Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خلافت فاروقی رضی اللہ عنہ پر اجماع صحابہ رضی اللہ عنھم

  علی محمد الصلابی

مستند و معتبر علماء کی جماعت نے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی صحت اور استحقاق پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع نقل کیا ہے، جن میں بعض یہ ہیں:

ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے اپنی سند کے حوالے سے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’میں سیدنا عمرؓ کے پاس اس وقت گیا جب آپؓ کو خنجر مارا گیا تھا، میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپؓ کو جنت کی خوشخبری ہے، آپؓ اس وقت اسلام لائے جب لوگوں نے کفر کیا، رسول اللہﷺ کے ساتھ مل کر اس وقت جہاد کیا جب آپﷺ کو لوگوں نے رُسوا کیا اور رسول اللہﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ آپؓ سے خوش تھے، آپؓ کی مدت خلافت کے بارے میں کبھی دو آدمیوں نے بھی اختلاف نہیں کیا اور شہادت کا درجہ پا کر شہید کیے گئے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دوبارہ کہو۔ میں نے اپنی بات دہرائی، تو آپؓ نے فرمایا: قسم ہے اس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اگر زمین کا تمام سونا اور چاندی مل جائے تاکہ آخرت کی ہولناکی سے نجات پا جاؤں تو سب کچھ فدیہ دے دوں ( کس کو خبر ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟)‘‘ 

(الطبقات الکبریٰ: جلد، 3 صفحہ 274 )

خلافتِ فاروقی پر اجماع نقل کرتے ہوئے ابو نعیم اصفہانیؒ فرماتے ہیں:

’’جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کی فضیلت، خیر خواہی، خلافت کو سنبھالنے کی قوت اور اپنے دورِ خلافت میں مشکل اوقات میں ان کی مکمل تائید و مدد کو جان لیا تو اللہ اور اس کے بندوں کی خیرخواہی کے تقاضوں کے پیشِ نظر آپؓ کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا کہ آپؓ کو منصبِ خلافت کے کے لیے منتخب کریں اور چونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں آپ جانتے تھے کہ وہ بھی ہماری رائے سے متفق ہیں اور اس پر انہیں کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے، اور اسی حسنِ ظن کی بنا پر آپ نے انہیں انتخاب کا اختیار بھی دیا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی بات پر مطمئن رہے اور انتخابی مسئلہ آپ ہی کے ذمہ کر دیا، پس اگر انہیں آپ کی بات یا رائے سے معمولی اختلاف یا شک و شبہ ہوتا تو وہ انکار کر دیتے اور جس اہم معاملے یعنی خلافت میں شرعاً سب سے اتفاق رائے مطلوب تھا اس میں حضرت عمرؓ کی خلافت پر اس طرح متفق نہ ہوتے جس طرح حضرت ابوبکرؓ پر متفق ہو گئے تھے۔ درحقیقت آپ کی امامت و خلافت بالکل اسی طرح ثابت اور صحیح ہے جس طرح حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت ثابت اور صحیح تھی۔ آپ یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے لیے افضل اور کامل شخصیت کو منتخب کرنے کے لیے بحیثیت دلیل اور رہنما کے تھے، لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے راضی برضا ہو کر آپؓ کی پیروی کی۔‘‘ 

(صحیح البخاری: کتاب الصحابۃ: حدیث 3571)

خلافتِ صدیقی سے متعلق اجماعِ صحابہؓ کے ذکر کے بعد ابو عثمان صابونیؒ فرماتے ہیں: ’’پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر دینے اور صحابہؓ کے اس پر اجماع سے عمرؓ کی خلافت عمل میں آئی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سربلندی اور عظمت وشان سے متعلق اپنا وعدہ مکمل فرمایا۔‘‘ 

(عقیدۃ أہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام: جلد، 2 صفحہ 640)

امام نووی رحمہ اللہ نے عمرؓ کے حق میں ابوبکرؓ کے عہد نامۂ خلافت پر اجماعِ صحابہؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے انتخاب اور حضرت عمرؓ کے حق میں آپ کے عہد نامہ خلافت کی تنفیذ پر متفق تھے۔ 

(الاعتقاد: البیہقی: صفحہ 188)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سیّدنا عمرؓ کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے )عہد لیا اور سیدنا ابوبکرؓ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی بیعت کی اور پھر ان کی بیعت کے ذریعہ سے جب آپ کو قوت و سلطنت مل گئی تو ان کے امام ہوئے۔ 

(کتاب الامامۃ والرد علی الرافضۃ: صفحہ 274)

 شارح عقیدۃ طحاویہ علامہ ابن ابی العز حنفیؒ کا قول ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد خلافت حضرت عمرؓ کے حق میں ثابت ہو گئی، بایں طور کہ ابوبکرؓ نے خلافت ان کو سونپ دی اور آپ کے بعد امت نے اس پر اتفاق کر لیا۔ 

(عقیدۃ السلف وأصحاب الحدیث ضمن مجموعۃ الرسائل المنبر یۃ: جلد، 1 صفحہ 129 )

مذکورہ تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اصحابِ رسولﷺ کے اجماع و اتفاق سے سیّدنا عمرؓ کی خلافت عمل میں آئی۔ انہوں نے عمرؓ کے حق میں ابوبکرؓ کے تیار کردہ عہد نامہ خلافت کو خوشی خوشی قبول کیا، کسی نے اس میں اختلاف نہ کیا۔ اسی طرح جس چیز پر اصحابِ رسولﷺ نے اتفاق کیا اسی پر اہلِ سنت و الجماعت کا بھی اجماع و اتفاق ہے اور کسی نے اس سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ایسے لوگ اصحابِ رسولﷺ سے بغض و عداوت میں مبتلا ہیں جیسے کہ روافض شیعہ اور وہ افراد جو ان کی سازشوں کا شکار ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی شخص ابنِ سعد وغیرہ کے حوالے سے مذکورہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع پر یہ اعتراض کرے کہ عبدالرحمن بن عوف اور عثمان رضی اللہ عنہما حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے تھے اور کہا تھا کہ آپ عمرؓ کی سختی کو جانتے ہیں، پھر بھی ان کو ہم پر خلیفہ مقرر کر رہے ہیں۔ اس بارے میں جب آپؓ کا ربّ آپؓ سے پوچھے گا تو آپؓ کیا جواب دیں گے؟ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا تھا: مجھے بٹھاؤ، کیا تم مجھے اللہ کا خوف دلاتے ہو؟ جس نے تمہارے معاملے میں ظلم سے کام لیا وہ سخت خسارے میں ہوا میں کہوں گا: اے اللہ! میں نے ان پر تیرے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ بنایا ہے، جو بات میں نے تم سے کہی ہے یہی بات بقیہ لوگوں کو بھی بتا دو۔‘‘ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ان کا انکار اگر اسے انکار مان لیں اس بات سے نہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ ہی امت کے افضل ترین فرد اور خلافت کے مستحق ہیں، بلکہ وہ آپؓ کی سختی اور خشک زندگی سے ڈرتے تھے، انہوں نے عمرؓ رضی اللہ عنہ کی قوت و امانت پر تہمت نہ لگائی تھی۔