں۔
امام فخر الدین رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں حق تعالیٰ نے نبی کی صحبت کا اثر بتایا ہے کہ چیونٹی بھی یہ جانتی تھی کہ سلیمان کے لشکر کے لوگ دیدہ و دانستہ ایک چیونٹی کو بھی نہ کچلیں گے، ہاں نادانستگی میں چیونٹی ان کے پاؤں کے نیچے کچل جائے تو ہوسکتا ہے، لشکری اور فوجی لوگ عموماً بے رحم اور سفاک ہوتے ہیں مگر حضرت سلیمان علیہ السلام کی صحبت نے ان میں بھی یہ بات پیدا کر دی ہے کہ اگر چیونٹی بھی ان کے پاؤں کے نیچے کچل جائے تو لَا يَشۡعُرُوۡنَ کی حالت میں، دیدہ و دانستہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔
امام ممدوح فرماتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرامؓ کو ظالم کہتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نبی کی بیٹی پر ظلم کیا اور ظلم بھی ایسا کہ جس کی نظیر دنیا میں کم ہو گی یعنی ان کو مارا پیٹا حمل گرا دیا وغیرہ وغیرہ، در حقیقت وہ ایک چیونٹی سے بھی عقل میں کمتر ہیں، مورچہ سلیمان بھی اصحابِ نبی کا اس قدر ادب کرتی ہے کہ ایک چیونٹی کے کچل جانے کو بھی ان کے طرف منسوب کرتی ہے تو لَا يَشۡعُرُوۡنَ کی قید لگاتی ہے اور یہ لوگ اس قسم کے سنگین مظالم کو صحابہ کرامؓ کی طرف منسوب کرتے ہوئے ذرا باک نہیں کرتے، وَسَيَـعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّـنۡقَلِبُوۡنَ (سورۃ الشعراء: آیت 227)
ترجمہ: اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب پتہ چل جائے گا کہ وہ کس انجام کی طرف پلٹ رہے ہیں۔
رسولﷺ کے صحابہ کرامؓ حتیٰ کہ آپ کی ازواجِ مطہراتؓ کی اس قدر عیب جوئی و بدگوئی صاف بتا رہی ہے کہ مذہب شیعہ کو جو کچھ عداوت ہے وہ رسولﷺ سے ہے ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ اپنے خانہ ساز ائمہ اور ان کے گھر والوں کے ساتھ وہ برتاؤ نہیں کرتے، اصحاب ائمہ میں باہم لڑائیاں بھی ہوئی ہیں، ایک نے دوسرے سے ترکِ کلام بھی کر دیا ہے، مگر دونوں فریق کو شیعہ مانتے ہیں، دونوں کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں، اصحابِ رسولﷺ پر تو معائب کا افتراء کرتے ہیں اور اصحابِ ائمہ کے واقعی معائب پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، اصحابِ رسولﷺ و ازواجِ مطہراتؓ کے جو جو فضائل قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں ان کی کوئی تاویل شیعوں سے نہیں ہو سکتی اسی لیے انہوں نے قرآن مجید کو محرف کہا، معما قرار دیا اور خدا کے لیے بدا تجویز کیا، یہ سب کچھ ہوا مگر کوئی بات ان کی عقل سلیم کے نزدیک قابل قبول نہ ہوئی۔