Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا حسینؓ شہید کر دیئے گئے

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

سیدنا حسینؓ شہید کر دیئے گئے

سیدنا حسینؓ نے اپنی بات ان تک پہنچا دی تھی۔ آپؓ چاہتے تھے کہ یہ معاملہ امن کے ساتھ کسی نتیجہ پر پہنچ جائے لیکن ابنِ زیاد اور شمر نے آپؓ کے پیغامِ امن کو جنگ میں بدلنے کی پوری منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ وہ نہ چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ پر امن طور پر حل ہو جائے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر سیدنا حسینؓ اور یزید کے درمیان ملاقات ہو جاتی ہے پھر ان کے ناپاک ارادے اور مکروہ منصوبے ناکام ہو جائیں گے اسی لیے وہ اسی بات پر مصر رہے کہ سیدنا حسینؓ اپنے آپ کو پہلے ہمارے حوالہ کریں اور ہماری بیعت کریں پھر بات آگے چلے گی۔ مگر سیدنا حسینؓ نے ابن زیاد کی بات قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر وہاں تاریخ کا وہ المناک غمناک اور افسوسناک حادثہ رونما ہوا جس کے تکلیف دہ اثرات سے امت مسلمہ اب تک تڑپ رہی ہے۔ آپؓ کے سامنے آپؓ کے اہل و عیال اور دوست احباب یکے بعد دیگرے شہید ہوتے گئے۔ چھوٹا بچہ آپؓ کے ہاتھ پر تھے ظالموں نے اسے بھی اپنے ظلم کا نشانہ بنا لیا۔ سیدنا حسینؓ اکیلے رہ گئے، ظالموں نے آپ پر پے در پے حملے کر کے زخمی کر دیا، زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپؓ کی طاقت جواب دے گئی اور شقی القلب کوفیوں نے آپؓ کو نہایت ہی بے رحمی سے شہید کردیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ بدن کے مختلف حصوں پر زخموں کے علاؤہ 33 زخم تیروں کے اور 34 زخم تلواروں کے تھے۔ آپؓ نے دس محرم الحرام 61ھ جمعہ کے دن عصر کے وقت عراق کے شہر کربلا میں جام شہادت نوش کیا، اس وقت آپ کی عمر 57 سال تھی۔ رضی الله تعالى عنه.

سیدنا حسینؓ کے ساتھ اور 72 حضرات بھی شہید ہوئے۔ محمد بن حنفیہؒ کا بیان ہے کہ آپ کے ساتھ شہید ہونے والوں میں سترہ افراد سیدہ فاطمہؓ کی اولاد میں سے تھے۔

( البدایہ: جلد 9، صفحہ 189، صفحہ 212)

شیعہ علماء اور ان کے ذاکرین ٹی وی پر سجائی جانے والی مجالس میں نہایت ہی جذباتی انداز میں دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ اور آپؓ کے رفقاء کی لاشوں کی بڑی ہی بے حرمتی کی گئی اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے گئے تھے۔ یہ سن کر شیعہ عوام دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ شیعہ مرکزی کتاب اصول کافی سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔ شیعہ راوی بیان کرتا ہے کہ جب سیدنا حسینؓ شہید کر دیئے گئے تو دشمنوں نے چاہا کہ ان کے جسم کو گھوڑوں سے روندیں۔ اتنے میں ایک شیر نکل آیا وہاں جناب فضہؒ کھڑی تھیں تو فضہؒ نے شیر سے کہا :

يا ابا الحارث فرفع رأسه ثم قالت أتدري ما يريد من أن يعلموا غدا بابي عبد الله يريدون أن يوطهؤ الخيل ظهره قال  فمشي حتى وضع يده على جسد الحسين فاقبلت الخيل فما ظهروا إليه قال لهم عمر بن سعد لعنه الله فتنة لا تثيروها انصرفوا

(اصولِ کافی: صفحہ 295)

اے ابو الحارث ( شیر کی کنیت ہے ) تو شیر نے اپنا سر اٹھایاپھر فضہؒ نے کہا تجھے معلوم ہے کہ دشمنوں کا کیا ارادہ ہے؟ وہ چاہتے ہیں کہ کل سیدنا حسینؓ کے جسم پر گھوڑے دوڑائیں راوی کہتا ہے کہ شیر آگے بڑھا اور اس نے سیدنا حسینؓ کے جسم پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ جب گھوڑے پر سوار لوگ آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شیر ہے، عمرو بن سعد نے کہا یہ ایک فتنہ ہے اس کو مت چھیڑو اور یہاں سے نکل چلو چنانچہ سب واپس چلے گئے ( اور آپؓ کا جسم محفوظ رہا )

جب یزید کو سیدنا حسینؓ، آپؓ کے گھر والوں اور آپؓ کے رفقاء کی شہادت کی خبر ملی تو اسے افسوس ہوا اور اس نے ابن زیاد پر لعنت بھی کی اور کہا کہ جب سیدنا حسینؓ نے تین باتوں میں سے کسی ایک بات پر اپنی رضا کا اظہار کر دیا تھا تو ابن زیاد نے کیوں ان کی بات نہ مانی اور ان کی جان کیوں لی؟ یزید کا کہنا تھا کہ اسی ابن زیاد کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے نظر میں برا اور قابل مذمت بنا اور ان کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت بھر دی گئی۔ خدا اس پر لعنت کرے، اس کو رسوا کرے اور اس پر اپنا غضب اتارے ۔

امام شمس الدین ذہبیؒ( 748ھ) نے سیر اعلام النبلاء میں اور حافظ ابن کثیرؒ( 774ھ) نے البدایہ میں یزید کا یہ بیان اس طرح نقل کیا ہے:

لَعَنَ اللَّهُ ابْنَ مَرْجَانَةَ فَإِنَّهُ أَخْرَجَهُ وَاضْطَرَّهُ، وَقَدْ كَانَ سَأَلَهُ أَنْ يُخَلِّيَ سَبِيلَهُ أَوْ يَأْتِيَنِي أَوْ يَكُونَ بِثَغْرٍ مِنْ ثُغُورِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى يَتَوَفَّاهُ اللَّهُ تَعَالَى، فَلَمْ يَفْعَلْ، وَأَبَى عَلَيْهِ وَقَتَلَهُ، فَبَغَّضَنِي بِقَتْلِهِ إِلَى الْمُسْلِمِينَ، وَزَرَعَ لِي فِي قُلُوبِهِمُ الْعَدَاوَةَ، فَأَبْغَضَنِي الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ بِمَا اسْتَعْظَمَ النَّاسُ مِنْ قَتْلِي حُسَيْنًا، مَا لِي وَلِابْنِ مَرْجَانَةَ، لَعَنَهُ اللَّهُ، وَغَضِبَ عَلَيْهِ.

( البدایہ: جلد 8 صفحہ 232)

شیعہ عالم شیخ احمد بن علی طبرسی (548ھ) کا بیان ہے کہ یہ بات سیدنا حسینؓ کے فرزند محترم سیدنا زین العابدین رحمۃاللہ سے بھی کہی تھی:

فقال له يزيد: لا يؤديهن غيرك، لعن الله ابن مرجانة، فوالله ما أمرته بقتل أبيك، ولو كنت متوليا لقتاله ما قتلته، ثم أحسن جائزته وحمله والنساء إلى المدينة.

(الاحتجاج:جلد 2، صفحہ 40)

ترجمہ: یزید نے ان سے کہا کہ آپ کے قافلہ کی خواتین کو اب آپ ہی مدینہ منورہ ساتھ لے جائیں گے ابن مرجانۃ پر خدا کی لعنت ہو خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سیدنا حسینؓ کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا اور  اگر اس وقت میں وہاں موجود ہوتا تو میں کبھی انہیں قتل نہ کرتا۔ بعد ازاں یزید نے ان کے حق میں اچھا معاملہ کیا ان سب کے لئے سواری کا انتظام کیا اور انہیں مدینہ منورہ روانہ کیا۔

شیعہ عالم ملا باقر مجلسی نقل کرتا ہے کہ جو شخص یہ کہتا ہوا یزید کے پاس آیا کہ اس نے اس شخص (یعنی سیدنا حسینؓ) کو شہید کیا ہے جو سب سے افضل ہے تو جواباً یزید نے کہا کہ جب تو ان کو اتنا عظیم شخص جانتا تھا تو پھر اسے قتل کیوں کیا؟ بعد ازاں یزید نے اس شخص کے قتل کا حکم صادر کر دیا ۔

(دیکھئے جلاء العیون: جلد 2، صفحہ 248)

شیعہ علماء کم از کم لوگوں کو اس دھوکہ میں تو نہ رکھیں کہ سیدنا حسینؓ کے قاتلین اہلِ شام تھے، ان میں کوئی بھی عراقی نہ تھا اور نہ آپ کے قاتل کوفہ کے شیعہ تھے۔ سچ یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ بات غلط ہے! شیعہ کے معروف مؤرخ علی بن حسین مسعودی (346ھ) نے کھل کر لکھا ہے کہ جن لوگوں نے آپؓ کو دھوکہ دیا آپؓ سے جنگ کی اور آپؓ کے خون سے جن لوگوں نے اپنے ہاتھ سرخ کئے ہیں بطورِ خاص سب کوفی تھے ان میں شام کے لوگ نہ تھے۔

وكان جميع من حضر مقتل الحسين من العساكر وحاربه وتولى قتله من أهل الكوفة خاصة، فلم يحضرهم شامي۔

(مروج الذہب جلد 3 صفحہ 71)

شیعہ کی معروف کتاب خلاصۃ المصائب کا یہ بیان بھی پیش نظر رکھئے

ليس فيهم شامي ولا حجازي بل جميعهم من أهل الكوفة

(خلاصۃ المصائب: صفحہ 201)

سیدنا حسینؓ کے قاتل صرف کوفی لوگ تھے ان میں شام اور حجاز کا کوئی شخص نہ تھا ۔

ملا باقر مجلسی شیعہ ( 1111ھ) نے بھی یہ بات بحار الانوار میں لکھی ہے ( دیکھئے جلد 10 صفحہ 231)

محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد مہاجر مدنیؒ(1346ھ) لکھتے ہیں:

جھوٹے مدعیان تشیع و ولاء کی بے ایمانی اور نفاق نے اہل بیت رسالت کو بذلت و خواری میدان کربلاء میں ہلاک کیا جس پر آج تک خود ہی نوحہ اور گریہ کنان ہیں۔

(مطرقۃ الکرامۃ: صفحہ 286)

آپؓ یہ سمجھ کر نکلے تھے کہ جب وہاں کے لوگ مجھے بار بار بلا رہے ہیں اور میری اطاعت کرنے اور میرے موقف کا ساتھ دینا چاہتے ہیں تو آپؓ نے چاہا کہ وہاں جا کر حالات کا جائزہ لیں اور پھر اس کی روشنی میں سارے معاملات طے کئے جائیں مگر جب آپؓ آگے بڑھے تو وہی لوگ جو اپنے آپ کو آپؓ کے شیعہ کہتے تھے اور آپؓ کے نام کے نعرے لگاتے تھے بڑی عیاری سے دغا دے گئے اور اب آپؓ کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہا کہ حالات کا دلیرانہ مقابلہ کیا جائے خواہ اس میں جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ (768ھ) ایک مقام پر لکھتے ہیں:

وَالْحُسَيْنُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - مَا خَرَجَ يُرِيدُ الْقِتَالَ (٦) ، وَلَكِنْ ظَنَّ أَنَّ النَّاسَ يُطِيعُونَهُ، فَلَمَّا رَأَى انْصِرَافَهُمْ عَنْهُ، طَلَبَ الرُّجُوعَ إِلَى وَطَنِهِ، أَوِ الذَّهَابَ إِلَى الثَّغْرِ، أَوْ إِتْيَانَ يَزِيدَ، فَلَمْ يُمَكِّنْهُ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ لَا مِنْ هَذَا وَلَا مِنْ هَذَا [وَلَا مِنْ هَذَا] (٧) وَطَلَبُوا أَنْ يَأْخُذُوهُ أَسِيرًا إِلَى يَزِيدَ، فَامْتَنَعَ مِنْ ذَلِكَ وَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ مَظْلُومًا شَهِيدًا، لَمْ يَكُنْ قَصْدُهُ ابْتِدَاءً أَنْ يُقَاتِلَ.

(منهاج السنة؛ جلد 4، صفحہ 42)

اور سیدنا حسینؓ قتال کے لئے نہیں نکلے تھے. آپؓ کا خیال تھا کہ وہاں کے لوگ آپؓ کی اطاعت کریں گے، جب آپؓ کو پتہ چلا کہ وہ آپؓ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو اس وقتؓ آپ نے فریق مخالف سے تین مطالبات کئے

(1) انہیں وطن واپس جانے دیا جائے۔

(2) آپؓ کو محاذ جنگ پر جانے دیا جائے تا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کریں۔

(3) آپؓ کو یزید کے پاس جانے دیا جائے۔

پس ان ظالموں نے آپؓ کی ایک بات نہ مانی بلکہ آپؓ کو گرفتاری پیش کرنے کا کہا گیا تاکہ آپؓ کو قیدی بنا کر پیش کیا جائے آپؓ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ لڑتے ہوئے مظلومانہ حالت میں شہید ہو گئے تاہم آپؓ کا ارادہ شروع میں ہر گز جنگ کا نہ تھا علامہ ابن تیمیہؒ ایک اور جگہ بھی یہ لکھتے ہیں:

وَكَذَلِكَ الْحُسَيْنُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - لَمْ يُقْتَلْ إِلَّا مَظْلُومًا شَهِيدًا، تَارِكًا لِطَلَبِ الْإِمَارَةِ ، طَالِبًا لِلرُّجُوعِ: إِمَّا إِلَى بَلَدِهِ، أَوْ إِلَى الثَّغْرِ ، أَوْ إِلَى الْمُتَوَلِّي عَلَى النَّاسِ يَزِيدَ

( منهاج السنۃ: جلد 4، صفحہ535 )

سیدنا حسینؓ کے ساتھ آپؓ کے سوتیلے بھائی جناب ابوبکرؒ اور جناب عثمانؒ بھی کربلاء میں شہید ہوئے تھے۔ مگر آپ نے کسی شیعہ ذاکر کو ان کے نام لیتے نہیں سنا ہو گا۔ حضرات شیخین کریمینؓ اور ان کے ناموں کے ساتھ کینہ اور بغض کی اس سے بری اور بد ترین مثال اور کیا ہو گی۔ آپؓ کے قاتلوں میں سنان بن انس نخعی  اور شمر ذی الجوشن کا نام بھی آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شمر کون تھا ؟ جواب یہ ہے کہ سیدنا حسینؓ کی سوتیلی والدہ ام البنین بنت حزام ( جو سیدنا علیؓ کی چوتھی بیوی تھیں اور وہ قبیلہ بنی کلاب میں سے تھیں، ان کا نکاح عقیلؓ کی تجویز سے ہوا تھا۔ سیدنا علیؓ نے عقیلؓ سے کہا تھا کہ میرے نکاح کے لئے کوئی ایسی عورت تجویز کرو جس کے بھائی عرب کے بڑے بہادروں میں سے ہوں۔

(عمدۃ الطالب و منتخب التواریخ صفحہ 121 ایران )

اس پر حضرت مسلم بن عقیلؓ نے یہ تجویز دی۔ شمر ملعون انہیں میں سے تھا اور بنی کلاب میں سے تھا۔ انہی ام البنین میں سے حضرت عباسؓ علمدار تھے جو سیدنا حسینؓ کے بھائی اور سیدنا علیؓ کے بیٹے تھے۔ شمر اس رشتہ کے تعلق سے اپنے بھانجوں کے لئے ابن زیاد سے امان بھی لکھوا لایا تھا جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں بہر حال اس لحاظ سے یعنی سوتیلی والدہ حضرت ام البنین کے واسطہ سے شمر سیدنا حسینؓ کا رشتہ میں ماموں تھا۔ واللہ اعلم بحقيقة الحال۔

(عبقات من باب الاستفسارات: صفحہ 295)

کوفہ کے ان ظالموں نے حضورﷺ کی حرمت کا کوئی لحاظ نہ کیا اور یہ تک نہ سوچا کہ سیدنا حسینؓ کا اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے اور آپ خاتونِ جنتؓ کے فرزند ارجمند ہیں۔ جس سر کو حضورﷺ بوسہ دیتے تھے چومتے تھے اس سر کو ظالموں نے تن سے علیحدہ کرنے میں کوئی حیاء نہ کی۔ سیدنا حسینؓ اپنے اہل وعیال سمیت میدان کرب و بلاء میں مظلوماً شہید کر دیئے گئے۔ آپؓ کی اس مظلومانہ شہادت پر ہر مسلمان دکھی اور غمزدہ ہے اور اسے ہونا بھی چاہیئے۔ مفسر شہیر حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

فَكُلُّ مُسْلِمٍ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يُحْزِنَهُ هَذَا الَّذِي وَقَعَ مِنْ قَتْلِهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ مِنْ سَادَاتِ الْمُسْلِمِينَ وَعُلَمَاءِ الصَّحَابَةِ، وَابْنُ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي هِيَ أَفْضَلُ بْناتِهِ، وَقَدْ كَانَ عَابِدًا وَشُجَاعًا وَسَخِيًّا، وَلَكِنْ لَا يُحْسِنُ مَا يَفْعَلُهُ الشِّيعَةُ مِنْ إِظْهَارِ الْجَزَعِ وَالْحُزْنِ الَّذِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُ تَصَنُّعٌ وَرِيَاءٌ، وَقَدْ كَانَ أَبُوهُ أَفْضَلَ مِنْهُ، وَهُمْ لَا يَتَّخِذُونَ مَقْتَلَهُ مَأْتَمًا كَيَوْمِ مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ، فَإِنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي السَّابِعَ عَشَرَ مِنْ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعِينَ، وَكَذَلِكَ عُثْمَانُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ عَلِيٍّ، عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ قُتِلَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي دَارِهِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ مِنْ شَهْرِ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ، وَقَدْ ذُبِحَ مِنَ الْوَرِيدِ إِلَى الْوَرِيدِ، وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسُ يَوْمَ مَقْتَلِهِ مَأْتَمًا، وَكَذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، قُتِلَ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسَ يَوْمَ قَتْلِهِ مَأْتَمًا، وَكَذَلِكَ الصِّدِّيقُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْهُ، وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسُ يَوْمَ وَفَاتِهِ مَأْتَمًا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَقَدْ قَبَضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ كَمَا مَاتَ الْأَنْبِيَاءُ قَبْلَهُ، وَلَمْ يَتَّخِذْ أَحَدٌ يَوْمَ مَوْتِهِ مَأْتَمًا يَفْعَلُونَ فِيهِ مَا يَفْعَلُهُ هَؤُلَاءِ الْجَهَلَةُ مِنَ الرَّافِضَةِ يَوْمَ مَصْرَعِ الْحُسَيْنِ، وَلَا ذَكَرَ أَحَدٌ أَنَّهُ ظَهَرَ يَوْمَ مَوْتِهِمْ وَقِبَلَهُمْ شَيْءٌ مِمَّا ادَّعَاهُ هَؤُلَاءِ يَوْمَ مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ مِنَ الْأُمُورِ الْمُتَقَدِّمَةِ، مِثْلَ كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْحُمْرَةِ الَّتِي تَطْلُعُ فِي السَّمَاءِ وَغَيْرِ ذَلِكَ.


وَأَحْسَنُ مَا يُقَالُ عِنْدَ ذِكْرِ هَذِهِ الْمَصَائِبِ وَأَمْثَالِهَا مَا رَوَاهُ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ جَدِّهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَابُ بِمُصِيبَةٍ فَيَتَذَكَّرُهَا وَإِنْ تَقَادَمَ عَهْدُهَا، فَيُحْدِثُ لَهَا اسْتِرْجَاعًا، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلَ يَوْمٍ أُصِيبَ بِهَا» ". رَوَاهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ.


(البدايه: جلد 11 صفحہ 579،580)


ترجمہ: ہر مسلمان کو چاہیئے کہ وہ آپؓ کی شہادت پر غمزدہ ہو، بلاشبہ آپؓ سادات المسلمین اور علماء صحابہؓ میں سے تھے اور حضورﷺ کی اس دختر نیک اخترؓ کے شہزادے تھے جو آپﷺ کی بیٹیوں میں سب سے افضل تھی آپؓ عبادت گزار، بہادر اور سخی تھے لیکن شیعہ جس طرح ان کی شہادت پر جزع فزع کرتے ہیں وہ درست نہیں ہے اور ان کی اکثریت تصنع و ریاء سے کرتی ہے۔ آپؓ کے والد گرامی آپؓ سے کہیں افضل تھے، وہ بھی شہید ہوئے مگر شیعہ کبھی ان کی شہادت کا ماتم نہیں مناتے بلاشبہ آپؓ کے والد مکرم سیدنا علیؓ 17 رمضان 40ھ نماز فجر کو جاتے ہوئے شہید ہوئے تھے اسی طرح سیدنا عثمانؓ بھی شہید ہوئے اور اہل سنت و الجماعت کے ہاں آپؓ سیدنا علیؓ سے افضل ہوئے، آپؓ ماہ ذی الحجہ 36ھ کے ایام التشریق میں اپنے گھر میں محصور کئے گئے اور وہیں آپؓ کو شہید کیا گیا، آپؓ کی شہ رگ کاٹی گئی مگر لوگوں نے آپؓ کی شہادت والے دن کو کبھی یومِ ماتم نہیں بنایا، اسی طرح آپؓ سے پہلے سیدنا عمر بن الخطابؓ بھی شہید ہوئے جو سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ سے افضل تھے آپؓ محراب میں نمازِ فجر میں قرآن پڑھتے ہوئے شہید کئے گئے مگر مسلمانوں نے کبھی ان کے لئے ماتم کا دن نہیں منایا، اسی طرح آپؓ سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ تھے، جو آپؓ سے افضل تھے وہ بھی دنیا سے تشریف لے گئے مگر کبھی ان کا یومِ ماتم نہیں منایا گیا اور ان سب سے پہلے حضور اکرمﷺ ہیں جو دنیا و آخرت میں سب لوگوں کے سردار ہیں، آپﷺ کو اللّٰہ تعالیٰ نے وفات دی جیسے آپﷺ سے پہلے انبیاءؑ نے وفات پائی مگر کسی نے بھی اس دن کو یومِ ماتم نہیں قرار دیا اور نہ وہ کام کئے جو جاہل شیعہ ماتمِ حسینؓ میں کرتے ہیں اور نہ ان کی وفات کے دن اور نہ ان سے پہلے کسی نے اس طرح کبھی کیا جس طرح یہ لوگ سیدنا حسینؓ کی شہادت پر کرتے ہیں۔ اس طرح کی مصیبتوں کے موقع پر سب سے اچھی بات وہی ہے جو سیدنا حسینؓ بن علیؓ نے حضورﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جس مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس کے قدیم العہد ہونے کے باوجود اسے یاد کرتا ہےاور اس پر انا اللّٰہ و انا الیہ راجعون پڑھتا ہے تو اللّٰہ تعالٰی اسے اس دن کی طرح (صبر کرنے کا) اجر عطا فرماتا ہے (جس دن اسے یہ مصیبت پہنچی تھی)۔ جناب سلمیٰ کہتی ہیں میں ام المؤمنین ام سلمہؓ کے پاس آئی تو آپؓ کو روتا ہوا پایا، میں نے رونے کا سبب پوچھا تو کہا کہ میں نے حضورﷺ کو خواب میں دیکھا آپﷺ کے سر اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار پڑا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللّٰہﷺ کیا ہوا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا


(سنن ترمذی: رقم الحدیث 3771)


”میں نے حسینؓ کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔۔


(نوٹ) ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کی وفات 59ھ میں ہے بعض نے کہا کہ 62ھ میں ہوئی قول اول صحیح تر ہے اور سیدنا حسینؓ کی شہادت 61ھ میں پیش آئی اگر حضرت ام سلمہؓ کی وفات 59ھ میں ہوئی ہو تو پھر اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کے وقوع سے پہلے ان کو خواب میں یہ منظر دکھایا ہو اور آنفا یعنی اب کہنا باعتبار تحقیق اس کے ہے کہ اس وقت میں۔


(مظاہرِ حق: جلد 5 صفحہ 157)


شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ (728ھ) لکھتے ہیں: بلا شک و شبہ سیدنا حسینؓ مظلومانہ شہید ہوئے ہیں اور جن کے ہاتھ آپؓ کے خون سے رنگین ہوئے وہ سب خدا کے مجرم ہیں:


فَلَا رَيْبَ أَنَّهُ قُتِلَ مَظْلُومًا شَهِيدًا، كَمَا قُتِلَ أَشْبَاهُهُ مِنَ الْمَظْلُومِينَ الشُّهَدَاءِ. وَقَتْلُ الْحُسَيْنِ مَعْصِيَةٌ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مِمَّنْ قَتَلَهُ أَوْ أَعَانَ عَلَى قَتْلِهِ [أَوْ رَضِيَ بِذَلِكَ] ، وَهُوَ مُصِيبَةٌ أُصِيبَ بِهَا الْمُسْلِمُونَ مِنْ أَهْلِهِ وَغَيْرِ أَهْلِهِ، وَهُوَ فِي حَقِّهِ شَهَادَةٌ لَهُ، وَرَفْعُ دَرَجَةٍ، وَعُلُوُّ مَنْزِلَةٍ ; فَإِنَّهُ وَأَخَاهُ سَبَقَتْ لَهُمَا مِنَ اللَّهِ السَّعَادَةُ، الَّتِي لَا تُنَالُ إِلَّا بِنَوْعٍ مِنَ الْبَلَاءِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُمَا مِنَ السَّوَابِقِ مَا لِأَهْلِ بَيْتِهِمَا، فَإِنَّهُمَا تَرَبَّيَا فِي حِجْرِ الْإِسْلَامِ، فِي عِزٍّ وَأَمَانٍ، فَمَاتَ هَذَا مَسْمُومًا وَهَذَا مَقْتُولًا، لِيَنَالَا بِذَلِكَ مَنَازِلَ السُّعَدَاءِ وَعَيْشَ الشُّهَدَاءِ.


(منهاج السنة: جلد 4، صفحہ550)


رہا سیدناحسینؓ کا معاملہ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؓ نہایت مظلومیت کی حالت میں شہید کئے گئے جس طرح کہ آپؓ جیسے دوسرے بہت سے لوگ مظلومانہ شہید کئے گئے۔ سیدنا حسینؓ کا مقصد شروع میں قتال کرنا نہیں تھا۔ سیدنا حسینؓ کو قتل کرنا یا اس پر مدد کرنا یا اس پر راضی ہونا اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی بڑی نافرمانی تھی۔ سیدنا حسینؓ کا قتل مسلمانوں کے لئے ایک بڑی مصیبت تھی جو اپنوں اور غیروں کی وجہ سے پہنچی جبکہ یہ شہادت سیدنا حسینؓ کے لئے درجات کی بلندی اور بڑی منزلت کا سبب بن گئی۔ اللّٰہ تعالٰی کی جانب سے آپؓ کے لئے اور آپؓ کے بھائی کے لئے سعادت اور خوش نصیبی مقدر ہو چکی تھی جو کہ کسی امتحان کے آئے بغیر انہیں نہیں مل سکتی تھی اور اس خاندان میں ان دو بھائیوں جیسی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اسلام کی گود میں عزت وامان کے ساتھ پرورش پائی پھر ان میں سے ایک کو بذریعہ زہر اور دوسرے کو قتل کر کے شہید کیا گیا تاکہ یہ دونوں حضراتؓ جنت میں شہداء کے درجات حاصل کر لیں۔


آپ یہ بھی لکھتے ہیں:


وَكَانَ قَتْلُهُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - مِنْ الْمَصَائِبِ الْعَظِيمَةِ فَإِنَّ قَتْلَ الْحُسَيْنِ، وَقَتْلَ عُثْمَانَ قَبْلَهُ: كَانَا مِنْ أَعْظَمِ أَسْبَابِ الْفِتَنِ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَقَتَلَتُهُمَا مِنْ شِرَارِ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ.


( فتاوی ابن تیمیه: جلد 3، صفحہ 411)


ترجمہ: سیدنا حسینؓ کی شہادت عظیم مصائب میں سے ہے کیونکہ سیدناحسینؓ اور ان سے پہلے سیدنا عثمانؓ کی شہادت اس امت کے اندر فتنوں کا سب سے بڑا سبب ہے اور جن لوگوں نے انہیں شہید کیا وہ خدا کے نزدیک بد ترین مخلوق ہیں۔


( مجموعہ رسائل کبریٰ صفحہ 301)


حافظ ابن تیمیہؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:


" کہ اللّٰہ تعالٰی نے عاشوراء جیسے محترم و معظم دن میں حضورﷺ کے نواسہ اور جوانان جنت کے سردار سیدنا حسینؓ کو بد نصیب فاجروں کے ہاتھوں شہادت کا اعزاز دے کر انہیں عزت و کرامت عطا فرمائی۔ اللّٰہ تعالٰی نے سیدنا حسینؓ کی عزت افزائی اور ان کے درجات کو بلند کرنے اور شہداء کرام کے مقام و مرتبہ تک پہنچانے کے لئے انہیں اس حادثہ سے دوچار کیا اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اس طرح نہیں آزمائے گئے تھے جس طرح ان کے مقدس نانا محترم، والدہ اور قابلِ احترام چچا ( سیدنا جعفرؓ اور سیدنا عقیلؓ) اللّٰہ کے دین کے لئے آزمائے گئے کیونکہ یہ دونوں شہزادے اسلام کے زمانے میں پیدا ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور پرورش پائی، اللّٰہ نے چاہا کہ ان دونوں کو مقامِ شہادت سے سرفراز کریں چنانچہ ان میں سے ایک بذریعہ زہر شہادت کے مقام کو پہنچے جبکہ دوسرے نے میدان کرب وبلاء میں جامِ شہادت نوش کیا. آپؓ کی شہادت کا واقعہ اسلام میں ہونے والے بڑے مصائب میں سے ایک ہے. جن لوگوں نے آپؓ کو شہید کیا اور جنہوں نے اس بارے میں قاتلوں کی مدد کی، اس قتل پر وہ راضی ہوئے وہ سب کے سب بدبخت ہو گئے۔ 


ومن ذلك أن اليوم الذي هو يوم عاشوراء الذي أكرم الله فيه سبط نبيه, وأحد سيدي شباب أهل الجنة بالشهادة على أيدي من قتله من الفجرة الأشقياء, وكان ذلك مصيبة عظيمة من أعظم المصائب الواقعة في الإسلام. وقد روى الإمام أحمد وغيره عن فاطمة بنت الحسين وقد كانت قد شهدت مصرع أبيها, الحسين بن علي رضي الله عنهم, عن جده رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " ما من رجل يصاب بمصيبة فيذكر مصيبته وإن قدمت, فيحدث لها استرجاعا إلا أعطاه الله من الأجر مثل أجره يوم أصيب بها" فقد علم أن الله أن مثل هذه المصيبة العظيمة سيتجدد ذكرها مع تقادم العهد, فكان من محاسن الإسلام أن روى هذا الحديث صاحب المصيبة والمصاب به أولا ولا ريب أن ذلك فعله الله كرامة للحسين رضي الله عنه, ورفعا لدرجته ومنزلته عند الله, تبليغا له منازل الشهداء, وإلحاقا له بأهل بيته الذين ابتلوا بأصناف البلاء, ولم يكن الحسن والحسين حصل لهما من الابتلاء ما حصل لجدهما ولأمهما وعمهما, لأنهما ولدا في عز الإسلام, تربيا في حجور المؤمنين, فأتم الله نعمته عليهما بالشهادة, أحدهما مسموما, والآخر مقتولا, لأن الله عنده من المنازل العالية في دار كرامته ما لا ينالها إلا أهل البلاء كما قال النبي صلى الله عليه وسلم وقد سئل: أي الناس بلاء؟ فقال: "الأنبياء ثم الصالحون ثم الأمثل فالأمثل, وابتلى الرجل حسب دينه, فإن كان في دينه صلابة زيد في بلائه, وإن كان في دينه رقة خفف عنه وما يزال البلاء بالمؤمن حتى يمشي على الأرض وليس خطيئة" وشقي بقتله من أعان عله, أو رضي به


(کتاب حقوق آل البیت: صفحہ 40)


سیدنا حسینؓ کے ساتھ جن ظالموں نے زیادتی کی ان کا سرغنہ عبید اللّٰہ ابن زیاد تھا، اس نے جب آپؓ کے دانتوں کے ساتھ گستاخانہ سلوک کیا تو حضرت زید بن ارقمؓ ( یا حضرت انسؓ ) نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ ان کے لب مبارک سے چھڑی ہٹالو میں نے حضورﷺ کو بار ہا ان لبوں کا بوسہ لیتے دیکھا ہے۔


وَرَأْسُ الْحُسَيْنِ حُمِلَ إِلَى قُدَّامِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، وَهُوَ الَّذِي ضَرَبَهُ بِالْقَضِيبِ عَلَى ثَنَايَاهُ، وَهُوَ الَّذِي ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ


( منهاج: جلد 8، صفحہ 142)


ابن زیاد کی اس گستاخی کی سزا اسے اللّٰہ نے اسی دنیا میں دے دی وہ اور اس کے ساتھی ابراہیم بن مالک اشتر کے ہاتھوں (66ھ میں) موصل میں قتل کیا گیا۔ عمارۃ بن عمیر کہتے ہیں:


لَمَّا جِيءَ بِرَأْسِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ وَأَصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي المَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ جَاءَتْ قَدْ جَاءَتْ، فَإِذَا حَيَّةٌ قَدْ جَاءَتْ تَخَلَّلُ الرُّءُوسَ حَتَّى دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ فَمَكَثَتْ هُنَيْهَةً، ثُمَّ خَرَجَتْ فَذَهَبَتْ حَتَّى تَغَيَّبَتْ. ثُمَّ قَالُوا: قَدْ جَاءَتْ، قَدْ جَاءَتْ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا


(سنن ترمذی: جلد 5، صفحہ 660)


جب عبیداللہ بن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لائے گئےاورکوفہ کی ایک مسجد میں انہیں ترتیب سے رکھ دیاگیا اور میں وہاں پہنچا تو لوگ یہ کہہ رہے تھے: آیا آیا، تو کیا دیکھتاہوں کہ ایک سانپ سروں کے بیچ سے ہوکر آیا اور عبید اللہ بن زیاد کے دونوں نتھنوں میں داخل ہوگیا اور تھوڑی دیر اس میں رہا پھر نکل کر چلاگیا، یہاں تک کہ غائب ہوگیا، پھر لوگ کہنے لگے: آیا آیا اس طرح دو یا تین بار ہوا۔ 


حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ (1403ھ) لکھتے ہیں: یہ در حقیقت چاه کند را چاه در پیش کی کھلی ہوئی مثال ہے یعنی اگر اس نے سیدنا حسینؓ کے سر کی بے حرمتی اپنی چھڑی سے کی تو خدا نے اس کے سر کی بے حرمتی اس جانور کے ذریعہ کرائی جو حدیث کی نص سے قبروں میں معذبین پر مسلط کیا جاتا ہے، بندوں کی بے حرمتی سے خدا کا کسی کی بے حرمتی فرمانا کہیں زیادہ اشد ہے۔ العیاذ باللّٰہ تعالٰی


(شہیدِ کربلا: صفحہ 133)


حافظ ابن کثیرؒ (774ھ) لکھتے ہیں:


فإنه قلَّ مَن نجا مِن أولئك الذي قتلوه من آفةٍ وعاهة في الدنيا، فلم يخرج منها حتى أُصيب بمرض، وأكثرهم أصابهم الجنون.


(البداية: جلد 8، صفحہ 283)


جن لوگوں نے سیدنا حسینؓ کے قتل میں کسی طرح کا بھی کوئی حصہ لیا ان میں سے بہت کم لوگ ایسے تھے جو کسی نہ کسی ناگہانی مصیبت اور آفت میں گرفتار نہ ہوئے ہوں دنیا سے جانے سے پہلے ان میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی بیماری نے آ پکڑا اور ان میں سے اکثر تو پاگل ہو گئے۔


یہ عبرتناک سزا ہے ان لوگوں کی جو اللّٰہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے ساتھ گستاخی سے پیش آتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں زیادہ اشد ہے جو اس قسم کے گستاخوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ (اعاذنا اللّٰہ تعالیٰ )


أَيُّهَا الْقَاتِلُونَ ظُلْمًا حُسَيْنًا ... أَبْشِرُوا بِالْعَذَابِ وَالتَّنْكِيلِ كُلُّ أَهْلِ السَّمَاءِ يَدْعُو عَلَيْكَمْ ... مِنْ نَبِيٍّ وَمُرْسَلٍ وَقَبِيلِ


اے سیدنا حسینؓ کے ظالم قاتلو! تمہیں سخت عذاب اور ذلت کی بشارت ہے تمام آسمان والے تم پر بدعائیں بھیجتے ہیں خواہ ان میں نبی ہوں فرشتے ہوں یا دوسرے طبقے کے لوگ ہوں۔


حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ دین کے کام میں اگر ایک شخص اپنے نزدیک حق پر ہو تو اسے کسی کی مخالفت کا خوف نہ کرنا چاہئیے چاہے سارے مسلمان اس کا ساتھ چھوڑ دیں اور کچھ لوگ جان و آبرو کے بھی درپے ہو جائیں دین کے مقابلہ میں اس کی پرواہ نہ کرنی چاہئیے، آخر موت تو ایک دن آئے ہی گی پھر دین پر جم کر آجائے تو اس سے کیا بہتر ہے۔

(وعظ حقیقت الصبر: صفحہ 41)