Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا حسین، ابنائے حسین اور ذریت حسین رضی اللہ عنہم کی شہادت کے بارے یزید کا موقف

  ابو شاہین

عبیداللہ بن زیاد نے خط لکھ کر یزید بن معاویہ کو واقعہ کربلا کے بارے میں آگاہ کیا اور فرزندان حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی خواتین کے بارے میں اس سے مشورہ طلب کیا، جب یزید کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو وہ رونے لگا، اس نے کہا، اے اہل عراق! میں قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بغیر بھی تمہاری اطاعت پر راضی تھا، بغاوت اور نافرمانی کی یہی سزا ہوا کرتی ہے، اللہ تعالیٰ پسر مرجانہ پر لعنت کرے، اگر اس میں اور ان لوگوں میں قرابت ہوتی تو وہ ان سے یہ سلوک نہ کرتا۔ اللہ کی قسم اگر میں وہاں ہوتا تو میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں درگزر سے کام لیتا، اللہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما پر رحم فرمائے۔ (انساب الاشراف:جلد، 3 صفحہ، 219 اور 220 حسن سند کے ساتھ۔ مواقف المعارضۃ: صفحہ، 208)

دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کہا: و اللہ! اگر میں وہاں ہوتا اور اپنی عمر کے کچھ حصے کے بغیر ان سے قتل کو نہ روک سکتا تو ایسا ضرور کرتا۔ 

(الاباطیل و المناکیر، جوزقانی: جلد،1 صفحہ، 265 اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، البتہ شعبی اور مدائنی میں انقطاع ہے)

یزید نے یہ اطلاع ملنے پر قیدیوں کو اپنے پاس بھیجنے کا حکم دیا، ذکوان ابو خالد نے انہیں دس ہزار درہم دئیے جن کے ساتھ انہوں نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔ (الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 393) 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن زیاد نے آل حسین رضی اللہ عنہ کو تکلیف دہ صورت میں اونٹوں پر سوار نہیں کرایا تھا اور نہ انہیں زنجیروں میں جکڑا ہی تھا، جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے۔ (المحن: صفحہ، 155 مواقف المعارضۃ: صفحہ، 282) 

ہم قبل ازیں پڑھ چکے ہیں کہ ابن زیاد نے واقعہ کربلا کے قیدیوں کو ایک الگ مکان میں ٹھہرایا، انہیں لباس دیا، اخراجات ادا کیے اور ان کی خوراک کا بندوبست کیا۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ، 283)

عوانہ کی روایت بتاتی ہے کہ مخضر بن ثعلبہ پسران حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے پاس لے کر آیا، (تاریخ طبری: جلد، 5 صفحہ، 394) جب وہ یزیدکے دربار میں پہنچے تو حضرت فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہما کہنے لگیں، اے یزید! کیا بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیدی ہیں؟ اس نے کہا، نہیں، آزاد ہیں، باعزت ہیں، تم اپنے چچا کی بیٹیوں کے پاس چلی جاؤ، وہ تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گی جو میں نے کیا۔ سیدنا فاطمہؓ کہتی ہیں، جب میں ان کے پاس گئی، تو ابوسفیان کی اولاد میں سے کوئی عورت ایسی نہ ہوگی جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں رو نہ رہی ہو۔ (تاریخ طبری: جلد، 5 صفحہ، 395) 

جب حضرت علی (زین العابدین) بن حسین رضی اللہ عنہما اندر تشریف لائے، تو یزید کہنے لگا، تمہارے باپ نے مجھ سے قرابت کو منقطع کیا اور مجھ پر ظلم کیا، اب اللہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا تو وہ تم دیکھ ہی رہے ہو۔ سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہما معرکہ کربلا میں اپنی بیماری کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تھے، انہیں دوسرے بچوں اور عورتوں کے ساتھ یزید کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ (الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 221 مواقف المعارضۃ: صفحہ، 278)

 حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے جواب میں اس قرآنی آیت کی تلاوت فرمائی:

مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo (سورۃ الحدید، آیت 122)

’’نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ خاص تمہاری جانوں پر مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوتی ہے یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔‘‘

یزید نے اپنے بیٹے خالد سے اس کا جواب دینے کا مطالبہ کیا تو وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ یزید کہنے لگا، اس کے جواب میں یہ آیت پڑھ دے:

وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ (سورۃ الشوریٰ، آیت 30)

’’تمہیں جو بھی مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہیں اور وہ بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔‘‘

بعض تاریخی روایات میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی شامی نے یزید سے مطالبہ کیا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ایک بیٹی اسے دے دی جائے۔ (تاریخ طبری: جلد، 6 صفحہ، 392 ابو مخنف کی روایت) مگر یہ کھلا جھوٹ ہے جو کسی صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، علاوہ ازیں یہ آل حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ یزید کے احترام پر مبنی رویے کے بھی خلاف ہے، اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یزید نے آل حسین رضی اللہ عنہ کو عوام الناس کے سامنے پیش نہیں کیا تھا کہ ان میں سے جو چاہے اور جسے چاہے پسند کر لے۔ 

(البدء و التاریخ: جلد، 6 صفحہ، 12)

یزید نے ہر ہاشمی خاتون کو پیغام بھیج کر اس سے دریافت کیا کہ اس سے کیا کچھ لیا گیا ہے۔ جس خاتون نے جو دعویٰ کیا اس نے اس سے دوگنا اسے واپس کیا۔ یزید صبح و شام کا کھانا سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھاتا، (الطبقات: جلد، 5 صفحہ، 397) یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک یزید کے پاس دمشق بھیجا گیا، مگر یہ بات ثابت نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس کوفہ میں ہی موجود رہا۔

(حقبۃ من التاریخ: صفحہ، 161)