فدک خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں
مولانا اقبال رنگونی صاحبفدک دور صدیقیؓ میں
حضورﷺ جب سفر آخرت پر تشریف لے گئے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپﷺ کے جانشین ہوئے تو یہ زمینیں سیدنا ابوبکرؓ کی تحویل میں آگئی اور آپؓ نے اس کی آمدنی کو انہی مصارف(حق داروں) میں خرچ کیا جو آپﷺ کا طریقہ رہا تھا اور اس دوران سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس ایک قاصد بھیجا
(صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 91. صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 609. جلد 1 صفحہ 526) اور کہا کہ فدک نامی علاقے کی جائیداد یا باغ جس کی آمدنی سے ہمیں بھی حصہ ملتا تھا چونکہ حضورﷺ کی وفات ہو چکی ہے اس لیے وہ ہمیں دے دیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بتایا کہ اگر ہم یہ آپؓ کو دے دیں تو یہ وراثت کی شکل بن جائے گی جبکہ پیغمبر کی وراثت جاری نہیں ہوتی، یہ بات حضورﷺ نے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ پیغمبر جو کچھ چھوڑ کر جاتے ہیں وہ سب کا سب صدقہ ہوتا ہے۔ البتہ میں اس بات کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں کہ آپ کو خرچ کے لیے اس کی آمدنی سے برابر اسی طرح ملتا رہے گا جس طرح حضورﷺ زندگی میں آپؓ کو اور دوسرے گھر والوں کو دیا کرتے تھے حضورﷺ کی قرابت مجھے بہت عزیز ہے اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں ہوگی۔ تاہم میں وہ کام کبھی نہیں کروں گا جو حضورﷺ کے طریقے کے خلاف ہوگا اور اگر میں نے ایسا کیا تو میں راہ راست سے ہٹ جاؤں گا۔ سیدہ فاطمہؓ نے جب یہ جواب سنا تو آپؓ خاموش ہوگئیں اور پھر آپؓ نے آئندہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی یہاں تک کہ کچھ ماہ بعد آپ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
حضورﷺ کے انتقال کے بعد سے سیدہ فاطمہؓ کی وفات تک (جو زیادہ نہ تھا) آپ کے گھر کا خرچہ اسی مال سے آتا رہا اور آپؓ اسی مال سے اپنے گھر کا خرچ چلاتی رہیں۔
شیعہ عالم ملا باقر مجلسی (1111ھ) لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ سے کہا
"اموال واحوال خود را از تو مضائقۃ ندارم آنچہ خواہی بگیر تو بسیدہ امت پدر خودی وشجرۃ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمی تواند کرد و حکم تو نافذ است درمال من اما در اموال مسلمانان مخالفت گفتہ پدر تو نمی توانم کرد"
( حق الیقین صفحہ 127 باب پنجم )
ترجمہ: میں اپنے حالات اور اپنے مالوں کو تمہیں دینے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا آپؓ اس میں مختار ہیں جو چاہے لے سکتی ہیں، آپؓ اپنے والد کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے بچوں کے لیے شجرۂ طیبہ کی طرح ہیں، آپؓ کے فضل کا کوئی انکار نہیں کر سکتا، میرے مال پر آپؓ کا حکم نافذ ہے تاہم مسلمانوں کے مالوں سے متعلق میں آپؓ کے والد گرامیﷺ کے ارشاد کی مخالفت نہیں کر سکتا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ (256ھ) نقل کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ
لست تارکا شیئا کان رسول اللہ ﷺ یعمل بہ الا انی عملت بہ فانی اخشی ان ترکت شیئا من امرہ ان ازیغ
(صحیح بخاری ج 1 صفحہ 435)
میں کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ سکتا جس پر حضورﷺ عمل پیرا تھے میں تو ضرور اسی عمل کو جاری رکھوں گا کیونکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے کوئی چیز آپﷺ کے عمل سے ترک کر دی تو میں راہ راست سے ہٹ جاؤں گا
ولم اترک امرا رأیت رسول اللہ ﷺ یصنعہ فیھا الا صنعتہ(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 609)
اعمل فیھا بما عمل رسول اللہﷺ
(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 996)
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا فاطمہؓ کو کہا کہ میں حضورﷺ کے خلاف کچھ نہ کروں گا یہ اموال(مال کی جمع) مسلمانوں کے معاملات میں خرچ ہوں گے، مسلمان اس سے سامان جنگ بھی خریدیں گے اور کافروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔ پھر آپؓ نے کہا:
واین را باتفاق مسلماناں کردہ أم وردیں أمر منفرد وتنھا نبودہ ام
(حق الیقین صفحہ 126)
یہ فیصلہ میں نے تنہا نہیں کیا، مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے
یہاں یہ بات لائق غور ہے کہ حضورﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں اپنے گھر والوں میں سے کیا کسی کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا تھا کہ وہ باغ فدک کا یہ نظام اپنے ہاتھ میں لے لیں کہ یہ زمین یا باغ اب ان کی ملکیت ہے ؟ کیا آپﷺ نے کبھی حضرت علی المرتضیٰؓ کو یہ بات کہی کہ وہ اس کے ذمہ دار بن جائیں ؟ نہیں۔ حضورﷺ نے قرآنی ہدایات کے مطابق اس کی آمدنی ان مصارف میں خرچ کی مگر اپنے گھر والوں میں سے کسی کو بھی اس کا مالک نہیں بنایا اور نہ کسی کو اس کا حصہ دار قرار دیا اور نہ اسے کسی کی ملکیت میں دیا
شیعہ علماء لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ نے حضورﷺ سے عرض کی کہ آپﷺ میرے دو بچوں کے لیے کچھ دے جائیں حضورﷺ نے اس وقت بھی کسی مال و جائیداد کا ذکر نہیں کیا بلکہ آپﷺ نے فرمایا کہ حضرت حسنؓ کو تو میرا رعب ودبدبہ اور حضرت حسینؓ کو میری بہادری اور سخاوت ملے گی ابن بابویہ قمی شیعی نے یہ بات خصال میں لکھی ہے
اماالحسنؓ فان لہ ھیبتی واما الحسینؓ فان لہ جرأتی و جودی
(دیکھئے صفحہ 39 طبع ایران )
حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ نے باغ فدک کے بارے میں حضورﷺ سے گفتگو کی تھی مگر حضورﷺ نے انہیں بتا دیا کہ یہ کسی کی تملیک(ملکیت) میں نہیں دی جا سکتی۔
وان فاطمۃ سأئلتہ أن یجعلھا لھا فأبی
(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 59)
حضورﷺ اپنی زندگی میں اس کی آمدنی ان قرآنی مصارف میں خرچ کرتے تھے اور آپﷺ کے انتقال کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اپنے اپنے زمانے میں اسی سنتِ نبوی کے مطابق عمل کیا۔
فلما أن ولی ابوبکر عمل فیھا بما عمل النبیﷺ فی حیاتہ حتیٰ مضی لسبیلہ فلما أن ولی عمر عمل فیھا بمثل ما عملاً حتیٰ مضی لسبیلہ (ایضاً)
چنانچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس مال کو اسی طرح خرچ کیا جس طرح حضورﷺ خرچ فرماتے تھے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امہات المؤمنینؓ میں سے کسی نے یا حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ نے یا بنی ہاشم کے کسی فرد نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے یہ کہا ہو کہ حضورﷺ ہمیں اتنا دیتے تھے آپؓ نے ہمیں اس سے کم کیوں دیا۔ سیدنا ابوبکرؓ کے بارے میں ایک شکایت بھی شیعہ کی کسی کتاب میں نہیں ملتی۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ خود فرماتے ہیں کہ میں ٹھیک ٹھیک اسی پر عمل کروں گا جو حضور اکرمﷺ کا طریقہ رہا تھا۔
انا ولی رسول اللہ ﷺ فقبضتھا فعمل بما عمل بہ رسول اللہ ﷺ
(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 996)
مشہور محقق مناظر حضرت العلام مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ اپنی کتاب تحذیر المسلمین میں مذکورہ حدیث مبارکہ کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں کہ
"یعنی حضور اکرمﷺ کے فیصلے کو تہِ دل سے تسلیم کرنا اور اسکی مخالفت کا خیال بھی دل میں نہ لانا۔ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق تو ایک سچے مومن کا رویہ ریکارڈ پر آگیا۔ مگر دوسری طرف حضرت فاطمہؓ کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے قرآن حکیم کی یہ آیات یا اسی مضمون کی دوسری آیات پڑھی ہوں گی یا نہیں؟ اگر پڑھی ہوں گی تو ان کا مفہوم بھی سمجھا ہوگا یا نہیں؟ اگر سمجھا ہوگا تو اس حکم کی تعمیل کی ہوگی یا نہیں؟ اگر کہیں کہ تعمیل نہیں کی تو یہ حضرت فاطمہؓ کے مقام سے ناواقفیت بلکہ ان کی توہین ہے۔ اگر کہیں کہ تعمیل کی تو اس کی صورت کیا ہوسکتی ہے۔ آدمی جتنا غور کرے اس کے بغیر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ جب ان کے مطالبہ کے جواب میں سیدنا ابوبکرؓ نے اپنا کوئی فیصلہ نہیں سنایا بلکہ حضور اکرمﷺ کی حدیث سنا دی اور اپنی طرف سے صرف اتنا کہا کہ مجھے اس حدیث پر عمل کرنا ہے۔ اور فاطمہؓ اس جواب ایسی مطمئن ہوگئیں کہ عمر بھر اس مسئلہ کا ذکر تک نہیں کیا"
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد حضرت عمرؓ نے بھی یہی بات کہی تاہم کسی ایک نے بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو چیلنج نہیں کیا کہ آپؓ یہ بات غلط کہتے ہیں یہ آواز صحابہؓ کے مجمع میں سے آئی نہ ہی اہل بیت نبوتﷺ میں سے کسی نے اس وقت سیدنا ابوبکرؓ کو آپؓ کے اس فیصلے پر چیلنج کیا تھا اور نہ ہی بعد میں کسی نے سیدنا ابوبکرؓ کے اس بیان سے اختلاف کیا اختلاف تو دور کی بات ہے انہوں نے آپؓ کے اس فیصلے کی بھرپور تائید و توثیق کی ہے
سید علی نقوی شیعہ کہتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اناج غلہ اور دیگر آمدنی لے کر حضورﷺ کے گھر والوں (ازواجؓ اور حضرت فاطمہؓ وغیرہ) کو پورے خرچ کی مقدار دیا کرتے تھے
ابوبکر غلہ وسود آنرا گرفتہ بقدر کفایت باھلبیت علیھم السلام مے داد وخلفاء بعد از وھم برآں اسلوب رفتار نموند تازمان معاویہ
(فیض الاسلام شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 960)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے حضورﷺ کے طریقے سے سر مو انحراف نہ کیا تھا نہ کسی حقدار کا مال روکا اور نہ کسی کو غلہ اناج دینے سے منع کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اس طرز عمل سے حضورﷺ کا سارا گھرانہ خوش تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے جو بات پہلے دن کہی تھی اس پر آپؓ نے پورا پورا عمل کر کے دکھایا ہے۔ حضرت سیدہ فاطمہؓ سے بھی آپؓ نے جب یہ بات کہی تھی انہوں نے بھی اس پر کسی ناپسندیدگی کا اظہار نہ کیا
نہج البلاغہ کا شارح میثم بن علی بن میثم بحرانی (679ھ) لکھتا ہے
کان رسول اللہ یأخذ من فدک قوتکم ویقسم الباقی ویحمل منہ فی سبیل اللہ ولک علی اللہ ان اصنع بھا کما یصنع فرضیت بذلک وأخذت العھد علیہ بہ وأن یأخذ غلتھا فیدفع الیھم منھا ما یکفیھم ثم فعلت الخلفاء بعدہ کذلک الی أن ولی معاویہ
(محجاج السالکین ماخوذ از فتاوی عزیزی صفحہ 83 شرح نہج البلاغہ صفحہ 432)