Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے فضائل و مناقب

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

حضرات حسنین کریمینؓ کے فضائل و مناقب

حضورﷺ کو اپنے دونوں نواسے بہت عزیز تھے اور آپﷺ دونوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ فرماتے تھے کہ اہل بیت میں مجھ کو حسنؓ اور حسینؓ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

(البدایہ: جلد 8، صفحہ205)

حضورﷺ جب نماز میں ہوتے اور آپﷺ سجدہ میں جاتے تو بچے آپﷺ کی پشت پر چڑھ جاتے تھے اور آپﷺ انہیں منع نہ کرتے تھے، اور آپﷺ نماز سے فارغ ہوتے تو بچوں کو اپنی گود میں لے لیتے. ایک مرتبہ آپﷺ نے ایسے ہی موقع پر فرمایا کہ جو مجھ سے محبت رکھتا ہے اسے چاہئیے کہ ان دونوں سے بھی محبت رکھے۔

من أحبني فليحب هذين

( مسند ابى يعلىٰ: جلد 5، صفحہ 26 و صفحہ 162/ نسائی کبریٰ: جلد 5، صفحہ 50)

ابوبریدہؓ کہتے ہیں ایک مرتبہ حضورﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنؓ اور حسینؓ کھیلتے ہوئے ادھر آ نکلے اور لڑکھڑاتے ہوئے حضورﷺ کی جانب بڑھے، انہیں دیکھ کر حضورﷺ منبر سے نیچے اتر پڑے ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا اللّٰه نے سچ کہا ہے تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو لڑکھڑاتے ہوئے آتے دیکھا تو مجھ سے نہ رہا گیا یہاں تک کہ میں نے اپنا خطبہ منقطع کر دیا اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔

فلم أصبر حتى قطعت حديثي فرفعتهما رواه أصحاب السنن وابن حبان وقال الترمذي حسن .

(ترمذی: جلد 2، صفحہ 219/ اسد الغابة: جلد 2، صفحہ 16)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ گھر گئے تو بچے نہ تھے، تھوڑی  دیر میں دونوں گھر آئے تو آپﷺ نے ان دونوں کو اپنے گلے سے لگایا اور فرمایا اللّٰه میں ان کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھ اور جو ان سے محبت رکھتا ہے تو اس سے بھی محبت رکھ۔

(صحیح مسلم: جلد 2، صفحہ282/ صحیح بخاری: جلد 1، صفحہ 285 )

حضرت یعلیٰ بن مرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ تک پہلے پہنچنے کے لئے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ دوڑ رہے تھے اور جب وہ دونوں حضورﷺ کے پاس پہنچے تو آپﷺ نے ان دونوں کو اپنے بدن سے چمٹا لیا اور ان کو بوسے دیے اور فرمایا کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اس لئے تم لوگ بھی ان سے محبت کرو۰۰۰۰

الحدیث ( مسند احمد: جلد 4، صفحہ 172)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو حسنؓ اور حسینؓ سے محبت رکھے اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

(مسند ابی یعلیٰ: جلد 5، صفحہ 449 / ابن ماجۃ: صفحہ 13)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں اس دن سے ان کو محبوب رکھتا ہوں جب سے میں نے ان کو حضورﷺ کی گود میں دیکھا ہے، یہ آپﷺ کی ریش مبارک سے کھیلتے تھے اور حضورﷺ اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں دے کر فرماتے تھے کہ اے اللّٰه میں ان کو محبوب رکھتا ہوں تو بھی انہیں محبوب رکھ۔

(مستدرک حاکم: جلد 3، صفحہ 185)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضورﷺ گھر آئے تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ آپﷺ سے لپٹ گئے، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں اس امت کے مہکتے پھول ہیں. ریحانتي من هذه الامة ( سنن نسائى كبرى: جلد 5، صفحہ 49)

حضرت اسامہؓ کہتے ہیں ایک رات میں حضورﷺ کے پاس ایک ضرورت کے سلسلے میں آیا تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ کی چادر میں کوئی چیز چھپی ہوئی تھی میں نے اپنی ضرورت  کی بات کی اور جاتے وقت پوچھا کہ حضورﷺ اس چادر میں کیا ہے آپﷺ نے چادر ہٹائی تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ چادر میں سے باہر آئے آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے دو بچے ہیں میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللّٰه میں انہیں محبوب رکھتا ہوں آپ بھی انہیں محبوب رکھیں۔

(اسد الغابة: جلد 2، صفحہ16 / ترمذی جلد 2، صفحہ 218)

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ کو اپنے گھر والوں میں کون سب سے زیادہ عزیز ہے؟ آپﷺ نے کہا حسنؓ اور حسینؓ۔ آپﷺ حضرت فاطمہؓ سے کہتے کہ ان دونوں کو بلاؤ جب وہ آتے تو آپﷺ انہیں سونگھتے اور گلے سے چمٹا لیا کرتے تھے۔

( مسندابی یعلیٰ: جلد 4، صفحہ 219/ درر فرائد ترجمه جمع الفوائد: صفحہ335)

حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور ﷺ کے ساتھ تھا اور ہم دونوں خاموش چل رہے تھے، اتنے میں بنی قینقاع کے بازار سے گزرے کہ حضورﷺ واپس ہو کر حضرت فاطمہؓ کے گھر آئے اور فرمایا کہ کیا بچہ ( یعنی سیدنا حسنؓ) یہاں ہے اس پر تھوڑی دیر گذری اور ہم سمجھے کہ وہ شاید غسل کر رہے ہیں یا انہیں ان کی والدہ کپڑے پہنا کر لا رہی ہے پھر وہ دوڑے ہوئے آئے حضورﷺ نے انہیں اپنے سینے سے چمٹا لیا اور فرمایا اے اللّٰه میں اس سے محبت رکھتا ہوں پس آپ بھی اس سے محبت رکھنا اور اس سے بھی محبت رکھنا جو اس سے محبت رکھے۔

(درر فرائد:  صفحہ336)

حضرت عبد اللّٰہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ اپنے دوش مبارک پر سیدنا حسنؓ کو لئے جارہے تھے، ایک شخص نے دیکھا تو کہا: صاحبزادے بڑی اچھی سواری پر بیٹھے ہو، رسول اللّٰہﷺ نے سنا تو فرمایا ونعم الراكب هو کہ سوار بھی تو بہترین ہے۔

(اسد الغابہ: جلد 2، صفحہ 17/ ترمذی جلد 2، صفحہ 219)

حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضورﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ام ایمنؓ آئیں اور کہا: یا رسول اللّٰہﷺ حسنؓ اور حسینؓ معلوم نہیں کہاں ہیں مل نہیں رہے ہیں، اس وقت دن چڑھ چکا تھا حضورﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ چلو میرے دونوں بچوں کو تلاش کریں، چنانچہ ہر شخص ان دونوں کی تلاش میں نکل پڑا، میں حضورﷺ کے ساتھ تھا یہاں تک کہ ہم ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے تو دیکھا کہ سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ ایک دوسرے کو چمٹے ہوئے کھڑے ہیں اور ان کے قریب ایک کالا سانپ اپنی دم پر کھڑا ہے، حضورﷺ جلدی سے ناگ کی طرف بڑھے، اس نے جب حضورﷺ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ مڑ کر چل پڑا اور ایک سوراخ میں داخل ہو گیا، حضورﷺ ان دونوں کے قریب ہوئے اور دونوں کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں تم دونوں اللّٰہ کے ہاں کتنے قابلِ احترام ہو، پھر آپ نے ایک کو دائیں اور دوسرے کو بائیں کندھے پر بٹھا لیا میں نے کہا کہ تم دونوں کو بشارت ہو کہ تمہاری سواری بہت ہی عمدہ ہے، حضورﷺ نے فرمایا یہ دونوں بہت عمدہ سوار ہیں اور ان کے والدین ان دونوں سے بہتر ہیں۔

( حیاۃ الصحابة: جلد 2، صفحہ 869/ مجمع الزوائد: جلد 5، صفحہ 182)

یعلی بن مرہؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں جو شخص حسینؓ کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔

(صحیح بخاری)

حضرت حذیفہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک فرشتہ اترا جو اس سے پہلے کبھی نہ آیا تھا اس نے مجھے سلام کے بعد یہ بشارت پہنچائی کہ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی اور حسنؓ و حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

(رواه الترمذی/ البدایه: جلد 8، صفحہ 206)

حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا ذكر الرسول صلى الله عليه وسلم، أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة،

( مسند ابى يعلىٰ: جلد 2، صفحہ 58/ سنن نسائی کبریٰ: جلد 5، صفحہ 50)

سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اہلِ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ (1362ھ) فرماتے ہیں: سیدنا حسینؓ  سے زیادہ کون ولی ہو گا جو حضورﷺ کے نواسے اور حد درجہ محبوب تھے جن کے بارے میں پیشن گوئی ہے حسنؓ اور حسینؓ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔

(وعظ۔ حقیقت الصبر: صفحہ 42)

حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ لکھتے ہیں: حضرات حسنینؓ خاتون جنتؓ کے لخت جگر، لاڈلے اور آنحضرتﷺ کے پیارے نواسے ہیں کہ نسل انہی سے چلی جو سادات کہلاتے ہیں، ان کے فضائل بے شمار ہیں اور جس کو ذرا بھی محبت ہو گی محبوب خداﷺ کے ساتھ وہ سمجھے گا کہ آپﷺ کے نواسوں کے ساتھ محبت کسی قدر بڑی نعمت ہے۔

( درر فرائد: صفحہ 335)

آنحضرتﷺ حضرات حسنین کریمینؓ کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتے اور ان کی حفاظت کے لئے پڑھ کر انہیں دم کر دیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کہتے ہیں حضورﷺ یہ دعا پڑھ کر حسنؓ حسینؓ کو اللّٰہ کی پناہ میں دیتے تھے:

(أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ هَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لأُمَّةٍ )

مستدرک حاکم: جلد 3، صفحہ 173

میں اللّٰہ کے کلمات تامہ کے ذریعہ وہم میں ڈالنے والے شیطان اور نظر بد سے اللّٰہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُعَوِّذُ الحَسَنَ والحُسَيْنَ، ويقولُ: إنَّ أَبَاكُما كانَ يُعَوِّذُ بهَا إسْمَاعِيلَ وإسْحَاقَ: أَعُوذُ بكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِن كُلِّ شيطَانٍ وهَامَّةٍ، ومِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ.

البخاري (3371)

( سنن إبى داؤد جلد 2 صفحہ 304)

حضورﷺ نے اس کے بعد فرمایا: تمہارے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے لئے ان کلمات سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

(یعنی ان کلمات کو پڑھ کر دم کرتے تھے) حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ جس نے جنتی آدمی دیکھنا ہو وہ سیدنا حسینؓ کو دیکھ لے کہ میں نے حضورﷺ سے ان کے بارے میں یہ بات سنی ہے۔

( مسند ابی یعلی: جلد 2، صفحہ 3488/ البدايه: جلد 8، صفحہ 206)

ایک مرتبہ حضرت حسنؓ نے حضرت ابو ہریرہؓ کو سلام کیا تو آپؓ نے اس کے جواب میں فرمایا وعليك السلام ياسيدى ۔ پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ آپؓ سید ہیں۔

( مسندابی یعلی: جلد 6، صفحہ 91)  ایک شخص نے حضرت عبد اللّٰہ بن عمرؓ سے حالت احرام میں مچھر مارنے کے بارے میں مسئلہ پوچھا تو آپؓ نے ان سے کہا تم کہاں سے ہو ؟ اس نے کہا عراق سے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اسے دیکھو یہ ایک مچھر کے قتل کے بارے میں مسئلہ پوچھتا ہے جبکہ ان لوگوں نے حضورﷺ کے نواسہ کو شہید کر دیا اور میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ میرے دنیا کے پھول ہیں : قال النبيﷺ: «هما رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدنيا . يعني الحسنَ والحسينَ»وروى أحمد بإسناده إلى أبي سعيد الخدري –

(مسند ابی یعلی: جلد 5، صفحہ 287/اسد الغابة: جلد 2  صفحہ 26)

حضرت زید بن اسلمؓ کہتے ہیں کہ میں نے اہل بیت میں کسی کو سیدنا حسنؓ جیسا نہیں پایا ما جالست في أهل بيته مثله يعنى الحسن

( المصنف لابن ابی شیبہ: جلد 6، صفحہ 186)

شیعہ عالم شئخ صدوق لکھتا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے یزید کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: حضرت حسینؓ کے بارے میں تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ انہیں حضورﷺ سے قرابت کی نسبت ہے اور وہ حضورﷺ کے جسم مبارک کا ٹکڑا ہیں اور ان کا جسم حضورﷺ کی طرف سے پرورش یافتہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ اہل عراق ضرور انہیں اپنی طرف بلائیں گے اور پھر ان کی مدد سے ہاتھ اٹھالیں گے اور ان کو اکیلا چھوڑ دیں گے اگر تجھے ان پر غلبہ ملے توان کی عزت کے حق کو پہچاننا اور حضورﷺ کے ساتھ ان کی قرابت کے مرتبہ کو یاد رکھنا اور ان کے اعمال کا مؤاخذہ نہ کرنا اور میں نے ان کے مابین جو روابط اس مدت میں قائم کر رکھے ہیں ان کو قطع نہ کرنا خبر دار انہیں کوئی مکروہ اور تکلیف دہ چیز نہ پہنچانا۔

ویاری او نخواهند کرد و او را تنها خواهند گذاشت اگر با وظفریابی حق حرمت او را بشناس و منزلت و قرابت او را با را با پیغمبر آورد او را بکرده هاۓ او را مؤاخذه مکن و روابطی که من باو در این مدت محکم کرده ام قطع مکن زنهار که با و مکروهی و آسپی مرسان

(جلاء العیون: صفحہ388)

افسوس صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور سیدنا حسینؓ مرتبۂ شہادت پا کر ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے۔