Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

یزید کے بارے میں لوگوں کے اقوال ، نیز کیا اسے لعنت کرنا جائز ہے؟

  ابو شاہین

یزید کے بارے میں لوگ تین گروہوں میں منقسم ہیں:

ایک گروہ کے نزدیک یزید کافر و منافق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینے کی غرض سےنواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے کوشاں رہا، وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر کے اپنے دادا عتبہ، اس کے بھائی شیبہ، ولید بن عتبہ اور ان لوگوں کا انتقام لینا چاہتا تھا، جو جنگ بدر کے دن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ جو روافض ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو کافر کہتے ہیں ان کے لیے یزید کو کافر کہنا اس سے بھی زیادہ آسان ہے۔

دوسرے گروہ کے نزدیک وہ ایک صالح انسان اور عادل امام تھا اور اس کا شمار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیدا ہوئے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی، ان میں سے بعض لوگ تو اسے حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتے ہیں جبکہ ان میں سے کچھ لوگ اسے نبی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر یہ دونوں قول باطل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سنت میں مشغول اہل علم اور کسی عقل مند شخص کی طرف منسوب نہیں ہیں۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 295)

تیسرا قول یہ ہے کہ یزید دوسرے مسلمان بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ تھا، اس کے نامہ اعمال میں کچھ نیکیاں بھی ہیں اور کچھ برائیاں بھی اور یہ کہ وہ کافر نہیں تھا۔ اس کے دورِ حکومت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ مقتول ہوئے اور اہل حرہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یزید نہ تو صحابی رسول تھا اور نہ اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہی ہوتا ہے۔ یہ قول اکثر اہل سنت و الجماعت اور اہل عقل و علم کا ہے۔

اس کے بعد یہ فرقہ تین مزید فرقوں میں تقسیم ہو گیا،

ایک فرقہ اس پر لعنت کرتا ہے۔ ایک فرقہ اس سے محبت کرتا ہے اور تیسرا نہ تو اس سے محبت کرتا ہے اور نہ اسے لعنت ہی کرتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے یہی منصوص ہے، ان کے شاگردوں میں سے میانہ رو اور دیگر تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے۔

صالح بن احمد کہتے ہیں، میں نے اپنے باپ سے کہا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ یزید سے محبت کر سکتا ہے؟ میں نے کہا، ابا جان! تو پھر آپ اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟

انہوں نے فرمایا، تو نے اپنے باپ کو کسی کو لعنت کرتے کب دیکھا تھا؟

جب ابو محمد مقدسی سے یزید کے بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: جو کچھ مجھے معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسے نہ تو گالی دی جائے اور نہ اس سے محبت ہی کی جائے۔ یہ یزید اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بارے میں عادلانہ اور خوبصورت اقوال ہیں۔ جہاں تک اسے سب و شتم اور لعنت نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ اس سے اس فسق و فجور کا صدور ثابت نہیں ہے، جو ان کا متقاضی ہو، یا وہ اس بنا پر ہے کہ معین فاسق کو اسے خاص کر کے لعنت نہیں کی جاتی اور یہ ممانعت یا تو تحریمی طور پر ہے یا تنزیہی طور پر۔ صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ’’حمار‘‘ کے قصہ میں ثابت ہے کہ جب اس نے بار بار شراب نوشی کی اور اسے باربار کوڑے بھی مارے گئے، تو جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر لعنت کی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے لعنت نہ کرو، یہ شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (بخاری:رقم الحدیث، 6780)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (بخاری: 6652)

یہ اس امر کے باوجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمومی طور پر شراب نوشی کرنے والے کے لیے لعنت کرنا ثابت ہے اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ یتیم کا مال کھانے والے، زانی اور چور کے لیے عمومی طور پر وعید کی نصوص وارد ہیں۔ مگر ہم کسی معین شخص کے لیے اس کے جہنمی ہونے کی شہادت نہیں دے سکتے۔ اس لیے کہ ممکن ہے اس نے توبہ کر لی ہو، یا اس نے گناہوں کو مٹانے والی نیکیاں کی ہوں، یا اسے گناہوں کا کفارہ بننے والے مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہو، یا اس کے حق میں کسی کی سفارش قبول ہو جائے۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 296)

یزید پر لعنت کرنے والے بعض لوگوں کے نزدیک ترک لعنت فضول گفتگو کے حوالے سے تمام مباح امور کے ترک جیسا ہے۔

جو علماء اس پر لعنت کرتے ہیں مثلاً ابو الفرج ابن جوزی اور کیا الہراسی وغیرہ، تو یہ اس بنا پر ہے کہ ان کے نزدیک اس سے ایسے متعدد افعال کا صدور ہوا جو اس کے لیے لعنت کو مباح قرار دیتے ہیں ، پھر وہ کبھی تو یہ کہتے ہیں کہ یزید فاسق ہے اور فاسق کو لعنت کی جا سکتی ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ صاحب معصیت کو لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ اس پر فسق کا حکم نہ لگایا جا سکے۔ اس پر اس کے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے بھی لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ تمام فاسقوں پر لعنت نہیں کی جا سکتی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کے اہل معاصی اور کئی عصاۃ پر لعنت فرمائی اگرچہ تمام اہل معاصی پر لعنت نہیں کی جا سکتی۔ یزید کو لعنت کرنے کے یہ تین مآخذ ہیں۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 297)

یزید پر لعنت کرنے والے بعض لوگوں کے نزدیک ترک لعنت فضول گفتگو کے حوالے سے تمام مباح امور کے ترک جیسا ہے۔

جو علماء اس پر لعنت کرتے ہیں مثلاً ابو الفرج ابن جوزی اور کیا الہراسی (یعنی علی بن محمد طبری متوفی 506 ہجری، ان کا لقب عماد الدین ہے) وغیرہ، تو یہ اس بنا پر ہے کہ ان کے نزدیک اس سے ایسے متعدد افعال کا صدور ہوا جو اس کے لیے لعنت کو مباح قرار دیتے ہیں، پھر وہ کبھی تو یہ کہتے ہیں کہ یزید فاسق ہے اور فاسق کو لعنت کی جا سکتی ہے اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ صاحب معصیت کو لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ اس پر فسق کا حکم نہ لگایا جا سکے۔ اس پر اس کے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے بھی لعنت کی جا سکتی ہے اگرچہ تمام فاسقوں پر لعنت نہیں کی جا سکتی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی قسم کے اہل معاصی اور کئی عصاۃ پر لعنت فرمائی، اگرچہ تمام اہل معاصی پر لعنت نہیں کی جا سکتی۔ یزید کو لعنت کرنے کے یہ تین مآخذ ہیں۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 297)

رہے وہ لوگ جو یزید کے ساتھ محبت کو جائز قرار دیتے یا اس سے محبت کرتے ہیں مثلاً غزالی اور دستی، تو ان کے پاس دو مآخذ ہیں،

 پہلا ماخذ

 یزید مسلمان ہے اور اس نے عہد صحابہ میں منصب خلافت سنبھالا اور اس وقت تک موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا ساتھ دیا اور اس میں کچھ خصال محمودہ بھی تھیں۔ رہے قابل اعتراض واقعات مثلاً واقعہ حرہ وغیرہ، تو وہ ان کے بارے میں تاویل پر تھا، ان کا کہنا ہے کہ یزید مجتہد مخطی تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اہل حرہ اس سے نقض بیعت کے مرتکب ہوئے جسے ابن عمر رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بھی کراہت کی نظر سے دیکھا۔ جہاں تک قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے، تو یزید نے اس کا حکم نہیں دیا تھا اور اسے پسند بھی نہیں کیا تھا بلکہ اس نے تو ان کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کے قاتل کی مذمت کی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس کے سامنے پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

 دوسرا ماخذ

 صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسطنطنیہ سے جنگ کرنے والے پہلے لشکر کی مغفرت کر دی گئی ہے۔‘‘ (بخاری: رقم الحدیث، 2926) جس پہلے لشکر نے قسطنطنیہ سے جنگ کی اس کا امیر یزید تھا۔

تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں اقوال میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، اسی طرح اس شخص سے محبت کرنا جو نیک اعمال بھی کرتا ہے اور برے بھی، بلکہ ہمارے نزدیک تو اس امر میں بھی منافات نہیں ہے کہ ایک ہی آدمی میں حمد و ذم اور ثواب و عقاب جمع ہو جائے۔ اسی طرح اس امر میں بھی منافات نہیں ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، اس کے لیے دعا کی جائے اور اس پر لعنت بھی کی جائے اور اس پر سب و شتم بھی کیا جائے، اس لیے کہ اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملت اسلامیہ کے فاسق لوگ بھی ایک نہ ایک دن جنت میں ضرور داخل ہوں گے، اگرچہ وہ جہنم میں داخل بھی ہو جائیں یا اس کے مستحق قرار پائیں۔ اس طرح ان میں ثواب و عقاب اکٹھے ہو جائیں گے۔ مگر خوارج اور معتزلہ اس سے انکار کرتے ہیں، ان کے نزدیک ثواب کا مستحق عقاب کا مستحق نہیں اور جو مستحق عقاب ہے وہ مستحق ثواب نہیں۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 297) جہاں تک آدمی کے لیے دعا یا بددعا کا تعلق ہے، تو ہر فوت شدہ نیک و بد مسلمان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ فاجر کو باالتعیین یا بالنوع لعنت کرنا بھی جائز ہے۔ مگر پہلی حالت زیادہ عادلانہ ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جب ایک مغل ایلچی نے یزید کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: ہم نہ تو اسے گالی گلوچ کرتے ہیں اور نہ اس سے محبت ہی کرتے ہیں، یزید کوئی نیک انسان نہیں تھا کہ ہم اس سے محبت کریں اور ہم کسی مسلمان کا نام لے کر اسے سب و شتم نہیں کرتے۔ اس نے کہا: تم اس پر لعنت کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ ظالم نہیں تھا؟ کیا وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: جب ہمارے سامنے حجاج بن یوسف اور اس جیسے ظالم حکمرانوں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم اسی طرح کہتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا،

 اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ ہود: آیت 18)

 ’’خبردار ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘

 ہم کسی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنے کو پسند نہیں کرتے، جبکہ بعض علماء اس پر لعنت بھی کرتے ہیں اور اس میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، لیکن پہلا قول زیادہ پسندیدہ اور احسن ہے۔ مگر جس شخص نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا اس کے لیے تعاون کیا یا اسے پسند کیا، تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ اس کی کوئی بھی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا۔ اس نے سوال کیا، اہل بیت کے ساتھ محبت کرنے کے بارے میں تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہمارے نزدیک اہل بیت سے محبت کرنا فرض ہے اور اس سے آدمی کو اجر ملتا ہے۔ صحیح مسلم میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع غدیر خم کے مقام پر ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

 ’’لوگو! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، کتاب اللہ اور میری عترت میرے اہل بیت۔‘‘

(مسند احمد: جلد، 6 صفحہ 347)

 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سے فرمایا، ’’ہم اپنی نمازوں میں ہر روز یہ درود پڑھتے ہیں،

اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ 

’’یا اللہ! رحم و کرم فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح تو نے رحم و کرم فرمایا ابراہیم پر، بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے، اے اللہ برکت نازل فرما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمدؐ پر جس طرح تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر، بے شک تو تعریف کے قابل اور بزرگی والا ہے۔‘‘

مغل ایلچی کہنے لگا، اہلِ بیت سے بغض رکھنے والے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟ آپ نے فرمایا، اہل بیت سے بغض رکھنے والے پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ اس سے نہ نفلی عبادت قبول فرمائے گا نہ فرضی۔ اس کے بعد ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مغل وزیر سے فرمایا، تم نے یزید کو ناصبی کیوں کہا؟ اس نے جواب دیا، لوگوں نے اسے بتایا ہے کہ اہل دمشق ناصبی تھے۔ یہ سن کر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بآواز بلند فرمایا: یہ کہنے والا جھوٹ بولتا ہے اور جس نے بھی یہ بات کی اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، اللہ کی قسم اہل دمشق ناصبی نہیں تھے اور نہ مجھے وہاں موجود کسی ناصبی کا علم ہی ہے۔ اگر دمشق میں کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرتا تو مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ (الفتاوی: جلد، 6 صفحہ 297 اور 298) 

ہمیں معلوم ہونا چاہتے کہ یزید کو لعنت کرنے کا رواج دولت عباسیہ کے قیام کے بعد پڑا، جب بنو امیہ پر اعتراضات کرنے کے لیے لوگوں کو وسیع مواقع میسر آئے۔ (مواقف المعارضۃ: صفحہ 501) رہی یہ مرفوع حدیث کہ ’’میری امت کا معاملہ قائم رہے گا یہاں تک کہ بنو امیہ میں سے ایک شخص، جسے یزید کہا جائے گا، اس میں دراڑیں ڈال دے گا۔‘‘ تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کئی ایک علل ہیں۔ (احداث و احادیث فتنۃ الہرج: صفحہ 206 مسند ابو یعلی: رقم، 870) اس حدیث کو ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں صدقۃ السمین کے طریق سے روایت کیا ہے، وہ ہشام سے، وہ مکحول سے اور وہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کرتا ہے اور اس میں دو علّتیں ہیں،

الف: صدقۃ السمین کا ضعف

 اس کا پورا نام ابو معاویہ صدقہ بن عبداللہ السمین دمشقی ہے۔ اسے ابن معین، بخاری، ابو زرعہ اور نسائی نے ضعیف کہا ہے۔ احمد فرماتے ہیں، اس کی کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے اور یہ منکر ہے اور اس نے مکحول سے جو حدیث مرسل بیان کی ہے، وہ زیادہ نرم ہے اور یہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔ مزید فرماتے ہیں وہ کسی چیز کو درست نہیں رکھتا، اس کی احادیث منکر ہیں۔ دار قطنی فرماتے ہیں، وہ متروک ہے۔ (تہذیب التہذیب: جلد، 6 صفحہ 371)

ب: مکحول اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لیے کہ اس نے ان سے ملاقات نہیں کی۔ (احداث و احادیث: صفحہ 206) ابن کثیر یزید کی مذمت میں وارد احادیث کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ابن عساکر نے یزید کی مذمت میں جتنی بھی روایات ذکر کی ہیں، وہ ساری کی ساری موضوع ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں ہے، ان میں سے سب سے عمدہ حدیث ’’ضعیف‘‘ ہے جس کی سند منقطع ہے۔ (البدایۃ و النہایۃ نقلا عن احداث و احادیث: صفحہ 206)