Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فدک کے بارے ایک مشہور سوال کا جواب

  مولانا اقبال رنگونی صاحب

فدک کے بارے ایک مشہور سوال کا جواب

السوال

حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی وہ سب کا سب صدقہ ہوتا ہے کیا یہ حدیث اکیلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ روایت کرتے ہیں.؟

الجواب

اس حدیث کے راوی اکیلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نہیں، یہ بات اور بھی کئی صحابہؓ سے مروی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ روایت صرف سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہی سے مروی ہے اگر یہ ان کی جہالت نہیں تو وہ پھر جھوٹ بول رہے ہیں۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ (728ھ) لکھتے ہیں:

ان قول النبی ﷺ لانورث ماترکنا فھو صدقة رواہ عنه أبوبكرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و طلحۃؓ و الزبیرؓ و سعدؓ و عبدالرحمن بن عوفؓ والعباسؓ بن عبدالمطلب و ازواج النبی ﷺ و ابوھریرةؓ والروایة عن ھؤلاء ثابتة فی الصحاح والمسانید مشھورة یعلمھا أھل العلم بالحديث فقول القائل أن أبابکرؓ إنفرد بالروایة یدل علی فرط جھله او تعمدہ الکذب

(منہاج السنۃ جلد 4 صفحہ 196)

حضور اکرمﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ ہم وراثت نہیں چھوڑتے جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے یہ حدیث حضرت ابوبکرؓ صدیق، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت عبدالرحمنؓ، حضرت عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور آپ ﷺ کی ازواج مطہراتؓ نے بھی روایت کی ہے، نیز یہ حدیث صحاح، مسانید، کتب حدیث میں مشہور ہے جسے محدثین بخوبی جانتے ہیں۔ اب شیعہ علماء کا یہ کہنا کہ یہ روایت منفرد ہے اس کی انتہائی جہالت ہے یا پھر عمداً جھوٹ بولنے پر دلالت کرتا ہے۔

آپ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث دیگر صحابۂ کرامؓ سے بھی مروی ہے اور صحابہؓ میں سے کوئی ایک صحابیؓ بھی ایسے نہیں ہیں جنہوں نے اس حدیث پر انگلی اٹھائی ہو حتیٰ کہ حضور ﷺ کی ازواجؓ اور آپﷺ کے چچا جو آپﷺ کی وراثت کے حقدار ہوتے انہوں نے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اور نہ اس حدیث کو کبھی اور کہیں چیلنج کیا تھا اور اسی پر حضرات خلفاء راشدینؓ (جن میں حضرت علی المرتضیؓ بھی شامل ہیں) کا عمل اور فیصلہ رہا۔ حضرت علیؓ نے نہ تو کبھی اس فیصلہ کو تبدیل کیا اور نہ کبھی آپؓ کے دور میں تقسیم وراثت کی کہیں بحث چلی۔

ان ھذا الخبر رواہ غیر واحد من الصحابةؓ فی اوقات ومجالس ولیس فیھم من ینکرہ بل کلھم تلقاہ بالقبول والتصديق ولھذا لم یصر أحد من ازواجه علی طلب المیراث ولاأصر العم علی طلب المیراث بل من طلب من ذلك شیئا فاخبر بقول النبی ﷺ رجع عن طلبه واستمر الأمر علی ذلك علی عھد الخلفاء الراشدينؓ الی علیؓ فلم یغیر شیئا من ذلك ولا قسم لا ترکة

(منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 220)

اس روایت کو کئی صحابہؓ نے مختلف اوقات اور مجلسوں میں روایت کیا ہے ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس روایت کا انکار کیا ہو بلکہ ہر ایک نے اسے قبول کیا اور اس کی تصدیق کی اسی لیے حضورﷺ  کی ازواجؓ میں سے کسی نے بھی اور نہ آپ ﷺ کے چچا نے میراث کے لیے اصرار کیا بلکہ ان میں سے اگر کسی نے میراث مانگی تو اسے جب حضور ﷺ کے اس ارشاد کی خبر دی گئی تو انہوں نے بھی اپنا مطالبہ ترک کر دیا۔ یہ معاملہ خلفائے راشدینؓ کے عہد سے حضرت علیؓ کے دور خلافت تک ایسا ہی رہا اس میں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہ کی گئی اور نہ ہی آپ کا ترکہ تقسیم کیا گیا۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے (دیکھیے صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 996) حافظ نورالدین علی بن ابی بکر ہیثمی رحمہ اللہ (ھ807) نے مجمع الزوائد میں حضرت حذیفہؓ سے بھی بیان کی ہے

(دیکھیے جلد 4 صفحہ 224)

اور امام ابو نعیم اصفہانی نے مسند ابی حنیفہ میں حضرت ابوالدردءؓ سے (دیکھئےصفحہ 57) روایت کی ہے۔ ہم آگے چل کر بتائیں گے کہ یہ بات علماء شیعہ نے حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ سے بھی بیان کی ہے یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک حضرت حذیفہؓ سے مروی روایت قابل قبول ہوتی ہے شیعہ عالم عبداللہ مشہدی اپنی کتاب "اظہار الحق" میں لکھتا ہے

(ماحدثتکم به حذیفة فصدقوہ)

حضرت حذیفہؓ تم سے جو حدیث بیان کریں تم اس کو سچ جانو۔

ہم شیعہ علماء کے اس بیان سے ہرگز متفق نہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے اپنے مطالبے کے سلسلے میں حضرت علیؓ سے کہا کہ وہ ان کی مدد کریں مگر حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کا ساتھ نہ دیا اور گھر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئے اس پر حضرت فاطمہؓ نے حضرت علیؓ سے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا

مانند جنین در رحم پردہ نشین شدہ ومثل خائباں در خانہ گریختہ

(حق الیقین جلد 2 صفحہ 125 احتجاج طبرسی ناسخ التواریخ جلد 4 صفحہ 131)

اے علیؓ تم ماں کے رحم کے بچے کی طرح چھپ گئے ہو اور ذلیلوں کی طرح گھر میں گھس آئے ہو

استغفرﷲ العظیم.

ہم اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓ جیسی وفاشعار اور دیندار خاتون کی زبان کبھی اس قسم کے گھٹیا الفاظ سے آلودہ ہوئی ہو اور خاتون جنت نے اپنے شوہر کو اس طرح طعن و تشنیع کیا ہو۔

شیعہ علماء خاندان نبوت پر کس قسم کے رکیک اور گھٹیا حملے کرتے ہیں اور ان کے کردار پر کس طرح طعن و تذلیل کرتے ہیں لگے ہاتھوں اسی مسئلے میں دیکھ لیجئے ملا باقر مجلسی شیعہ(1111ھ) حضرت جعفر صادق رحمہ اللّٰہ کے نام سے روایت لکھتا ہے کہ جب حضور ﷺ دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئیں اور فدک کا مطالبہ کیا، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں حدیث سنائی حضرت فاطمہؓ گھر لوٹ آئیں حضرت علیؓ نے پھر انہیں جانے کو کہا اور وہ پھر گئیں اور واپس لوٹ آئیں تو حضرت علیؓ نے ایک گدھے پر حضرت فاطمہؓ کو سوار کیا ساتھ ہی حسنؓ و حسينؓ کو بھی لیا اور مدینہ کے ایک ایک گھر کے سامنے فریاد کے لیے انہیں لے گئے، اس فریاد میں ان کا سارا دن گزر گیا دوسرے دن حضرت علیؓ نے پھر اسی طرح انہیں در در پھرایا پھر تیسرے روز بھی یہی کیا اور یہ معاملہ (دوتین دن کی بات نہیں) بلکہ پورے چالیس دن. جی ہاں. پورے چالیس دن رہا حضرت علیؓ حضرت فاطمہؓ اور ان کے معصوم بچوں کو مہاجرین وانصار کے در در پھراتے رہے کہ فدک پر ہمارا حق ہے تم لوگ فدک دلانے میں ہماری مدد کرو.

(بحار الأنوار صفحہ 101 کتاب الفتن)

اب آپ ہی بتائیں کیا مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ حضرت علیؓ محض دولت اور جائیداد کے لیے خاتون جنت اور حضورﷺ کے نواسوں کو اس طرح در در کی ٹھوکریں کھلاتے رہے ہیں اور فقیروں کی طرح مدینہ کے ہر گھر کے آگے جاکر جائیداد نہ ملنے کی فریاد کرتے رہے اور چالیس دن تک یہ تماشا ہوتا رہا. (استغفرﷲ)

پھر کیا ہم اس بات کا تصور بھی کر سکتے ہیں کہ خود خاتون جنت سیدہ فاطمہؓ بھی ایک باغ کے حصول کے لیے اس طرح کی ذلت برداشت کرنے کو تیار تھیں کہ ان کے شوہر حضرت علیؓ ان کے دو بچوں حضرات حسنینؓ کے ساتھ انہیں چالیس دن گلی گلی پھراتے رہیں اور آپؓ بھی در در جا کر فریادیں کرتی رہیں کہ کہ مجھے فدک دلا دو میری مدد کرو..

انا للہ وانا الیہ راجعون

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سب سبائی ذہن کی پیداوار ہے اور اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ کی اولاد کو بدنام کیا جائے۔

لیجیے اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ بھی دیکھتے جائیے کہ

شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ کے انتقال کے بعد جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ حاکم بن گئے تو حضرت فاطمہؓ نے ان سے میراث مانگا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں حدیث سنا کر واپس کر دیا تو حضرت فاطمہؓ اکیلی واپس حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئیں،۔اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس لوگوں کا ایک بڑا مجمع تھا، حضرت فاطمہؓ نے اس مجمع کے سامنے ایک طویل خطبہ دیا اس میں علاوہ اور باتوں کے اور کیا کہا؟ اسے آفتاب حسین جوادی شیعی سے سنیے یہ خطبہ فدک نامی ایک کتاب میں لکھتا ہے

اپنے شوہر نامدار حیدر کرار کی جانفشانیوں کا تذکرہ اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے وقت حکمراں مہاجرین و انصار اور خواتین کے سامنے شدید احتجاج کیا ہے

(خطبہ فدک صفحہ 5 )

شیعہ علماء نے حضرت فاطمہؓ کے جس احتجاج کا ذکر کیا ہے پیش نظر رہے کہ یہ احتجاج حضور ﷺ کے وصال کے چند روز بعد کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت فاطمہؓ کے اس احتجاج میں ہمیں ان کے شوہر نامدار حضرت علیؓ نظر نہیں آتے؟ اور نہ ہمیں حضرت عباسؓ کہیں دیکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی حضرت مقداد حضرت ابوذرؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ حضرت فاطمہؓ کی حمایت میں وہاں کھڑے دکھائی دیتے ہیں شیعہ علماء کے بیان کردہ اس واقعہ سے حضرت فاطمہؓ کی جو تصویر نظر آتی ہے کیا کوئی مسلمان اسے قبول کر سکتا ہے؟؟

حضرت مولانا سید شاہ ولایت حسین صاحب بہاری رحمہ اللہ (خلیفہ محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللّٰہ) لکھتے ہیں:

ہم شیعہ علماء سے پوچھتے ہیں کہ اگر مقتضائے محبت نبوی یہی ہے کہ سب لوگ نوحہ و ماتم میں آگے رہتے اور ایسے سخت ترین حادثہ کا کم از کم دس بیس دن تو سوگ اور نوحہ و ماتم کرتے تو فرمائیے جناب سیدہؓ جن کے غم و الم کی کوئی حد نہیں تھی وہ کیوں طلب میراث کے لیے ایک عام مجمع کے وقت خدمت صدیقیؓ میں وفات کے تیسرے چوتھے روز ہی تشریف لے گئیں اور بہت طول و طویل فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا اور حضرت صدیقؓ سے مناظرہ کیا جس کو مجلسی وغیرہ نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے کیا تین دن ہی میں سارا غم جاتا رہا اور کیا یہ حرص دنیا پر دلیل نہیں ہے؟

حالانکہ بعد تحقق غلب شئے مغصوب کا لینا آپ کو حسب روایات شیعہ حرام تھا پھر حرام چیز کے لیے ماتم خانہ سے نکلنا اور سارے رنج و غم نوحہ وبکاء کو طاق پر رکھ دینا اور عام مجلس میں لوگوں کے سامنے اس طاقت لسانی سے حضرت صدیقؓ اور تمام لوگوں کو مخاطب کرکے خطبہ پڑھنا بجز بےصبری اور حب دنیا کے اور کیا سمجھا جا سکتا ہے؟

حالانکہ صراة الخاہ از ملا باقر مجلسی میں ہے

ازگناہان دعویٰ ومخاصمات و مطالبات خود را نزد حکام جور بردن

مگر پھر بھی آپ نے دعویٰ فدک سے اجتناب نہ کیا اور دنیا کے لیے گناہ کا بار اپنے سر لیا سچ ہے

حب الدنیا رأس کل خطیئة

( کشف التلبیس جلد 3 صفحہ 19)

شیعہ علماء خاندان نبوت کے خلاف جس قسم کے انتہائی نازیبا بلکہ گھٹیا بیانات اور واقعات منسوب کرتے ہیں اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس گروہ کا اصل مقصد خاندان نبوت کی عزت داغدار کرنا ہے اور شیخ الروافض عبداللہ ابن سباء کی روحانی ذریت سے ہم اس کے سوا اور کیا توقع رکھیں۔

علامہ عبدالرحمن جوزی رحمہ اللہ نے سچ کہا ہے

غلو الرافضة فی حب علیؓ حملھم علی ان وضعوا احادیث کثیرة فی فضائله اکثرھا تشنیه وتؤذیه

(تلبیس ابلیس: صفحہ 99)

رافضی گروہ نے حبِ علی میں اس قدر غلو( حد سے زیادتی) کر لیا کہ ان کے فضائل میں بےشمار ایسی روایتیں گھڑ لیں جن میں سے اکثر میں حضرت علیؓ کی برائی اور ایذاء نکلتی ہے۔