Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ذمہ دار

  ابو شاہین

1۔ اہل کوفہ

 اہلِ کوفہ ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے مدینہ منورہ میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خطوط لکھے اور ان سے کوفہ آمد کی درخواست کی، اس پر آپ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنبیہات کے باوجود ان کی طرف روانہ ہو گئے، پھر جب ابن زیاد کو کوفہ کا امیر متعین کیا گیا تو اہل کوفہ نے نہ صرف یہ کہ ان کی نصرت و حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ وہ ان کے ساتھ جنگ کرنے والے اور قاتل گروہ میں شامل ہو گئے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اہل کوفہ کے موقف کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں، اہل کوفہ کے اکثر لوگوں نے انہیں دشمن کے حوالے کر دیا، بعض نے لالچ میں آ کر اور بعض نے ڈرتے ہوئے ان کی تائید و نصرت سے ہاتھ کھینچ لیا، جب سیدنا حسینؓ اور ان کے رفقاء کوفی لشکر کے بالمقابل آئے تو آپ نے اہل کوفہ کے زعماء کو آواز دیتے ہوئے فرمایا، اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابحر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک کر تیار ہو چکے اور صحن سرسبز و شاداب ہو چکے، آپ ایک تیار اور مسلح لشکر کے پاس آئیں گے، لہٰذا تشریف لے آئیے۔ وہ کہنے لگے، ہم نے تو ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا، سبحان اللہ، کیوں نہیں، و اللہ تم نے یہ کام کیا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا، لوگو! اگر تم مجھے ناپسند کرتے ہو تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

 (انساب الاشراف: جلد، 3 صفحہ، 227)

اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال کو مدنظر رکھا جائے تو قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی تہمت اہل عراق کے سر آتی ہے۔ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے اہل عراق پر لعنت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اللہ انہیں ہلاک کرے، انہوں نے انہیں دھوکہ دیا، اللہ ان پر لعنت فرمائے۔ (فضائل الصحابۃ: جلد، 2 صفحہ، 782)

جب ایک عراقی وفد نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں مچھر کے دَم کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، اہل عراق! تم پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ تم نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو قتل کر ڈالا اور مچھر کے دَم کے بارے میں سوال کرتے ہو۔ (مسند احمد، رقم الحدیث: 5567 اس کی سند صحیح ہے)

بغدادی اپنی کتاب ’’الفرق بین الفرق‘‘ میں رقم طراز ہیں، کوفہ کے رافضی غدر و بخل کے ساتھ مصروف ہیں، یہاں تک کہ ان کے بارے میں ضرب المثل ہے،

 ’’کوفی سے زیادہ بخیل اور کوفی سے بڑھ کر بے وفا‘‘

اہل کوفہ کی غداری اور بے وفائی کے بارے میں تین چیزیں بڑی مشہور ہیں:

(1) انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی اور پھر ان کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے سنان جعفی نے انہیں نیزہ مار کر زخمی کر دیا۔

(2) انہوں نے یزید کے خلاف حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی مدد کرنے کے لیے انہیں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی، جن کی وجہ سے آپ ان کے دھوکے میں آ گئے اور پھر ان کی طرف روانہ ہو گئے۔ مگر جب وہ کربلا پہنچے تو ان کے ساتھ غداری کرتے ہوئے عبیداللہ کے ساتھ جا ملے، یہ انہی کی بے وفائی کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف یہ کہ آپ خود بلکہ آپ کے خاندان کے زیادہ تر افراد کو کربلا کے میدان میں شہید کر دیا گیا۔

(3) انہوں نے حضرت زید بن علی بن حسینؓ کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے نقض بیعت کا ارتکاب کیا اور انہیں ہولناک جنگ کے دوران میں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ (الفرق بین الفرق: صفحہ، 37)

قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی زیادہ تر ذمہ داری اہل کوفہ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اپنے عہد و پیمان کو توڑ ڈالا۔

2۔ عبیداللہ بن زیاد

 ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی طاقت اور جبر و استبداد کا بھرپور استعمال کیا۔

اس کوفی نے ابن زیاد کو جو پہلے ہی شر کی طرف میلان رکھتا تھا، اور طبعی طور پر انتہا پسند اور لوگوں کے خون کا پیاسا تھا اسے مزید شر کی طرف دھکیل دیا، اس کے لیے ممکن تھا کہ وہ شمر کے متشددانہ مذموم مقاصد کو ناکام بناتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ امن و سلامتی کی تجاویز کو قبول کر لیتا، کم ظرف اور گھٹیا لوگ جو انحطاط کے بعد اوپر کو اٹھتے، کمزوری کے بعد طاقت پکڑتے اور محرومی کے بعد اقتدار حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے معزز و محترم اور باعزت لوگوں کے مقام و مرتبہ کا پاس کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جن باوقار لوگوں کو عوام الناس کا پیار حاصل ہے اور وہ انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہیں اس منصب سے محروم کر دیا جائے۔ ابن زیاد کا شمار بھی اس قسم کے گھٹیا اور کمینے لوگوں میں ہوتا تھا، دنیوی اعتبار سے اس کا جو بھی مقام تھا مگر سیدنا حسین رضی اللہ بن عنہما کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ ابن علی رضی اللہ عنہما نے ابن زیاد سے بیعت کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا اور فرمایا، میں ایک ذلیل غلام کی طرح اس سے بیعت نہیں کر سکتا۔ جب عمر بن سعدؒ کو ابن زیاد کا خط ملا تو اس نے کہا، اللہ کی قسم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہما ایک خوددار اور غیور انسان ہیں۔

 (تاریخ الطبری: جلد، 6 صفحہ، 362)

 عبیداللہ بن زیاد بدباطن اور ظالم حکمران تھا، یہ وہی ابن زیاد ہے کہ جب صحابی رسول حضرت عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ اس کے پاس آئے، تو انہوں نے اس سے فرمایا، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: سب سے برا چرواہا بے رحم چرواہا ہوتا ہے، تو اپنے آپ کو ان میں شمار ہونے سے بچا، اس پر ابن زیاد نے ان سے کہا، بیٹھ جا، تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بھوسی ہے۔ انہوں نے فرمایا، کیا اصحاب رسول بھی بھوسی ہیں؟ اس قسم کے لوگ ان کے بعد آئے اور ان کے غیر میں آئے۔

(بخاری: رقم الحدیث، 7150)

ابنِ زیاد کے لیے ضروری تھا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مطالبات کو تسلیم کر لیتا اور انہیں یزید کے پاس جانے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا یا وہ جہاں بھی جانا چاہتے، ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرتا اور خاص طور پر ان کے لیے کوفہ کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ، 297)

ابن صلاح اپنے فتاویٰ میں رقم طراز ہیں:

 ’’اصل بات یہی ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دینے والا جس کا نتیجہ قتل حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی صورت میں سامنے آیا وہ ابن زیاد ہی ہے۔‘‘ (القید الشرید: صفحہ، 13)

یوسف العش رقم طراز ہیں:

 ’’ہمارے لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا پہلا ذمہ دار شمر ہے اور دوسرا عبیداللہ بن زیاد۔‘‘ (الدولۃ الامویۃ: صفحہ، 172)

صحیح بات یہ ہے کہ اس دل فگار واقعہ کی پہلی ذمہ داری اور سب سے بڑا گناہ ابن زیاد کے کندھوں پر ہے، کیونکہ اس سارے واقعہ کے پیچھے اسی کا شیطانی دماغ کام کر رہا تھا اور اسی نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی پیش کش کو مسترد کیا تھا۔ تاریخ ہمیشہ اس کے اس فعل بد کی بڑی شدت کے ساتھ مذمت کرتی رہے گی اور اس پر بربریت و سرکشی کا التزام لگاتی رہے گی۔ 

(عبدالملک بن مروان و الدولۃ الامویۃ: صفحہ، 105)

امام ذہبی عبیداللہ بن زیاد کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں، ’’اہل تشیع جب تک ابن زیاد اور اس جیسے دوسرے لوگوں پر لعنت نہ کریں ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہوتا، مگر ہم اللہ کے لیے ان سے نفرت کرتے ہیں، ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، مگر ان پر لعنت نہیں کرتے، ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘ (ایضاً)

3۔ عمر بن سعد بن ابی وقاص

قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری اپنے لشکر کے قائد عمر بن سعد پر بھی عائدہوتی ہے۔ یہ سلف کا بدترین خلف یا ایک عظیم باپ کا انتہائی گھٹیا بیٹا تھا، اس کے بعد قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری اس کے لشکر پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے آل حسین رضی اللہ عنہ پر ترس کھائے بغیر اس کے ظالمانہ احکامات کی تعمیل کی، اس کے لشکر کے لیے اس واقعہ سے الگ رہنا یا حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی صفوں میں شامل ہونا ممکن تھا، جیسا کہ اس کے پہلے قائد حر بن یزید نے کیا، جب انہوں نے دیکھا کہ ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی منصفانہ درخواست کو ردّ کر کے ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا ہے، تو وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے کیمپ میں چلے گئے اور آخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ (عبدالملک بن مروان و الدولۃ الامویۃ: صفحہ، 105)

ابن سعد شروع میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے نہیں نکلا تھا، بلکہ وہ چار ہزار جنگجوؤ ں کے ساتھ ’’دیلم‘‘ سے جنگ کرنے کے لیے روانہ ہو چکا تھا، جب ابن زیاد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اطلاع ملی، تو اس نے ابن سعد کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے کے لیے ان کی طرف بھیج دیا اور اس سے کہا، حسین کے ساتھ قتال کرو اور ادھر سے فارغ ہو کر دیلم کی طرف پلٹ جانا۔ ابن زیاد نے اسے ’’رے‘‘ کی امارت دے رکھی تھی، اس نے ابن زیاد سے اس بارے میں معذرت کی مگر ابن زیاد نے اسے ’’رے‘‘ کی امارت سے معزول کر دینے کی دھمکی دی تو وہ لوگوں سے مشورہ کرنے لگا، ان سب نے اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنے کے لیے روانگی سے منع کیا، اس کے بھانجے حمزہ بن مغیرہ بن شعبہ نے اس سے کہا، ماموں ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے خلاف مت اٹھیں، اگر آپ نے یہ کام کیا تو اپنے رب کی نافرمانی کریں گے اور قطع رحمی کے مرتکب ہو ں گے، اگر آپ اپنی دنیا، اپنے مال اور حکومت سے محروم ہو جائیں، تو یہ آپ کے لیے اس بات سے بہترہے کہ آپ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ناحق خون سے اپنے رب سے ملاقات کریں۔

 (انساب الاشراف: جلد، 3 صفحہ، 219 اور 220 حسن سند کے ساتھ)

 اس کے جواب میں ابن سعد نے کہا، میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔ مگر چونکہ اس کا نفس دنیا اور امارت کی محبت میں گرفتار تھا، اس لیے وہ خیرخواہوں کی نصیحت اور ڈرانے والوں کی ترہیب کے باوجود ایسا کرنے سے قاصر رہا۔ یہ کہنا بجا ہے کہ اس نے حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں سے جنگ سے بچنے کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر اسے اس کی توفیق ارزاں نہ ہوئی۔ دنیا کی ہوس رکھنے والے لوگ دنیا کے حصول کے لیے مردان کار کی شہامت اور باعزت لوگوں کی مروّت کو بھی بھول جایا کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑا ہونے کو بھی بھول جاتے ہیں اور اس امر کو بھی کہ ان کے ہر عمل کا مواخذہ ہو گا، بلکہ وہ تو دنیا کے نشے میں بدیہی امور کو بھی طاق نسیان پر رکھ دیتے ہیں ، وہ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ آخر دنیا کو فنا ہونا ہے، مقام و منصب کو زوال آنا ہے اور اقتدار و اختیار کا خاتمہ ہو کر رہنا ہے، ابن سعد کو غداروں اور خائنوں کے ناموں کی فہرست میں اپنا نام لکھوانے اور مجرموں اور ظالموں کے رجسٹر میں نام مندرج کروانے کی ضرورت نہیں تھی، اگر وہ اپنے مقام و منصب کی قربانی دیتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو قبول کر لیتا تو متاع دنیا سے اس کا جو حصہ مقرر تھا، وہ اسے مل کر ہی رہتا اور اللہ کے نزدیک نیک اور پارسا لوگوں میں شمار ہوتا۔

 (الامویون بین الشرق و الغرب: جلد، 1 صفحہ، 266)

4۔ یزید بن معاویہ

جہاں تک یزید کا تعلق ہے، تو ظاہر امر یہ ہے کہ اس نے قتل حسین کو ناپسند کیا، لیکن اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو خروج سے منع کیا تھا، اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خروج سے منع کیا جائے۔ جب آپ کا سر مبارک اس کے سامنے رکھا گیا، تو اس نے کہا، اللہ ابن مرجانہ پر لعنت کرے، میں قتل حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے بغیر بھی تمہاری اطاعت سے راضی ہو جاتا،

(العالم الاسلامی فی العصر الاموی: صفحہ، 678)

اللہ کی قسم! اگر ان کا صاحب میں ہوتا تو ان سے درگزر کرتا، مگر یزید کی طرف سے قتل حسین پر آہ و بکا کرنا اور ابن مرجانہ کو سب و شتم کرنا، اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کے قتل کی ذمہ داری سے مکمل آزاد نہیں کرتا اور یہ اس لیے کہ وہ ابن زیاد کو واضح حکم دے سکتا تھا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو قتل کرنے سے باز رہنا اور ان کے ساتھ حکمت اور عقل مندی پر مبنی رویہ اپنانا، تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی رشتہ داری اور قرابت داری کا پاس کیا جا سکے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کا جو احترام ہے اسے ملحوظ رکھا جا سکے۔

بہر حال ایک درجے میں قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری یزید پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ اس کے دورِ حکومت میں شہید ہوئے اور اس زمین پر ہوئے جس پر اس کی افواج کا قبضہ تھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تو عراق یا شام میں غیر ہموار راستے کی وجہ سے بکری یا خچر کی ذمہ داری بھی قبول کرتے تھے، لیکن اگر اس کے قاتل ان کے اپنے ہی لشکری ہوتے تو پھر کیا ہوتا؟ (الامویون بین الشرق و الغرب: جلد، 1 صفحہ، 265) قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ کے دورِ حکومت پر رہتی دنیا تک سیاہ داغ رہے گا۔