سیدنا حسینؓ نے اپنے اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کسے بتایا ؟
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا حسینؓ نے اپنے اور ساتھیوں کی شہادت کا ذمہ دار کسے بتایا ؟
حضرت مسلم بن عقیلؓ( جنہیں سیدنا حسینؓ نے کوفہ والوں کے خطوط کی روشنی میں اپنے سے پہلے عراق بھیجا تھا اور ان سے تعاون کرنے کا حکم دیا تھا مگر عراقیوں نے ان کو دھوکہ دیا اور پھر دشمنوں کے نرغے میں انہیں اکیلا چھوڑ دیا اور آخر کار وہ شہید کر دیئے گئے) نے وصیت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ:
"میری طرف سے سیدنا حسینؓ کو لکھ دینا کہ کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی ہے ان پر اعتماد نہ کرنا۔ ( دیکھئے شیعہ کتاب جلاء العیون )
حضرت مسلم بن عقیلؓ نے سیدنا حسینؓ کے نام یہ پیغام بھیجا کہ کوفہ کے لوگ بے وفا اور غدار ہیں، ان کی باتوں اور خطوط پر اعتبار نہ کریں اور یہاں نہ آئیں ورنہ یہ لوگ آپؓ کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے۔
حضرت حر ؒ شہید نے بھی کوفہ کے شیعوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کو سرِ عام برا بھلا کہا۔
(دیکھئیے شیعہ کتاب خلاصۃ المصائب: صفحہ 60)
سیدنا حسینؓ کے ایک اور جانثار بریری بن حضیر نے بھی اہلِ کوفہ کو اس کا مجرم بتایا اور کہا کہ تم نے سیدنا حسینؓ کو مدد کے وعدے کر کے بلایا اور پھر ان پر پانی تک بند کر دیا۔
(دیکھئیے شیعہ کتاب جلاءالعیون )
سیدہ زینبؓ بنت علیؓ نے بھی اہل کوفہ کو غدار، فریبی اور مکار جیسے الفاظ بر سرِ عام کہے اور کہا کہ:
"اب تم ہم پر ماتم کرتے ہو حالانکہ ہمارے قاتل تم ہو۔ تم نے جگر گوشہ رسولﷺ کو شہید کیا، تم نے اہلِ بیت کی باپردہ عورتوں کو بے پردہ کیا ہے۔
(دیکھئیے جلاء العیون)
سیدنا حسینؓ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؒ کا بیان بھی یہی تھا۔ آپ نے کہا:
"اے اہل مکر و فریب تم نے ہمیں کافر سمجھا اور ہمارے قتل تک کو حلال جانا۔
( احتجاج طبرسی: صفحہ 157)
خود شہیدِ کربلا سیدنا حسینؓ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
تم لوگوں نے مجھے یہاں بلا کر میرا ساتھ چھوڑ دیا مجھے اس پر کوئی حیرانگی نہیں ہے، کیونکہ تم اس سے پہلے میرے بھائی اور میرے والد اور میرے چچازاد بھائی مسلم سے بھی اسی طرح بے وفائی کر چکے ہو۔
( دیکھئے طبری: جلد 5، صفحہ 403)
آپؓ نے اہل کوفہ سے کہا کہ:
" تم لوگوں نے خود مجھے بلایا ہے اور خود ہی میرے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو! اللّٰہ تمہیں کبھی سیراب نہ کرے۔
( ناسخ التواریخ: صفحہ 335)
اے بے وفاؤ! غدارو! مجبوری کے وقت تم نے اپنی مدد کے لئے ہمیں بلایا اور جب ہم آ گئے تو کینے کی تلوار ہم پر چلائی۔
(ایضاً: صفحہ391)
اے اللّٰہ! شیعانِ کوفہ نے مجھے اپنی مدد کے لئے بلایا پھر وہ ہمیں قتل کرنے کے درپے ہیں، اے اللّٰہ ان سے میرا انتقام لے اور حاکموں کو کبھی ان سے خوش نہ رکھ۔
(جلاء العیون: صفحہ 405 )
تم پر تباہی ہو حق تعالٰی دونوں جہانوں میں میرا تم سے بدلہ لے گا،تم خود اپنی تلواریں ایک دوسرے کے منہ پر چلاؤ گے، اپنا خون خود بہاؤ گے، اور دنیا سے نفع نہ پاؤ گے، اپنی امیدوں کو نہ پہنچو گے، اور آخرت میں بدترین عذاب تمہارے لئے تیار ہے۔
(ایضاً: صفحہ 409)
حتیٰ کہ جب آپؓ کے تمام ساتھی کربلا میں یکے بعد دیگرے شہید کر دیئے گئے اور آپؓ کے ہاتھ میں اپنا چھوٹا بیٹا تھا، اس کو ایک تیر لگا اور خون اچھلنے لگا تو آپؓ خون صاف کرتے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
اللهم احكم بيننا وبين قوم دعونا لينصرونا فقتلونا
(البداية: جلد 8، صفحہ 197۔ مروج الذهب: صفحہ 70 از مسعودی شیعی)
اے اللّٰہ ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما جس نے ہمیں دعوت دے کر یہاں بلایا کہ وہ ہماری مدد کریں گے(مگر انہوں نے بے وفائی کی اور دغا دیا) اور انہوں نے ہمیں قتل کر ڈالا (یعنی ہمیں قتل ہونے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا)
سیدنا زین العابدین ؒ نے کوفیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ:
تم نے میرے والد کو بلایا اور دھوکہ دیا اور قتل کر دیا، تم ہلاک ہو گئے۔
(احتجاج طبرسی: صفحہ 159)
جب آپؒ کربلا سے کوفہ آئے تو دیکھا کہ مرد و عورتیں رو رہی ہیں، آپؒ نے انہیں اس طرح روتے دیکھ کر فرمایا:
ان هؤلاء يبكون علينا فمن قتلنا غيرهم
(شیعہ کتاب الاحتجاج: صفحہ 156)
ترجمہ: اب یہ لوگ ہماری شہادت اور ہمارے حال پر ماتم کر رہے ہیں پر یہ تو بتاؤ کہ ان کے علاؤہ ہمیں کن لوگوں نے قتل کیا ہے،
یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے قاتل ہیں، اور اب دنیا کو دکھانے کے لئے ماتم کر رہے ہیں اور منافقانہ آوازوں سے دنیا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، سیدنا زین العابدینؒ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ تم بخوبی جانتے ہو کہ تم لوگوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
أيها الناس ناشدتكم اللَّه هل تعلمون أنكم كتبتم إلى أبي وخدعتموه وأعطيتموه من أنفسكم العهود والميثاق والبيعة وقاتلتموه، فتبا لكم
(الاحتجاج: صفحہ 157)
"اے لوگو! تمیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ تم نے میرے والد محترم کو خط لکھ لکھ کر بلایا پھر تم نے ان کے ساتھ فریب کیا، تم نے میرے والد کے ساتھ مدد کا پکا وعدہ کیا تھا اور بیعت کے عہد کئے تھے لیکن تم نے ان سے قتال کیا تم لوگوں نے اُنہیں رسوا اور ذلیل کیا سو تمارے لئے بربادی ہو"
صاحبِ اعلام الوری شیعہ نے قاتلانِ حسینؓ کی کس طرح نشاندہی کی ہے اسے دیکھئے:
اہل کوفہ نے آپؓ کی بیعت کی، نصرت کے ضامن بنے پھر بیعت توڑ دی اور آپؓ کو بے یار و مددگار دشمن کے حوالے کیا، آپؓ پر خروج کر کے آپؓ کا وہاں محاصرہ کر لیا جہاں سیدنا حسینؓ کا نہ کوئی مددگار تھا اور نہ جائے فرار، ان لوگوں نے آپؓ پر دریائے فرات کا پانی بند کردیا پھر قدرت پا کر آپؓ کو اس طرح شہید کردیا جس طرح آپؓ کے والد اور بھائی شہید ہوئے تھے۔
(اعلام الوری: صفحہ 219 ماخوذ از تحفۃ الاخیار صفحہ 14)
بہرحال عراقی شیعہ کے مسلسل خطوط، ان کی طرف سے تعاون کی یقین دہانیوں کے بناء پر، جیسا کہ ہم بتا آئے ہیں کہ آپؓ نے پہلے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا کہ وہ جاکر وہاں کے حالات دیکھیں اور آپؓ کو مطلع کریں۔ مسلم بن عقیلؓ مختلف اور دشوار گزار مراحل سے گزرتے ہوئے وہاں پہنچے اور ان لوگوں نے آپ کے ساتھ ظاہراً جیسے برتاؤ کا مظاہرہ کیا اس سے مسلم بن عقیلؓ متاثر ہو گئے اور سیدنا حسینؓ کو کوفہ آنے کا خط بھیج دیا، ادھر اہلِ کوفہ نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کو پھر بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ مسلم بن عقیلؓ نے یہ خبر سیدنا حسینؓ تک پہنچائی تاہم سیدنا حسینؓ رکے نہیں بلکہ کوفہ جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ ہم پہلے بتاتے آئے ہیں کہ اہلِ مکہ و مدینہ نے بھی آپؓ کو کوفیوں کی بے وفائی اور غداری سے خبردار کیا تھا۔ حضرت عمرو بن عبد الرحمٰنؓ ، عبداللّٰہ بن عباسؓ، حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ، حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ وغیرہ نے آپؓ کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ سب اس میں ناکام رہے اور آپؓ ذی الحجہ 60 ھجری کو مکہ مکرمہ سے عراق روانہ ہوئے، راستہ میں حضرت مسلم بن عقیلؓ کی شہادت کی اطلاع بھی ملی تو آپؓ نے اپنے رفقاء کو جمع کر کے فرمایا:
قد خذلنا شيعتنا
(شیعہ کتاب خلاصۃ المصائب صفحہ 49)
شيعان مادست از يارى ما برداشت اند
( جلاء العیون از ملاّ باقر مجلسی وناسخ التواریخ صفحہ 163)
بیشک میرے شیعوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میری مدد کرنے سے اپنا ہاتھ اٹھالیا۔
آپؓ نے انا للّٰہ پڑھا اور لوگوں نے کہا کہ اب اللّٰہ ہی آپؓ کا محافظ ہے آپؓ نے فرمایا کہ ان کے بعد اب زندگی کا مزہ بھی نہیں رہا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (852ھ) لکھتے ہیں کہ :
حر بن یزید نے آپؓ سے کہا کہ خدارا واپس چلیے، میں نے وہاں آپؓ کے لئے کوئی بھلائی نہیں چھوڑی، پھر آپؓ کو سارا واقعہ بتلایا۔ آپؓ نے پلٹنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن مسلمؓ کے بھائی نے کہا کہ جب تک ہم بدلہ نہیں لے لیتے یا قتل نہیں ہو جاتے واپس نہیں جائیں گے چنانچہ یہ لوگ چل پڑے اور آپؓ کربلا آئے، آپؓ کے ساتھ 45 لوگ سواری پر تھے جبکہ 100 کے قریب افراد پیدل چل رہے تھے۔
(الاصابہ: جلد 1، صفحہ 333)
سیدنا حسینؓ نے جب اپنے ہی شیعوں کی بے وفائی کھلی آنکھوں دیکھ لی اور سمجھ لیا کہ یہ لوگ مجھے دھوکہ دے کر یہاں لائے ہیں اور اب مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہیں تو آپؓ نے حالات کے پیش نظر فریقِ مقابل کے سربراہ عمرو بن سعد سے کہا کہ میں تین باتیں پیش کر رہا ہوں ان میں سے ایک چیز آپ اختیار کر لیں۔
1...میں اسلامی سرحدوں میں سے کسی ایک سرحد پر نکل جاؤں اور وہاں جاکر اسلامی فوج کی حفاظت کروں اور ان کے ساتھ مل کر اعدائے اسلام کا مقابلہ کروں ۔
- 2...میں واپس مدینہ منورہ چلا جاؤں ۔
- 3...یا میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ میں دے دوں۔
چنانچہ عمرو بن سعد نے ان کی بات قبول کر لی اور یہ معاملہ عبید اللّٰہ بن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ عبید اللّٰہ بن زیاد نے جواب دیا کہ وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو میرے حوالے کریں پھر بات آگے چلے گی۔( ایک روایت میں ہے کہ یہ بات شمر نے کہی کہ سب سے پہلے ابن زیاد کی بات مانی جائے گی اور اس کی بیعت کی جائے گی پھر بات آگے بڑھے گی ) سیدنا حسینؓ نے یہ بات قبول نہ فرمائی۔ ظاہر ہے کہ اب جنگ کے سوا کون سا راستہ نکل سکتا تھا۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ ( 728ھ) لکھتے ہیں:
أَرَادَ الرُّجُوعَ فَأَدْرَكَتْهُ السَّرِيَّةُ الظَّالِمَةُ، فَطَلَبَ أَنْ يَذْهَبَ إِلَى يَزِيدَ، أَوْ يَذْهَبَ إِلَى الثَّغْرِ، أَوْ يَرْجِعَ إِلَى بَلَدِهِ، فَلَمْ يُمَكِّنُوهُ مِنْ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يَسْتَأْسِرَ لَهُمْ، فَامْتَنَعَ، فَقَاتَلُوهُ حَتَّى قُتِلَ شَهِيدًا مَظْلُومًا - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -.
( المنتقی: صفحہ 268/ منہاج السنۃ: جلد 4 صفحہ 472 و جلد 6 صفحہ 340)
سیدنا حسینؓ نے نے کربلا سے واپس لوٹ جانے کا ارادہ کیا تو ظالم لشکر نے آپؓ کو روک لیا، آپؓ نے یزید کے پاس جانے کی مہلت طلب کی یا سرحد کی طرف چلے جانے یا پھر اپنے شہر مدینہ منورہ لوٹ جانے کی پیش کش کی مگر انہوں نے آپؓ کی ایک بات قبول نہ کی اور کہا کہ پہلے آپؓ ان کے قیدی بن جائیں مگر آپؓ نے خود کو ان کے حوالہ کرنے اور عبید اللّٰہ بن زیاد کے پاس جانے سے صاف انکار کر دیا اور جنگ کی یہاں تک کہ آپؓ کو قتل کر دیا گیا اور آپ مظلوم شہید ہو گئے۔ رضی اللّٰہ عنه
شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ ( 852ھ) لکھتے ہیں :
قال له الحسين: اختر مني إحدى ثلاث: إما أن ألحق بثغر من الثّغور، وإما أن أرجع إلى المدينة، وإما أن أضع يدي في يد يزيد بن معاوية.
فقبل ذلك عمر منه، وكتب به إلى عبيد اللَّه، فكتب إليه لا أقبل منه حتى يضع يده في يدي، فامتنع الحسين، فقاتلوه فقتل معه أصحابه وفيهم سبعة عشر شابّا من أهل بيته، ۔۔۔۔۔الخ
(الاصابہ: جلد 2، صفحہ 71)
مؤرخ ابن جریر طبری نے تاریخ طبری میں (دیکھئے جلد 4 صفحہ 207) حافظ ابن عساکر رحمۃ اللہ نے اپنی تاریخ دمشق میں، امام شمس الدین ذہبی (748ھ) نے سیر اعلام النبلاء( دیکھئے جلد 3، صفحہ 210) میں بھی مذکورہ بیان نقل کیا ہے۔
شیعہ علماء کو اہل سنت علماء کے ان بیانات سے اِتفاق نہ ہو تو وہ کم از کم شیعہ مؤرخین اور محدثین کی بات پر تو یقین کر لیں۔
ابو الفرج الاصفہانی ( 356ھ) نے مقاتل الطالبیین (دیکھئے جلد 2) میں، شیخ مفید( 413ھ) نے اپنی معروف کتاب الارشاد (دیکھئیے صفحہ 213) میں، ملا باقر مجلسی نے بحار الانوار ( دیکھئے جلد 10 صفحہ 211) میں اور شیخ عباس قمی( 1359ھ) نے منتہی الاَمال(دیکھئے صفحہ 335) میں بھی اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔