سنی لڑکی کا نکاح شیعہ مرد کے ساتھ کر دیا تو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں
سنی لڑکی کا نکاح شیعہ مرد کے ساتھ کر دیا تو یہ نکاح صحیح ہے یا نہیں
سوال: شیعہ اور سنی کا نکاح باہم درست ہے یا نہیں؟ اگر بوجہ غلطی کے سنیہ کا نکاح شیعہ سے ہو گیا اور ابھی تک رخصت نہ ہوئی تھی تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب نمبر: (1) باہم مناکحت شیعہ و سنیوں کی جائز نہیں ہے۔ سنیہ لڑکی جس کا نکاح شیعہ مرد سے کیا گیا ہے وہ نکاح جائز نہیں ہوا، لڑکی کو رخصت نہ کیا جائے اور اس شیعہ کے قبضہ میں نہ دیا جائے، دوسرے سنی مرد سے اس لڑکی کا نکاح کر دیا جائے۔
جواب نمبر: (2) پس صورتِ مسئلہ میں نکاح اوّل جو شیعہ غالی سے ہوا صحیح نہیں ہوا۔ بلکہ باطل ہوا، اور دوسرا نکاح صحیح ہے۔
جواب نمبر: (3) رافضی اگر غالی ہے یعنی سب شیخینؓ کرتا ہے اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے افک کا قائل ہے اور دیگر عقائدِ کفریہ کا معتقد ہے تو وہ مرتد ہے، سنیہ عورت کا نکاح اس سے درست نہیں ہوا، اور یہ سنیہ لڑکی دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
جواب نمبر: (4) اس صورت میں آپ اپنی دختر کا نکاحِ ثانی کر دیں، کیونکہ رافضی تبرائی سے سنی عورت کا نکاح منعقد نہیں ہوتا، اور اگر نکاح کے بعد رافضی ہو جائے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
جواب نمبر: (5) سنی لڑکی کا نکاح شیعہ مرد کے ساتھ بہت سے علماء کے فتویٰ میں درست نہیں ہے، اس لئے ہر گز سنی عورت کا شیعی مرد سے نکاح نہ کرے۔
جواب نمبر: (6) سنی عورت کا نکاح شیعہ مرد سے جائز نہیں۔
جواب نمبر: (7) اگر شیعہ غلطی وحی یا اُلوہیت سیدنا علیؓ یا افک سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا قائل ہو یا قرآن مجید میں کمی بیشی ہونے کا معتقد ہو یا صحبتِ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا منکر ہو، تو ایسے شیعوں کے ساتھ سنی لڑکی کا نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ اور چونکہ شیعوں میں تقیہ کا مسئلہ شائع اور معمول ہے اس لئے یہ بات معلوم کرنی مشکل ہے کہ فلاں شیعہ قسم اوّل میں سے ہے یا قسم دوم میں سے۔
جواب نمبر: (8) مذکورہ صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا، بوجوہ ذیل .... ایک کثیر جماعت علماء کی اس طرف گئی ہے کہ مطلقاً سنی عورت کا نکاح شیعہ مرد کے ساتھ کسی حال میں منعقد نہیں ہوتا اگرچہ اس کا شیعہ ہونا بوقت نکاح ظاہر بھی ہو۔ اور یہ اس لئے کہ آج کل شیعہ عموماً وہ لوگ ہیں جو قطعیاتِ اسلام کا انکار کرتے ہیں مثلاً: سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتے ہیں یا تحریفِ قرآن وغیرہ کے قائل ہیں، اور اس عقیدے کے لوگ باجماع امت کافر ہیں۔ البتہ جو شیعہ قطعیات کے منکر نہیں ان کے بارے میں احوط یہی ہے کہ کفر کا حکم نہ کیا جائے۔
(فتاویٰ رحیمیہ جلد 8، صفحہ 203)