سیدنا حسینؓ کی تعظیم و توقیر ہر صورت واجب ہے
مولانا اقبال رنگونی صاحبسیدنا حسینؓ کی تعظیم و توقیر ہر صورت واجب ہے
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ لکھتے ہیں:
سیدنا حسینؓ صحابی ہیں اور بلاشبہ صحابی ہیں، صاحبِ روایت صحابی ہیں، اور اہلِبیت صحابی ہیں تو بلا شبہ وہ تمام آثار و لوازم صحابیت اور تمام حقوق ان کے لئے ماننے پڑیں گے جو کتاب وسنت نے مقام صحابیت کے لئے ثابت کئے ہیں اور ہمیں تاریخی طور پر نہیں بلکہ بطور عقیدہ کے اس پر ایمان لانا پڑے گا کہ سیدنا حسینؓ بوجہ صحابی ہونے کے متقن، عدول، پاک باطن، صاف ظاہر، محبتِ جاہ و مال سے بری، ہوسِ اقتدار سے بالاتر اور ان تمام رذائلِ نفس سے پاک تھے جو ان مقدسین سے بنصِ کتاب و سنت دھو دئیے گئے۔ پھر سیدنا حسینؓ نہ صرف صحابئ رسولﷺ ہیں بلکہ قرابتِ نبویﷺ کی خصوصیت سے بھی مالا مال ہیں جو اہلِ بیت کا مخصوص حصّہ تھا اور اس کی بناء پر ان کی قلبی تطہیر اور رجس و نجسِ باطن سے پاکی اور بھی زیادہ مؤکد ہو جاتی ہے، اور قلبی تطہیر کا کم سے کم یہ درجہ ہے کہ قلب(دل) دنیاوی رذائل؛ حُبِ جاہ و مال اور ہوسِ اقتدار و ریاست سے بری ہو جائے اور آدمی عبدالدینار و عبد الدراہم نہ رہے۔ اس لئے سیدنا حسینؓ کے صحابی ہونے کے علاوہ اہل بیت میں سے ہونے کی وجہ سے بھی بلاشبہ ان کا ان رذائل سے قلب پاک اور بری مانا جانا بطور عقیدہ کے ضروری ہے۔
( شہیدِ کر بلا: صفحہ 78)
اس لئے سیدنا حسینؓ کی توقیر و تعظیم واجب، ان کے حق میں بد گوئی حرام، ان سے حسن ظن اور ان پر اعتماد و ثقہ لازم اور ان سے رضا بلا تخصیص واستثناء بوجہ رضائے الٰہی و رضاء نبویﷺ کے ضروری ہے، ان کی بد گوئی کرنا یا ان پر زبان طعن و ملامت دراز کرنا یا ان پر نکتہ چینی کرنا شرعی طور پر ممنوع ٹھہرا کہ یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے جس پر قديماً و حديثاً علماء ،عرفاء، فقہاء، محدثین اور صوفیاء توارث کے ساتھ جمے چلے آرہے ہیں اور اسی کو قرآن وحدیث کی رو سے اپنا قطعی عقیدہ جانتے ہیں۔
( ایضاً: صفحہ 62)
حضرت حکیم الاسلام قدس سرہؒ آگے چل کر لکھتے ہیں:
سیدنا حسینؓ کے جزوِ رسولﷺ ہونے کی وجہ سے انہیں اخلاقِ نبوت سے جو خلقی اور فطری مناسبت ہو سکتی ہے وہ یقیناً دوسروں کے لحاظ سے قدرتاً امتیازی شان لئے ہوئے ہونی چاہیئے اور اس مناسبت کے معیار سے اگر دوسروں کی رسائی بڑے بڑے مجاہدات و ریاضات اور مدتوں کی صحبت و معیت کے بعد ممکن تھی تو اہلِ بیت اور بالخصوص حضرات حسنین کریمینؓ کے لئے وہ اس خلقی مناسبت کے سبب زیادہ مجاہدہ اور طولِ صحبت کی متقاضی نہ تھی۔ پھر اور لوگ تو بیرونی مجالس اور مجامع ہی میں اللّٰہ کے رسولﷺ کی صحبت سے فائدہ اٹھا سکتے تھے، لیکن ان اہل بیتؓ کو اندرون خانہ بھی یہ دولت نصیب تھی اس لئے نبوت کے اخلاقی رنگ سے جس قدر وہ ہم آہنگ ہو سکتے تھے، دوسروں کے لئے اتنے مواقع نہ تھے اس لئے بحیثیت اہل بیت نبویﷺ ہونے کے حضرات حسنینؓ کے بارے میں مخصوص فضائل و مناقب کی روایات بکثرت وارد ہوئی ہیں؛ کہیں ان کو (سیدا شباب أهل الجنة) فرمایا گیا، کہیں ان کو حضورﷺ نے اپنا محبوب ظاہر فرما کر اللّٰہ سے درخواست کی کہ آپ بھی انہیں اپنا محبوب بنا لیں، کہیں ان سے حضورﷺ نے اپنی محبت کا بر سرِ منبر اعلان فرما کر دعا مانگی کہ یا اللّٰہ جو ان سے محبت کرے تو بھی اس سے محبت فرما، یعنی محبِ حسینؓ کو محبوبِ خداوندی ہونے کی دعا اور بشارت دی نیز وہ حضورﷺ کی افضل بیٹی سیدہ فاطمہ زہراؓ کے جگر گوشہ ہیں، اس لئے ان کی محبوبیت یوں بھی دہری ہو جاتی ہے۔ اور اس لئے ان پر طعنہ زنی اور اتہام تراشی کرنے والا صرف سیدناحسینؓ ہی کو ستانے والا نہیں، بلکہ حضرت زہراؓ کو ایذا پہنچا رہا ہے جو انجامِ کار اللّٰہ کے رسولﷺ کو ایذا رسانی ہے۔ جیسا کہ فاطمةؓ منى من أذاها فقد أذاني(فاطمہؓ میر ا جگر گوشہ ہے جس نے اسے ستایا، اس نے مجھے ستایا۔) سے ظاہر ہے پس جبکہ سیدنا حسینؓ کے شرف صحبت و صحابیت، قرب و قرابت اور حضورﷺ سے صورتاً وسیرتاً اشبہیت کی وجہ سے اور بھی حقوق بڑھ جاتے ہیں تو ان کی ذات گرامی پر مخلصانہ اعتماد و اعتقاد اور بھی زیادہ واجب اور ضروری ہو جاتا ہے۔
(ايضاً: صفحہ 79)
آپؒ مزید لکھتے ہیں:
سیدناحسینؓ کی پوری زندگی محبتِ نبویﷺ کی وجہ سے غیرت و حمیت سے معمور ہے۔ جس سے اخذِ حقوق اور دفعِ مظالم کے افعال کا ظہور ہوا۔ حتیٰ کہ اسی دفعِ مظالم اور ردِ منکرات کے کاموں میں اپنی جان پاک بھی جان آفرین کو دے کر شہادت عظمیٰ کے مقام پر جا پہنچے۔
( ایضاً: صفحہ 124)
سیدنا حسینؓ کی عبادات
سیدنا حسینؓ کو اپنے بڑے بھائی سیدنا حسنؓ کی طرح عبادت کا بھی بہت شوق تھا۔ آپؓ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی کو بنایا تھا۔ تمام عبادات میں نماز آپؓ کو بہت محبوب تھی۔ آپؓ بکثرت نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی تو نمازِ عشاء کے بعد بہت کم سوتے تھے۔ رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگ جاتے اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتے پھر تھوڑی دیر کے لئے آرام کر لیتے تھے۔ آپؓ روزہ بھی بکثرت رکھتے تھے۔ آپؓ نے بیسیوں مرتبہ حج بیت اللّٰہ کی سعادت حاصل کی ہے۔ عبداللّٰہ بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سيدنا حسینؓ کو حج کے دنوں میں لوگوں کو حوض سے پانی پلاتے بھی دیکھا ہے۔
(المصنف لعبد الرزاق: جلد 1، صفحہ 505)
آپؓ ہر نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔ آپؓ اپنے بھائی کی طرح غرباء و مساکین کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اور جو کچھ آتا آپؓ ان پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔
✰_ ایک دن سیدنا حسینؓ نماز پڑھ رہے تھے اتنے میں ایک فقیر آپؓ کے دروازہ پر آیا اور اشعار کی صورت میں اپنی حاجت پیش کر کے امداد کا طالب ہوا، آپؓ نماز پڑھ کر فوراً باہر آئے، سائل کی حالت دیکھ کر غلام کو آواز دی کہ ہمارے خرچ اخراجات میں سے کچھ بچا کھچا ہو تو لے آؤ، اس نے کہا کہ حضور دو سو درہم باقی رہ گئے ہیں جو گھر کی ضروریات کے لئے ہیں۔ آپؓ نے غلام سے کہا کہ وہ سب لے آؤ، ہمارے گھر والوں کی بہ نسبت یہ شخص زیادہ حقدار ہے۔ پھر آپؓ نے وہ درہم اس سائل کو دے دیئے۔
(مختصر تاریخ ابن عساکر: جلد 7، صفحہ 131 لابن منظور)
✰_ ایک مرتبہ کسی شاعر نے سیدنا حسینؓ کی تعریف کی تو آپؓ نے اس کو بہت سا مال دیا، اس پر کسی نے سیدنا حسینؓ سے کہا کہ آپؓ نے اسے اتنا سارا مال دے دیا! سیدنا حسینؓ نے کہنے والے کو سمجھایا کہ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ تم فاطمہ بنتِ رسولﷺ اور علیؓ بن ابی طالب کی اولاد نہیں ہو پھر لوگ خوامخواہ اس کی بات کی تصدیق کرتے اور اسے نقل کرتے، پھر یہ بات ہمیشہ کے لئے کتابوں میں رہ جاتی اور بیان کرنے والوں کی زبانوں پر رائج رہتی۔ سیدنا حسینؓ کا یہ حکمت بھرا جواب سن کر اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ کے بیٹے! خدا کی قسم آپؓ مدح و زم کی حقیقت کو مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں۔
(الحسن والحسین: صفحہ 20)
مدینہ منورہ کے آس پاس سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ملکیت میں بہت سے چشمے تھے، آپؓ نے اپنے رشتہ داروں کے لئے وہ چشمے وقف کر رکھے تھے اور لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے ایک چشمہ البغیبغات کے نام سے مشہور تھا، یہ چشمہ سیدنا حسینؓ کے حصّہ میں آیا تو آپؓ نے اسے چچازاد بھائی عبد الله بن جعفرؓ کو دے دیا، کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں، ایک عرصہ کے بعد پھر حضرت عبداللهؓ نے یہ چشمہ حضرت معاویہؓ کے ہاتھ فروخت كرديا۔
(تاريخ المدينة المنورة: جلد 1، صفحہ 138)
علامه عزالدین ابن اثیرؒ (606ھ) لکھتے ہیں:
«وكان الحسين رضي الله عنه فاضلاً، كثير الصوم والصلاة والحج والصدقة وأفعال الخير جميعها»
(اسد الغابة: جلد 2، صفحہ 23)
سدنا حسینؓ بہت زیادہ صاحبِ فضیلت، کثرت سے نماز، روزہ ،حج، صدقہ اور تمام خیر کے کام زیادہ کرنے والے تھے۔
حافظ ابو نعیم اصبہانیؒ(430ھ) لکھتے ہیں:
تَقِيًّا نَقِيًّا فِي ذَاتِ اللَّهِ ، مُجِدًّا قَوِيًّا ذَا لِسَانٍ وَبَيَانٍ ، وَنَجْدَةٍ وَجَنَانٍ
[معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني] (المؤلف) أبو نعيم أحمد بن عبد الله بن أحمد بن إسحاق بن موسىٰ بن مهران الأصبهاني (336-430هـ) .
(معرفة الصحابة: جلد 2، صفحہ 9)
حافظ ابن عبد البر مالکیؒ(463ھ) لکھتے ہیں:
وكان الحسين فاضلا دينا، كثير الصوم والصلاة والحج
(الاستيعاب: جلد 1، صفحہ 378)
سیدنا حسینؓ دیندار صوم و صلوٰۃ اور حج کی کثرت رکھنے والی ہستی تھے۔
حضرت امام نوویؒ (676ھ) آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
الحسین بن علی بن ابی طالب الهاشمي أبو عبدالله سبط رسول اللهﷺ وريحانته وهو اخوه الحسن سيدا شباب أهل الجنة ..... مصعب قال حج الحسين خمسا وعشرين حجة ماشيا قالوا وكان الحسين فاضلا كثير الصلاة والصوم والحج والصدقة وأفعال الخير جميعها
(تهذیب الاسماء: جلد1، صفحہ 163)
سیدنا حسینؓ کی کرامت کا ایک واقعہ
آپؓ بڑے صاحبِ کرامت صحابی تھے۔ ابو عون کہتے ہیں: کہ جب سیدنا حسینؓ مکہ کے ارادے سے مدینہ سے روانہ ہوئے تو راستہ میں ان کا گزر عبداللّٰہ ابنِ مطیعؓ کے پاس ہوا، اس وقت وہ اپنا کنواں کھود رہے تھے۔ ابن مطیعؓ نے سیدناحسینؓ سے عرض کی کہ میں نے اپنے اس کنوئیں کو اس لئے ٹھیک کیا تا کہ اس میں دوبارہ پانی آ جائے لیکن ابھی تک پانی نہیں آیا ہے، ڈول خالی ہی نکلا ہے آپ ہمارے لئے اس کنویں کی برکت کے لئے دعا کر دیں۔
فلو دعوت الله لنا فيها بالبركة.قال: هات من مائها. فأتى من مائها في الدلو، فشرب منه ثم مضمض، ثم رده في البئر، فأعذب وأمهى، ثم ودع وسار إلى مكة.
(طبقات ابن سعد: جلد 5، صفحہ 110)
سیدنا حسینؓ نے فرمایا: کنویں کا تھوڑا سا پانی لاؤ، چنانچہ ابن مطیع اس میں سے تھوڑا سا پانی لے کر آپؓ کے پاس آئے، سیدنا حسینؓ نے اس سے تھوڑا پانی پیا پھر کلی فرمائی پھر وہ پانی اس کنویں میں ڈال دیا تو اس کنویں کا پانی میٹھا بھی ہو گیا اور زیادہ بھی ہو گیا۔
سیدناحسینؓ کی تواضع
سیدنا حسینؓ میں تواضع کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ایک مرتبہ آپؓ گھوڑے پر جا رہے تھے، غرباء کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جو زمین پر بیٹھے روٹی کھا رہے تھے، آپؓ نے انہیں سلام کیا، انہوں نے آپ کو پہچان لیا اور کہا اے رسول اللّٰہﷺ کے بیٹے تشریف لائیے۔ آپؓ گھوڑے سے اتر پڑے اور ان کے ساتھ وہیں زمین پر بیٹھ کر کھانے لگے، آپؓ نے اس وقت یہ بھی فرمایا اللّٰہ تعالٰی تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
(الجوہرة: جلد 2، صفحہ 213)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:
سیدنا حسینؓ کی حکایت ہے کہ آپؓ کے یہاں چند مہمان تھے، کھانے کا وقت آیا، غلام کھانا لایا، اتفاق سے شوربے کا پیالہ لئے ہوئے تھا کہ فرش پر پاؤں پھسلا، پیالے میں سے گرم شوربا آپؓ کے چہرہ مبارک پر گر پڑا، (آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیسا منظر تھا، اس وقت کے اہلِ جاہ اپنے دل میں ٹٹولیں کہ ایسے موقع پر وہ کیا کرتے ہیں)، آپؓ نے کچھ نہیں کیا مگر مصلحتِ تعلیم نظرِ تادیب سے اس کی طرف دیکھا، اس کی زبان پر فوراً یہ جاری ہو گیا (وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ)[سورۃ آل عمران آیت نمبر 134] اللّٰہ کے خاص بندے غصہ کو پینے والے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کظمت غیظی کہ میں نے اپنا غصہ پی لیا، پھر غلام نے کہا والعافين عن الناس اور وہ لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، آپؓ نے فرمایا (عفوت عنك)کہ میں نے تجھے معاف کیا، پھر اس نے کہا (وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَۚ)[سورۃ آل عمران آیت نمبر 134] اور اللّٰہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، آپؓ نے فرمایا: (قد اعتقتك لوجه اللّٰه)کہ میں نے تجھے اللّٰہ کے واسطے آزاد کیا۔
( وعظ - الهوی والهدی صفحہ 23)
سیدنا حسینؓ کی روایات
سیدنا حسینؓ حضور ﷺ کے وصال کے وقت چونکہ سات سال کے تھے اس لئے آپؓ کو حدیث سننے کے مواقع بہت کم ملے اور اس عمر میں سنے بھی ہوں تو پھر یاد رکھنا بھی کچھ آسان نہیں ہوتا، سیدنا حسینؓ سے آٹھ روایتیں ملتی ہیں، آپؓ نے حضور ﷺ کی وہ احادیث یاد رکھیں اور اسے آگے پہنچایا۔
(الاصابہ:جلد 1، صفحہ331)
حافظ ابن عبد البرؒ نے آپؓ سے حضورﷺ کی روایات نقل کیں ہیں:
( دیکھئے استیعاب)
آپ نے سیدنا علیؓ، سیدنا عمر فاروقؓ، سیدہ فاطمہؓ وغیر سے بھی روایات لی ہیں اور آپؓ سے روایت کرنے والوں میں آپ ؓکے صاحبزادے علیؒ اور زیدؒ نیز آپ کے بھائی سیدنا حسنؓ صاحبزادی فاطمہؒ اور سکینہؒ اور دیگر حضرات ہیں۔
( دیکھئے تہذیب: جلد 4، صفحہ 345،، الاصابہ: جلد1، صفحہ331)
حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ (748ھ) نے آپ سے روایت کرنے والوں میں عبید بن حنین ،همام الفرزدقؒ ، عکرمہؒ، شعبیؒ ، طلعۃ عقیلی، آپ کے بھتیجے زید بن الحسنؓ اور آپ کے پوتے محمد باقرؒ کا بھی ذکر کیا ہے۔تاہم مؤخر الذکر بارے میں لکھا کہ انہوں نے آپ کا دور نہیں پایا تھا۔
محمد بن علی الباقر ولم يدركه
(سیر اعلام النبلاء: جلد 3، صفحہ 188)
مسند احمد کی ایک روایت دیکھئے، یہ روایت آپؓ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؒ آپؓ سے نقل کرتی ہیں:
عن فاطمة ابنة الحسين عن أبيها الحسين بن على عن النبيﷺ قال: ((ما من مسلم ولا مسلمة يصاب بمصيبة فيذكرها وان طال عهدها)) قال عباد ((قدم عهدها فيحدث لذلك استرجاعا إلا جدد الله له عند ذلك فأعطاه مثل أجرها يوم أصيب بها)).
( مسند احمد: جلد1، صفحہ331 )
امام ابن ماجہؒ نے اپنی سنن میں بھی یہ روایت آپؓ سے نقل کی ہے۔
( دیکھئے صفحہ 166)
حضرت امام بخاریؒ (256ھ) نے اپنی صحیح میں اور امام احمدؒ (241ھ) نے اپنی مسند میں آپؓ سے مروی روایتوں کو کئی جگہ نقل کیا ہے، ان میں آپؓ سیدنا علیؓ اور حضورﷺ کے مولیٰ ابو رافعؓ سے روایت کرتے ہیں تاہم بعض روایات آپﷺ سے براہِ راست بھی ملتی ہیں۔
عن فاطمة بنت حسين عن أبيها حسين بن على قال قال رسول الله للسائل حق وان جاء على فرس
(مسند احمد: جلد1، صفحہ330)
ترجمہ: حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
کہ سائل کا حق ہوتا ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر مانگنے آیا ہو۔
علي بن حسين عن أبيه ( حسين بن علي) أن النبي ﷺ قال البخيل من ذكرت عنده ثم لم يصل على صلى الله عليه وسلم
(مسند احمد: جلد 1، صفحہ 331)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود (ﷺ) نہ پڑھے۔
وعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.
(ايضاً: صفحہ331)
حضورﷺ نے فرمایا آدمی کے اسلام کی خوبی کم گفتگو اور لایعنی باتوں سے اجتناب کرنا ہے۔
عن ربيعة بن شيبان قال قلت للحسين بن على ما تعقل رسول الله قال صعدت معه غرفة الصدقة فاخذت تمرة فاكلتها في في فقال النبي ألقها فانها لا تحل لنا الصدقة
(ايضاً)
ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا حسینؓ سے پوچھا کہ آپؓ کو حضورﷺ کی کوئی بات یاد ہو تو ارشاد فرمائیے. آپؓ نے فرمایا:
ایک دن میں بالاخانہ پر چڑھ گیا تھا وہاں صدقہ کے کھجور پڑے ہوئے تھے ان میں سے میں نے ایک کھجور لیا اور منہ میں ڈالا ہی تھا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس کو باہر نکال لو اس لئے کہ ہمارے لئے صدقہ کا مال جائز نہیں ہے۔
۰۰۰۰۰عن الحسين بن علي عن النبي ﷺ قال الحرب خدعة
(مسند بزار)
حضور ﷺ نے فرمایا: کہ جنگ ایک دھوکہ ہے ( معلوم نہیں کس وقت کہاں سے کیا معاملہ پیش آ جائے)
عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، عن النبي صلى الله عليه وسلم حديثا في ابن صائد: اختلفتم وأما بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ، فَأَنْتُمْ بَعْدِي أَشَدُّ اخْتِلافًا. "
(الاستیعاب: جلد 01، صفحہ 398)
حضور ﷺ نے ابن صائد کے ذکر میں (لوگوں کے اختلاف کو دیکھتے ہوئے) فرمایا کہ تم لوگ اختلاف میں پڑ گئے حالانکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں میرے بعد تم لوگ سخت اختلاف بھی دیکھو گے۔
سیرت الرسولﷺ جاننے کا شوق
سیدناحسینؓ کو حضورﷺ کے حلیہ مبارک اور سیرت مبارکہ معلوم کرنے کا بہت شوق تھا، آپؓ زیادہ سے زیادہ حضورﷺ کے بارے میں جاننے کی طلب رکھتے تھے اور اس بارے میں آپؓ اپنے بڑے بھائی سیدنا حسنؓ پر سبقت لے گئے تھے اس بات کی شہادت خود سیدنا حسنؓ نے دی ہے، آپؓ کہتے ہیں:
سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ، وَكَانَ وَصَّافًا عَنْ حِلْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا، ۔۔۔۔ قَالَ الْحَسَنُ: «فَكَتَّمْتُهَا الْحُسَيْنَ زَمَانًا، ثُمَّ حَدَّثْتُهُ فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي إِلَيْهِ. فَسَأَلَهُ عَمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ وَوَجَدْتُهُ قَدْ سَأَلَ أَبَاهَا عَنْ مَدْخَلِهِ وَمَخْرَجِهِ وَشَكْلِهِ فَلَمْ يَدَعْ مِنْهُ شَيْئًا
(شمائل ترندی: حدیث 337)
میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہؓ سے حضورﷺ کا حلیہ مبارک پوچھا اور وہ حضورﷺ کے حلیہ مبارک کو بہت کثرت اور بہت اچھی طرح بیان کرتے تھے مجھے یہ خواہش ہوئی کہ وہ میرے سامنے بھی اس کا بیان کریں چنانچہ آپؓ نے حضورﷺ کا حلیہ مبارک بیان کیا۔ سیدنا حسنؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عرصہ تک سیدنا حسینؓ سے اس کا ذکر نہیں کیا جب ایک عرصہ کے بعد ان کو یہ بات بتلائی تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے اس بات کو سن چکے تھے۔ اور یہی نہیں کہ انہوں نے ماموں سے سنا بلکہ سیدنا علیؓ سے حضورﷺ کے گھر جانے اور واپس آنے اور اس کا طرز و طریقہ بھی تفصیل سے معلوم کر چکے تھے۔