یہودیوں کا مختصر تعارف
مولانا غلام محمدیہودیوں کا مختصر تعارف
یہودی اللہ کے جلیل القدر پیغمبر سیدنا یعقوب علیہ السلام جن کا لقب اسرائیل ہے ان کے بڑے فرزند یہودا کی اولاد ہونے کی طرف نسبت کرتے ہیں لہذا ان لوگوں میں نسلی امتیاز کے متعلق ایسا فخر و نخوت کا عنصر کار فرما ہے یہ دوسرے کسی کے لیے یہودیت میں آنے کو قبول ہی نہیں کرتے اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہودی فطری طور پر اللہ تعالی کے منکر دھوکہ دینے والے جھوٹے شرارتی سازشیں فسادی اور ایک دوسرے کو آپس میں لڑانے والے ( پھر چاہے ان کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے) ہیں اور یہ ان کا شروع سے کردار رہا ہے قرآن مجید میں سابقہ اقوام کے حالات کے ذیل میں سب سے زیادہ اسی قوم کا تذکرہ ملتا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے زیادہ اس قوم کو اپنی نعمتیں عطا کیں لیکن یہ قوم سب سے زیادہ نافرمان شریر اور سازشی ثابت ہوئی مسلسل نافرمانیوں کے بعد ان کو وعیدیں سنائی گئیں تنبیہات کی گئیں درگزر کیا گیا اور ان کو دیگر نئے نئے انعامات سے نوازا گیا ہدایت کے لیے سب سے زیادہ پیغمبر اس قوم میں مبعوث ہوئے لیکن دنیا اور اس کی لذتوں کی حرص میں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی سازشیں اور ناجائز حرب اس قوم کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی کتمان حق اور اس کو ختم کرنے کی ہر قسم کی سازشیں ان کی طبیعت کا لا ینفک حصہ بن چکی تھیں نبیوں کی شدید مخالفت ان کی بتائی ہوئی تعلیم اور کتابوں میں تبدیلی اور اپنی پسند کی تحریفیں کرنا یہودیوں کا خاص مشغلہ تھا نیکیوں اور نیکوکار لوگوں کی مخالفت ان کو ستانے اور ختم کرنے کی سازش میں یہودی اتنے آگے بڑھ چکے تھے کہ بے شمار پیغمبر ان کے ہاتھوں شہید ہوئے بالاخر ان گناہوں اور نافرمانیوں کی پاداش میں ان کے اوپر اللہ تعالی کا دائمی قہر نازل ہوا اور ان کے اوپر ابدی ذلت مسلط کی گئی جس کا ذکر قران مجید میں اس طرح ہے
وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
یعنی ان پر خواری اور محتاجی ڈالی گئی اور وہ اللہ تعالی کے غضب میں لوٹے وہ اس لیے کہ وہ اللہ کی ایات کو نہیں مانتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے ( پ 1 ع 7)
اس وقت محترم علی اکبر کی ایک انگریزی میں شاہکار تصنیف (رسالہ) کا اردو ترجمہ اسرائیل قرانی پیشنگوئیوں کی روشنی میں میرے سامنے ہے یہ تصنیف 81_2×11 سائز میں 50 صفحات پر مشتمل ہے اس میں ہے
"انہیں ( یہودیوں کو ) پرتگال اور اسپین سے نکالا گیا انگلینڈ سے انہیں 1690 میں باہر نکال دیا گیا انہیں دو مرتبہ ایک 1306 میں اور دوسرا 1394 نکالا گیا بلجیم سے 1370 اور چیکو سلوا کیہ سے 1380 میں انہیں جلا وطن کیا گیا تھائی لینڈ نے 1444 اور اٹلی نے 1540 میں ان کو نکال باہر کیا جرمنی نے 1551 میں انہیں باہر دھکیل دیا روس نے 1510 میں ان کو نکال دیا اصل میں شروع ہی سے ان کی قسمت میں جلاوطنی رہی ہے اور یہ ان کے لیے آسمانی عتاب، قرانی عتاب ( قرآنی وعید ) اور لعنت کی ایک صورت ہے اگرچہ یہ اپنی فریبی میں خود کو خدا کی برگزیدہ قوم سمجھتے ہیں
( اسرائیل قرآنی پیشن گوئیوں کی روشنی میں 19_____18)
ایک جگہ یہودیوں کے دو معتبر کتابوں تالمود اور مشناہ کے حوالے سے لکھتا ہے
غیر یہود کی جائیداد اور دولت یہودیوں کے لیے روا ہے اگر وہ جان اور مال پر تصرف اور اختیار استعمال کرنے کے لیے چنا گیا ہے یہود کو خدا کی طرف سے اذن ہے کہ وہ غیر یہود سے سود قبول کریں اور ان کے لیے سود کے شرط لگائے بغیر ادھار دینا ممنوع ہے ٹھہرایا گیا ہے
ایک جگہ لکھتے ہیں
یہود جو کہ بخت نصر بابل والوں فراعنہ رومیوں اہل فارس عیسائیوں اور ہٹلر کی نازی جرمنی پارٹی کے ہاتھوں جہاں وہ کوئی 60 لاکھ ہلاک ہوئے نخوت تکبر اور بدتمیزی سے باز نہیں آئے اور بزعم خود کہتے ہیں کہ وہی خدا کی واحد منتخب قوم ہے اور اس کی وجہ سے دوسری تمام اقوام پر فائق ہیں (اسرائیل قرانی پیشنگوئیوں کی روشنی میں خلاصہ 60)
اللہ تعالی کے قہر اور لعنت کے بعد اس حق اور صداقت کی ازلی دشمن قوم کے مزاج اور کردار میں آج تک فرق نہیں آیا ابتدا سے لے کر آج تک اس قوم کو جہاں بھی اور جب بھی کوئی صداقت اور نیکی کی آواز سنائی دی ہے تو ہر قسم کی سازش سے اس قوم نے پہلے اس آواز کو دبانے اور آخر میں پیغام حق کی شکل تبدیل کر کے اور اسی طریقے سے اس کو ختم کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا ہے
بنی اسرائیل کے نبیوں کے طویل سلسلے کے آخری پیغمبر سیدنا عیسی علیہ السلام تھے ان کو اور آپ کے حواریوں کو حد سے زیادہ اذیتیں پہنچا کر اور قیصر روم کو برانگیختہ کر کے بالاخر اللہ تعالی کے اس برگزیدہ پیغمبر کو صلیب تک پہنچانے میں اس ازلی بدبخت قوم کا ہاتھ تھا اس کے بعد جب عیسائیت پوری قوت سے پھیلنے لگی اور ان لوگوں کے لیے اس کی اشاعت کو روکنا مشکل ہو گیا تو اسی سازش قوم نے اپنے قدیم دستور کے مطابق عیسائیت میں تحریف اور تبدیلی کے لیے ہر ممکن کوشش کی چنانچہ ظاہر میں خود مسیحی بن کر مسیحیت میں ایسے طریقے سے تبدیلی اور تحریف کر دی جو پہلی صدی عیسوی کے اختتام پر یہ اسمانی ہدایت اور وحدانیت والا مذہب تبدیل ہو کر مکمل طور پر تثلیث کے مشرکانہ عقیدے اور دوسرے مشرکانہ رسومات عبادات اور اعمال کا مجسمہ بن گیا (ذرا اندازہ لگائیں)
ظہور اسلام کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں سرعے کے ساتھ اسلام کی اشاعت ہونے لگی یہ بات یہودیوں کے لیے ناقابل برداشت تھی چنانچہ ان لوگوں نے محلاتی سازشوں خود تراشیدہ ومن پسند افواہوں بغض اور دشمنی سے بھرپور چال بازیوں سے مسلمانوں کو بہت تنگ کیا چنانچہ مکہ مکرمہ کے مشرکوں کی ظاہری اور کھلی عداوت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا دکھ نہیں پہنچا جتنا ان لوگوں کی درپردہ سازشوں سے آپ کو پریشان ہونا پڑا انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو السلام علیکم کے بجائے السام علیکم ( تو برباد ہو جائے ) کہنا شروع کیا یہ لوگ لفظ السلام اور السام اس طرح ادا کرتے تھے کہ آسانی سے ان دونوں لفظوں کے درمیان فرق معلوم کرنا مشکل تھا ایک یہودی عورت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں زہر ملا کر دیا تھا وادی قراء میں حضور علیہ السلام کی موجودگی میں ان یہودیوں کے تیر سے آپ کا ایک غلام شہید ہوا حضور علیہ السلام کے عہد میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ پر تہمت میں بھی درپردہ یہودیوں کی سازش کار فرما تھی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی زیر زمین سازشوں اور خفیہ سرگرمیوں میں ہمہ وقت مشغول ہوتے تھے ان کے جزیرۃ العرب کی انتہائی نازک اور حساس حدود میں رہنے اور سرحد پار آباد اجنبی قوموں سے خطرناک ساز باز میں مشغول ہونے کو اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہمیشہ خطرہ سمجھا جاتا تھا لہذا ان حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت میں وصیت فرمائی کہ اخرجوا الیھود والنصاری من جزیرہ العرب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کو عرب کے جزیرے سے نکال دو ( صحیح بخآری کتاب الجھاد ) اسی وصیت کی تعمیل کا اعزاز حضرت امیرمومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو نصیب ہوا جنہوں نے ہر جگہ سے یہودیوں کو نکال کر شام کی طرف جلا وطن کر کے جزیرۃ العرب کو ان کی نحوست سے پاک کیا اس تمام کاروائی کے باوجود یہودیوں کی پرانی عادت منافقت اور سازش ہر حال میں قائم رہی ایک نہایت شاطر اور ذہین یہودی عبداللہ بن سباء نے ظاہر میں اسلام قبول کر کے اپنے گروہ کے ساتھ اسلام اور مت مسلمہ میں کتنے ہی اقسام کے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ایک طرف اس گروہ نے سیاسی میدان میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلا کر حکومتی نظام میں خلل پیدا کیا جس کی وجہ سے خلیفہ ثالث کے آخری چھ سال اور حضرت علی اور حضرت حسین کے خلافت کا پورا عرصہ مسلمانوں کے باہمی انتشار میں گزرا اور باہر کی دنیا میں اسلام اور اسلامی حکومت کی اشاعت اور وسعت کا انتہائی تیز رفتاری سے چلنے والا کام اچانک بالکل بند ہو گیا اور اس کی وجہ سے اسلام کو ناقابل تلافی ضرر پہنچا اور دوسری طرف اس یہودی اور اس کے گروہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے اہل بیت کی محبت کے نہایت دلکش اور خوبصورت نعروں کی آڑ لے کر پس پردہ پہلی مرتبہ اسلامی عقائد میں بنیادی تحریف کا کام شروع کر دیا جیسا کہ اسلام کی مکمل تعلیم یعنی قرآن مجید اور اس کے لفظی و معنوی حفاظت کا خود اللہ تعالی نے ذمہ اٹھایا ہے اور اس کے لیے غیبی انتظامات کیے گئے ہیں لہذا یہ گروہ بظاہر تو اسمیں تحریف کر کے اس کو مٹا نہ سکا لیکن اندر ہی اندر اس گروہ نے اسلام کی بے داغ عبارت میں کیسے کیسے ڈاکے ڈالے ہیں اور اسلامی عقائد اور قرآن مجید سنت رسول اور ختم نبوت کے بارے میں کس قدر تحریفات کی ہیں دین حق اور اس کی پیروی کرنے والوں کے خلاف کیسی کیسی خطرناک سازشیں کی ہیں اور اس کے کیسے تباہ کن نتائج نکلے ہیں ان کا تفصیلی مطالعہ ہر مسلمان اور خاص کر ایسے عالم دین کے لیے جس نے اس مذہب کا مطالعہ نہ کیا ہو اس پرفتن دور میں نہایت ضروری ہو گیا ہے
اب ہم یہودیوں کی مذکورہ خصلتوں کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں کہ انہوں نے کیسے عیسائیت میں تحریف پیدا کی اور اسلام کے اندر بھی انہوں نے کیسے نہ ختم ہونے والے فتنوں کا دروازہ کھولا ہے
عیسائیت میں تحریف کس نے کی اور کیسے کی ؟
موجودہ عیسائیت کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کو اس دنیا سے آسمان پر اٹھا لیا گیا اس بات کو ابھی ایک سو برس بھی نہ گزرے تھے کہ عام عیسائیوں میں عیسائیت کی جگہ پر پولوس کا تراشیدہ نیا مشرکانہ مذہب عیسائیت کے نام سے مشہور ہو گیا اور دنیا کے تقریبا تمام عیسائیوں نے یہ پولوس کا ایجاد کردہ دین جس کی بنیاد تثلیث اور کفار کے عقیدے پر تھی قبول کر لیا
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پولوس کون تھا تثلیث کیا ہے؟اور کفارہ کس کو کہا جاتا ہے ان باتوں پر کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے
پولوس کون تھا اور اس کے دور کا اہم کارنامہ
اس کا اصلی نام ساؤل تھا اور یہودی النسل تھا اس کی پیدائش کل کلکیہ نامی شہر میں ہوئی گملی ایل نے اس کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری لی تھی یہودی ہونے کی وجہ سے ابتدا میں ہے یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا سخت دشمن تھا اس شخص نے اچانک ہی ڈرامائ انداز میں یہ دعوی کیا کہ وہ عیسائیت اور عیسائیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کے سلسلے میں دمشق جا رہا تھا تو راستے میں ایک منزل پر آسمان سے زمین تک نور ظاہر ہوا اور آسمان سے اس کو یسوع مسیح کی آواز سننے میں آئی جس نے اس کو مخاطب ہو کر عبرانی زبان میں کہا اے ساؤل تو مجھے کیوں ستاتا ہے؟ اس نے مزید کہا کہ یسوع مسیح نے مجھے اپنے اوپر ایمان لانے اور دین کی خدمت کرنے کے لیے دین کا داعی بننے کی دعوت دی میں یہ معجزہ دیکھ کر بعد میں یسو ع مسیح پر ایمان لے آیا اور اب میں نے اپنے آپ کو دین مسیح کی خدمت کرنے اور اس کو وسعت دلانے کے لیے وقف کر دیا ہے پھر اس نے اپنا نام ساؤل سے تبدیل کر کے پولوس رکھا اور اسی نام سے مشہور ہوا جب اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں پہنچ کر مذکورہ قصے کا اعلان کیا تو اکثر حواریوں نے اس پر اعتبار نہ کیا کیونکہ وہ بھی یہودیوں کی منافقانہ شرارتوں سے واقف تھے لیکن برنا باس حواری نے جو اس وقت میں زیادہ با اثر تھا اس نے پولوس کا دعوی مان لیا اور بعد میں دوسروں کو اس نے پولوس کا ہمنوا بنا دیا اب پولوس نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ عام عیسائی اس کو مسیحی مذہب کا بڑا پیشوا اور رہبر سمجھنے لگے اور عوام میں اس کو وسیع مقبولیت اور بزرگی حاصل ہو گئی بعد میں اس نے عیسائیت میں تخریب اور تحریف کا کام شروع کیا جو کہ فی الحقیقت اس کا اصلی منصوبہ اور مقصد وحید تھا پولوس نے اپنی غیر معمولی ذہانت سے یہ بات بھانپ لی کہ عیسائیت میں تحریف اور عیسائیوں کو ان کے اصلی دین سے بیگانہ بنانے کے لیے راستہ یہ ہے کہ ان کے روبرو حضرت عیسی علیہ السلام کی شان کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا یا خدا کی خدائی میں شریک اور حصہ دار یا خود خدا مشہور کیا جائے اور صلیب کے واقعے کی یہ حقیقت بیان کی جائے کہ حضرت مسیح اپنے اوپر ایمان لانے والے تمام انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بن کر صلیب پر چڑھ گئے اب جو لوگ آپ پر ایمان لائیں گے ان کے لیے حضرت مسیح کا صلیب پر چڑھنا نجات کا وسیلہ بن گیا پولوس کی تعلیم میں ہے کہ صرف حضرت مسیح اور ان کے کفارے پر ایمان لانا نجات کے لیے کافی ہے اس کے بعد انسان کو جو کچھ جی میں آئے وہ کرتا پھرے اس سے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا پولوس کی اس عقیدے کی یعقوب اور دوسرے حواریوں نے شروع میں سخت مخالفت کی اور ایمان باللہ اور عمل صالحہ کو ضروری قرار دیا لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی پولوس نے اپنا کام اسی طریقے سے شروع کیا اور عام عیسائیوں میں تثلیث اور کفارے کے عقیدے بہت تیزی سے مقبول ہو گئے یہاں تک کہ یہ دونوں عقیدے عیسائیت کے بنیادی عقائد میں شمار کیے گئے ہیں
تثلیث
موجود ہے عیسائی مذہب میں اللہ تعالی تین عادات باپ بیٹے اور روح القدس کا مرکب ہے اسی عقیدے کو عیسائیت میں تثلیث کہا جاتا ہے اس عقیدے کی تشریح میں عیسائی علماء کا اختلاف ہے لیکن بالاخر یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عیسائیت میں اللہ تعالی تنہا نہیں ہے بلکہ یا تو تینوں مل کر ایک خدا بنا ہے یا ان تینوں میں سے ہر ایک علیحدہ خدا ہے نعوذ باللہ
کفارہ
کفارہ موجود ہے عیسائیت کا ایک بنیادی عقیدہ ہے لفظ کفارہ کے معنی ہیں گناہ یا خطا کا بدل (فیروز اللغات حصہ دوم 218) اس طرح ہی معنی میں کفارے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر چڑھ کر اور اپنی جان دے کر ان تمام انسانوں کے گناہوں اور مصیبتوں کا کفارہ بن چکے ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لائیں گے اور جن کا کفارہ ہے کہ عقیدے پر ایمان ہو گا موجودہ عیسائیت یعنی پولوس کے نہیں تراشیدہ اور ایجاد کردہ مذہب میں ہر انسان پیدائشی گنہگار ہے
شیعہ مذہب میں کفارہ کا عقیدہ
اصول کافی میں امام موسی کاظم سے روایت ہے کہ
عن ابی الحسین علیہ السلام قال ان اللہ عز وجل غضب علی الشیعۃ فخیر فی نفسی اوھم فوقیتھم واللہ بنفسی
( اصول کافی 159 عکس دیکھیں 443)
امام موسی کاظم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی شیعوں کے اوپر غضب نازل کرنے والے تھے لیکن مجھے اختیار دیا کہ یا تو میں اپنی جان دے دوں یا شیعہ ہلاک کیے جائیں یعنی دو باتوں میں سے جو میں چاہوں وہ ہو جائے پھر اللہ کی قسم میں اپنی جان دے کر شیعوں کو بچاتا ہوں
شیعہ مجتہد علامہ مجلسی کہتے ہیں
حضرت امام جعفر صادق فرمودہ کہ اے مفضل رسول خدا دعا کرو کہ خداوند شیعان برادر من علی ابن طالب وشیعان فرزندان من کہ او صیائے منند گناہان گزشتہ وآئندہ ایشاں را تاروز قیامت برمن ہارکن دمرادرمیاں پیغمبراں بسبب گناہان شیعان رسوا مکن پس حق تعالیٰ گناہان شیعان را بر آنحضرت بارکرد وہمہ رابر آئے آنحضرت امر زید
( حق الیقین 367 عکس دیکھیں 572)
امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اے مفضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ اے خداوندا میرے بھائی علی ابن ابی طالب کے شیعوں اور میرے ان وصی فرزندوں کے شیعوں کے اگلے اور پچھلے گناہ میرے اوپر ڈال دے اور شیعوں کے گناہوں کی وجہ سے مجھے دیگر پیغمبروں کے سامنے رسوا نہ کر پھر اللہ تعالی نے تمام شیعوں کے گناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ڈال دیے اور تمام گناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے معاف کیے گئے ادم اور حوا نے معاذ اللہ گناہ کیا لہذا ہر انسان موروثی گنہگار ہے موجودہ عیسائیت کے نزدیک اعمال نیک نجات کے اسباب نہیں اگر اللہ تعالی کسی بندے کے گناہ توبہ و استغفار سے معاف کرے تو وہ آپ کا رحم ہے لیکن یہ رحم اپ کے عدل کے خلاف ہے اللہ کے رحم کا یہ تقاضہ ہے کہ انسان سزا سے بچ جائے لیکن وہ عادل بھی ہے لہذا اپ کے عدل کا یہ تقاضہ ہے کہ جرم کی سزا ضرور دی جائے پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی نجات کا یہ سبب تلاش کر کے نکالا کہ اپنے بیٹے یہ سوا مسیح علیہ السلام جو کہ تمام گناہوں سے پاک ہیں قیامت تک انے والے عیسائیوں کے بوجھ اٹھوا کر ان سے جان کی قربانی لی گئی ماشاءاللہ اور اب ان کا صلیب پر چڑھ کر اپنی جان دینا تمام عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ اور نجات کا وسیلہ بنا ہوا ہے یہ ہے کفارہ کا عقیدہ جس کو پولوس یہودی نے عیسائیت میں داخل کر کے عیسائیت کی تعریف کی یہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ کفارہ اور تثلیث کے بارے میں مستند و معتبر ترین کتب میں سے اختصار کے طور پر اخذ کر کے پیش کیا گیا ہے
اسلام میں شریعت کے ابتدا کس نے کی اور کیسے کی ؟
اپ نے عیسائیت میں یہودی پولوس کی تحریف کے بارے میں پڑھا حقیقت یہ ہے کہ موجودہ عیسائی دنیا پوری دنیا میں تعداد کے لحاظ سے کثرت میں ہونے کے باوجود اور دنیاوی ترقی کے معاملے میں چاند پر قدم جمانے کے دعوے کے ہوتے ہوئے یہ اتنے بڑے مفکر اور مدبر تمام کے تمام پولوس یہودی کی تحریف کردہ عیسائیت کی پیروی کرنے والے ہیں جس کا حضرت عیسی علیہ السلام کی عیسائیت سے کوئی تعلق اور ربط نہیں ہے اسلام میں شیعت کے ابتدائی تاریخ پہ بالکل ایسی ہی ہے جیسی پولوس کی اصلی عیسائیت میں تحریف اور تبدیلی کی تاریخ فرق صرف یہ ہے کہ عیسائیت میں یہودی پولوس نے جو تحریف کی اس سے اصل عیسائیت بالکل مٹ گئی اور پولوسیت عیسائیت کے نام سے قائم ہو گئی بخلاف اس کے کہ شیعیت کے موجد عبداللہ بن سباء یہودی اور اس کی پیروی کرنے والوں نے اسلام میں جو کچھ تبدیلی اور تحریف کی وہ تو اپنی جگہ قائم رہی لیکن اس کا نام شیعت ہو گیا اللہ سبحانہ و تعالی نے اسلام کی اس بات سے حفاظت فرمائی کہ شیعت کو لوگ اسلام کہنے لگے اور شیعت کے بنیادی عقائد قران و سنت کو مٹا دیں ایسا نہ ہو سکا اور کبھی نہ ہو سکے گا کیونکہ اسلام کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے ان کی حفاظت کی ذمہ داری حق سبحانہ و تعالی نے لی ہے پھر معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے عقائد و اعمال الگ ہیں جن کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور شیعت کے اعمال باقاعد علیحدہ ہیں جن کے بنیاد اماموں کی امامت اور ان کی طرف منسوب روایات پر ہے لہذا اسلام جدا ایک مذہب ہے اور شیعت الگ ایک دوسری چیز کا نام ہے یہ دونوں متضاد ہیں ان میں کوئی اتحاد نہیں تاریخ کے مطالعے سے شیعت کی ابتدا کے بارے میں جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ اس کی مختصر روداد یوں ہے
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عرب کا تقریبا پورا علاقہ اسلام کی آغوش میں اگیا تھا یہاں تک کہ مشرکین اور اہل کتاب یہود و نصاری میں سے کوئی بھی ایسے قوت باقی نہ رہی تھی جو اسلام کے فروغ اور اشاعت میں رکاوٹ بن سکے یہی صورتحال عہد صدیقی میں اور زیادہ مستحکم ہوئی عہد صدیقی کی مدت مختصر تھی یعنی سوا دو سال تقریبا اس دور میں اسلام کی اشاعت کا سلسلہ جزیرۃ العرب کے حدود سے نکل کر اطراف عالم میں پھیل گیا عہد فاروقی کے تقریبا ساڑھےدس سال کے دور میں دعوت اسلام اور عسکری فتوحات کا سلسلہ اس تیزی سے اگے بڑھا کے اس وقت کی دو بڑی طاقتیں فارس اور روم کے کئی علاقے اہل اسلام کے زیر نگیں آگئے عہد عثمانی میں اسلام کی دعوت اور ملکی فتوحات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اس زمانے میں مختلف ملکوں قوموں اور مختلف طبقات کے بے شمار لوگ اپنے قدیم مذاہب کو چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو گئے ان لوگوں میں اکثر و بیشتر وہ لوگ تھے جنہوں نے دین اسلام کو حق و نجات کا واحد ذریعہ سمجھ کر قبول کیا تھا لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو منافقانہ طور پر اسلام قبول کر کے مسلمانوں میں شامل ہو گئے تھے ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شدید بغض اور دعوت بھری ہوئی تھی وہ اسی ارادے اور منصوبے سے بظاہر مسلمان بن کر مسلمانوں میں شامل ہو گئے کہ جب بھی کوئی موقع ہاتھ ائے تو کوئی نہ کوئی فتنہ پیدا کر کے اسلام اور مسلمانوں کو آسانی سے نقصان پہنچا سکیں خاص طور پر یہودیوں میں سے کافی لوگ اسی مقصد کے حصول کے خاطر منافقانہ طور پر اسلام میں داخل ہوئے تھے ایسے ہی لوگوں میں جن کے اوپر ذکر ہوا ایک یہودی عبداللہ بن سبا بھی تھا جو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اس نے بھی حضرت عثمان کے دور خلافت میں اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا بعد میں اس کا جو کردار سامنے ایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہودیت کو ترک کرنا اور اسلام قبول کرنے کا مقصد یہی تھا جس مقصد سے پولوس یہودی نے یہودیت کو ترک کر کے عیسائیت کو قبول کیا تھا عبداللہ بن سباء کو مدینہ منورہ کے مختصر قیام میں یہ بات معلوم ہو گئی کہ حجاز کے سارے علاقے میں دینی شعور عام ہے اور ایسے محافظ اسلام موجود ہیں کہ ان کی موجودگی میں یہ اپنے مقصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکے گا چنانچہ یہ بصرہ اور کوفہ کو اور مصر کو روانہ ہو گیا وہاں اس کو اپنے مقصد کے جتنے لوگ بھی ملے ان کو اس نے آپس میں منظم کیا اور زیر زمین اپنا کام شروع کیا عبداللہ بن سباء یہودی کو پولوس یہودی والا سبق اچھی طرح یاد تھا جس سے اس نے عیسائیت میں تحریف کی تھی یعنی ایک مذہب کی پیروی کرنے والوں کو گمراہ کرنے کا اسان سے آسان طریقہ یہی ہے کہ اس مذہب کے مقدس مقبول اور محبوب شخصیت کے بارے میں لوگوں میں حد سے زیادہ غلو سے کام لے کر رتبہ مقام اور ان کے فضائل بیان کیے جائیں یہ پڑھا لکھا تو پہلے ہی تھا اس کو توریت اور انجیل کا علم حاصل تھا اور عربی زبان پر اس کو کامل دسترس حالت حاصل تھی اور اس کو پولوس کا عیسائیت کو تبدیل کرنے کے لیے اختیار کیا ہوا طریقہ اور اس سے حاصل کی ہوئی کامیابوں کی پوری واقفیت حاصل تھی چنانچہ یہ ہر طرح سے موقع شناس تیز فہم اور چالاک ثابت ہوا یہ ماحول اور حالات اور موقع دیکھ کر کام کرتا تھا پس جیسا ماحول اور لوگ دیکھتا تھا ان کی استعداد اور صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مقصد کی بات سامنے رکھتا تھا اور بات کرنے کے بعد ان کے رد عمل کا خاص خیال رکھتا تھا اسلام لانے کے بعد اس نے اپنا ظاہری نمونہ ایک عابد زاہد متقی اور پرہیزگار کا اختیار کیا جس کی وجہ سے لوگ اس کی تعظیم کرنے لگے اور اس کے پاس لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تورات اور انجیل میں جو کچھ لکھا ہوا ہوتا تھا وہ پڑھ کر لوگوں کو سنا کر خوش کرتا تھا مورخین کا بیان ہے کہ اس نے سب سے پہلے جو نئی بات پیش کی وہ یہ تھی کہ مجھے ان مسلمانوں پر تعجب ہے کہ عیسی علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آنے پر عقیدہ و یقین رکھتے ہیں لیکن سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دوبارہ دنیا میں آنے کے قائل نہیں ہیں حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل و اعلی ہیں اپ یقینا دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اس نے یہ بات ایسے نو مسلم اور مکمل دین سے ناواقف لوگوں کے سامنے رکھی جن کے بارے میں اس نے سمجھا کہ ایسے خرافاتی عقیدے کو قبول کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں جب اس نے دیکھا کہ میری یہ نئی بات ان لوگوں نے بغیر کسی لیت ولعل کے قبول کر لی ہے یا یہ لوگ خاموش ہو گئے ہیں حالانکہ یہ بات قران و سنت کے صریحا خلاف تھی تو اس کی ہمت اور زیادہ بڑھی اور یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصی قرابت کی بنا پر تمام عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے حضرت علی کے فضائل ومناقب میں جھوٹی باتیں بنا کر حدیث کے نام سے بیان کرنے لگا جس سے اس کی مقبولیت میں اور اس کے عقیدت مندوں میں دن بدن اضافہ ہونے لگا اس کے بعد اس نے ایک دوسری بات یہ کہی کہ ہر پیغمبر کا ایک وصی اور وزیر ہوتا ہے جو نبی کی نبوت کا رازداں ہوتا ہے جیسے موسی علیہ السلام کے رازداں یوشع بن نون تھے ایسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پس توحید و رسالت کے ساتھ حضرت علی کی امامت ہونا بھی فرض عین ہے یہ بات بھی لوگوں نے تسلیم کر لی اور چند دنوں میں انہوں نے یہ سبق بھی یاد کر لیا اب یہ اور اگے بڑھا اور کہنے لگا کہ پیغمبر کریم کے تمام صحابہ افضل ہیں لیکن حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خصوصی قرابت کے لحاظ سے ان سب سے زیادہ افضل ہیں یہ بات نو مسلم ناقبت اندیش مسلمانوں کے لیے کوئی خاص اہمیت والی نہیں تھی انہوں نے سمجھا کہ کسی ایک شخص کو دوسرے سے افضل کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن جن لوگوں میں دینی فراست تھی انہوں نے اس بات کو غلط اور دین میں ایک فتنے کا دروازہ کھولنے کا سبب سمجھا اور انہوں نے ناراضگی ظاہر کی یہ سبق یاد کرانے میں عبداللہ بن سباء کو زیادہ دقت پیش آئی اور کچھ وقت لگا اور زیادہ محنت کرنی پڑی اس نے جب دیکھا کہ ان دو مسلم ناقبت اندیش مسلمانوں نے یہ بات بھی مان لی ہے اور یہ ان کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ تمام صحابہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ افضل ہیں تو یہ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت اور حکومت کی سربراہی بھی حقیقت میں حضرت علی کا حق تھا توریت اور انجیل میں بھی یوں لکھا ہوا ہے لیکن حضور کی وفات کے بعد مہاجرین و انصار نے اپنی اکثریت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار کو اپنے پاس رکھنے کے لیے حضرت علی کے خلاف سازش کی اور معاذ اللہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بنایا اور اس نے اپنے بعد معاذ اللہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو نامزد کیا اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنائے گئے ان صحابہ نے حضرت علی کا معاذ اللہ حق غضب کیا اور اسی طور سے یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد معاذ اللہ غاصب مرتد منافق اور کافر بن گئے ان پر تبرا کرنا چاہیے مزید کہنے لگا کہ اب بھی موقع ہاتھ سے نہیں گیا ہے موجودہ خلیفہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کر کے حضرت علی کو خلیفہ بنایا جائے کیونکہ اپ کو ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہونا چاہیے تھا اس کام میں تمام مسلمانوں کو تعاون کرنا چاہیے بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اپ کے انتظامیہ کے خلاف موثر طور پر پروپیگنڈا شروع کیا اور یہ مہم چلائی کہ موجودہ خلیفہ معاذ اللہ نااہل اور ظالم ہیں کوئی بھی فریاد رس نہیں ہیں اموی سیاہ و سفید کے مالک ہیں خلیفہ کی تبدیلی کے بغیر حالات کا درست ہونا ناممکن ہے وغیرہ وغیرہ اتفاقا اس وقت مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ رومیوں کی شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے افریقہ اور طرابلس میں نظم و نسق قائم کرنے میں مشغول تھے اور ان کو اندرونی حالات پر پوری توجہ دینے کا موقع کم مل رہا تھا عبداللہ بن صباح یہودی کو ایسے حالات کی اشد ضرورت تھی لہذا اس نے ان حالات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اس نے مصر کو اپنا مستقل ہیڈ کوارٹر بنا کر بصرہ وکوفہ وغیرہ کو خطوط روانہ کیے اور اس طرح پروگرام ترتیب دیا کہ مصر والے کوفہ بصرہ دمشک اور مدینہ والوں کو اور کوفہ والے مصر بصرہ دمشق اور مدینہ والوں کو اور بصرہ والے مصر کوفہ دمشق اور مدینہ والوں کو اور دمشق والے مصر کوفہ بصرہ اور مدینہ والوں کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گورنروں کی مسلسل جعلی شکایتیں اور خطوط بھیجتے رہے چنانچہ اس پروپگنڈے نے حکومت کے خلاف بہت اثر پیدا کیا اور حکومت کے لیے عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہونے لگا کہ دوسرے مقامات پر ظلم ہو رہا ہے اس کی تحقیقات کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے وفود بھیجے جو تحقیق کر کے واپس ائے اور یہ رپورٹ دی کہ کہیں بھی ظلم نہیں ہو رہا ہے حالات پرسکون ہیں ایسا کوئی بھی ادمی نہیں جو حکومت کے خلاف شکایت کر رہا ہو کسی بھی تحریک کو جاندار بنانے کے لیے یہ بات اشد ضروری ہے کہ اس تحریک میں کوئی دلکش نعرہ ہو عبداللہ بن صبا یہودی نے دیکھا کہ حکومت کے خلاف اس پروپیگنڈے کا خاطر خواہ اثر ہوا ہے اور حضرت علی کی افضلیت کے بارے میں بھی نو مسلم عوام کے خیالات میں کافی تبدیلی ائی ہے لہذا عام لوگوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے اس نے یہ نعرہ ایجاد کیا
"امامت فرض ہے اہل بیت سے محبت اور علی رضی اللہ تعالی عنہ کی حمایت ہمارا نصب العین ہے حضرت علی وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اپ خلافت کے حقدار ہیں اور مظلوم ہیں پہلے تینوں خلیفہ معاذ اللہ غاصب ہیں کافر و مرتد ہیں (ابن سبا 63 )"
کافی عرصے سے یہ سب کچھ زیر زمین ہو رہا تھا خود حضرت علی کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ اپ کے بارے میں کیا کیا کہا جا رہا ہے کیونکہ عام طور پر زیر زمین تحریکیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں ان کی خبر تب ہوتی ہے جب زیر زمین بہت کچھ ہو چکا ہوتا ہے اس کام میں یہودی شروع ہی سے بڑے تجربہ کار رہے ہیں پھر جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ جو اس وقت کی سب سے بڑی حکومت کے فرمان رواں تھے ان باغیوں کے خلاف صرف اجازت دیتے تو یہ نہیں ہو سکتا تھا جو ہوا لیکن اپ نے ایسا کرنا پسند نہیں کیا کہ صرف اپ کی جان کی حفاظت میں کسی کلمہ گو کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرے بلکہ اس کے بر خلاف اپ نے مظلومیت کی حالت میں شہید ہو کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہونے کو پسند فرمایا اور اس دنیا میں اپ نے ایک ایسی مظلومیت کی شہادت اور قربانی کی لافانی مثال قائم کی جس کی نظیر اج تک یہ دنیا پیش نہیں کر سکی کہ ایک عظیم سلطنت کے فرمان روا نے بے کسی کی حالت میں رہ کر شہادت کی موت قبول کی ہو لیکن اپنی حفاظت کے لیے فوج مقرر کر کے اس فوج اور باغیوں کے درمیان جنگ کرا کر اور اس طرح مسلمانوں کو اپس میں لڑانا اور خون بہانہ پسند نہ کیا ہو اسی خونی فضا میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ 35 ہجری میں خلیفہ چہارم مقرر ہوئے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت کے نتیجے میں امت دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی اور نوبت جنگ اور قتال تک پہنچی جنگ جمل اور جنگ صفین دو لڑائیاں ہوئیں عبداللہ بن صبا یہودی کا گروہ جو خاصی تعداد میں تھا وہ حضرت علی کے ساتھ تھا اور اس یہودی کو ایسی فضا میں اچھا موقع ہاتھ ایا کہ وہ فوج کے بے علم اور کم فہم عوام کو حضرت علی کی محبت اور عقیدت کے عنوان سے گمراہی میں مبتلا کرے یہاں تک کہ اس نے کچھ بے وقوفوں کو یہ بھی سبق پڑھایا کہ پولوس یہودی نے عیسائیوں کو پڑھایا تھا جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو یہ عقیدہ بن گیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ انسانی شکل میں خدا ہے اس نے کچھ احمقوں کے کانوں میں یہ بات بھی ڈال دی کہ اللہ تعالی نے نبوت اور رسالت کے لیے جو تالی کو منتخب کیا تھا لیکن جبرائیل کو دھوکہ لگا کہ وہ غلطی سے وہی لے کر حضرت علی کے بجا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے چند سیاسی مصلحتوں کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینۃ الرسول کو چھوڑ کر عراق کے شہر کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور پھر یہ علاقہ سبائیوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا یہاں پر اس گروہ کو اپنے عقائد فاسدہ کی ترویج و اشاعت کے لیے حالات ماحول اور لوگ زیادہ مناسب مل گئے۔