Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اعتراض : میں نے تم سے اس لیے قتال نہیں کیا کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو یا زکوۃ ادا کرو۔ (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)

  مولانا ابوالحسن ہزاروی

اعتراض : میں نے تم سے اس لیے قتال نہیں کیا کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو یا زکوٰۃ ادا کرو۔ (حضرت امیر معاویہؓ)

( ۳۱۱۹۷ ) حدثنا أبو معاوية ، عن الأعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن سعيد بن سويد ، قال : صلى بنا معاوية الجمعة بالتخيلة في الصحى ، ثم خطبنا فقال : ما قاتلتكم لتصلوا ولا يتصوموا ولا يتحجوا ولا يتركوا ، وقد أعرف أنكم تفعلون ذلك، ولكن إنما قاتلتكم لاتأمر عليكم، فقد أعطاني الله ذلك وأنتم كارهون.

(۳۱۱۹۷) حضرت سعید بن سوید فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو حضرت معاویہ نے نخیلہ کے مقام پر زوال کے وقت جمعہ پڑھایا پھر ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا کہ میں نے تم سے اس لیے قتال نہیں کیا کہ تم نماز پڑھنے لگو نہ اس لئے کہ تم روزے رکھنے لگو ، نہ اس لئے کہ تم حج کرنے لگو ، اور نہ اس لئے کہ تم زکوۃ ادا کر نے لگو ، میں خوب جانتا ہوں کہ تم میں سب کام کرتے ہو، میں نے تم سے اس لئے قتال کیا تا کہ میں تم پر حکومت کروں ، پس اللہ تعالی نے مجھے یہ اختیار دے دیا ہے اور تم اس کو نا پسند کر تے ہو۔

یہ روایت ضعیف ہے۔

مُعَاوِيَةُ: مَا قَاتَلْتُكُمْ لِتُصَلُّوا وَلاَ لِتَصُومُوا وَلاَ لِتَحُجُّوا وَلاَ لِتُزَكُّوا ..
قال ابن ابي شيبة : " 31197 - حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُوَيْد، قَالَ : صَلَّى بِنَا مُعَاوِيَةُ الْجُمُعَةَ بِالنُّخَيلَةِ فِي الضُّحَى، ثُمَّ خَطَبْنَا فَقَالَ : مَا قَاتَلْتُكُمْ لِتُصَلُّوا وَلاَ لِتَصُومُوا وَلاَ لِتَحُجُّوا وَلاَ لِتُزَكُّوا، وَقَدْ أَعْرِفُ أَنَّكُمْ تَفْعَلُونَ ذَلِكَ، وَلَكِنْ إنَّمَا قَاتَلْتُكُمْ لأَتَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ، فَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ ذَلِكَ وَأَنْتُمْ كَارِهُونَ " اهـ.[1]
قال الامام ابن حجر : " ومن طريق سعيد بن سويد قال صلى بنا معاوية الجمعة ضحى وسعيد ذكره بن عدي في الضعفاء " اهـ.[2]
قال الامام البخاري : " 1594 - سعيد بن سويد قال إسماعيل بن خليل أخبرنا علي بن مسهر سمع الأعمش عن عمرو بن مرة عن سعيد رجل منهم صلى بنا معاوية الجمعة بضحى " اهـ.[3]
وقال الامام الذهبي : " 3209 - سعيد بن سويد.
ذكره ابن عدى مختصرا. وقال البخاري: لا يتابع في حديثه" اهـ.[4]
قال الامام ابن رجب : " وأما أكثر الحفاظ المتقدمين فإنهم يقولون في الحديث - إذا تفرد به واحد - وإن لم يرو الثقات خلافه - : إنه لا يتابع عليه، ويجعلون ذلك علة فيه، اللهم إلا أن يكون ممن كثر حفظه واشتهرت عدالته وحديثه كالزهري ونحوه، " اهـ.[5]
1 - المصنف – ابو بكر عبد الله بن محمد بن ابي شيبة – ج 11 ص 93.
2 - فتح الباري – احمد بن علي بن حجر - ج 2 ص 387.
3 - التاريخ الكبير – محمد بن اسماعيل البخاري – ج 3 ص 477.
4 - ميزان الاعتدال - محمد بن احمد الذهبي - ج 2 ص 145.
5 - شرح علل الترمذي -  عبد الرحمن بن أحمد بن رجب - ج 1 ص 216.