Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوٰۃ اور سود کی رقم دینا


سوال: ہمارے یہاں مسلمانوں کی ایک کمیٹی ہے اس کے منتظمین تمام مسلمان ہیں، وہ لوگ چندہ میں للہ رقم اور زکوٰۃ کی رقم بھی وصول کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے پیسوں میں آج تک غریب مسلمانوں کو مفت دوا وغیرہ دیتے تھے، اور تقسیم کا یہ کام مسلمان ہی کو سپرد کیا جاتا تھا، مگر اب ایک غیر مسلم کو ملازم رکھ کر وہ کام اس کو سپرد کیا گیا، اب وہ غیر مسلم اپنی مرضی سے جس کو چاہتا ہے مفت دوا دیتا ہے، حتیٰ کہ غریب حاجت مند مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیر مسلموں کو بھی مفت دوا دیتا ہے۔ اب دریافت طلب امور یہ ہیں:

  1. کیا زکوٰۃ جیسے اہم عبادت جو نماز روزہ وغیرہ کی طرح ایک اسلامی فریضہ ہے، اس کی تقسیم کا کام غیر مسلم کر سکتا ہے یا نہیں؟
  2.  زکوٰۃ کے پیسے غیر مسلموں کو محض خوش کرنے کی غرض سے دیئے جائیں تو جائز ہیں یا نہیں؟ اور اس کمیٹی کو چندہ میں دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں؟
  3. بینک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: (1) زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا جائز نہیں، اس میں مسلمانوں کی توہین لازم آتی ہے، اور ایک غیر مسلم کی سرداری مسلمانوں پر ہو گی، اور زکوٰۃ کی رقم کا غلط استعمال ہو گا، اور زکوٰۃ دہندگان کی زکوٰۃ ادا نہ ہو گی، اور اس کے ذمہ دار انجمن کے منتظمین ہوں گے۔

در مختار میں ہیں: (هو اى العاشر: حر مسلم) بهذا يعلم حرمة تولية اليهود على الاعمال (قوله هو مسلم ) ولا يصح أن يكون كافر ألانه لا يلى على المسلم بالآية بحر والمراد بالآية قوله تعالى ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلا

غاية الاوطار میں ہے کہ: عاشر آزاد ہو مسلمان ہو۔ یعنی نہ غلام ہو، نہ کافر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود کو عامل بنانا حرام ہے۔

(2) زکوٰة کے مصرف غریب مسلمان ہیں، کسی بھی نیت سے غیر مسلموں کو اگر زکوٰۃ کے پیسے دیئے جائیں گے تو زکوٰۃ ادا نہ ہو گی۔

(3) دے سکتے ہیں مگر بہتر نہیں ہے۔ حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔

(فتاویٰ رحیمیہ: جلد، 7 صفحہ، 179)