خطبہ شقشقیہ اور اہل سنت مؤقف
الشیخ شفیق الرحمٰن الدراویخطبہ شقشقیہ اور اہل سنت مؤقف
٭. ... شیعہ کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خلافت کے متعلق فرمایا: اللہ کی قسم! اسے ابن ابی قحافہ نے چوری کر کے رکھ دیا اور وہ خلافت میں میرا حق جانتے تھے۔ میرا مقام خلافت میں ایسے ہے جیسے چکی کا پاٹ جس سے سیلاب ایک طرف ہو کر گزر جاتا ہے اور پرندہ وہاں تک پہنچ نہیں پاتا۔
ردّ:.... (۱) ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اور مقام اس سے بلند و بالا ہے کہ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسی بات کہیں یا پھر اپنے متعلق خلافت کا دعوی کریں ۔اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی کا حق نہیں مارا تھا اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے ویسے ہی مستحق ہوتے جیسے اس تنقید نگار کا دعوی ہے تو تمام لوگ آپ کی بیعت کر لیتے اس پر شیعہ اور اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے۔
۲۔ بطور مناظرہ فرض کر لیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کچھ فرمایا بھی تھا، تو بھی اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے اور نہ ہی یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح ہے۔ بلکہ یہ قول خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کا موجب بن رہا ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت بغیر کسی اکراہ کے بالاجماع منعقد ہوئی تھی۔ مہاجرین و انصار بشمول بنو ہاشم نے بغیر کسی جبر اور زبردستی کے بیعت کی تھی۔ ایسا کرنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ طرف سے کسی کی حق تلافی میں نہیں تھا۔
لیکن یہ دعویٰ کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ جانتے ہیں مجھے خلافت کے لیے وہی حیثیت حاصل ہے جو چکی کے لیے چرخ کی ہوتی ہے۔ تو ہم کہتے ہیں اللہ کی پناہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایسی شخصیت سے آگے بڑھیں جس کا خلیفہ ہونا نص سے ثابت ہو اور اگر خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق ہوتی تو لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لیتے۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو یہ بھی پتا چل گیا کہ خلافت کے صحیح حق دار اور اس منصب کے اہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل تار عنکبوت سے زیادہ قوت نہیں رکھتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دلائل کے سیلاب میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے ہیں ۔
۳۔ یہ بات تو واضح دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی۔ بھلے یہ پہلے مرحلہ میں ہو یا پھر چھ ماہ بعد۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علی نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہا جسے خطبہ ’’شقشقیہ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اوریہ باتیں جھوٹ گھڑا کر آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ، تو ہمارا کلام حق اور درست ہے اور اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے تقیہ سے بیعت کی تھی تو ہمارا جواب یہ ہے کہ حاشا و کلا کہ حق واضح اور جلی نصوص کی روشنی میں آپ کے ساتھ ہو اور پھر آپ کسی شخص کی وجہ سے حق سے تنازل کر لیں ۔ یا ظاہری طور پر تقیہ کرتے ہوئے کسی کی بیعت کر لیں ، یہ تو عین منافقت اور بزدلی ہے، ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس سے منزہ مانتے ہیں ۔
۴۔ کیا اس تنقید نگار نے تمام نہج البلاغہ پڑھی ہے، یا پھر صرف چند فقرے پڑھ لیے تاکہ اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے انہیں بطور دلیل پیش کر سکے۔ اگر ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خطوب پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں بہت کچھ اس دعوی کے برعکس نظر آئے گا۔ آپ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں اپنے خلافت و بیعت کے حق دار ہونے پر اس کلام سے دلیل پیش کرتے ہیں کہ بے شک میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان کی بیعت کی تھی اور یہ بیعت اسی بات پر ہوئی ہے جس پر ان کی بیعت ہوئی تھی۔
[نہج البلاغۃ: ص: ۳۶۶]
سبحان اللہ! یہ کلام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے ساتھ کیسے موافقت کر سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت غصب کر لی تھی۔ حالانکہ آپ تو یہ فرماتے ہیں کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضي الله عنهم کی بیعت کی تھی اور پھر اس قول کے ساتھ مطابقت کیسے ہو سکتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں : اسے یہ علم ہے کہ میرا مقام ایسے ہی ہے جیسے چکی کے پاٹ اور چرخی، اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : شاہد کو اپنے انتخاب کا اختیار نہیں اور غائب اس کا انکار نہیں کر سکتا اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : شوری مہاجرین اور انصار کے مابین ہے۔ جب وہ کسی آدمی پر جمع ہو جائیں اور اسے اپنا امام بنا لیں تو اس میں اللہ کی رضامندی ہے....‘‘
پھر آگے چل کر کہتے ہیں : بے شک حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور انہیں خلافت سے روکنے کی کوشش کی تھی اور اگر ان کی بیماری نہ ہوتی تو وہ بھرپور مقابلہ کرتے اور ان سے جنگ بھی کرتے....‘‘ اس طرح کا کلام کافی طویل ہے۔
اسم الكتاب:
دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین
وصف الكتاب:
کتاب کا نام: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین
مصنف: قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب