Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ سے 185 سوالات

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

شيعہ حضرات كا عقيده ہے كہ حضرت علىؓ امام معصوم هيں مگر ہم ديكھتے ہيں كہ انہوں نے اپنى صاجزادى ام كلثومؓ كى شادى عمرؓ بن خطاب سے كى جو كہ حضرات حسنؓ و حسينؓ كى حقيقى بہن تھیں، یہ کیسا تضاد ہے؟؟ شيعہ حضرات اپنے اس اعتراف كى بنياد پر دو صورتوں ميں سے كسى ايک صورت كو قبول كرنے پر مجبور ہيں۔

 *سوال: 1* سيدنا علىؓ غير معصوم هيں كيونكہ انھوں نے اپنى بيٹى كى شادى كافر سے كى ہے۔ اور يہ چيز شيعہ مذهب كے عقائد اساسى كے منافى ہے۔ بلكہ اس سے يہ بھى پتہ چلا كہ كوئى امام بھى معصوم نهيں كيونكہ وه بھى تو انہیں كى اولاد ميں سے ہيں۔

 *سوال: 2* سيدنا علىؓ نے برضا ورغبت سيدنا عمرؓ كو اپنا داماد بنايا هے، لہٰذا يہ ان كے مسلمان ہونے كى واضح دليل ہے۔

 *سوال: 3* شیعہ حضرات ابوبکرؓ اور عمرؓ کو کافر گردانتے ہیں، ہمارے لیے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ علیؓ جو کہ شیعوں کے نزدیک امام معصوم ہیں، نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کی خلافت کو بسر وچشم قبول کرتے ہوئے یکے بعد دیگرے دونوں کی بیعت بھی کی ہے۔

اس سے یہ لازم آتا ہے کہ علیؓ غیر معصوم تھے کیونکہ انہوں نے ،بقول شیعہ، ظالم دھوکے باز اور کافروں کی بیعت کی اور ان دونوں کے منصب خلافت کا بذات خود اقرار بھی کیا؟۔ یہ چیز علیؓ کی عصمت کو نیست و نابود کرنے والی ہے اور ظالم کو ظلم کے لیے شہ دینے والی بھی ہے جب کہ ایسی حرکت کسی صورت میں بھی معصوم سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ علیؓ کا یہ مؤقف مبنی برصواب ہے کیونکہ ابوبکرؓ و عمرؓ دونوں مؤمن صادق ہیں، دونوں ہی رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ اور دونوں ہی عدل و انصاف کا پیکر ہیں مذکورہ جواب سے پتا چلا کہ شیعہ حضرات، ابوبکرؓ اور عمرؓ کی تکفیر اور ان پر لعن و طعن اور گالی گلوچ کرنے میں اور ان دونوں کی خلافت سے عدم رضامندی کے اظہار میں اپنے امام کے مخالف ہیں۔ یہاں ہم مذکورہ قضیہ میں حیرت و استعجاب کا شکار ہوجاتے ہیں کیا ہم ابوالحسن علیؓ بن ابی طالب کی راہ اختیار کریں یا ان گنہگار و بدکردار شیعوں کا طریقہ اپنائیں؟

 *سوال: 4* علیؓ نے فاطمہؓ کی وفات کے بعد کئی عورتوں سے شادی کی ہے اور ان سے کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی پیدا ہوئیں جن میں سے درج ذیل اسماء قابل ذکر ہیں:

1۔ عباس بن علیؓ بن ابی طالب

2- عبداللہ بن علیؓ بن ابی طالب

3۔ جعفر بن علیؓ بن ابی طالب

4- عثمان بن علیؓ بن ابی طالب

ان لوگوں کی والدہ کا نام اُم البنین بنت حزام بن دارم ہے۔

{ کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ لعلی الاربلی}

5- عبیداللہ بن علیؓ بن ابی طالب

6۔ ابوبکر بن علیؓ بن ابی طالب

ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود الدارمیۃ تھا۔

{نفس المصدر 66/2}

علیؓ کے بیٹوں کے ناموں میں سے یہ بھی ہیں:

7- یحیی بن علیؓ ابی طالب

8- محمد اصغر بن علیؓ بن ابی طالب

9- عون بن علیؓ بن ابی طالب

یہ تینوں اسماءؓ بنت عمیس کے صاحبزادے ہیں۔

{نفس المصدر۔}

آپؓ کی اولاد میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں:

10- رقیہ بنت علیؓ بن ابی طالب۔

11- عمر بن علیؓ بن ابی طالب، جو 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ان دونوں کی والدہ کا نام ام حبیبہ بنت ربیعہ تھا۔

{کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، لعلی الاربلی}۔

12- ام الحسن بنت علیؓ بن ابی طالب

13- رملۃ الکبری

ان دونوں کی والدہ کا نام ام مسعود بنت عروہ بن مسعودالثقفی تھا۔

{نفس المصدر}۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی باپ اپنے جگر گوشہ کا نام اپنے دشمن کے نام پر رکھ سکتا ہے؟ ہمیں تعجب ہے کہ ایسا باپ جو غیرت و حمیت کا پیکر تھا۔ اپنے بیٹوں کو کیونکر ان مذکورہ ناموں سے موسوم کرسکتا ہے؟ ہم شیعہ حضرات سے پوچھتے ہیں کہ علیؓ اپنے بیٹوں کو ان لوگوں کے ناموں سے کس طرح موسوم کرسکتے ہیں؟ جن کو تم علیؓ کا دشمن گردانتے ہو؟

کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ ایک عقل مند انسان اپنے احباء و اقرباء کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھ سکتا ہے تا کہ ان کا نام زندہ و جاوید رہے؟

یہ بات بھی معلوم ہے کہ علیؓ قریش خاندان کے سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے ہیں؟ اگر انہیں ان ناموں سے بغض ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں کو ان ناموں سے کیوں موسوم کرتے؟

نہج البلاغہ جو شیعوں کے نزدیک معتبر کتاب تسلیم کی جاتی ہے، کا مؤلف بیان کرتا ہے کہ علیؓ نے خلافت سے استعفٰی دے دیا اور استعفٰی دیتے وقت آپؓ نے یہ فرمایا کہ میری جان چھوڑ دو!اور میرے علاوہ کسی اور کو اس منصب کے لیے تلاش کرو۔

{ملاحظہ کریں

نہج البلاغہ صفحہ 136۔ 366.367. 322}۔

یہ فرمان مذہب شیعہ کے بطلان پر دلالت کرتا ہے جس کے شیعہ حضرات قائل ہیں، یہ بات کیسے ممکن ہے کہ علیؓ خلافت سے استعفیٰ دیکر دست بردار ہوں؟ جبکہ ان کو امام وقت کے منصب پر فائز کرنا اور خلیفۂ وقت کا عہدہ دینا۔ بقول شیعہ اللہ تعالٰی کی طرف سے فرض عین لازمی حکم ہے اور وہ حضرت ابوبکرؓ سے اس کا مطالبہ بھی کیا کرتے تھے جیسا کہ تمہارا (شیعہ) حضرات کا خیال ہے۔

*سوال: 5* شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جگر گوشۂ رسول ﷺ فاطمہ بتولؓ کی ابوبکرؓ کے دور خلافت میں بے عزتی اور بے حرمتی کی گئی حتی کہ زد و کوب کے دوران میں ان کی پسلی توڑ دی گئی ان کے گھر کو جلانے کی کوشش کی گئی اور ان کے جنین کو ساقط کر دیا گیا جس کا انہوں نے محسن نام بتایا ہے،

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علیؓ کی زوجۂ محترمہؓ کے ساتھ اس طرح کا حادثہ پیش آیا تو علیؓ کہاں بیٹھے رہے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی بے حرمتی کا بدلہ تک نہیں لیا جبکہ علیؓ شجاعت و بہادری میں اپنی مثال آپ تھے۔ کمال حیرت ہے کہ اتنا سانحہ ہوجانے کے باوجود ان کی غیرت و حمیت کو جوش تک نہیں آیا؟

تاریخ شاہد ہے کہ کتنے کبار صحابہؓ نے اہل بیت نبی ﷺ سے رشتہ مصاہرت جوڑا۔ اس خاندان عالی شان میں شادی بیاہ کیے اور اپنی بیٹیوں کو بھی اس خاندان میں دیا۔ خصوصاً شیخین نے اس خاندان میں شادی بیاہ کرکے آل بیت سے اپنے تعلقات کو مستحکم رکھا۔ ان حقائق کو مؤرخین و اہل سیر نے باتفاق بیان کیا ہے۔

چنانچہ نبی کریم ﷺ نے عائشہ بنت ابی بکرؓ اور حفصہؓ بنت عمرؓ سے شادی کی اور یکے بعد دیگر اپنی دو بیٹیوں رقیہؓ اور ام کلثومؓ کا رشتہ تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفانؓ کو دیا۔ دنیا آپؓ کو ذوالنورین کے لقب سے پکارتی ہے۔

آپؓ کے صاحبزادے ابان بن عثمانؓ نے ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفرؓ بن ابی طالب سے شادی کی۔ ام قاسم بنت الحسن بن الحسن بن علیؓ بن ابی طالب کی بیٹی مروان بن ابان بن عثمان کی زوجیت میں تھیں۔ زید بن عمرو بن عثمان کے عقد میں سکینہ بنت حسینؓ تھیں۔

ہم صحابہ کرامؓ میں سے صرف خلفائے ثلاثہؓ کے ذکر پر اکتفا کریں گے ورنہ خلفائے ثلاثہؓ کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرامؓ ہیں جن کا اہل بیت سے سسرالی تعلق تھا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور صحابۂ کرامؓ کا آپس میں رشتہ و ناطہ تھا۔ {دامادی و رشتوں کی تفصیل الدرالمنثور من تراث اھل البیت میں دیکھیں}۔

شیعہ حضرات کے معتمد علیہ مصادر و مراجع میں منقول ہے کہ علیؓ نے اپنے ایک بیٹے کا نام ، جو آپ کی بیوی لیلی بنت مسعود کے بطن سے تھا ابوبکرؓ کے نام پر رکھا تھا۔

علیؓ بنی ہاشم میں وہ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنے بیٹے کو اس نام سے موسوم کیا ہے۔

{مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی صفحہ 91}

حسنؓ بن علیؓ نے اپنے بیٹوں کے یہ نام رکھے تھے:

1-ابوبکر

2-عبدالرحمن

3-طلحہ

4۔ عبیداللہ

{التنبیہ والاشراف للمسعودی الشیعی صفحہ 263}

علاوہ ازیں حسن بن حسن بن علی نے اپنے بیٹوں کو صحابۂ کرامؓ کے ناموں سے موسوم کیا تھا۔

{مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}

موسی کاظم نے اپنی صاحبزادی کا نام عائشہ رکھا تھا۔ اہل بیت رسول ﷺ میں کچھ لوگوں نے ازراہ محبت اپنی کنیت ابوبکر رکھی تھی اگرچہ انکا نام کچھ اور تھا، مثال کے طور پر زین العابدین بن علی  

{کشف الغمۃ لاربلی صفحہ 26جلد3 نفس المصدر صفحہ 317جلد2}

 اور علی بن موسی الرضا

{مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی صفحہ 561. 526}

نے اپنی اپنی کنیت کو ابوبکرؓ کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔

اب ہم ان لوگوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کو عمرؓ کے نام سے موسوم کر کے پکارا تھا۔ ان میں بھی سر فہرست علیؓ کا نام نامی آتا ہے ۔ آپؓ نے اپنے بیٹے کا نام عمر الاکبر رکھا تھا جو ام حبیب بنت ربیعہؓ کے بطن سے تھے باللف کے مقام پر اپنے بھائی حسینؓ کی معیت میں ان کی شہادت کا حادثہ پیش آیا اور علیؓ نے اپنے دوسرے بیٹے کا نام عمر الاصغر رکھا تھا۔ ان کی والدہ کا نام الصہباء التغلبیہؓ تھا۔ اللہ تعالی نے انہیں طویل زندگی سے نوازا تھا اور انہوں نے اچھی خاصی زندگی پائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت کے بعد ان کے صحیح وارث اور جانشین کہلائے۔{ملاحظہ ہو:

الارشاد للمفید صفحہ 353، معجم رجال الحدیث للخوئی صفحہ 13 جلد1، و مقاتل الطالبیین لابی الفرج صفحہ 83}

حضرت حسنؓ بن علیؓ نے اپنے دونوں بیٹوں میں سے ایک کو حضرت ابوبکرؓ اور دوسرے کو حضرت عمرؓ کے نام نامی اسم گرامی سے موسوم کر رکھا تھا۔

( الارشاد للمفید صفحہ 194۔ منتہی الامال جلد 1 صفحہ 240. امۃ الطالب صفحہ 81) 

علی بن الحسینؓ بن علیؓ

 {الارشاد للمفید جلد 2 صفحہ 155 کشف الغمہ جلد 2 صفحہ 201}، 

علی زین العابدین موسی کاظم، حسین بن زید بن علی، اسحاق بن الحسن بن علی بن الحسینؓ، حسن بن علی بن الحسن بن الحسین بن الحسن نے اپنے آباؤ اجداد کی سنت کو زندہ رکھا اور اپنے بیٹوں کو خلیفۂ ثانی کے اسم گرامی سے موسوم کر کے ان سے اپنے تعلق کا ثبوت پیش کیا۔

ان کے علاوہ اسلاف کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اندیشہ طوالت کے باعث ہم صرف اہل بیت میں سے انہی متقدمین کے ذکر پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔{مزید تفصیل:

مقاتل الطالبین، الدرالمنثور صفحہ 65 ۔ 69.}

جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کا نام عائشہؓ کے نام پر رکھ کر اہل بیت سے محبت کا ثبوت دیا ہے ان میں موسی کاظم

{الارشاد صفحہ 302 الفصول الھمہ صفحہ 242. کشف الغمہ جلد 3 صفحہ 26}

اور علی بن الھادی کا نام نامی سرفہرست ہے۔

{الارشاد المفید جلد 2 صفحہ 312}

یہاں پر ہم صرف ام المؤمنین عائشہؓ کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔

 *سوال: 6* کلینی نے کتاب الکافی میں ذکر کیا ہے کہ ائمہ علیہم السلام جانتے ہیں کہ وہ کب مریں گے اور جب مریں گے اپنے اختیار سے ہی مریں گے

{اصول الکافی للکلینی جلد 10 صفحہ 258۔ الفصول الھمہ صفحہ 155}

مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ کوئی ایک امام ایسا نہیں ہے جو فوت ہوا ہو بلکہ ان میں سے ہر ایک مقتول ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔

( بحار الانوار جلد 43 صفحہ 364.)

یہاں ہم شیعہ برداری سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے امام علم غیب جانتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس بات کا پتہ تھا کہ انہیں کھانے کے لیے دستر خوان پر کیا پیش کیا جارہا ہے لہذا اگر کھانے پینے کی چیز تھی تو یہ بات بھی ان کے سابقہ علم میں تھی کہ یہ کھانا زہریلا ہے جس سے بچنا چاہیے۔ علم کے باوجود ان کا اس کو کھانا اور اس کو کھانے سے پرہیز نہ کرنا تو خودکشی ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر زہریلا کھانے سے اپنے آپ کو لقمۂ اجل بنایا ہے گویا وہ خودکشی کرنے والے ہوئے حالانکہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے متنبہ فرما دیا ہے کہ خودکشی کرنے والا آگ کا ایندھن ہے۔ کیا شیعہ حضرات اپنے ائمہ کے اس انجام سے راضی ہیں ؟

 *سوال: 7* حسن بن علیؓ نے امیر معاویہؓ کے لیے خلافت سے ایسے موقع پر دستبرداری اور مصالحت کا اعلان کیا تھا، جس وقت ان کے پاس جان نثار بھی موجود تھے اور امیر معاویہؓ سے جنگ جاری رکھنا بھی ممکن تھا۔ اس کے برخلاف آپؓ کے بھائی حسینؓ نے یزید کے خلاف اپنے چند اقارب کے ساتھ جنگ کو ترجیح دی۔ جبکہ باعتبار وقت، آپؓ  کے لیے نرمی اور مصلحت اندیشی کا پہلو اختیار کرنا زیادہ مناسب تھا۔

مذکورہ صورت حال اس نتیجے سے خالی نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے ایک حق پر تھے اور دوسرے غلطی پر، یعنی اگر حسنؓ کا لڑنے کی صلاحیت کے باوجو اپنے حق سے دستبرداری اختیار کرنا برحق ہے تو حسینؓ کا مصالحت کا امکان ہوتے ہوئے اور طاقت و قوت سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے خروج کرنا باطل ہوگا اور اگر حسینؓ کا کمزوری اور ناتوانی کے باوجود خروج کرنا برحق تھا تو حسینؓ کا قوت کے باوجود مصالحت اختیار کرنا اور اپنے حق خلافت سے دستبردار ہونا باطل ہوگا۔

اس سوال کا شیعہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنینؓ دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔

اور اگر وہ حسنؓ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تو ان کے قول سے حسنؓ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور ان کی امامت کے باطل ہونے سے ان کے والد علیؓ کی امامت اور عصمت خودبخود باطل ہوجاتی ہے کیونکہ علیؓ نے آپ کے بارے میں وصیت کی تھی اور شیعہ کے مطابق امام معصوم اپنے جیسے معصوم شخص کے لیے ہی وصیت کر سکتا ہے۔

اور اگر وہ حسینؓ کے فعل کے بطلان کی بات کرتے ہیں تب بھی ان کے لیے مفر نہیں ہے کیونکہ ان کے اس قول سے حسینؓ کی امامت و عصمت پر زد پڑتی ہے اور ان کی امامت اور عصمت کے باطل قرار پانے سے ان کے تمام بیٹوں اور ان کی ساری اولاد کی امامت اور عصمت باطل ہوجاتی ہے کیونکہ حسینؓ کے دم سے ہی ان کی ذریت کی امامت و عصمت قائم ہے جب اصل کا بطلان ہوگیا تو فرع خودبخود باطل ہوگئی۔

 *سوال: 8* شیعہ کے مشہور عالم کلینی نے اپنی کتاب

(الکافی جلد 1 صفحہ 239)

میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ہم سے ہمارے کئی ساتھیوں نے ابوبصیر سے یہ روایت نقل کی ہے کہ میں ایک مرتبہ ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے ان سے عرض کیا میں آپ علیہ السلام پر قربان جاؤں، دراصل میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہیں کوئی ہماری سرگوشی سن تو نہیں رہا ہے؟ کہتے ہیں کہ ابوعبداللہ علیہ السلام نے پردہ گرادیا، پھر ابوبصیر کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: کہ اے ابو محمد!اب تمہارے جی میں جو آئے پوچھو۔ میں نے کہا میں قربان جاؤں آپ پر ۔۔۔اس کے بعد آپ علیہ السلام نے تھوڑی دیر کے لیے سکوت اختیار کیا پھر فرمایا: ہمارے پاس مصحف فاطمہ علیھا السلام ہے اور ان کو کیا پتہ کہ مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ ابو بصیر نے کہا میں نے استفسارکیا! مصحف فاطمہ علیھا السلام کیا ہے؟ فرمایا: یہ وہ مصحف ہے جس میں تمہارے اس قرآن سے تین گنا زیادہ مواد موجود ہے اور تمہارے قرآن کا اس میں ایک حرف بھی موجود نہیں ہے۔ ابوبصیر نے کہا میں نے کہا یہی تو علم ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا رسول اللّٰہ ﷺ کو مصحف فاطمہؓ کی خبر تھی؟ اگر آپؓ کو مصحف فاطمہؓ کی خبر نہیں تھی تو آل بیت کو اس کی خبر کیسے پہنچی؟ حالانکہ آپ ﷺ تو اللہ کے رسول تھے؟ بالفرض نبی کریم ﷺ کو اس کی خبر تھی تو آپ نے اس کو اپنی اُمت سے مخفی رکھا؟ جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ۔۔سورۃالمائدہ آیت 675)

" اے رسول ! جو کچھ بھی آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے۔ آپ اسے اُمت تک پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔"

 *سوال: 9* کلینی کی کتاب الکافی کے جزء اول میں ان ناموں کی ایک فہرست ہے جن کے واسطے سے شیعہ حضرات نے رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور اہل بیت کے اقوال نقل کیے ہیں ان میں مندرجہ ذیل نام بھی ہیں۔

1-مفضل بن عمر، 2- احمد بن عمرالحلبی، 3- عمر بن ابان، 4- عمر بن اذینہ، 5- عمر بن عبدالعزیز، 6- ابراہیم بن عمر، 7- عمر بن حنظلۃ، 8- موسی بن عمر، 9- عباس بن عمر۔۔۔ وغیرہ

ان تمام ناموں میں عمر ہے۔ خواہ وہ راوی کا نام ہے خواہ راوی کے باپ کا، بہرحال عمر ہر نام میں موجود ہے۔

آخر ان تمام لوگوں کا نام عمر کیوں رکھا گیا ہے؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان لوگوں کو عمرؓ سے محبت اور لگاؤ تھا۔

 *سوال: 10* اللہ تعالی اپنی کتاب محکم میں ارشاد فرماتے ہیں۔

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ﴿١٥٧﴾ سورۃ البقرہ آیت 155 تا 157

"اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جنہیں جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس وقت وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔"

وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ۔۔۔ ﴿١٧٧﴾ سورۃ البقرہ

" اور تنگ دستی تکلیف و جنگ کے وقت صبر سے کام لینے والے ہیں۔"

علیؓ نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " اے نفس!اگر تجھے جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے نہ منع کیا گیا ہوتا اور آپ ﷺ نے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی تو میں رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر لیتا۔"

{نہج البلاغہ صفحہ 576 اور مستدرک الوسائل صفحہ 445 جلد 2}۔

یہ روایت بھی مروی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے " جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا تو اس کا عمل ضائع اور برباد ہوئے گا۔

{الخصال للصدوق صفحہ 612 اور وسائل الشیعہ جلد 3 صفحہ 270}۔

حسینؓ نے حادثۂ کربلا میں اپنی بہن زینبؓ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میری پیاری بہن! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں قتل کر دیا جاؤں تو تم مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے کو نہ چھیدنا اور میری شہادت پر ہلاکت و تباہی کی دہائی نہ دینا۔

ابو جعفر القمی نے نقل کیا ہے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو جب اپنے ساتھیوں کے متعلق معلوم ہوا فرمایا: "تم کالا لباس زیب تن مت کیا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔ "

{من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1 صفحہ 232 اور کتاب وسائل الشیعہ جلد 2 صفحہ 916}

تفسیر صافی میں اس آیت

{ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ۔۔﴿12﴾ سورۃ الممتحنۃ}

کے ضمن میں یہ ہی کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ بطور سوگ کالا لباس نہیں پہنیں گی اور نہ گریبان چاک کریں گی اور نہ ہلاکت وبربادی کی پکار لگائیں گی۔

کلینی کی کتاب فروع الکافی میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فاطمہؓ کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو نہ تو اپنے چہرے کو نوچنا اور نہ ہی مجھ پر بال لٹکا لٹکا کر غم کا اظہار کرنا اور نہ ہی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینا اور نہ میرے لیے کسی نوحہ کناں کو مقرر کرنا۔

{فروع الکافی جلد 5 صفحہ 527}۔

شیعہ کے علماء المجلسی، النوری اور البرد جردی نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:" نوحہ و ماتم اور گانے بجانے کی آوازیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔"

{بحارالانوار جلد 72 صفحہ 103، مستدرک الوسائل جلد 1 صفحہ 143. 144، جامع احادیث الشیعہ جلد 3 صفحہ 488 اور من لایحضرہ الفقیہ جلد 2 صفحہ 271}۔

ان تمام روایات اور حقائق کی نقاب کشائی کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات کیوں حق کی مخالفت پر آمادہ ہیں؟ اب آپ ہی بتلائیں کہ ہم کس کی تصدیق کریں اللہ کی، رسول ﷺ کی اور اہل بیت کی یا شیعہ کے ذاکرین کی؟؟۔

*سوال: 11* اگر زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی میں عظیم اجر و ثواب ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے { دیکھیے

ارشاد السائل صفحہ 184 اور صراط النجاۃ جلد 1 صفحہ 432}۔

تو شیعوں کے مذہبی رہنما اور ان کے ملاں و ذاکر زنجیر زنی کیوں نہیں کرتے ہیں؟؟۔

 *سوال: 12* شیعوں کے دعویٰ کے مطابق غدیر خم کے دن ہزاروں صحابۂ کرامؓ وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد علیؓ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی ، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابۂ کرامؓ میں سے ایک صحابی بھی علیؓ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفۂ وقت حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے حضرت علیؓ کی خلافت کا حق کیوں غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غدیر خم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علیؓ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتہ تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔

 *سوال: 13* عالم شیعہ کی مذہبی کتاب الکافی کی اکثر و بیشتر روایات ضعیف ہیں؟ اس کے باوجود یہ لوگ کس بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر ایک کتاب میں مدون ہے، جس کی اکثر وبیشتر روایات ان کے اعتراف کے مطابق ضعیف اور مردود ہیں، کیا یہ دورغ گوئی اور بہتان تراشی نہیں ہے؟

 *سوال: 14* عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے خاص ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

{بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ۔۔ سورۃ الزمر}

بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کرو۔ شیعہ حضرات اپنی برادری کے لوگوں کو عبدالحسین، عبد علی، عبدالزھراء اور عبدالامام وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں؟ لیکن ائمہ اپنے بچوں کے نام عبد علی اور عبدالزھراء وغیرہ نہیں رکھتے تھے۔

 *سوال: 15* اگر علیؓ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کیوں کی؟

اگر تم یہ کہو کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟ کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر تم یہ کہو کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ علیؓ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔

تمہارا جواب کیا ہے؟

 *سوال: 16* علیؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدینؓ ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپؓ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکرؓ و عمرؓ"

"اس اُمت میں نبی کریم ﷺ کے بعد افضل ترین ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں"

لطف کی بات یہ ہے کہ علیؓ نے حج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔

اگر شیخینؓ کافر ہوتے اور انہوں نے علیؓ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علیؓ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ ہم کو تو علیؓ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخینؓ {ابوبکرؓ و عمرؓ} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔

تم کو اسی قدر پر اکتفا کرنا چاہیے جس پر امیر المؤمنینؓ نے اکتفا کیا یا تم پر یہ بات لازم آتی ہے کہ تم یہ کہو امیر المؤمنین علیؓ نے اُمت اسلامیہ کے ساتھ خیانت سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیا ہے حالانکہ آپؓ اس سے پاک اور مبرا ہیں۔

 *سوال: 17* شیعوں کا خیال ہے کہ خلفائے راشدینؓ کافر تھے ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو عزت و سربلندی عطا فرمائی تھی اور مسلمانوں کو تاریخ میں ایسا دور مشاہدہ کرنے کو نہیں ملا۔

کیا یہ بات اللہ تعالی کے اس دوٹوک فیصلے کے موافق ہے جس کی رو سے اللہ تعالی نے کفار اور منافقین کو ذلیل و رسوا کیا ہے؟

اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ امام معصوم کی خلافت میں جن کی ولایت کو اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے رحمت بنایا ہے اُمت اسلامیہ کا شیرازہ منتشر ہوگیا اور خانہ جنگی کی آگ بھڑک اُٹھی یہاں تک اعدائے اسلام، اسلام اور مسلمان کے خلاف کمربستہ ہوگئے۔ کیا امام معصوم کے دور کو اس طرح کی صورتحال کے تناظر میں رحمت سے تعبیر کیا جائے گا؟ آخر یہ کون سی رحمت ہے جس کا امام معصوم کی خلافت کے دوران وجود پذیر ہونے

کا شیعہ حضرات دعوی کر رہے ہیں؟ کیا اس قسم کی کوئی باعث رحمت صورت حال ائمہ معصوم کے دور میں پیش آئی، اگر نہیں اور بالکل نہیں، تو پھر یہ شیعہ حضرات کس رحمت کے متقاضی ہیں؟

 *سوال: 18* شیعہ کا دعویٰ ہے کہ امیر معاویہؓ کافر تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حضرت حسنؓ بن علیؓ نے ان کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا، حالانکہ حضرت حسنؓ امام معصوم ہیں لہذا یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا حالانکہ یہ چیز حسنؓ کی عصمت کے خلاف ہے یا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ مسلمان ہیں ، ان دو صورتوں میں ایک صورت کو بہرحال تسلیم کرنا ہے۔

 *سوال: 19* کیا نبی کریم ﷺ نے تربت حسینیؓ پر سجدہ کیا ہے؟ جس پر شیعہ حضرات سجدہ کرتے ہیں؟

اگر شیعہ حضرات ہاں میں جواب دیتے ہیں تو ہمارا دو ٹوک جواب یہ ہے کہ اللہ کی قسم یہ جھوٹ ہے۔

اور اگر وہ نفی میں جواب دیتے ہیں تو ہم ان سے یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ کیا تم رسول اللّٰہ ﷺ  سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔

ہم یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دیں کہ شیعہ کی روایات بتاتی ہیں کہ جبریل علیہ السلام رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں کربلا کی مٹی لائے تھے۔

 *سوال: 20* شیعوں کا دعویٰ ہے کہ صحابۂ کرامؓ رسول اللّٰہ ﷺ  کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ پہلی کیفیت پر آگئے تھے۔

ہمارا شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ کیا اصحاب رسول ﷺ نبی کریم ﷺ کی وفات سے قبل شیعہ اثناء عشریہ تھے، آپ ﷺ کی وفات کے بعد اہل سنت والجماعت ہوگئے تھے۔ یا لوگ نبی کریم ﷺ کی وفات سے قبل اہل سنت والجماعت تھے اور بعد از وفات شیعہ اثنا عشریہ ہوگئے ؟

کیونکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کو ہی انقلاب، تغیر اور تبدل کہا جاتا ہے۔

*سوال: 21* یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت حسنؓ حضرت علیؓ کے فرزند اکبر تھے. ان کی والدہ حضرت فاطمہؓ ہیں، شیعوں کے نزدیک حضرت حسنؓ ان افراد میں سے ایک ہیں جن کو اہل کساء ہونے کا شرف حاصل ہے .

(حدیث کساء کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے جسم پر کالی کملی کالے اون سے بنی ہوئی تھی، آپ ﷺ کے باہر آتے ہی حضرت حسنؓ تشریف لے آئے تو آپ ﷺ نے ان کو اپنی کملی میں داخل فرمالیا،اس کے بعد حضرت حسینؓ تشریف لے آئے تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی کملی میں داخل فرما لیا۔اس کے بعد حضرت فاطمؓہ تشریف لے آئیں تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی کملی میں داخل فرما لیا،اس کے بعد حضرت علیؓ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان کو بھی اپنی کملی میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی 

﴿إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) (الاحزاب:33)

" اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے گھر والو تم سے وہ ہر قسم کی لغو بات کو دور کر دے اور تمھیں خوب صاف کر دے ۔"

(اخرجه مسلم في فضائل الصحابةؓ)

 ائمۂ معصومین میں بھی ان کا شمار ہوتا ہے. مذکورہ اعزازات میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہم مرتبہ ہوئے۔ 

ہمارا سوال یہ ہے کہ حضرت حسنؓ کی اولاد سے امامت کیوں ختم ہوگئی؟ جبکہ حضرت حسینؓ کی اولاد سے امامت کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ دونوں کی ماں ایک ہے۔ دونوں کا باپ ایک ہے اور دونوں نواسۂ رسول ﷺ ہیں۔حضرت حسنؓ کوحضرت حضرت حسینؓ پر ایک اعتبار سے فوقیت بھی حاصل ہے کہ آپؓ اپنے بھائی حضرت حسینؓ سے عمر میں بڑے ہیں اور امامت کے ان سے پہلے مستحق ہیں کیونکہ بڑے بیٹے کو فوقیت اور اولیت حاصل ہوتی ہے۔کیا شیعہ حضرات کے پاس کوئی معقول اور تشفی بخش جواب ہے؟

 *سوال: 22* سوال یہ ہے کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب نے نبی کریم ﷺ کے مرض الموت کے ایام میں کسی ایک بھی  نماز میں عامۃ المسلمین کی امامت کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیا ؟ حالانکہ حضرت علیؓ آپ ﷺ کے بعد امام برحق ہیں؟ ایک باطل اعتقاد ہے کیونکہ لوگوں کی نماز میں امامت کرنا امامت صغریٰ کہلاتی ہے جو پیش خیمہ ہوتی ہے امامت کبریٰ، یعنی منصب خلافت کا۔

 *سوال: 23* شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ ان کے بارہویں امام کی غار میں روپوشی کا سبب ظالموں کے ظلم سے خوف و دہشت ہے تو یہ بتایا جائے یہ روپوشی ابھی تک کیوں قائم ہے۔ حالانکہ وہ خطرہ،جس کے تحت آپ کے امام روپوش ہوئے تھے، تاریخ کے مختلف ادوار میں بعض شیعی حکومتوں کے قیام کی وجہ سے ٹل چکا ہے۔ مثال کے طور پر عبیدیوں، بویہیوں اور صفویوں کی حکومتیں آئیں اور اب دور حاضر میں ایرانیوں کی شیعی حکومت قائم ہے۔

 آپ کے بارہویں امام نکل کر منظر عام پر جلوہ افروز کیوں نہیں ہوتے؟ اس وقت شیعہ حضرات اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی حکومت کی چھتری تلے ان کی بھرپور نصرت وحمایت کر سکتے ہیں کیونکہ اس وقت شیعہ حضرات کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں اور صبح و شام امام غائب پر اپنی روحوں کو قربان کرتے رہتے ہیں۔

*سوال: 24* نبی کریم ﷺ نے اپنی ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اپنی مصاحبت کے لئے پسند فرمایا اور انہیں زندہ رہنے کے لیے باقی رکھا اور حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر موت اور ہلاکت کے سامنے پیش کر دیا۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر حضرت علیؓ امام وقت، وصی زمانہ اور خلیفہ متعین ہوتے تو کیا رسول اللہ ﷺ ان کو اس پر خطر موقع اپنے بستر پر چھوڑ کر مدینہ ہجرت فرماتے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو محفوظ و مامون اپنے ساتھ ہجرت کے لئے منتخب فرماتے؟ اور اگر ایسا ہی ہوتا جیسا کہ شیعہ حضرات کا اعتقاد ہے تو آپ ﷺ حضرت علیؓ کے لیے یہ خطرہ مول نہ لیتے کیونکہ یہ ایک پرخطر مؤقف تھا۔اگر خدانخواستہ حضرت علیؓ اس خطرے کی نذر ہو جاتے تو چونکہ وہ بقول شیعہ امام اور وصی اور اللہ کے مقرر کردہ خلیفہ اللہ فی الارض ہیں تو ان کے بدلے کون امامت کا حقدار قرار پاتا ؟ اوراگر حضرت ابوبکرؓ اس خطرے کی نذر ہو جاتے تو امامت پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کی موت کے بعد سلسلہ امامت منقطع نہیں ہوتا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنی مصاحبت کے لئے اختیار فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ حضرات کا حضرت علیؓ کو امام حقیقی اور وصی اور اللہ کا مقرر کردہ خلیفہ کہنا سراسر بےبنیاد ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں اولیت کس کو حاصل ہے؟ اس شخص کو جس کو زندہ رکھنا مقصود ہے کہ اُسے ایک کانٹا تک نہ چھبنے پائے یا اس کو جسے فراش موت پرخطروں اور موت کے لئے چھوڑ دیا جائے؟

اگر پھر بھی تم اس بات پر مصر ہو کہ حضرت علیؓ علم غیب جانتے تھے تو بستر پر رات گزارنے میں آپ کی کون سی افضلیت ہے؟

 *سوال: 25* تقیہ صرف اور صرف خوف و ہراس کے سب کیا جاتا ہے۔ اور آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ خوف کی دوقسمیں ہیں: 

 *اولاً:-* اپنی جان کا خوف جس سے مراد یہ ہے ایسا نازک مسئلہ در پیش ہو کہ اس میں جان جانے کا خطرہ ہو۔ 

اس قسم کا خوف ائمۂ کرام کے حق میں دو وجوہات کی بنیاد پر مردود تھا۔ 

*♦️ *پہلی وجہ:-* ♦️ تو ہے کہ ائمہ اثنا عشریہ کی موت تمھارے دعوے کے مطابق ان کے اختیار میں ہوتی ہے۔

♦️ *دوسری وجہ:-* ♦️ یہ ہے کہ بزعم شیعہ، ائمہ کرام کو جو ہونے والا ہے اور جو ہو چکا ہے، اس کا علم ہوتا ہے وہ اپنی موت سے باخبر ہوتے ہیں بالخصوص انہیں اپنی موت کی کیفیات اور اوقات کا بھی علم ہوتا ہے۔

جب ان کو اپنی موت کا علم ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ ان کو کب اور کس کیفیت میں موت آئے گی۔ موت سے قبل ڈرنے اور خوف کھانے کی کیا ضرورت ہے اور نہ ہی ان کو اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے دین میں منافقانہ رویہ اختیار کریں یا عوام کو دھوکہ دیں۔ 

مصائب و آرام میں صبر سے کام لینا علماء کرام کا شیوہ ہونا چاہیے کیونکہ اہل بیت پر اپنے جدِ امجد نبی کریم ﷺ کے دین کی نصرت وحمایت کی خاطر پرتحمل و صبر سے کام لینے کی پوری ذمہ داری کہیں زیادہ عائد ہوتی ہے۔

مذکورہ دونوں صورتوں میں تقیہ کی ضرورت کس لیے ہے؟ 

 *سوال: 26* شیعہ حضرات کا اہم ترین عقیدہ ہے کہ امام معصوم کو منصب خلافت پر فائز کرنا واجب ہے تا کہ وہ تمام شہروں اور دیہاتوں سے عدل و انصاف کا رویہ رکھے اور ظلم و استبداد کا قلع قمع کر دے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمہارا کہنا یہ ہے کہ دنیا کے ہر ہر شہر اور ہر ہر گاؤں میں،ایک معصوم کا وجود لازم ہے جو لوگوں سے ظلم و زیادتی کو دور کرتا ہے۔ 

اس صورت میں تمہیں جواب دیا جائے گا کہ یہ سراسر ایک سینہ زوری ہے۔ کیا بلاد کفر مشرکین اور نصاریٰ میں بھی امام معصوم رہے ہیں؟

 پھر تمھیں کہا جائے گا کہ کیا اس کے نائبین تمام شہروں میں موجود ہیں یا بعض شہروں میں ہیں۔

 اگر تم کہو کہ وہ عالم رنگ و بو کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں پھیلے ہوئے ہیں تو پھر بھی تمھیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بھی پہلی سینہ زوری ہے اس میں اور اُس میں کوئی فرق نہیں ہے۔

 اگر تم یہ کہو کہ اس کے نائبین بعض شہروں اور بعض دیہاتوں میں ہیں۔ اس پر تم سے جواباً یہ کہا جائے گا کہ ان تمام شہروں اور دیہاتوں میں امام معصوم کی ضرورت ہے۔

 *سوال: 27* شیعوں کے امام کلینی نے اپنی کتاب (الکافی) میں ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان رکھا ہے :

"إِنَّ النِّسَاءَ لَا يَرِثن مِنَ الْعِقَارِ شَيْئًا "

" بے شک عورتیں زمین و جائیداد میں سے کسی چیز کی وارث نہیں ہیں"

 اس میں امام جعفر رحمہ اللّٰہ کا فرمان روایت کیا ہے کہ عورتیں، زمین و جائیداد اور غیر منقولہ اشیاء میں سے کسی چیز میں بھی وراثت کا حق نہیں رکھتیں۔

(فروع الكافي، للكلينی جلد 7،صفحہ127)

طوسی نے

"التهذيب (نفس المصدر جلد9،صفحہ254)

میں شیخ میسر کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سے عورتوں کے بارے میں سوال کیا کہ ان کو میراث میں کیا استحقاق حاصل ہے؟ انہوں نے جواب دیا ان کے لئے میراث میں اینٹ، لکڑی، عمارت، بانس اور سرکنڈے کی قیمت میں سے حصہ کا استحقاق ہے جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائیداد کا تعلق ہے تو اس میں انہیں بطور میراث کچھ نہیں ملے گا۔

حضرت ابوجعفر رحمہ اللّٰہ سے روایت فرماتے ہیں کہ عورتیں زمین اور جائیداد میں میراث کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ حضرت عبدالملک بن اعین سے مروی ہے عورتوں کے لئے عمارت اور غیر منقولہ جائیداد میں بطور وراثت کوئی حصہ نہیں ہے۔

لہٰذا حضرت فاطمہؓ کا کوئی حق نہیں رہتا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی میراث سے اپنے حق کا بھی مطالبہ کریں ان روایات کے مطابق شیعہ کے بقول جو کچھ رسول اللہﷺ کی ملکیت میں تھا وہ امام کے لیے ہے چنانچہ محمد بن یحییٰ، امام ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں: رسول اللہﷺنے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا اور زمین کی جاگیر ان کو دی تو رسول اللہ ﷺ اس کے وارث ہیں اور جو حصہ نبی کریم ﷺ کا وہ آل محمدﷺ کے ائمہ کے لیے ہے۔

( اصول الكافى للكلینى كتاب الحجة باب ان الأرض كلها لإمام عليه السلام جلد1،صفحہ476)

رسول اللہ ﷺ کے  بعد امام اول شیعوں کے عقیدہ کے اعتبار سے حضرت علیؓ ہیں۔

 لہٰذا فدک کی زمین کے مطالبہ کا حق حضرت علیؓ کو پہنچتا ہے نہ کہ حضرت فاطمہؓ کو۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ حضرت علیؓ نے کبھی بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر چاہوں تو میں تم کو اس شہد کے صاف ہونے کی جگہ بتلا دوں گیہوں کے اسٹور کا دروازه بتلا دوں۔ اس ریشم کے ملبوسات کے کارخانہ کا ٹھکانہ دکھلا دوں۔ لیکن دوری ہو کہیں مجھ پر میری ہوائے نفس غالب نہ آ جائے اور مجھے میری لالچ بہترین کھانوں کی طرف کھینچ نہ لے جائے۔ شاید حجاز و یمامہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں آٹے کا ایک پیڑا تک نصیب نہیں ہے اور زمانہ گذر گیا ہے کہ انہیں پیٹ بھر روٹی تک نصیب نہ ہوسکی ہے

(نهج البلاغة،جلد1،صفحہ 211)

 *سوال: 28* حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مرتدین سے کیوں قتال کیا تھا؟ آپؓ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگوں نے رسی کے اس ٹکڑے کو مجھے دینے میں پس وپیش سے کام لیا جسے وہ نبی کریمﷺ کو زکوۃ میں ادا کیا کرتے تھے، تو میں ان سے قتال کروں گا۔ 

شیعہ حضرات، حضرت علیؓ کا وہ مصحف، جس کو انہوں نے رسول اللہﷺ سے املاء کیا تھا اس خوف سے منظر عام پر نہیں لائے کہ کہیں لوگ مرتد نہ ہوجائیں ۔جب کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا حال یہ ہے کہ وہ اونٹ کی ایک رسی پر مرتدوں سے قتال کا اعلان کر دیتے ہیں۔

 *سوال: 29* اہل سنت والجماعت اور شیعہ کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علیؓ بن ابی طالب بہادر اور دلیر تھے اور حضرت علیؓ اللہ کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہیں کرتے تھے۔ آپؓ کی بہادری ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع نہیں ہوئی بلکہ یہ زندگی کی ابتداء سے لے کر اس وقت تک قائم رہی حتیٰ کہ ابن ملجم کے ہاتھوں آپؓ کی شہادت ہوئی۔ شیعہ حضرات اس بات کا ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے بعد منصب خلافت کے آپؓ ہی حق دار ہیں۔

شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد ان کی جرأت و بہادری کہاں چلی گئی؟ کیا اس میں جمود و تعطل آ گیا ؟جس کی بنیاد پر انہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر بیعت خلافت کی؟حضرت ابو بکر صدیقؓ کی وفات کے بعد فوراً حضرت عمر فاروقؓ کی خلافت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں پر بیعت خلافت بھی کی؟

 حضرت عمر فاروقؓ کے بعد فوراً حضرت عثمان ذوالنورینؓ کی خلافت کو قبول کیا اور برضا و رغبت بیعت خلافت کی؟ 

کیا حضرت علیؓ بے بس اور عاجز تھے آپؓ منبر رسول ﷺ پر جا کر کھڑے ہوتے اور برملا اعلان کرتے کہ خلافت ان کا حق ہے جو ان سے زبردستی چھینا جارہا، کم از کم تینوں خلفاء کے دور میں ایک مرتبہ ہی ایسا کر کے اس حقیقت کا انکشاف کر دیتے ؟ 

حضرت علی المرتضیٰؓ نے اپنے حق خلافت کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ آپؓ باجماع امت بہادر اور شجاع تھے اور آپؓ کو جمہور مسلمانوں کی تائید بھی حاصل تھی اور آپؓ کے مؤیدین و ناصرین بھی تھے۔

 *سوال نمبر: 30* رسول اللہ ﷺنے اپنی رائے مبارک کو اہل خانہ کے چار اشخاص پر ڈال دیا تھا اور ان کی عصمت کا اعلان فرمایا تھا۔ ہمارا شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ باقی ائمہ کی عصمت کے تمہارے پاس کیا دلائل ہیں (وہ چار اشخاص حضرت علیؓ٫حضرت فاطمۃ الزہراؓء،حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ہیں)

 *سوال: 31* شیعہ حضرات کے امام جعفر صادق رحمہ اللہ، مذہب جعفریہ کے بانی ہیں ان کا فرمانا ہے کہ

(ملاحظہ ہو:

كشف الغمة،لاربلى جلد2،صفحہ 373) 

ابوبکر صدیقؓ نے مجھے دو بار جنم دیا ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نسب دو طریقوں سے حضرت ابوبکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے۔

 *1):-* ان کی والدہ فاطمہ بنت قاسم بن ابی بکر ۔ 

 *2):-* ان کی نانی اسماء بنت عبد الرحمٰن بن ابی بکر کی طرف سے ہیں جو فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر کی ماں ہیں۔

اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ حضرات جعفر صادق رحمہ اللہ سے ان کے نانا محترم ابوبکر کی مذمت اور برائی میں جھوٹی اور من گھڑت روایات بیان کرتے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کا اپنے نانا کے شجرہ نسبت پر فخر کرنا چہ معنی دارد؟ اور اسی نانا محترم کی شخصیت پر لعن وطعن بھی ناممکن ہے کیونکہ ایسا کوئی جاہل شخص ہی کر سکتا ہے۔ یہ بات اس امام سے تو بعید ہے جسے شیعہ فن فقہ میں امام گردانتے ہوں اور جسے اپنے زمانے میں زہد و ورع، تقویٰ طہارت میں اوج کمال پر فائز تصور کرتے ہوں کہ آپ ان کے بارے میں ملامت یا ذم کا اظہار کریں؟

 *سوال: 32* حضرت عمر فاروقؓ کے عہد زریں میں مسجد اقصیٰ فتح ہوئی۔ اس کے بعد خالص سنی الاصل قائد اور بےباک اسلامی رہنما صلاح الدین ایوبیؒ کے دور میں دوبارہ مسجد اقصیٰ کی آزادی ہوئی۔ تاریخ اسلامی کے اس طویل عرصے میں شیعہ حضرات نے کیا کیا کارہائے خیر سر انجام دیے؟ انہوں نے اس طویل زمانے میں ایک بالشت زمین تک بھی فتح کی یا اسلام اور مسلمانوں کے کسی دشمن کی سرکوبی تک کی ہے؟

 *سوال: 33* شیعہ حضرات دعویٰ کرتے ہیں حضرت عمر فاروقؓ حضرت علی المرتضیٰؓ سے بغض و عداوت رکھتے تھے۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے حضرت عمر فاروقؓ بیت المقدس کی چابیاں لینے فلسطین گئے تھے تو حضرت علی المرتضیٰؓ کو مدینہ منورہ کا والی بنا گئے تا کہ خدانخواستہ عمر فاروقؓ کو اگر کوئی ناگہانی حالت پیش آجائے تو وہ مسلمانوں کی خلافت کی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔

یہ کون سا بغض و عداوت ہے۔ کیا کوئی شخص اپنے دشمن کو اپنی نیابت کے منصب پر فائز کر سکتا ہے؟

 *سوال: 34* علماء شیعہ خیال کرتے ہیں کہ نماز ادا کرتے وقت سجدہ کا دار ومدار 5 اعضاء پر (1) پیشانی (2) ناک (3) دونوں ہتھیلیاں (4) دونوں گھٹنے (5) دونوں پاؤں،

سجدہ کی حالت میں ان تمام اعضاء کا زمین سے مس ہونا ضروری ہے

(وسائل الشیعہ،للحر العاملی،جلد3،صفحہ598)

پھر شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ سجدہ ایسی چیز پر کیا جائے جو نہ تو ماکولات کی قبیل سے ہو اور نہ ہی ملبوسات کی قبیل سے۔ یہی وجہ ہے کہ حالت سجود میں وہ اپنی پیشانی مٹی کے ٹھیکرے پر رکھتے ہیں۔

(الجامع للشرائع،للحلی صفحہ نمبر 70)  

سوال یہ ہے کہ شیعہ اپنے اعضائے سجود میں سے ہر عضو کے نیچے مٹی کا ٹھیکرا کیوں نہیں رکھتے؟

 *سوال: 35* شیعہ حضرات کا اعتقاد ہے کہ ان کے مہدی منتظر کا جب بھی ظہور ہوگا تو وہ آل داؤد کا طرز حکومت اپنائیں گے اور انہیں کی شریعت نافذ کریں گے! 

ذرا بتایا جائے کہ اس وقت شریعت محمدیﷺ کہاں چلی جائے گی جو اپنے سے پہلی تمام شریعتوں کے لئے ناسخ ہے؟

 *سوال: 36* جب شیعوں کے امام مہدی آئیں گے تو سوال یہ ہے کہ آتے ہی یہود و نصارٰی سے مصالحت کیوں کریں گے اور عربوں اور قریشیوں کو تہہ تیغ کیوں کریں گے؟

کیا محمدﷺ قریش اور عرب میں سے نہیں ہیں؟اور تمہارے ائمہ بھی تمہارے کہنے کے مطابق عرب ہی ہیں۔

 *سوال: 37* شیعہ حضرات اعتقاد رکھتے ہیں کہ ائمہ کرام کی ماؤں نے ان کا حمل اپنے پہلوؤں میں رکھا ہے اور رحم مادر میں ان کی تکوین نہیں ہوئی بلکہ ان کی ولادت داہنی ران سے ہوئی ہے۔

(اثبات الوصية المسعودى صفحہ 196) 

  کیا محمد ﷺ نبیوں میں افضل ترین نبی اور پوری انسانیت میں معزز و مکرم نہیں ہیں؟ ان کا حمل تو رحم مادر میں ٹھہرا اور ان کی ولادت بھی عمومی طبعی طریقہ پر ہوئی تھی۔ آخر شیعہ کے ائمہ کی ولادت پہلوئے مادر سے کیوں ہوتی ہے؟

 *سوال: 38* شیعہ حضرات ابو عبد الله جعفر صادق رحمہ اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس شریعت کا حامل ایسا شخص ہے جس کے نام پر اگر کوئی شخص نام رکھتا ہے تو وہ کافر ہے۔

(الانوار النعمانية،جلد2،صفحہ53)۔

 خود شیعہ حضرات ہی ابو محمد عسکری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امام مہدی کی ماں کو بشارت دیتے ہوئے کہا: 

"عنقریب تو ایک لڑکے سے حاملہ ہوگی جس کا نام 

محمد ہوگا اور وہی میرے بعد منصب خلافت پر فائز ہوگا۔

(الانوار النعمانيه جلد2،صفحہ55)

کیا مذکورہ دونوں روایتوں میں تضاد اور تناقض نہیں ہے؟ ایک مرتبہ تو تم کہتے ہو کہ جو شخص اس شریعت کے حامل شخص کے نام پر نام رکھے گا وہ کافر ہوگا اور ایک مرتبہ تم کہتے ہو کہ خود حسن عسکری نے امام مہدی کا نام محمد رکھا ہے یہ کیسا تضاد ہے؟

 *سوال: 39* عبد اللہ بن جعفر صادق، اسماعیل بن جعفر صادق کے حقیقی بھائی تھے۔ ان دونوں کی ماں ایک ہی تھیں جن کا نام فاطمہ بنت حسین بن علی بن حسینؓ بن علیؓ بن ابی طالب تھا۔

دونوں بھائی تمہارے مطابق سید ہیں، حسینی ہیں، بلکہ نجیب الطرفین ہیں، یعنی ان کا نسب باپ اور ماں دونوں کی طرف سے آل بیت رسول اکرمﷺ سے جا ملتا ہے۔

 سوال یہ ہے کہ سید عبداللہ بن جعفر کو اپنے حقیقی بھائی اسماعیل بن جعفر کی موت کے بعد منصب امامت سے کیوں محروم رکھا گیا؟

جو اپنے والد کی زندگی میں ہی انتقال کر گیا تھا ۔

*سوال: 40* کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں احمد بن محمد رفعہ کے واسطہ سے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے کہ تین چیزوں کے علاوہ کالے رنگ کو مکروہ قرار دیا گیا ہے 

(۱) موزے (2) عمامہ (3) کملی  

ان تینوں چیزوں میں کالے رنگ کے استعمال کی گنجائش ہے اس کے علاوہ اور چیزوں میں کالے رنگ کا استعمال مکروہ ہے

(کتاب الوسائل جلد 3 صفحہ 278 ۔ فروع الکافی ،للکلینی (449/6)

  ابو عبد اللہ علیہ السلام ہی سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ تین چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز میں کالے رنگ کا استعمال ناپسند فرماتے تھے 

(۱) موزوں میں  (2) چادر یا شال میں  (3) عمامہ میں

[کتاب الکافی طبع طہران سنہ 131 جلد 2 صفحہ 205

میں باب لبس السواد کے تحت نقل کیا ہے ناپسند رکھتے تھے تین چیزوں کے۔ البتہ اس میں چادر کا ذکر پگڑی پر مقدم ہے کہ

کان رسول اللّٰہ ﷺ یکرہ السواد الا فی ثلاث وتقدیم الامامۃ علی الکساء]

 الحر العاملی نے اپنی کتاب الوسائل میں الصدوق کے ذریعہ محمد بن سلیمان کے واسطہ سے مرسلا ابو عبداللہ علیہ السلام سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ علیہ السلام سے میں نے پوچھا کیا میں کالی ٹوپی پہن کر نماز ادا کر سکتا ہوں؟

آپ علیہ السلام نے جواب دیا کالی ٹوپی پہن کر نماز مت پڑھو کیونکہ یہ جہنمیوں کا لباس ہے

(وسائل الشیعہ (281/3۔ الفقیہ جلد 2 صفحہ 232)۔

شیخ صدوق سے مروی ہے کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: 

"کالا رنگ مت پہنا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے" 

اپنی سند کے ساتھ الوسائل میں حضرت حذیفہ بن منصور  سے نقل کیا ہے کہ میں ابو عبد اللہ علیہ السلام  کے پاس "حیرة" میں موجود تھا۔ 

خلیفہ وقت کا قاصد ابو العباس پہنچا جو آپ کو بلانے آیا تھا، ابو عبد اللہ علیہ السلام نے برساتی پہن رکھی تھی جو اون سے بنی ہوئی ہوتی ہے جسے بارش سے بچاؤ کے لئے پہنا جاتا ہے

(الکافی 205/2۔ الوسائل جلد 3 صفحہ 279).

بلکہ شیعوں کی بعض روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ کالا لباس بنو عباس کا لباس ہے جو ان کے اعداء میں سے تھے۔ 

صدوق کی کتاب ”فقیہ" میں ہے، کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور وہ کالا چوغہ پہنے ہوئے اور سر پر ایک پٹکا باندھے ہوئے تھے ۔ اس میں خنجر بھی لٹکا ہوا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے پوچھا:" اے جبریل! یہ کیسا لباس ہے؟ جبریل علیہ السلام نے جواب دیا، آپ ﷺ کے چچا عباس کے صاحبزادے کا لباس ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ اسی وقت حضرت عباس کے پاس تشریف لائے اور ان کو مخاطب کرکے ارشاد فر مایا ” میرے چچا جان! آپ کی اولاد میں میرے بچوں کے لیے ہلاکت ہے ۔"

 انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! کیا میں اپنے اوپر غالب آ سکتا ہوں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " قلم تقدیر چل چکا ہے۔“ بظاہر اس سے مراد اہل جہنم ہیں جیسا کہ بعض آثار میں وارد ہوا ہے کہ یہی وہ لوگ ہوں گے جو ہمیشہ ہمیشہ عذاب سے دو چار رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو فرعون اور ان جیسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے اور جو بھی ان کی مشابہت اختیار کرے گا وہ سرکش اور باغی قسم کے گمراہوں میں شامل ہے جیسے کہ بنو عباس کے خلفاء وغیرہ ہیں، وہ اس امت مرحومہ اور امم سابقہ کے کفار و مشرکین کی قبیل سے ہوں گے جنہوں نے کالے لباس کو اپنا شعار بنایا ہوگا

(الفقیہ 252/2)۔

انہی روایات میں سے ایک وہ روایت بھی ہے جس کو شیخ صدوق نے ( الفقیہ ) میں اپنی سند کے ساتھ اسماعیل بن مسلم کے واسطہ سے حضرت جعفر صادق علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالی نے ایک نبی کی طرف وحی نازل فرمائی اور اس میں اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ مؤمنین کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ وہ میرے دشمنوں کا لباس زیب تن نہ کیا کریں اور میرے اعداء کا کھانا نہ کھایا کریں ۔ مجھ سے عداوت رکھنے والوں کی راہوں پر نہ چلا کریں۔ ورنہ تم بھی میرے ویسے ہی دشمن ہو جاؤ گے جسے وہ میرے دشمن ہیں۔

(وسائل الشیعہ 384/4۔ بحار الانوار جلد 20 صفحہ 291، 28/48)

کتاب عیون الاخبار میں حدائق میں موجود روایت کے موجب دوسری سند سے خبر نقل کرنے کے بعد حضرت علی بن ابی طالب کے واسطہ سے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرمایا ہے ” میرے دشمنوں کا لباس کالا لباس ہے ! دشمنوں کا کھانا نبیذ ،نشہ آور چیزیں ، جو کی شراب ،گارا، جری نامی مچھلی، سانپ، زمیر نامی مچھلی اور وہ مچھلی جو مرنے کے بعد پانی کی سطح پر تیرنے لگے فرماتے ہیں کہ دشمنوں کا راستہ اختیار کرنا اپنی ذات کو متہم کرنے کا پیش خیمہ ہے ۔اسی طرح جام و مینا اور رقص و سرور کی محفلیں اور وہ مجالس جن میں ائمہ کرام علیہ السلام اور مؤمنین پر طعنہ زنی اور تہمت طرازی کی جاتی ہے اور فساق و فجار، مفسدین و ظالمین کی مجالس میں شرکت اپنی عزت و آبرو کو داغدار کرنے کا وسیلہ ہے۔

(عیون الاخبار 26/1)۔

یہ بحث کالا لباس پہننے کی مذمت میں ائمہ کرام کے اقوال پر مشتمل ہے اور جس سے عیاں ہے کہ کالا لباس شیعوں کے دشمنوں کا لباس ہے۔ لیکن اس کے باوجود شیعہ حضرات کالا لباس پہنتے ہیں۔ اس کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اس کو سادات کا نشان گردانتے ہیں بلکہ انہوں نے تو کالے لباس کو اپنے مذہب کا شعار بنا رکھا ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟

*سوال: 171*

شیعوں کے مشہور عقائد میں سے عقیدہ طینة ہوچکا ہے! اس عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شیعہ کو خاص مٹی سے پیدا کیا ہے اور اہل سنت والجماعت کو دوسری خاص مٹی سے پیدا کیا اللہ تعالی نے اپنے خاص انداز سے دونوں مٹیوں کو ملا کر خلط ملط کردیا، لہٰذا اگر شیعوں میں کسی قسم کے معاصی وجرائم ہیں تو یہ سنی کی مٹی سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہیں اور اہل سنت والجماعت میں جو بھی نیکی اور امانت داری ہے تو وہ شیعہ کی مٹی سے متاثر ہونے کی وجہ سے ہے، چنانچہ قیامت کے دن شیعوں کی نافرمانیاں اور ان کے کبائر وصغائر ذنوب اکٹھے کیے جائیں گے اور ان کو سنیوں کے اوپر لاد دیا جائے گا اور اہل سنت والجماعت کی نیکیاں اور ان کے اچھے اعمال جمع کئے جائیں گے اور وہ شیعہ کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔

شیعوں کے ذہن سے یہ بات محو ہوگئی کہ ان کے اس ایجاد کردہ عقیدہ کا ری ایکشن یہ ہے کہ یہ عقیدہ قضاء وقدر اور افعال عباد کے بارے میں ان کے مذہب کے عین منافی ہے کیونکہ اس عقیدہ کا تقاضہ یہ ہے کہ بندہ اپنے افعال کے اعتبار سے مجبور محض ہے اس کو کسی چیز کا اختیار نہیں ہے کیونکہ اس کے افعال کا تعلق اس مٹی سے ہے جس سے اس کی تخلیق ہوئی ہے جبکہ شیعوں کا مذہبی عقیدہ یہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا بذات خود خالق ہے جیسا کہ معتزلہ کا مذہب ہے۔

*سوال: 172*

علمائے شیعہ اثناء عشریہ اکثر وبیشتر حضرت علیؓ بن ابی طالب سے انصار صحابہؓ کی محبت اور تعلق قلبی کا بڑے جوش وخروش کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ وہ جنگ صفین کے موقع پر آپؓ (حضرت علیؓ) کی فوج میں شامل تھے مگر سوال یہ ہے کہ انصار نے حضرت علیؓ کو پہلا خلیفہ منتخب کیوں نہیں کیا اور خلافت حضرت ابوبکرؓ کے بجائے حضرت علیؓ کے ہاتھ میں کیوں نہ دی؟ آپ اس کا شافی وکافی اور تسلی بخش جواب ان کے پاس ہرگز نہ پائیں گے۔ 

جب ہم شیعوں کی ان کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہیں جو انصار صحابۂ کرامؓ کی تعریف اور مدح سرائی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جنہوں نے حضرت علیؓ کے شانہ بشانہ موقعۂ صفین میں ساتھ دیا تھا بالکل یہی کتابیں حادثۂ سقیفہ بنی ساعدہ کے بعد انہی صحابۂ کرامؓ کو ارتداد اور انقلاب علی الاعقاب سے متصف کرتی دکھائی دیتی ہیں!

شیعوں کے نزدیک اصحابؓ رسول ﷺ کے لیے میزان نقد عجیب وغریب ہے۔ اگر صحابۂ کرامؓ حضرت علیؓ کے مؤقف کی حمایت میں ہیں تو خیر الناس ہیں اور اگر کہیں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو حضرت علیؓ کے مؤقف کے خلاف ہیں یا انہوں نے اس نظریہ کے خلاف اپنی رائے پیش کی جو حضرت علیؓ کا نقطۂ نظر تھا۔ وہ بزعم شیعہ مرتد، مطلب پرست اور دو رخے ہیں۔

اگر شیعہ یہ کہیں کہ ہم نے اس گروپ کے صحابہ کرامؓ پر اس لئے ارتداد اور اسلام سے روگردانی کا حکم لگایا ہے کہ انہوں نے اس نص صریح کا انکار کیا ہے جو حضرت علیؓ کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے، تب اس قسم کے خیال والوں سے میرا کہنا یہ ہے کہ کیا شیعہ اثناء عشریہ اس بات کا اقرار اور اعتراف نہیں کرتے کہ حدیث غدیر خم متواتر ہے اور سینکڑوں صحابۂ کرامؓ نے اس حدیث کی روایت کی ہے؟ کہاں ہے وہ انکار جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو تو میں حضرت علیؓ کی شان میں وارد نص کا انکاری کیسے ہوا۔

اگر یہ کہا جائے کہ صحابۂ کرامؓ کے اس گروپ نے اس نص کے معنی کا انکار کیا ہے تو ان کے جواب میں کہا جائے گا کہ کون سی ایسی شخصیت ہے جس نے اس بات کا تمہارے لئے تزکیہ پیش کیا ہے کہ تم نے حضرت علیؓ کے بارے میں وارد حدیث میں جو رائے اختیار کی ہے وہی مبنی برحق ہے؟ کیا تم اصحابؓ رسول ﷺ سے زیادہ حدیث کی غرض وغایت اور اس کے مفہوم ومدعا کا ادراک رکھنے والے ہو۔ وہ اس روحانی اور نورانی مال کے پروردہ ہیں جس میں انہوں نے بنفس نفیس درس حدیث کو اپنے کانوں سے سنا ہے۔ کیا تم صحابۂ کرامؓ سے زیادہ عربی زبان میں دسترس اور عبور رکھنے والے ہو۔ جس کی بنیاد پر تم فہم وادراک کے اس مقام پر پہنچ گئے ہو جہاں تک (العیاذ باللہ) صحابۂ کرامؓ کی بھی رسائی نہ ہوسکی۔

(ثم ابصرت الحقیقة، محمد سالم الخضر، صفحہ 291،292)

*سوال: 173*

ہمارے سامنے دو فریق ہیں ایک فریق تو وہ ہے جو کتاب اللہ میں تحریف وتبدیلی کے وقوع پذیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، ان میں سرفہرست نوری طبرسی کا نام آتا ہے جو کتاب المستدرک کا مؤلف ہے اس کتاب کو شیعوں کے نزدیک حدیث کی آٹھ اصولی کتابوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے نوری طبرسی نے اس سلسلہ میں فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب کے نام سے کتاب تصنیف کی ہے اس میں قرآن اور اس میں تحریف کے واقع ہونے کے بارے میں بیان کرتا ہے اس کی عبارت یہ ہے! 

"قرآن کریم کے اندر تحریف کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم کے بعض فقرات میں تو فصاحت وبلاغت اپنی اوج کمال کو پہنچی ہوئی ہے اور بعض میں انتہائی گھٹیا پن ہے!"

سید عدنان بحرانی کہہ رہا ہے کہ قرآن کے بارے میں اخبار ونقول کی اتنی کثرت ہے جس کا بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی تعداد تواتر سے بھی آگے پہنچ چکی ہے اور اس کے نقل کرنے میں نہ ہی کوئی خاطر خواہ فائدہ ہے کیونکہ تحریف وتغییر کے بارے میں فریقین کی بیان بازی عام ہو چکی ہے اور صحابۂ کرامؓ اور تابعین عظام کے نزدیک مسلمہ حقیقت ہے اور فرقۂ محققہ کا اس پر اجماع بھی ہے اور چونکہ یہ ان کے مذہب کی ضروریات میں سے ہے لہذا اس کے بارے میں ان کی اخبار وآراء کی بھرمار ہے۔

(مشارق الشموس الدریۃصفحہ 126) 

یوسف البحرانی یہ کہہ رہا ہے کہ اخبار وآثار میں جو دلالت صریحہ اور واضح ہے اسی کو ہم نے بطور دلیل اختیار کیا ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے یہ چیز ہر اس شخص پر واضح ہے جو ہمارے اختیار کو دیکھے گا تو اسے شفاف دین کی جھلک نمایاں ملے گی، اگر ان مشہور ومعروف اور کثیر تعداد منتشر اخبار کو ہدف طعن بنایا گیا تو پھر شریعت کے تمام اصول وقواعد کو ہدف طعن بنانا ممکن ہوگا، کیونکہ اصول سارے کے سارے ایک ہی ہوا کرتے ہیں یعنی طرق روایات اور مشائخ رواة ایک ہی ہیں اور میری عمر کی قسم قرآن میں عدم تغییر وتبدیل کے قول سے ائمہ کے بارے حسن ظن کو ٹھیس نہیں پہنچتی اور یہ بات بھی اپنی جگہ پر ثابت ہوجاتی ہے کہ دوسری ضمنی قسم کی امانتوں میں خیانتوں کے ظہور کے باوجود جو کہ دین اسلام کے لئے بہت ہی ضرر رساں ہیں، انہوں نے امامت کبری میں کسی طریقہ کی خیانت نہیں کی ہے۔

(الدرالنجفيه: ليوسف البحراني، مؤسسة آل البيت لاحياء التراث، صفحہ 298)

اس فریق کا قرآن کریم میں طعن کا واضح ہدف یہی ہے کہ اس قرآن کریم میں تحریف کو زور وشور سے ثابت کر دیا جائے۔

دوسرا فریق شیعہ اثناء عشریہ کا ہے یہ لوگ صحابہؓ کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ انہوں نے حضرت علیؓ کے بجائے خلافت حضرت ابوبکرؓ کو سونپ دی تھی۔

پہلا گروپ جس نے کتاب اللہ پر طعن بازی کی ہے ان کی طرف سے علماء شیعہ اثناء عشریہ معذرت کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ اتنا کہتے ہیں کہ ان سے لغزش سرزد ہوگئی ہے گویا ان لوگوں نے اجتہاد کیا اور تاویل کرنے کی کوشش کی اور ضروری نہیں کہ ہم ان کے اجتہاد ورائے سے اتفاق کریں۔ ہم اہل سنت والجماعت کو یہ بات سمجھ میں  نہیں آتی کہ کتاب اللہ کی حفاظت اور اسکی تحریف کا مسئلہ میدان اجتہاد کیسے بن گیا؟ اس مجرم کے قول میں کون سا اجتہادی نکتہ ہے؟ جس کا بیان ہے کہ قرآن کریم گھٹیا اور اس میں کم وزن آیات ہیں: اللہ کی قسم! یہ تو قیامت کبریٰ کے مترادف مصیبت ہے۔

تحریف کے قائلین علمائے شیعہ اثناء عشریہ کے نظریات ملاحظہ کریں 

سید علی میلانی اپنی کتاب عدم تحریف القرآن کے صفحہ 34 پر مرزا نوری طبرسی کی مدافعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ مرزا نوری طبرسی کا کبار محدثین میں شمار ہوتا ہے اور ہم ان کا احترام کرتے ہیں کیوں کہ وہ ہمارے اکابر علماء میں سے ایک ہیں ہم ذرہ برابر ان کے بارے میں گستاخی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس کا ہمارے لئے کسی صورت میں جواز پیدا ہوتا ہے مگر ان کا یہ مؤقف سراسر حرام ہے۔ بلاشبہ وہ ہمارے اکابر علماء میں محدث کبیر کہلاتے ہیں ذرا آپ شیعوں کی عبارت کے تضاد کو ملاحظہ فرمائیے۔

(ثم ابصرت الحقیقة صفحہ 294)

ارشاد باری تعالی ہے: 

*اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِه اَوْلِیَاءَ* (الاعراف:3)

*"تم اس چیز کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی جانب سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر سرپرستوں کی اتباع مت کرو"*

یہ آیت اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی دوسرے کی اتباع کے بطلان کے بارے میں نص صریح ہے لیکن شیعوں کے نزدیک امامت کا فرض ہونا ضروری امر ہے تاکہ امام اللہ تعالی کی طرف سے وارد عہد ومیثاق کے بندوں پر تنفیذ کا فریضہ انجام دیں۔ امام کا یہ فریضہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی ان چیزوں کی معرفت کروائیں جسے وہ چاہتے نہیں ہیں، جس دین کو نبی کریم ﷺ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کو جب قرآن کریم کے ذریعہ فیصلہ کرنے کو کہا گیا اور انہیں اس بات کی خبر دی گئی کہ قرآن کریم حق ہے اگر علیؓ کا مؤقف درست ہے تو یہی ہمارا قول ہے اور اگر انہوں نے باطل کو قبول کیا ہے تو یہ آپؓ کی خوبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کی تحکیم امام کی موجودگی میں جائز نہ ہوتی تو علیؓ نے اسی وقت تردید کرتے ہوئے کہہ دیا ہوتا کہ تم قرآن کریم سے فیصلے کا کیسے مطالبہ کررہے ہو جب کہ میں تو اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے تبلیغ کی مہم جوئی کرنے والا امام موجود ہوں! 

اگر شیعہ یہ کہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایک ایسے امام کی موجودگی ضروری ہے جو تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے۔

اس کا جواب یہ ہوگا یہ قول باطل ہے اور یہ دعویٰ بلا دلیل ہے اور اس کی صحت کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ کا کلام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے اور تمام اہل زمین تک پہنچایا جاچکا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ وہ غیر مکلّف ہے اور اس کو پیغام رسالت نہیں پہنچ سکا ہے۔

اگر شیعہ حضرات یہ کہیں کہ جب تک یہ دنیا ہے اس وقت تک ہر زمانے میں ایک امام کی موجودگی ضروری ہے۔ تو یہ دعویٰ خود انکی زبانی باطل ہے کیونکہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو دور دراز علاقہ میں پائے جاتے ہیں اور زمین کے دوسرے کونے پر رہتے ہیں۔ ان کو امام کی بھنک تک نہیں لگی ہے وہ کیسے امام کی تعلیمات صادرہ سے مستفید ہوسکتے ہیں؟ کیونکہ اس کرۂ ارض پر باسی مشرق کے ہوں یا مغرب کے، فقیر ہوں یا ضعیف، عورت ہو یا مرد، مریض ہوں یا تندرست ان تمام کے تمام لوگوں کے لیے امام کا مشاہدہ کرنا ناممکن ہے! لہٰذا ان تک پیغام رسالت کی تبلیغ کی ضرورت ہے۔ 

یہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام کی جانب سے بھی تبلیغ ضروری ہے اور رسول اللہﷺ کی طرف سے تبلیغ کسی اور کی تبلیغ سے کہیں زیادہ موزوں اور افضل ہے یہ وہ جواب ہے جس سے وہ اپنا دامن کبھی بھی چھڑا نہیں سکتے۔

(الفصل فی الملل والنحل:جلد4،صفحہ 159،160)

*سوال: 174*

خود شیعہ حضرات کے نزدیک بعض ایسی صحیح اور مستند روایات ہیں جو ان راویوں کی مذمت کرتی ہیں جنہوں نے اس قسم کی بے سروپا روایات گھڑی ہیں، جنہیں ان کا نام لے کر انہیں بُرا بھلا کہا گیا ہے مگر شیعوں کے مشائخ نے ان راویوں کے بارے میں مذمت کو قبول نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ انہوں نے ان کے بارے میں وارد مذمت کو اگر قبول کرلیا تو وہ اہل سنت کے زمرے میں شمار ہونے لگیں گے اور اپنے شذوذ سے دست بردار قرار پا جائیں گے لہٰذا شیعوں کے مشائخ نے اس مذمت کا سامنا کرنے کے لیے تقیہ کا سہارا لیا ہے مگر یہ اس اشکال کا کوئی جواب نہیں ہے نہ ہی ان روایات کی توجیہ ہے بس یہ تو امام کے قول کے رد کرنے کا ایک چور دروازہ ہے مذہب شیعہ میں امام کی نص کا منکر کافر ہے۔

مذمت کے بارے میں نقاب کشائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کے بارے میں بہت سی قابل عیب باتیں منقول ہیں، جیسے کہ ان کے علاوہ بہت سے جلیل القدر انصار اہل بیت اور ان کے ثقہ اصحاب کے بارے میں قابل مذمت بیانات موجود ہیں اور اس مذمت کا عمومی جواب یہ ہے کہ اس کے لئے تقیہ کو بطور علت استعمال کرنے کا عام رواج ہے۔

(الامام الصادق تالیف: محمد الحسین المظفر، صفحہ:178)

 مصنف لکھتا ہے کہ ان جیسے باعظمت لوگوں کو کیسے ہدف تنقید بنایا جاسکتا ہے کیوں کہ دین حق کا قیام اور اہلبیت کا مشن ان ہی کی دلائل سے غالب ہوا ہے، لہٰذا ان لوگوں کو کس بنیاد پر ہدف جرح وتعدیل بنایا جاسکتا ہے؟

(نفس الموضع من المصدر السابق۔)

آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ تقلید اہل تعصب کو کیسا اندھا بنا دیتا ہے؟ یہ لوگ ایک طرف لوگوں کی مدافعت کرتے ہیں جن کی ائمہ اہل بیت کی زبان سے مذمت صادر ہوئی ہے اور دوسری طرف یہ ان نصوص کی تردید بھی کرتے ہیں جو علمائے اہل بیت کی طرف سے ان پر طعن کی غرض سے ان سے ہوشیار رہنے کے بارے میں صادر ہوئی ہیں جن نصوص اور بیانات کو بذات خود کتب شیعہ نقل کرتی ہیں گویا وہ اپنے اس انداز سے اہل بیت کی تکذیب کرتی ہیں بلکہ ان عیاروں، مکاروں اور جھوٹوں نے جو کہا ہے اس کی تصدیق بھی کر رہے ہیں، یعنی ائمہ سے وارد ان کی مذمتوں اور برائیوں کو تقیہ پر محمول کرتے ہیں اور وہ اہل بیت کے ان اقوال کی اتباع نہیں کرتے ہیں جو اقوال امت کے علماء کے اقوال سے متفق ہوں بلکہ جو امت مسلمہ کے اعداء کے شانہ بشانہ چلنے اور ان کے اقوال وافعال کی پیروی میں ہوں، ان کو قبول کرتے ہیں جبکہ ائمہ کرام کے اقوال رد کرنے کے سلسلے میں تقیہ کا سہارا لیتے ہیں۔

*سوال: 175*

تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور عوام وخواص میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ و عمؓر و عثمانؓ کا نبی کریم ﷺ سے بڑا عظیم اور خاص تعلق تھا اور تمام صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی صحبت اور قرب سے بہرور تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا نبی کریم ﷺ سے سسرالی رشتہ بھی تھا اور نبی کریم ﷺ ان لوگوں سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کی تعریف بھی کیا کرتے تھے۔ مذکورہ پیرایہ بیان سے دو ہی شکلیں اخذ کی جاسکتی ہیں: یا تو یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی زندگی اور آپ ﷺ کی موت کے بعد ظاہری اور باطنی طور پر راہ استقامت پر گامزن تھے یا یہ لوگ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں یا آپ کی موت کے بعد مذکورہ صورتحال کے برعکس راہ پرگامزن تھے۔ اگر یہ نبی کریم ﷺ سے اتنا قریب ہونے کے باوجود استقامت کے علاوہ کسی صورتحال سے دو چار تھے، تب بھی دو صورتیں لازم آتی ہیں یا تو نبی کریم ﷺ کو ان کے ذاتی حالات کا علم نہ تھا یا نبی کریم ﷺ نے چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو ان میں ہر ایک نبی کریم ﷺ کی ذات کے لئے بڑی عظیم طعنہ زنی اور ہجو گوئی ہے کسی عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

*فَاِنْ کُنْتَ لَا تَدْرِی فَتِلْكَ مُصِیْبَةٌ*

*وَاِنْ کُنْتَ تَدْرِی فَالْمُصِیْبَةُ اَعْظَمُ*

*"اگر تم صورتحال سے ناآشنا ہو تو یہ مصیبت ہے اور اگر آشنا ہو تو یہ مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ہے۔"*

اگر صحابۂ کرامؓ استقامت کی راہ پر گامزن ہونے کے بعد انحراف کا شکار ہو گئے آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ دین کے منتخب اور چنیدہ لوگ مرتد ہو جائیں؟ ان الزامات کے ذریعہ شیعہ حضرات رسول اللہ ﷺ کی ذات کو داغ دار اور مجروح کرتے ہیں جیسا کہ امام ابو زرعہ الرازیؒ فرماتے ہیں:

 اس طریقہ سے ان لوگوں نے نبی کریمﷺ کی ذات پر طعنہ زنی کی کوشش کی ہے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ آپ ﷺ کی ذات بڑی بری تھی لہٰذا آپ ﷺ کے اصحابؓ برے تھے اگر آپ ﷺ نیک وصالح ہوتے تو آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ بھی نیک وصالح ہوتے(نعوذ باللہ من ھذا البھتان العظیم)۔

*سوال: 176*

حضرت علیؓ کی بھی تکفیر وتفسیق بھی لازم آتی ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ کے حکم آوری میں کوتاہی سے کام لیا ہے جس کی وجہ سے شریعت اسلامیہ کی بالادستی میں حرج پیدا ہوا اور ایک مدت تک شریعت اسلامیہ کا اسقاط لازم آیا بلکہ اس شریعت کو اس وقت تک باطل ٹھہرانا بھی لازم آتا ہے جب تک مرتد لوگ اس کو نقل کرتے رہے ہیں اور شیعوں کے اس الزام سے قرآن کے تقدس پر قدغن عائد ہوتی ہے کیونکہ قرآن کریم بھی تو ہم تک حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ وعثمانؓ اور ان جیسے جلیل القدر صحابۂ کرامؓ کے واسطہ ہی سے پہنچا ہے یہی وہ خواب ہے جس کو شیعہ حضرات اپنے اس مقولہ سے شرمندہ تعبیر کرنے کے خواہش مند ہیں۔

*سوال نمبر: 177*

شیعوں کا کہنا ہے کہ امامت واجب اور ضروری امر ہے کیونکہ امام شرع اسلامی کی حفاظت ونگہداشت کرنے، مسلمانوں کو سیدھی راہ پر گامزن رکھنے اور احکامات اسلامیہ کمی وزیادتی سے حفاظت کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا نائب ہوتا ہے

(الشیعة فی التاریخ، صفحہ 44،45)

شیعوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے متعین امام کی تخت نشینی ضروری ہے کیونکہ اس عالم رنگ وبو کی ضرورت کا تقاضہ ہی یہی ہے کہ اس میں کسی قسم کا بگاڑ وفساد نہیں ہے لہذا امام کی تاج پوشی ضروری امر ہے

(منھاج الکرامة،صفحہ73،72)

شیعوں کا یہ بھی کہنا ہے امامت کو اس لئے واجب قرار دیا گیا ہے کیونکہ لطف وعنایت کا مقام ہے اور واقعی یہ لطف وعنایت ہے کیونکہ اگر لوگوں کا کوئی قابل اطاعت ناصح ومربی قائد ہوگا تو وہ ظالم کو اس کے ظلم وزیادتی کے رویہ سے باز رکھنے کی کوشش کرے گا اور ان کو خیر کے کاموں کی رہنمائی کرے گا اور برائی ومعصیت سے دور رہنے کی تلقین کرے گا لوگ نیکی اور اچھائی کے گرویدہ ہونے لگیں گے اور فتنہ وفساد سے دور تر ہوتے چلے جائیں گے تو یہی لطف وعنایت ہوگا۔

(اعیان الشیعة جلد 1،2صفحہ6)

شیعہ حضرات سے یہ کہا جائے گا کہ حضرت علیؓ کے علاوہ تمہارے بارہ کے بارہ اماموں میں سے کسی کی بھی کسی منصب تک رسائی نہ ہوسکی، نہ تو ان کو دنیاوی امور میں کوئی سربراہی نصیب ہوئی اور نہ ہی دینی امور میں کسی کلیدی عہدے کی ذمہ داری ان کے ہاتھ آئی اور نہ ہی وہ ظالم کو اس کے ظلم سے روک سکے نہ ہی لوگوں کو خیر کے کاموں کی طرف موڑ سکے۔ آخر تم لوگ خوامخواہ کیوں خیالی دعوے کرتے ہو جو واقعاتی زندگی میں کبھی درپیش نہیں آئے اگر تم ذرا غور وخوض سے کام لو تو تمہاری سمجھ میں آجائے کہ اس دعوے سے ائمہ کی امامت کا بطلان لازم آتا ہے اور مذکورہ قول ہی ان کی امامت کی نقیض ہے کیونکہ تمہارے قول کے مطابق انہیں اس مرتبے کا کبھی حصول نہ ہوسکا جس کا تم دعویٰ کرتے ہو۔

*سوال: 178*

نہج البلاغة میں ہے کہ: حضرت علیؓ اللہ کی بارگاہ میں اس دعا کے ذریعے مناجات کیا کرتے تھے:

*اللّھُمَّ اغْفِرْلِی مَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِهِ مِنِّی فَاِنْ عُدْتُّ فَعُدْ عَلَیِّ الْمَغْفِرَةَ اللّھُمَّ اغْفِرْلِی مَا اَوَیْتُ مِنْ نَّفْسِی وَلَمْ تَجِد لَهُ وَفَاءً عِنْدِی اللّھُمَّ اغْفِرْلِی مَا تَقَرَّبْتُ بِهِ اِلَیْكَ بِهِ بِلِسَانِی ثُمَّ اَلَفَهُ فِی قَلْبِی، اللّھُمَّ اغْفِرْلِی رَمَزَاتِ الْاَلْحَاظِ وَسجقَطَاتِ الْاَلْفَاطِ، وَجَسَھَوَاتِ الْحِبَانِ وَھَفَوَاتِ اللِّسَانِ.*

*"اے میرے اللہ! میری مغفرت فرما جو کچھ تو میرے متعلق جانتا ہے اگر میں وہ گناہ دوبارہ کروں مغفرت کو مجھ پر دوبارہ فرما دے: اے میرے اللہ! میری مغفرت فرما اس چیز سے جس کا میں نے اپنے نفس سے وعدہ کیا تھا مگر میں ایفا نہ کرسکا، اے میرے اللہ! تو میری مغفرت فرما جس کے ذریعہ میں نے اپنی زبانی تیرا تقرب حاصل کیا تھا پھر وہ چیز میرے قلب میں جاگزیں ہو گئی اے میرے اللہ! میری نگاہوں کے اشاروں اور کنکھیوں کے کناروں اور الفاظ کی لغزشوں اور دل کی غلط خیالوں اور زبان کی غلطیوں کو معاف فرما۔"

(نھج البلاغة، شرح ابن ابی الحدید:جلد6،صفحہ 176)

مذکورہ الفاظ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ حضرت علیؓ اللہ کے حضور دست دعا دراز کر کے درخواست کر رہے ہیں کہ ان سے جانے اور ان جانے میں جو لغزشیں ہوگئی ہیں ان سے درگزر کا معاملہ فرمائے۔ اے شیعہ حضرات! حضرت علیؓ کی یہ دعا تمہارے اس دعوائے عصمت کے منافی ہے جس کا تم حضرت علیؓ کے لئے اثبات کرتے ہو۔

*سوال: 179*

شیعوں کا اعتقاد ہے کہ نبیوں میں سے کوئی ایسا نبی نہیں گزرا ہے جس نے حضرت علیؓ کی ولایت کی دعا نہ کی ہو

(بحار الانوار:جلد 11صفحہ 60 اور المعالم الزلغی،صفحہ303) 

اللہ تعالی نے نبیوں سے حضرت علیؓ کی ولایت کا عہد وپیمان لیا ہے،(المعالم الزلغی، صفحہ:303) بلکہ شیعہ حضرات حضرت علیؓ کے بارے میں مبالغہ آرائی اور غلو کاری کر گئے ہیں حتیٰ کہ ان کے مذہبی شیخ طہرانی نے حضرت علیؓ کی ولایت کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا ہے: "ان کی ولایت کو ہر چیز پر پیش کیا گیا جس نے آپؓ کی ولایت کو قبول کیا وہ چیز اچھی ہوگئی اور جس چیز نے آپؓ کی ولایت کو قبول نہ کیا وہ چیز فاسد اور خراب ہوگئی۔

(ودائع النبوة للطھرانی،صفحہ 155)

شیعہ حضرات سے کہا جائیگا کہ انبیاء کرامؑ کی دعوت کا محور توحید خالص تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اللہ کی خالص عبادت کی جائے نہ کہ انبیاءؑ کی دعوت کا مرکز ولایت علیؓ کا اقرار تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے: 

*وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْ اِلَیْهِ اَنَّهُ لَا اِلهَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ*

(الانبیاء:25)

ترجمہ:

*"اور ہم نے آپﷺ سے قبل جو رسول بھیجے ان کی طرف بھی یہی وحی نازل کی کہ صرف میری عبادت کی جائے۔"*

اگر حضرت علیؓ کی ولایت واجب ہوتی تو تمام انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں لکھی ہوئی ہوتی تو صرف شیعہ حضرات انفرادی طور پر اسے نقل کرتے نظر نہ آتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ولایت علیؓ کو شیعوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا ہے۔ اس ولایت کو کم از کم اہل کتاب کیوں نہیں جانتے ہیں؟ ان میں سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا مگر انہیں اس ولایت کا پتہ تک نہ تھا اور نہ انہوں نے زبان سے اس کا تذکرہ ہی کیا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے جائیں اس ولایت کو قرآن کریم میں کیوں نہیں لکھا گیا حالانکہ قرآن کریم تو تمام کتابوں کا محافظ اور نگران ہے؟

*سوال: 180*

شیعہ حضرات کی خدمت میں سوال یہ ہے کہ کیا ائمۂ کرام نے متعہ کیا تھا؟ 

ان کے عقد متعہ کے ذریعے پیدا شدہ صاحبزادے کون سے ہیں براہ کرام ان کے اسمائے مبارکہ سے ہمیں آگاہ فرما دیں؟

*سوال: 181*

شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ ائمہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم رکھتے ہیں۔ وہ علم غیبیہ میں سے ایک ایک چیز کی خبر رکھتے ہیں ان پر کوئی چیز مخفی نہیں ہوتی ہے اور حضرت علیؓ تو باب العلم، یعنی علوم ومعارف کا مخزن یا اس کا دروازہ ہیں۔ 

تو حضرت علیؓ مذی کے احکام سے ناآشنا کیوں تھے؟ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص کو اس کے متعلقہ احکامات دریافت کرنے کیلئے کیوں بھیجتے وہ نبی کریم ﷺ سے اس سے متعلق احکامات معلوم کرکے انہیں اس سے آگاہ کرے؟۔

*سوال: 182*

شیعوں کے نزدیک صحابۂ کرامؓ کا سب بڑا جرم حضرت علیؓ کی ولایت وامامت سے ان کا انحراف اور گریز کرنا ہے اور ان کو خلافت کے منصب پر فائز نہ کرنا ہے شیعہ کے خیال میں اسی اقدام نے صحابہؓ سے عدالت کو ساقط کر دیا ہے لیکن اے شیعو! تم کو کیا ہوگیا ہے تم یہی حکم اور یہی رویہ شیعوں کے ان بعض فرقوں کے ساتھ روا کیوں نہیں رکھتے جو تمہارے بعض ائمہ کو ماننے سے انکار کرتے ہیں جیسے کہ فرقہ فطحیہ اور وافقہ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ! بلکہ تم لوگ اس فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو قابل حجت اور حامل ثقاہت وعدالت گردانتے ہو(مثال کے  طور پر ملاحظہ ہو:-

رجال الکشی،صفحہ465،445،219،27، 

رجال النجا شی،صفحہ،139،95،86،76،53،28 اور جامع الرواة لارد بیلی:جلد 1،صفحہ 413)

یہ کیسا تضاد اور تناقض ہے؟

*سوال: 183*

شیعوں کے مصادر ومراجع ائمہ اور غیر ائمہ کے لئے تقیہ پر عمل کرنے کے بارے میں متفق ہیں۔ تقیہ سے مراد یہ ہے کہ امام دل کی بات چھپائے، یعنی اندر کچھ ہو اور ظاہر کچھ ہو اور کبھی کبھی غیر حق بات کا اظہار کرے ۔سوال یہ ہے جو شخص تقیہ کو استعمال کرے کیا وہ معصوم ہو سکتا ہے یا اس کو معصوم تصور کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کو لازمی طور پر جھوٹ بولنا پڑے گا اور جھوٹ بولنا معصیت ونافرمانی ہے اور نافرمان شخص کہاں سے معصوم ہو سکتا ہے؟

*سوال: 184*

شیعوں کا امام کلینی رقم طراز ہے حضرت علیؓ کے بعض انصار ومعاونین نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ سابقہ خلفاء نے جو بگاڑ اور فساد پیدا کر دیا تھا وہ اس کی اصلاح فرما دیں حضرت علیؓ نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر رد فرما دیا تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو خطرہ ہے کہ ان کی فوج میں بغاوت ہو جائے گی

(الروضة للکلینی صفحہ 29)

مزید فرماتے ہیں: آپ کو معلوم ہے جو چیزیں ان لوگوں نے اسلاف خلفاء راشدینؓ سے منسوب کی تھیں ساری کی ساری قرآن وسنت سے مخالفت رکھتی تھیں۔ کیا علیؓ نے اپنے اسلاف کے اختلافات کو من وعن رہنے دیا وہ عصمت سے مناسبت رکھتی ہوں جس کا شیعہ حضرات ائمہ کے لئے دعویٰ کرتے ہیں؟

*سوال: 185*

حضرت عمرؓ نے چھ اشخاص پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جسے آپؓ کی وفات کے بعد باہم مشورے سے خلیفہ کا چناؤ کرنا تھا۔ ان میں سے تین دست بردار ہوگئے، بعد میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ دست کش ہو گئے، آخر میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ باقی رہ گئے اس موقع پر حضرت علیؓ نے ابتداء ہی میں یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ بلاشبہ میں خلافت کے معاملے میں مصداق وحی ہوں۔۔ کیا وہ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد کسی سے خوفزدہ تھے؟