Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں خوبصورت مواقف

  ابو شاہین

واقعہ کربلا کے حوالے سے بعض ایسے خوبصورت مواقف بھی کتب تاریخ میں محفوظ ہیں، جو ہمارے مشاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں، تاریخ نے ان مواقف کو اپنے اصحاب کے لیے اس لیے محفوظ رکھا ہے تاکہ لوگوں پر یہ بات عیاں رہے کہ ہر زمانے میں کچھ ایسی شخصیات موجود رہی ہیں، جو رجال کار کے پہلو میں ان کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے ڈٹ کر کھڑی ہو جایا کرتی ہیں تاکہ ان کی حرمت کا پاس رہے اور جب لوگ ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے ہوں تو ان میں تقابل کرتے وقت حق کو ظاہر کیا جا سکے۔ وہ لوگوں کے اجتماعی مقام و مرتبہ کی وجہ سے ان کی قدر کرتے اور دوسروں پر انہیں ترجیح دیتے تھے اور یہ اس لیے کہ وہ علم و شجاعت اور تقویٰ و طہارت جیسے اوصاف سے متصف ہوتے ہیں اگرچہ دوسرے لوگ حکام و امراء ہی کیوں نہ ہوں، انہیں نہ تو حاکم کا خوف ہی رجال کار کی قدر و منزلت سے ناآشنا کرتا ہے نہ ان کا ظلم و جور انہیں نفاق اور مصلحت پسندی کی طرف منحرف کرتا ہے اور نہ ان کے عہدے اور مناصب ہی انہیں حق گوئی اور ادبی شجاعت سے باز رکھتے ہیں۔

 (الامویون فی الشرق و الغرب: جلد، 1 صفحہ، 249)

1 :ولید بن عتبہ بن ابو سفیان رحمہ اللہ کا موقف

 ولید بن عتبہؒ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ سنگ دلی کا مظاہرہ کرنے اور سختی برتنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، و اللہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ مجھے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے عوض ساری دنیا کا مال و زر مل جائے، سبحان اللہ، کیا میں حضرت حسین ؓ کو قتل کروں گا۔ اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ جس شخص سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خون کا حساب لیا جائے گا، قیامت کے دن اس کا ترازو ہلکا ہو گا۔ جب ولیدؒ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ قابل تعریف موقف اختیار کیا، اس وقت وہ مدینہ منورہ کا امیر تھا اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا یہ موقف اس کی امارت مدینہ منورہسے معزولی کا سبب بنے گا، بلکہ یہ موقف اس کی ہلاکت پر بھی منتج ہو سکتا ہے، مگر وہ اس کے باوجود دنیوی ہلاکت اور حکومت و بادشاہت کے زوال کو اس بات پر ترجیح دیتا ہے کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خون کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے۔