حر بن یزید رحمہ اللہ کا موقف
ابو شاہینلشکر کوفہ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے والے یہ پہلے شخص تھے اور انہوں نے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے واپسی کو ناممکن بنایا تھا، مگر اس کے ساتھ ساتھ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی لائق ستائش تھا، انہوں نے آپ سے کہا، مجھے آپ کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، مگر مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر میری آپ سے ملاقات ہو جائے تو آپ کو کوفہ لے جاؤں۔ مگر میں پھر بھی آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنے لیے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کر لیں جو نہ آپ کو کوفہ پہنچائے اور نہ مدینہ منورہ واپس ہی لے جائے۔ اس کے بعد میں یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ یا ابن زیاد کو خط لکھ دوں گا اور اگر آپ چاہیں تو خود بھی یزید یا ابن زیاد کو لکھیں، شاید اللہ میرے لیے خلاصی کی کوئی صورت پیدا کر دے اور میں آپ کے بارے میں امتحان سے بچ جاؤں۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت عمر بن سعد بن ابی وقاصؓ ایک لشکر کی قیادت کرتے ہوئے آ گیا اور فریقین آمنے سامنے نظر آنے لگے، اس سے حرؒ کو یقین ہو گیا کہ اب فریقین میں جنگ ہو کر رہے گی۔ اس وقت حرؒ نے حضرت عمر بن سعدؓ سے کہا، اللہ تجھے ہدایت دے، کیا تم اس شخص سے لڑو گے؟ عمر نے جواب دیا، ہاں اللہ کی قسم! کم از کم ایسی جنگ جو سر اڑائے اور ہاتھوں کو شل کردے۔ اس وقت حرؒ نے اپنے گھوڑے کو ضرب لگائی اور جا کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل ہو گئے، پھر کہنے لگے: اے اہل کوفہ! اللہ تمہیں ہلاک و برباد کرے، تم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ جب وہ چلے آئے تو انہیں دشمن کے حوالے کر دیا۔ تم کہتے تھے کہ ان پر اپنی جانیں نثار کر دیں گے اور اب انہیں قتل کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہو رہے ہو اور تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی وسیع و عریض زمین میں جانے سے روک دیا حالانکہ اس میں آنے جانے سے کتوں اور خنزیروں کو بھی نہیں روکا جاتا۔ تم ان کے اور دریائے فرات کے پانی کے درمیان حائل ہو گئے ہو، جس سے کتے اور خنزیر بھی پیا کرتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ پیاس کی شدت نے ان سب لوگوں کو ہلاک کر رکھا ہے۔ تم لوگوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی ذریت سے کتنا برا سلوک کیا، اگر تم آج اور اسی وقت اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور تم اللہ کے حضور توبہ نہ کی تو اللہ تمہیں قیامت کے دن بڑی تشنگی سے دوچار کرے۔
حرؒ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے پہلے موقف کے بارے میں معذرت کی جسے انہوں نے قبول فرما لیا، جب ان کے بعض ساتھیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی صف میں شامل ہونے پر انہیں ملامت کی تو وہ کہنے لگے،
واللہ! میں اپنے نفس کو جنت یا جہنم میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیتا ہوں اور و اللہ! میں جنت کے علاوہ کسی اور چیز کا انتخاب نہیں کروں گا، اگرچہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں اور مجھے جلا دیا جائے۔ ( تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 355 اور 356)
حر بن یزیدؒ نے حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کر لیا، جب انہوں نے صلح کی طرف اپنا میلان ظاہر کیا اور انہیں اس بات کا علم ہو گیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف میرا موقف عدل و انصاف پر مبنی نہیں ہے اور میں اس آدمی سے کیسے جنگ کروں جو صلح کی دعوت دیتا، اس کا مطالبہ کرتا اور صلح کرنے کے لیے دشمن کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے، مردانگی اس امر کی متقاضی ہے کہ اس صلح جو آدمی کے بارے میں میرا موقف یہ ہونا چاہیے کہ اس سے تعاون کیا جائے اور اس کے موقف کو تقویت دی جائے اور عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ حق صلح پسند آدمی کے ساتھ ہے۔
حر بن یزید رحمہ اللہ جانتے تھے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہونا اور ان کی طرف میلان رکھنا، اس کے موت کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں ہیں، مگر انہوں نے اس موت کو پسند کیا جو انہیں جنت تک رسائی دلا دے۔
(الامویون، وکیل: جلد، 1 صفحہ، 252)