Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قتل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں وارد قصے کہانیاں

  ابو شاہین

اہل تشیع نے اس حادثہ فاجعہ کی تفصیلات نقل کرنے میں مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اور ان کی کتابیں عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ مثلاً قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد آسمان کے کنارے سرخ ہو گئے، پتھروں کے نیچے سے خون نکلنے لگا اور جنات رونے لگے اور یہ اس قسم کی دیگر بے سروپا باتیں شیعہ نے اس وقت ہی گھڑ لی تھیں اور جنہیں وہ آج تک اس واقعہ کی اہمیت کو بڑھانے اور دیگر واقعات کو گہنانے کے لیے دہرائے چلے جاتے ہیں۔ (احداث و احادیث: صفحہ 206) مگر جو شخص ان اخبار و مرویات کی اسناد کا جائزہ لے گا تو اسے سوائے ضعف کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا یا پھر اسے کوئی ایسا مجہول راوی نظر آئے گا جس کی اصل غیر معروف ہو گی یا پھر وہ ایسا مدلس ہو گا جس کا مقصد لوگوں کو حقائق تک رسائی سے روکنا ہو گا۔ ( ایضاً: صفحہ 206)

ان کے جھوٹوں پر بطور مثال ہم یہ روایت ذکر کریں گے کہ واقعہ کربلا میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہا کی شہادت کے بعد جب قیدی خواتین کو بے لباس کر کے اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا گیا تو خراسانی اونٹوں کی کوہانیں اگ آئیں تاکہ اس طرح ان کی شرم گاہوں کو آگے پیچھے سے ڈھانپا جا سکے۔ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 564 اور 267)

ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:

’’روافض نے یوم عاشوراء کے بارے میں بڑی مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے مثلاً جو بھی پتھر اٹھایا جاتا اس کے نیچے خون نظر آتا، آسمان کے کنارے سرخ ہو گئے، سورج طلوع ہوتا تو اس کی شعائیں خون کی طرح سرخ ہوتیں، آسمان خون کے لوتھڑے کی طرح ہو گیا، ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے اور آسمان نے سرخ خون برسایا اور یہ کہ اس سے قبل آسمان پر شفق کی سرخی نہیں ہوتی تھی۔ جب وہ حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کے سر کو قصر امارت میں لے کر گئے، تو اس کی دیواریں خون برسانے لگیں اور زمین تین روز تک تاریک رہی، بیت المقدس کے جس پتھر کو بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے سے تازہ خون نمودار ہو جاتا، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جن اونٹوں کو انہوں نے مال غنیمت کے طور پر سمیٹا جب انہوں نے ان کا گوشت پکایا تو وہ اندرائن کی طرح کڑوا ہو گیا اور اس قسم کے دیگر اکاذیب اور موضوع احادیث وغیرہ، جن میں سے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘ (البدایۃ و النہایۃ: جلد، 11 صفحہ 574)