سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کرنا
علی محمد الصلابیسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نظام حکومت کے اصول
خلافت کے لیے نامزدگی:
جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیماری میں اضافہ ہو گیا تو آپؓ نے لوگوں کو اپنے پاس جمع کیا اور کہا: میری جو حالت ہے جسے تم دیکھ رہے ہو، میں قریب الموت ہوں۔ اللہ نے میری بیعت سے متعلق تمہاری قسموں کو پورا کر دیا، تم سے میرے عقد بیعت کو کھول دیا اور تمہارا معاملہ تمہارے حوالے کر دیا، لہٰذا تم جسے پسند کرو اپنا امیر منتخب کر لو، اس لیے کہ اگر تم میری زندگی ہی میں اپنا امیر بنا لو تو یہ زیادہ مناسب ہے، ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم اختلاف کر لو۔ پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں مشورہ کیا، ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ اس ذمہ داری سے خود کو دُور رکھے اور جو اس کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کا اہل ہو اسے یہ کام سونپ دیا جائے۔ چنانچہ بالآخر وہ سب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے خلیفہ رسول! ہماری رائے وہی ہو گی جو آپ کی رائے ہو گی۔ آپؓ نے فرمایا: تو مجھے موقع دو تاکہ میں اللہ، اس کے دین اور اس کے بندوں کے بارے میں غور کر لوں۔ سیدنا ابوبکرؓ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے کہا: سیدنا عمر بن خطابؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ جس چیز کے بارے میں آپؓ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں اس کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھتے ہیں؟ ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرچہ میں جانتا ہوں، پھر بھی؟ عبدالرحمنؓ نے کہا: اللہ کی قسم! وہ اس معاملہ میں آپؓ کی رائے سے بھی زیادہ بہتر ہیں۔
پھر آپؓ نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا: سیدنا عمر بن خطابؓ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: آپؓ ان کے بارے میں زیادہ واقف ہیں، آپؓ نے فرمایا: بات واضح کرو، اے ابو عبداللہ! سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: میرے علم کے مطابق ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا کوئی جواب نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تم پر رحم کرے، اللہ کی قسم! اگر میں عمر کو خلافت کے لیے نامزد نہ کرتا تو تم سے تجاوز نہ کرتا یعنی تمہیں خلافت کے لیے نامزد کرتا۔
پھر آپؓ نے حضرت اسید بن حضیرؓ کو بلایا اور ان سے بھی اسی طرح کی بات کہی، تو اسیدؓ نے کہا: آپؓ کے بعد میں ان کو سب سے بہتر جانتا ہوں، خوشی کے موقع پر خوش ہوتے ہیں اور ناراضگی کے موقع پر ناراض ہوتے ہیں، ان کا باطن ظاہر سے زیادہ بہتر ہے، اس ذمہ داری کو اٹھانے کا حل ان سے زیادہ مناسب کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے۔ اسی طرح آپ نے سعید بن زیدؓ اور متعدد انصار و مہاجرین سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مشورہ کیا، طلحہ بن عبید اللہؓ کے علاوہ تقریباً سب کی رائے یکساں تھی۔ طلحہؓ آپ کی سخت گیری سے ڈرتے تھے اور اسی لیے سیدنا ابوبکرؓ سے کہا: سیدنا عمرؓ کی سخت مزاجی کو جاننے کے باوجود ان کو ہمارا خلیفہ نامزد کرنے کے بارے میں جب آپؓ سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا تو آپؓ کیا جواب دیں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھا دو، کیا مجھے اللہ سے خوف دلاتے ہو؟ وہ شخص رسوا ہوا جو تمہارے معاملے میں ظلم کی راہ اپنائے۔ میں کہوں گا: اے اللہ! ان پر میں نے تیرے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ مقرر کیا۔
(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 18 تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 238)
پھر آپؓ نے لوگوں کو حضرت عمرؓ کی سختی کا سبب بتایا اور فرمایا: وہ اس لیے سخت تھے کہ مجھے جانتے تھے کہ میں نرم طبیعت کا ہوں۔ اگر خلافت کا معاملہ ان کو سونپ دیا جائے گا تو نرم پڑ جائیں گے اور بہت سی سختیوں کو چھوڑ دیں گے۔
پھر آپؓ نے ایک عہد نامہ لکھا جسے امرائے لشکر کے ذریعہ سے مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو پڑھ کر سنایا گیا، وہ عہد نامہ یہ تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابوبکر بن ابو قحافہؓ کی طرف سے یہ عہد نامہ ہے جسے اپنی دنیوی زندگی کے آخری وقت میں دنیا چھوڑتے ہوئے اور اخروی زندگی کے آغاز سے اس میں داخل ہوتے ہوئے لکھا ہے، جس وقت کافر ایمان لاتا ہے، فاجر یقین اور جھوٹا تصدیق کرنے لگتا ہے، میں نے اللہ، اس کے رسول، اس کے دین، اپنی ذات اور تمہارے لیے خیر خواہی سے متعلق فروگزاشت نہیں کی ہے۔ پس اگر انہوں نے عدل و انصاف سے کام لیا تو یہی میرا گمان اور میرا علم ہے اور اگر اس سے ہٹ گئے تو ہر انسان کو اس کی کمائی کا بدلہ ملے گا۔ میں نے خیر کی نیت کی ہے غیب کو نہیں جانتا۔
وَسَيَـعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّـنۡقَلِبُوۡنَ (سورۃ الشعراء: آیت 227)
ترجمہ: ’’اور عنقریب وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، جان لیں گے کہ وہ لوٹنے کی کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔‘‘
خلافت کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی امت کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آخری خیر خواہی تھی۔ چونکہ آپؓ نے رنگین دنیا کی آمد اور اپنی قوم کی قدیم فاقہ کشی کو پہچان لیا تھا اس لیے آپؓ کو خوف تھا کہ جب وہ اسے دیکھیں تو مبادا اس کی رنگینیوں کے تابع نہ ہو جائیں، پھر وہ ان پر ظلم کرنے لگے کیونکہ یہی وہ چیز تھی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں خوف دلایا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَوَ اللّٰہِ لَا الْفَقْرَ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ وَلٰکِنْ أَخْشٰی عَلَیْکُمْ أَنْ تُبْسَطَ عَلَیْکُمُ الدُّنْیَا کَمَا بُسِطَتْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ، فَتَنَافَسُوْہَا کَمَا تَنَافَسُوْہَا وَتُہْلِکَکُمْ کَمَا أَہْلَکَتْہُمْ۔
(الکامل: ابن الأثیر: جلد، 2 صفحہ 79 التاریخ الإسلامی: محمود شاکر: صفحہ 101 )
’’اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں فقیری سے نہیں ڈرتا ہوں لیکن تمہارے بارے میں مجھے یہ خوف ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کر دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے لگو، جس طرح انہوں نے مقابلہ کیا، پھر دنیا تمہیں ہلاک کر دے جس طرح انہیں ہلاک کر دیا۔‘‘
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امت کی بیماری کی بہترین تشخیص کر لی تھی، اس لیے آپؓ نے اُمت کے لیے بہترین اور کامیاب دوا کا انتظام کر دیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بلند پہاڑ تھے کہ جب دنیا آپؓ کو دیکھتی تو مایوس ہو جاتی اور پیٹھ پھیر کر بھاگتی۔ یہ آپؓ کی شخصیت ہی تھی جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
إِیْہَا یَابْنَ الْخَطَّابِ! وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ۔
(الکامل: ابن الأثیر: جلد، 2 صفحہ، 79 )
ترجمہ: ’’بہت خوب اے ابن خطاب! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر شیطان راستہ چلتے تم سے مل جاتا ہے تو (راہ بدل کر) تمہارے راستہ کے علاوہ دوسرے راستہ پر چلنے لگتا ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ یہ امت جن بڑے بڑے حوادث سے دوچار ہوئی ان کا ظہور سیدنا عمرؓ کی شہادت کے بعد ہوا، لہٰذا ان کمر توڑ حوادث کا بعد میں واقع ہونا سیدنا ابوبکرؓ کی فراست، اور سیدنا عمرؓ کے لیے تیارہ کردہ مجوزہ عہد نامہ کی سچائی پر ایک قوی دلیل بن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ تین آدمیوں میں کافی فراست پائی جاتی ہے:
1۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صاحبزادی، جس نے کہا تھا: اس (آدمی) کو نوکر رکھ لیجیے، بے شک آپ کا بہترین مزدور وہ ہے جو طاقتور اور امانت دار ہو۔
2۔ عزیز مصر، جب اس نے اپنی بیوی سے حضرت یوسف علیہ السلام سے متعلق کہا: اس کو عزت و احترام سے رکھو، امید ہے کہ وہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں۔
3۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ جب کہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا۔
(تاریخ الإسلام: عہد الخلفاء: ذہبی جلد 66 صفحہ 127 ، ابوبکر رجل الدولۃ صفحہ: 99)
سچ تو یہ ہے کہ سیدنا عمرؓ امت کی ایک مضبوط دیوار تھے جو امت اور فتنوں کے درمیان بند کی طرح حائل تھے۔
(صحیح البخاری: الجزیۃ والموادعۃ: حدیث، 3158 )
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عزائم کی خبر حضرت عمرؓ کو ملی، آپ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے، حضرت ابوبکرؓ نے دیکھتے ہی ان کے عزائم کو بھانپ لیا، پھر انہیں سمجھایا، لیکن حضرت عمرؓ نے ماننے سے انکار کر دیا، حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو تلوار کی دھمکی دی، پھر حضرت عمرؓ کے سامنے بات قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔
(صحیح البخاری: فضائل اصحاب النبی: حدیث، 3683)
سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے چاہا کہ با ہوش و حواس اور پوری ذمہ داری کے ساتھ لوگوں کو سیّدنا عمر فاروقؓ کی بطورِ خلیفہ نامزدگی سے آگاہ کر دیں تاکہ کوئی پیچیدگی اور شک و شبہ باقی نہ رہ جائے۔ چنانچہ ابوبکرؓ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کیا میں جس کو تمہارا خلیفہ بنا رہا ہوں اس سے تم راضی ہو؟ بے شک میں نے مشورہ لینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی قرابت دار کو خلافت سونپی ہے۔ میں نے تم پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا ان کی باتوں کو سنو اور اطاعت کرو۔ لوگوں نے عرض کیا: ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
(مجمع الزوائد: جلد، 10 صفحہ، 268 سنداً یہ حدیث صحیح ہے۔)
پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اللہ سے دعا کرنے لگے، اس سے مناجات کیں اور دل کے رازوں کو اس کے سامنے کھول دیا، آپؓ دعا کر رہے تھے: اے اللہ! تیرے نبی کے حکم کے بغیر میں نے عمر کو خلیفہ بنا دیا ہے۔ اور اس سے میرا اصل مقصد لوگوں کی اصلاح ہی ہے۔ میں ان کے فتنے میں مبتلا ہو جانے سے خائف ہوں اور پوری محنت سے ان سے رائے اور مشورہ لے کر پھر ان میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ خیر خواہی کے خواہش مند شخص کو ان پر مقرر کیا ہے، اللہ تیرا حکم (موت) مجھ پر آ پہنچا ہے، لہٰذا تو اس امت کو میرا بہتر جانشین عطا کر دے کیونکہ وہ سب تیرے بندے ہیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ عہد نامہ خلافت پڑھ کر لوگوں کو سنا دیں اور لوگوں سے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیعت لے لیں۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکرؓ کی مزید تصدیق کی نیز کسی منفی ردّ عمل کے ظاہر ہونے سے پہلے حکم کی تعمیل کر دی۔ حضرت عثمانؓ نے لوگوں سے پوچھا: کیا اس عہد نامے میں جس کا نام ہے، تم اس کی بیعت کرنے کو تیار ہو؟ سب نے کہا: ہاں، سب نے اس کا اقرار کیا اور اس پر راضی ہو گئے۔
چنانچہ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عہد نامہ پڑھ کر فارغ ہوئے تو سب اس پر راضی ہو گئے اور حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور آپؓ کی بیعت کی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمرؓ کو لے کر تنہائی میں گئے اور ہر چیز کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آپ کو بہت ساری نصیحتیں کیں اور پھر دینِ اسلام کی راہ میں اپنی ہر ممکن طاقت لگانے اور کوشش کرنے کے بعد ہر قسم کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
(أبوبکر رجل الدولۃ: صفحہ، 100)
آپ نے حضرت عمرؓ کو یہ وصیتیں کی تھیں:
’’اے عمر! اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ اللہ کے لیے کچھ کام صرف دن کے ہیں جنہیں وہ رات میں قبول نہیں کرتا، اور کچھ کام رات کے ہیں جنہیں وہ دن میں قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی نفل کو قبول نہیں کرتا جب تک کہ فریضہ کی ادائیگی نہ کی جائے۔ قیامت کے دن ترازو میں جن لوگوں کے نامہ اعمال بھاری ہوں گے وہ محض ان کے اتباع حق کی وجہ سے ہوں گے، کل وہ پلڑے یقیناً بھاری ہوں گے، اور جن لوگوں کے نامہ اعمال ہلکے ہوں گے وہ محض ان کے اتباع باطل کی بنیاد پر ہوں گے، کل وہ پلڑے یقیناً ہلکے ہوں گے۔ اللہ نے جنت والوں کا ذکر کیا تو ان کے اچھے اعمال کے حوالے سے یاد کیا اور ان کی گستاخیوں کو درگزر کر دیا۔ پس جب میں ان کا ذکر کرتا ہوں تو ڈرتا رہتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے نہ مل سکوں اور اللہ تعالیٰ نے جب جہنم والوں کا ذکر کیا تو ان کا ذکر ان کے بُرے اعمال کے حوالے سے کیا اور اپنی بھلائیوں کو ان پر بند کر دیا۔ پس جب میں ان کا ذکر کرتا ہوں تو میں امید لگاتا ہوں کہ اِن لوگوں کے ساتھ نہ رہوں۔ بندہ کو خوف و رغبت کی زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ سے بے جا امیدیں نہ باندھے اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اگر تم نے میری وصیت کو محفوظ کیا تو موت کے علاوہ کوئی بھی گمشدہ تیرے نزدیک مبغوض نہ ہو گا۔ اور تو اس کو عاجز نہ کر پائے گا۔‘‘
(مآثر الأنافۃ: جلد، 1 صفحہ، 49)
حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے فوراً بعد حضرت عمر بن خطابؓ نے خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
(تاریخ الطبری: جلد، 4 صفحہ، 248)
اس مقام پر ایک محقق یہ محسوس کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے عمرؓ کو خلیفہ نامزد کیے جانے کو اس وقت تک شرعی حیثیت حاصل نہ ہوئی جب تک کہ اکثریت کی رضامندی حاصل نہ ہو گئی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لوگوں سے مطالبہ کیا کہ میرے بعد وہ کسی کو اپنا خلیفہ بنانے کے لیے تلاش کر لیں تو لوگوں نے معاملہ آپؓ پر چھوڑ دیا اور کہا کہ ہماری وہی رائے ہو گی جو آپ کی رائے ہو گی۔
(طبقات ابن سعد: جلد، 3 صفحہ، 199 تاریخ المدینۃ: ابن شہبۃ: جلد، 2 صفحہ 665 تا 669 )
سیّدنا ابوبکرؓ نے اہم ترین صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرنے کے بعد ہی سیدنا عمرؓ کو نامزد کیا تھا، انفرادی طور پر ہر ایک سے پوچھا اور جب سیدنا عمر فاروقؓ پر اتفاقِ رائے کا رجحان محسوس کیا تو حضرت عمرؓ کی نامزدگی کا اعلان کر دیا۔ اس طرح امتِ مسلمہ کی اہم ترین شخصیتوں سے رائے اور مشورہ لینے اور صحیح نقطہ نظر کی تلاش و جستجو کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ کو نامزد کیا، اور اس نامزدگی کی شرعی حیثیت اس وقت تک مفقود رہی جب تک کہ امتِ مسلمہ نے اسے قبول نہ کیا۔ کیونکہ حاکم وقت کو منتخب کرنا امت کا حق ہے۔ خلیفہ زیادہ سے زیادہ امت کی طرف سے وکالت کر سکتا ہے۔ لہٰذا اصل حق داروں کی رضامندی ضروری ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اسی لیے امت مسلمہ سے مخاطب ہوئے اور کہا: کیا میں تم پر جس کو خلیفہ بناؤں تم اس پر راضی ہو؟ کیونکہ اللہ کی قسم میں نے لوگوں سے مشورہ کرنے میں ادنیٰ کوتاہی بھی نہیں کی ہے اور نہ کسی قرابت دار کو تم پر حاکم بنایا ہے۔ بلکہ میں نے عمر بن خطابؓ کو تم پر خلیفہ مقرر کیا ہے۔ تو تم ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا: ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔
(دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، الشجاع: صفحہ، 272 )
آپ کا یہ کہنا کہ ’’کیا میں تم پر جس کو خلیفہ بناؤں تم اس پر راضی ہو؟‘‘ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ انتخاب خلافت کا معاملہ امت کا حق ہے، اور یہ چیز اس اُمت کے ساتھ خاص ہے۔
(صفۃ الصفوۃ: جلد، 1 صفحہ 265 ، 264 )
بلاشبہ سیّدنا عمرؓ نے اہلِ حل و عقد کے مشوروں اور ان کے ارادوں کے اتفاق سے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی، لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو انتخاب خلیفہ کی ذمہ داری سونپ دی اور آپؓ کو اس معاملے میں اپنا نائب مقرر کر دیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے مشورہ کیا اور خلیفہ متعین کر دیا۔ پھر اس تعیین کو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اس کا اقرار کیا، اسے قبول کیا اور اس پر اظہارِ رضا مندی کیا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امت کے اصحاب حل و عقد ہی اس امت کے ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ اس طرح گویا سیّدنا عمر فاروقؓ کا خلیفہ مقرر کیا جانا شورائیت کے صحیح ترین اور عادلانہ اسلوب کے بالکل موافق تھا۔
(دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ: الشجاع: صفحہ 272 )
سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے انتخاب کے لیے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ کسی بھی صورت میں شورائیت کے منافی نہیں ہے، اگرچہ سیدنا عمرؓ کو بحیثیت خلیفہ منتخب کرنے میں جو کارروائی کی گئی وہ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ کو بحیثیت خلیفہ منتخب کرنے میں نہ کی گئی تھی۔
(القیود الواردۃ علی سلطۃ الدولۃ فی الاسلام: صفحہ، 172)
بہرحال خلافت فاروقی شورائیت اور اتفاق رائے سے منعقد ہوئی، نیز تاریخ اس بات پر خاموش ہے کہ آپ کی خلافت کے بارے میں کوئی اختلاف واقع ہوا ہو، یا آپؓ کی طویل مدت خلافت میں کسی نے آپؓ کی خلافت کے خلاف بغاوت کی ہو۔ بلکہ آپؓ کی خلافت اور مدت خلافت میں آپؓ کی اطاعت پر اجماع تھا اور سب ایک وحدت کی شکل میں تھے۔