سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر منتج ہونے والی فیصلہ کن جنگ
ابو شاہینمحرم 61 ہجری جمعہ کی صبح حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو منظم کیا اور جنگ کے لیے کمربستہ ہو گئے، اس وقت ان کے ساتھ بتیس سوار اور چالیس پیادے تھے۔ آپ نے میمنہ پر زہیر بن قیسؒ کو اور میسرہ پر حبیب بن مظاہرؒ کو مقرر کیا اور اپنا علم اپنے بھائی سیدنا عباس بن علی رضی اللہ عنہ کو دیا اور خیموں کو پشت پر رکھا، آپ نے حکم دیا کہ خیموں کے نیچے لکڑیاں اور بانس جمع کر کے ان میں آگ لگا دی جائے۔ خوف یہ تھا کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور ہو سکتا ہے۔ (تاریخ الطبری: جلد 6 صفحہ، 349) دوسری طرف حضرت عمر بن سعد رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے لشکر کو منظم کیا، اس نے حر بن یزید کی جگہ جو حضرت حسینؓ کے ساتھ جا ملے تھے، میمنہ پر عمرو بن حجاج زبیدی کو مقرر کیا اور میسرہ پر شمر بن ذی الجوشن کو۔ رسالہ غررہ بن قیس کو دیا اور پیادہ فوج کو شبث بن ربعی کے حوالے کیا اور پرچم اپنے آزاد کردہ غلام زوید کو دیا۔ (ایضا: جلد، 6 صفحہ، 350) پھر فوراً ہی جنگ شروع ہو گئی۔ آغاز میں جنگ مبارزت کی صورت میں لڑی گئی۔ جنگ کے آغاز میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس میں شامل نہ ہوئے، اس دوران میں آپ کے ساتھی آپ کا دفاع کرتے رہے۔ جب وہ شہید ہو گئے تو دشمن کے لشکر سے کسی کو بھی آپ کو شہید کرنے کی جرأ ت نہیں ہو رہی تھی۔ حضرت عمر بن سعدؓ کے لشکر کا ہر فرد آپ کو شہید کرنے سے ڈرتا تھا، مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کسی نرمی کا مظاہر نہ کیا۔ آپ ان کے ساتھ بڑی دلیری کے ساتھ لڑتے رہے۔
ایسے میں شمر بن ذی الجوشن کو یہ خوف لاحق ہوا کہ حالات اس کےقابو سے باہر ہو جائیں گے۔ اب اس نے چلاتے ہوئے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑے۔ پہلے زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ پر تلوار سے وار کیا پھر سنان بن انس نخعی نے آپ کو برچھا مارا اور سر کاٹ دیا۔ (تاریخ الطبری، نقلا عن مواقف المعارضۃ: صفحہ، 276) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو عمرو بن بطار ثفصبی اور زید بن رقادہ حسینی نے قتل کیا تھا۔ (ایضاً: صفحہ، 276)
اس بارے میں شمر بن ذی الجوشن کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو خولی بن یزید نے ابن زیاد کے پاس پہنچایا۔ (تاریخ طبری: جلد، 6 صفحہ، 385) سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ محرم 61 ہجری کو پیش آیا، (ایضاً)
آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے 72 لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ حضرت عمر بن سعدؓ کے لشکر کے 88 لوگ مارے گئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد عمر بن سعدؓ نے حکم دیا کہ کوئی بھی شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عورتوں اور بچوں کے پاس نہ جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کا مظاہرہ نہ کرے۔ (الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 385 تاریخ طبری: جلد، 6 صفحہ، 385) پھر عمر ابن سعدؓ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اور ان کی خواتین اور بچوں کو ابن زیاد کے پاس بھجوا دیا۔
(الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 385 مواقف المعارضۃ: صفحہ، 277)
معرکہ کربلا میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، جعفر، عباس، ابوبکر، محمد اور عثمان، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے علی الاکبر اور عبداللہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے عبداللہ، قاسم اور ابوبکر، عقیل رضی اللہ عنہ ابی طالب کی اولاد سے عبداللہ، عبدالرحمن، عبداللہ بن مسلمؓ، سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد سے عون اور محمد مقتول ہوئے۔ جبکہ مسلم بن عقیل کو کوفہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ (تاریخ خلیفۃ: صفحہ، 234) ان سب کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے ہے۔
مگر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اھلِ بیت میں سے جو لوگ اس موقعہ پر شہید ہوئے، ان میں ابوبکر بن علیؒ، عثمان بن علیؒ اور ابوبکر بن حسینؒ کے نام بھی آتے ہیں۔ مگر جب آپ شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے موضوع پر تالیف کردہ شیعہ کتب پڑھیں گے تو ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملے گا، تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کے نام ابوبکر و عمر اور عثمان کے ناموں پر رکھے تھے یا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکرؒ رکھا تھا۔ (حقبۃ من التاریخ: صفحہ، 135 اور 136)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے سامنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا، تو وہ آپ کے لبوں پر چھڑیمارتے ہوئے کہنے لگا، یہ بہت خوبصورت تھے؟ جب اس نے بار بار یہی حرکت کی تو میں نے کہا، اللہ کی قسم میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹ ان ہونٹوں پر رکھتے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔ (مسند ابو یعلیٰ: رقم، 3981) یہ سن کر وہ اس حرکت سے باز آ گیا۔ (مسند ابو یعلیٰ: رقم، 3981)
صحیح بخاری میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا، تو اس نے اسے ایک تھال میں رکھا اور اس پر چھڑیاں مارنے لگا اور ان کے حسن و جمال کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات کی۔ اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہا کہنے لگے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری مشابہت رکھتے تھے۔ اس وقت ان کے داڑھی اور سر کے بالوں پر وسمہ کا خضاب تھا۔
(بخاری: رقم، 3748)
جب اہل بیت کی خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پہنچے تو اس نے انہیں ایک الگ مکان فراہم کرنے کا حکم دیا۔ انہیں خوراک فراہم کی اور انہیں کپڑے اور دیگر اخراجات فراہم کرنے کا حکم دیا۔ (انساب الاشراف: جلد،3 صفحہ، 226 اس کی سند صحیح ہے)
بعض روایات میں بتایا گیا کہ ابن زیاد نے ہر اس بچے کو قتل کرنے کا حکم دیا جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہوں ، ان روایات میں بتایا گیا ہے کہ جب انہوں نے سیدنا علی بن حسین(زین العابدین) رضی اللہ عنہما کے جسم سے کپڑا اٹھایا، تو معلوم ہوا کہ ان کے زیر ناف بال اگ آئے ہیں،چتو اس نے انہیں قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر ان کی بہن حضرت زینبؓ آڑے آئیں جس سے ان کی زندگی بچ گئی۔ (ابو العرب: صتحہ، 157 تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 388) مگر یہ سب باتیں غلط اوربے اصل ہیں، یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی تھی یا انہیں شام بھیجتے وقت ان کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ ابن زیاد نے اہل بیت کی خواتین کو الگ رہائش فراہم کرنے اور انہیں خوراک، لباس اور دیگر اخراجات مہیا کرنے کا حکم دیا تھا۔
(الدولۃ الامویۃ المفتری علیہا: صفحہ، 322)
ان روایات کی تردید کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ کہنا کہ ابن زیاد نے اھل بیت کی خواتین کو قیدی بنا لیا، انہیں مختلف شہروں میں گھمایا اور انہیں اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا، تو یہ سب کچھ جھوٹ اور باطل ہے۔ بحمد اللہ مسلمانوں نے کبھی کسی ہاشمی خاتون کو قیدی نہیں بنایا اور نہ امت محمدیہ نے کبھی کسی ہاشمی خاتون کو حلال ہی سمجھا۔ جاہل اور نفسانی خواہشات کے پجاریوں کا شیوہ ہی بکثرت کذب بیانی سے کام لینا ہے۔‘‘(منہاج السنۃ: جلد، 2 صفحہ، 249)
راجح امر یہ ہے کہ جب ابن زیاد پر سے کامیابی کا نشہ اترا، تو اسے اپنی غلطی کا شدت کے ساتھ احساس ہوا بلکہ اس کے خاندان کے بعض افراد کو تو یہ احساس اس سے بھی کہیں زیادہ تھا۔ اس کی ماں اس سے کہا کرتی تھی، تیرے لیے ہلاکت ہو، تو نے یہ کیا کر ڈالا۔ (تاریخ الطبری، نقلا عن الدولۃ الامویۃ: صفحہ، 322) اس کا بھائی عثمان بن زیاد کہا کرتا تھا، میں چاہتا ہوں کہ زیاد کے بیٹوں میں سے ہر شخص کی ناک میں قیامت تک نکیل پڑی رہتی مگر حضرت حسینؓ کو قتل نہ کیا جاتا۔ ابن زیاد یہ بات سنتا مگر عثمان کی اس بات کی تردید نہ کرتا۔ (الکامل فی التاریخ: جلد، 2 صفحہ، 582)