Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غزوہ تبوک کے وقت مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

غزوہ تبوک کے وقت مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کے جانشین


رسول اللہ ﷺ اپنے طریقہ کار کے مطابق اسلامی لشکر کو مسلح کرنے اور وسائل سفر مہیا کرنے کے بعد غزوہ تبوک کی طرف نکلنے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں سیدنا محمد بن مسلمہؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ ایک روایت کے مطابق  سیدنا سباع بن عرفطہ غفاریؓ کو اپنا قائم مقام بنایا جو غفار قبیلے کے فرد تھے اور بدر کے قریب رہائش پذیر تھے۔ یہ فیصلہ آپ ﷺ کی تعلیمات کا عکاس ہے کہ اسلام میں عہدے خاندانی تعلقات یا قبائل کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے بلکہ اہلیت و قابلیت اور اسلامی خدمات کی بدولت عطا ہوتے ہیں ۔ 
تبوک کا سفر لمبا تھا اور پھر یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ رومیوں سے لڑائی میں کتنے دن لگنے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر اپنے اہل بیت کی خبر گیری  کے لیے سید ناعلی رض کو مدینہ منورہ میں چھوڑا۔ منافقین اپنے تمام حربے بری طرح ناکام ہوتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔ سیدنا علی رض کو مدینہ منورہ میں دیکھ کر  انھیں اپنے زہریلے تیر چلانے کا ایک نیا موقع مل گیا۔ انھوں نے سیدنا علیؓ  کو اپنے نشانے پر رکھ لیا اور طعن وتشنیع کے تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔ کسی نے یہ زہر یلا جملہ کسا کہ رسول اللہ (ﷺ) اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے علیؓ کو مدینہ چھوڑ گئے ہیں کیونکہ آپ علیؓ کو اپنے لیے بوجھ سجھتے ہیں۔ یہ جملہ سیدنا علیؓ  کے لیے بڑا تکلیف دہ ثابت ہوا۔ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ انھوں نے اپنا اسلحہ سنبھالا ، سواری پکڑی اور مدینہ منورہ سے  تین کلومیٹر دور مقام جرف پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ وہ نہایت دکھی انداز میں عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑ کر جارہے ہیں۔ منافقین مجھ پر طنز کر رہے ہیں کہ آپ نے اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے مجھے مدینہ منورہ چھوڑا ہے۔ اس موقع  پر رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائی کو دلاسہ دیتے ہوئے یہ لازوال جملہ ارشاد فرمایا:

«أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي»

” کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسی علم کے لیے ہارون علینا تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔‘‘
اس طرح رسول اللہ ﷺ نے منافقین کے کردار کی نفی کی اور ان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے بھائی کو تسلی دی۔سیدنا علیؓ آپ کی یہ فرحت بخش تسلی سن کر واپس اپنی ذمہ داری نبھانے مد بین منورہ آگئے ۔

صحيح البخاري : 4416 ، صحیح مسلم : 2404، السيرة لابن هشام : 163/4، المغازي للواقدي :384,383/2،
موسوعة الغزوات الكبرى : 1797/2، السيرة لابن إسحاق :598/2.

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مؤرخین علامہ ابن اسحاق، ابن ہشام، واقدی وغیرہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کے نائب سیدنا محمد بن مسلمہؓ  یا سباع بن عرفطہؓ  کو قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر صحیح  روایات میں سیدنا علیؓ  کو نائب بنانے کا تذکرہ ہے۔

صحیح بخاری اور صیح مسلم میں سیدنا سعدؓ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:

أن رسول اللہ ﷺ خرج إلى تبوك، واستخلف عليا.

’’رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں علیؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا ۔ "

صحيح البخاري : 4416 ، صحیح مسلم :2404،

مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں:

أن رسول اللہ ﷺ حين خرج في غزوة تبوك، إستخلف عليا على المدينة ....

’’ رسول اللہ ﷺ جب غزوہ تبوک کے لیے گئے تو سیدنا علیؓ  کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب بنایا۔‘‘

مسند أحمد : 1532.

ان روایات کی بنا پر کچھ محدثین ، مثلاً حافظ ابن عبدالبر وغیرہ کا موقف ہے کہ غزوۂ تبوک میں سیدنا علیؓ مدینہ میں آپ ﷺ  کے نائب تھے۔

امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ اختلاف دور ہوسکتا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ جب سیدنا علیؓ  نے رسول اللہ ﷺ سے منافقین کے طعن تشنیع کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:

«كذبوا ولكني خلفتك لما تركت ورائي فارجع فاخلفني في أهلي وأهلك

’’ یہ منافقین جھوٹی باتیں اڑا رہے ہیں۔ میں نے تمھیں اہل بیت کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑا ہے۔تم واپس جاؤ اور میرے اہل وعیال اور اپنے گھر والوں میں میرا نائب بن کر ان کی حفاظت کرو۔“ *

دلائل النبوة للبيهقي : 220/5، شرح الزرقاني على المواهب :81,80/4.

حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے عطاء بن ابی رباح کی مرسل روایت سے اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں:

«يا علي! أخلفني في أهلي، واضرب وخذ وعظ» ثم دعا نسائه فقال: «إسمعن يعلى و أطعن

”اے علی! میرے گھر والوں میں میرے نائب بن جاؤ۔ (بوقت ضرورت ) ڈانٹ ڈپٹ کرو اور وعظ ونصیحت کرو۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کو بلایا اور فرمایا: ’’علیؓ کی بات سننا اور اطاعت کرنا ۔‘‘ '

فتح الباري : 140/8،

علامہ ابن اسحاق نے بھی یہی بات بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے علیؓ کو اپنے گھر والوں کے لیے اپنا نائب مقرر کیا تھا۔ *

السيرة لابن إسحاق :598/2.

مذکورہ بالا متضاد روایات کی بنا پر کچھ علماء نے ان روایات کو اس طرح سے جمع کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سید نا علیؓ  کو اپنے گھر والوں کے لیے اپنا نائب بنایا جب کہ اہل مدینہ کے عمومی امور کے لیے محمد بن مسلمہؓ کو مقرر فرمایا۔ نمازوں کی امامت کے لیے سیدنا ابن ام مکتوم ؓ  کو نائب بنایا۔ سیدنا سباع بن عرفطہ ؓ کو پہلے نائب بنایا، پھر ان کی جگہ سیدنا محمد بن مسلمہؓ  کو مقرر کر دیا گیا۔

شرح الزرقاني على المواهب : 81/4

بشکریہ: سیرت انسائکلوپیڈیا جلد 9